ترجمہ :جاوید اختر
ہندی اور اردو کے قارئین کی تین نسلیں ابن صفی اور ان کے ناولوں سے محبت کرتی رہی ہیں۔ لیکن ادیبوں کے تصورات بعض اوقات قارئین کی زندگیوں پر گہرے نقوش بھی چھوڑ جاتے ہیں۔
تصور کیجئے سن 1960 کی دہائی میں بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا۔ ترقی کی دوڑ میں وہ گاؤں اس وقت کتنا پیچھے تھا، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہاں بجلی اور پختہ سڑک سن 2000 کے بعد ہی پہنچ سکی۔ میرے پاپا کا خاندان گاؤں کے چند پڑھے لکھے خاندانوں میں سے تھا۔ لیکن خود پاپا اور ان کے سبھی بھائی بہنوں کو بھی ہائی اسکول جانے کے لیے روزانہ دس کلو میٹر پیدل طے کرنا پڑتا تھا۔
اس طرح کے حالات میں پلنے بڑھنے والے ایک نو عمر کے من کے سپنے کس طرح کے ہو سکتے ہیں؟ ایک قدامت پرست سماج میں نام نہاد ’اونچی ذات‘ کا ہونے کی وجہ سے یہ خاص فائدہ ضرور تھا کہ اس خاندان کو تعلیم کے مواقع دستیاب تھے۔ پھر بھی آپ سوچ سکتے ہیں کہ کچی پکی سڑکوں پر چپل پہنے، راستے میں کنچے کی گولیاں کھیلتے ہوئے اسکول جانے والے ان بچوں کے تصور کو پرواز دینے کے لیے کتنے اور کیسے ذرائع رہے ہوں گے!
پاپا اور ان کے بھائی بہنوں کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کے خاندان میں نہ صرف تعلیم تک رسائی تھی بلکہ تعلیم کے تئیں ایک دلچسپی گزشتہ کئی نسلوں سے موجود تھی۔ گھر میں نصابی کتابوں کے علاوہ بھی پڑھنے کے لیے کافی کچھ چیزیں ہمیشہ موجود رہتی تھیں۔
نوعمری تک پہنچتے پہنچتے ان لوگوں کو تلسی داس اور وید ویاس کے علاوہ دیوکی نندن کھتری، پریم چند، آشاپورنا دیوی اور حتی کہ لیو ٹالسٹائے، میکسم گورکی جیسے ناموں سے تعارف ہو چکا تھا۔ اس وقت پاپا کو اس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ ان ادیبوں کے سلسلے کی کڑی میں ایک ایسا بھی ادیب ہو گا جوان کی زندگی پر ایسے اثرات مرتب کرے گا کہ ’زندگی میں کیا کرو گے‘ کا سوال جب ان کے سامنے آئے گا تو اس کا جواب انہیں اسی ادیب کی کتابوں میں ملے گا۔
اس ادیب کا نام تھا اسرار احمد عرف ابن صفی۔ ابن صفی اردو کے شاعر، ادیب اور ناول نگار تھے۔ لیکن ان کے ناولوں کا ہندی میں ترجمہ بھی ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے سن 1940 سے لے کر 1970 کی دہائی تک ان کے تحریر کردہ 125 ناولوں کی سریز ’جاسوسی دنیا‘ نے میرے دادا اور پاپا جیسے ہندی قارئین کی کم سے کم تین نسلوں کے دلوں پر راج کیا تھا۔
ابن صفی کی پیدائش 1928 میں الہ آباد میں ہوئی تھی۔ 1940 کی دہائی میں ان کے ہندوستان میں لکھا لیکن 1952 میں پاکستان میں جا کر بس گئے اور اس کے بعد وہیں سے لکھتے رہے۔ اس لیے آج دونوں ملکوں کے قارئین کے درمیان الہ آباد میں پیدا اور کراچی میں مدفون اس ادیب کی مشترکہ وراثت ہے۔
