اپنے دکھ سکھ کی کشاکش سے نکل کر دیکھتا
تھی نہ اب اتنی سکت مجھ میں کہ اندر دیکھتا
دیکھ کر دنیا کو میں تجھ کو نظر بھر دیکھتا
اتنی مہلت دی نہ دنیا نے کہ مڑ کر دیکھتا
روح کی بد مستیوں کو تن کے باہر دیکھتا
وقت سے چھپ کر کبھی خود کو میسر دیکھتا
اپنی دیں داری پہ نازاں تیرا کافر دیکھتا
کون شیشے میں نظر آتا ہے ششدر دیکھتا
دل انا کی آبیاری کا جو منظر دیکھتا
پھول خوشبو سے لدے، شاخِ انا پر دیکھتا
پھر تہ و بالا سُنامی میں سمندر دیکھتا
ذہن پر جو بوجھ ہے اُس کو جھٹک کر دیکھتا
تو اگر میری طرف میرے ستم گر دیکھتا
اس قدر خود کو نہ میں بے یار و یاور دیکھتا
اپنے ہم عصروں میں پُرکھوں کو بٹھا کر دیکھتا
گنتیاں اپنی ہی موجوں کی سمندر دیکھتا
یا خزف ریزوں میں اپنے ماہ و اختر دیکھتا
یا تکلف میں ترے لعل و جواہر دیکھتا
اپنی اپنی تیغ کے جوہر دکھا کر دیکھتا
یوں نہ پسپائی پہ آمادہ یہ لشکر دیکھتا
رقص میں ہے روشنی کا تیز خنجر دیکھتا
چَین کیوں ملتا نہیں سائے کو پل بھر دیکھتا
اپنے ویرانے کو جس بستی میں گھر گھر دیکھتا
خواب کیا شاداب تھے مخدوش چھت پر دیکھتا
گر کبھی اُس شوخ سے شاہین کھل کر دیکھتا
سب زیاں تھا کیا حساب اپنا برابر دیکھتا
٭٭٭