ان دنوں ریلوے اسٹیشنوں پر کتابوں کی دکان چلانے والی کمپنی اے ایچ وہیلر ابن صفی کے ناولوں کی ڈسٹری بیوٹر تھی۔ موتیہاری ریلوے اسٹیشن پر ایسی ہی ایک دکان چلانے والے اے ایچ وہیلر کا ایک ملازم پاپا کے بڑے بھائی کا جاننے والا تھا۔ اسے ایک روپیہ ضمانت کے طور پر دے کر ’جاسوسی دنیا‘ اور اس وقت کے دوسرے جاسوسی ناول ادھار کے طور پر دو تین دنوں کے لیے حاصل کر لیے جاتے تھے۔ بعد میں دونوں بھائی ابن صفی سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہر ماہ شائع ہونے والے ان کے ناولوں کو باضابطہ جمع کرنا شروع کر دیا۔
بالی وڈ پر اثر
ابن صفی کے فکر اور سوچ کا لوہا سبھی بڑے ادیب مانتے ہیں بلکہ ادب ہی نہیں فلموں میں پر بھی ان کے ناولوں کے کرداروں کا خاصا اثر دکھائی دیتا ہے۔ 1970 اور 1980 کی دہائی کے کئی مشہور ہندی فلموں کے اسکرپٹ لکھنے والی جوڑی سلیم جاوید کے جاوید اختر بھی خود کو ان کا مرید بتاتے ہیں۔
جاوید اختر کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن صفی کے ناولوں سے کرداروں کو Larger Than Life بنانے کی اہمیت کا گر سیکھا۔ وہ مانتے ہیں کہ ’شعلے ‘ کے گبر سنگھ، ’شان‘ کے شاکال اور ’مسٹر انڈیا‘ کے موگیمبو جیسے کرداروں کو تیار کرنے کے لیے رہنمائی ابن صفی کے ناولوں سے ہی ملی۔ لیکن اس بے مثال ادیب کے ناولوں کے جس پہلو کا میری زندگی سے گہرا تعلق ہے وہ ہے پلاٹ۔ ان کی کہانیوں میں اکثر الگ الگ ملکوں کا نہ صرف ذکر بلکہ دیگر معلومات بھی نہایت تفصیل سے ہوتی تھیں۔ کبھی یورپ، کبھی جنوبی امریکا، کبھی افریقہ، کبھی چین۔ ان کے ناول گویا قاری کے سامنے پوری دنیا کے جھروکے کھول دیتے تھے۔
ایسے ہی ایک ناول ’خونی بگولے‘ میں پاپا نے پہلی مرتبہ جنوبی امریکا کے بارے میں پڑھا۔ ’انکا‘ مملکت کے خفیہ خزانے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ایک چینی اور ایک امریکی مجرم کا پیچھا کرتے ہوئے جاسوس کرنل ونود(فریدی) ایکواڈور کی راجدھانی کویٹو پہنچے ہیں۔ پھر وہاں سے آگے بڑھتے ہوئے انتہائی خطرناک جنگلوں سے ہوتے ہوئے بڑی جانفشانی اور بہادری سے اپنا سفر مکمل کرتے ہیں۔
آپ تصور کیجئے۔ کہاں ہندوستان کے ایک پسماندہ صوبے کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے میرے پاپا اور کہاں ہزاروں کلومیٹر دور ایک قدیم تہذیب اور ایک ایسا جزیرہ جو اس وقت تو کیا آج بھی ایک عام ہندوستانی کے تصور سے پرے ہے۔ پاپا فوراً اس دور دراز جزیرے پر فدا ہو گئے۔ اسکول کی پڑھائی ختم ہوئی۔ پھر کالج بھی مکمل کیا لیکن لاطینی امریکا کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش نے ان کا برسوں پیچھا نہیں چھوڑا۔
اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش انہیں دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی لے آئی۔ انہوں نے وہاں انٹرنیشنل افیئرز میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد بھی علم کی پیاس نہیں بجھی تو دہلی یونیورسٹی سے جنوبی امریکا پر پی ایچ ڈی کر ڈالی۔
ان دنوں دہلی کے سی ایس ڈی ایس (Center for Study of Developing Society) کے اس وقت کے ڈائریکٹر پروفیسر بشیر الدین احمد پاپا سے کہا کرتے تھے کہ ان کے والد اگر ڈپلومیٹک سروس میں ہوتے تب تو ان کی جنوبی امریکا میں دلچسپی سمجھ میں آتی لیکن انہیں اس بات پر شدید حیرت تھی کہ ایک گاؤں میں پلے بڑھے ایک نوجوان کو ان ملکوں کے بارے میں آخر کیسے پتہ چلا۔
خواہش ابھی باقی ہے
بہر حال انہیں کی مدد سے پاپا نے سی ایس ڈی ایس میں ہی ڈاکٹورل فیلو کے طور پر اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں کئی طرح کے موڑ آئے اور وہ دوسرے شعبے میں چلے گئے۔ لیکن لاطینی امریکہ اور ابن صفی نے ان کے ذہن میں جگہ بنائے رکھا۔ جنوبی امریکا کی محبت میں انہوں نے ہسپانوی زبان بھی سیکھی۔ سن 2019 میں ملازمت سے سبکدوش ہونے سے ٹھیک پہلے اس وقت نیویارک میں مقیم میرے چھوٹے بھائی نے جب انہیں میکسیکو کا سفر کرایا لیکن ابن صفی کے ایکواڈور کو دیکھنے کی خواہش ان کے دل میں باقی رہ گئی۔
ریٹائر ہونے کے بعد پاپا اب بیشتر وقت پڑھنے لکھنے میں گزارتے ہیں۔ پڑھنے کے لیے کتابوں کی کمی نہیں ہے لیکن اپنے لڑکپن اور نو عمری کے محبوب ادیب اور ان کے ناولوں کی یادیں انہیں ہمیشہ ستاتی رہتی ہیں۔
’جاسوسی دنیا‘ کے پرانے شمارے گاؤں میں ویران پڑے ہمارے پشتینی مکان میں دیمکوں کی خوراک بن گئے اور ہندی میں نئے ایڈیشن اب شائع نہیں ہوتے۔ لیکن ہمیں حال ہی میں ایک بڑی کامیابی ہاتھ لگی۔ انٹرنیٹ پر تلاش کرتے کرتے ہمیں ابن صفی ہندی نام کی ایک ویب سائٹ ملی۔ ویب سائٹ سے ایک ای میل کا پتہ ملا اور پھر ای میل سے موبائل نمبر مل گیا۔
گویا خواب حقیقت میں تبدیل ہو گیا
فون کیا تو ہماچل پردیش کے نورپور میں رہنے والے یوگیش کمار سے تعارف ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی ابن صفی کے چاہنے والوں میں سے ہیں۔ یوگیش بڑی محنت سے اپنے محبوب ادیب کے ناولوں کی کاپیاں تلاش کرتے ہیں۔ پھر انہیں ڈیجیٹائز کر کے رکھ لیتے ہیں۔ جب میری طرح کے ضرورت مند ان تک پہنچتے ہیں تو وہ آرڈر لے کر ناول کی ایک کاپی پرنٹ کروا دیتے ہیں اور ڈاک سے بھجوا دیتے ہیں۔ ان سے کئی ماہ تک بات چیت کے بعد حال ہی میں ہماری کوششیں رنگ لائیں۔ جس کتاب سے میرے پاپا کے خوابوں کا آغاز ہوا تھا وہی کتاب ایک بار پھر ان کے ہاتھوں میں پہنچا سکا۔
آج کل وہ ’خونی بگولے‘ پھر سے پڑھ رہے ہیں۔ لڑکپن میں دیکھے خواب سے دوبارہ روبرو ہونے کی خوشی کے ساتھ انہیں اس بات کا ملال بھی ہے کہ یوگیش کمار نے مجھ سے کچھ زیادہ ہی پیسے وصول کر لیے۔ پاپا کی شکایت ابھی تک یوگیش جی کے پاس نہیں پہنچا سکا ہوں لیکن سوچ رہا ہوں کہ اگلی مرتبہ ناول کا آرڈر کروں گا تو کیا وہ مجھے ڈسکاونٹ دیں گے؟
(جرمن ریڈیو سٹیشن ڈی ڈبلیو کی ہندی سائٹ سے ترجمہ)
٭٭٭