اردو کے بلند پایہ طنز و مزاح نگار: مجتبیٰ حسین ۔۔۔ ڈاکٹر احمد علی جوہر

مجتبیٰ حسین اردو زبان و ادب میں عہد ساز شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی علمی و ادبی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ایک کالم نگار، خاکہ نگار، انشائیہ نگار، سفرنامہ نگار، صحافی، مترجم اور مؤلف بھی ہیں۔ لیکن اردو زبان و ادب میں ان کی بنیادی شناخت ایک منفرد و ممتاز طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے ہے۔ وہ اردو کے باکمال اور بلند پایہ طنز و مزاح نگار ہیں۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں جن ادیبوں نے اردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب کو پروان چڑھایا اور اسے بلندی عطا کی، ان میں مشتاق احمد یوسفی اور مجتبیٰ حسین کا نام سر فہرست ہے۔ ان دونوں طنز و مزاح نگاروں نے اپنی تحریروں سے ابن انشاء، خواجہ حسن نظامی، مرزا فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی، کرنل محمد خاں، کنہیا لال کپور اور یوسف ناظم‌ وغیرہ کی روایت کو نہ صرف زندہ کیا، بلکہ اسے آگے بڑھایا۔ ‌ یہی وجہ ہے کہ اردو طنز و مزاح نگاری میں ان دونوں کو مستحکم شناخت اور غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

مشتاق احمد یوسفی کی طرح مجتبیٰ حسین بھی اپنے عہد کے قد آور طنز و مزاح نگار تھے۔ وہ ایک علمی و ادبی خانوادے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دو بڑے بھائی محبوب حسین جگر اور ابراہیم جلیس صاحب طرز ادیب اور مسلم الثبوت صحافی تھے۔ اس کے علاوہ سلیمان اریب، مخدوم محی الدین، شاذ تمکنت سے ان کا خاص تعلق اور مشفق خواجہ، مشتاق احمد یوسفی اور عطاء الحق قاسمی سے انھیں بے حد لگاؤ تھا۔ ایسا علمی و ادبی ماحول میسر ہونے کی بنا پر مجتبیٰ حسین کو طالب علمی ہی کے زمانے سے ادب خصوصاً طنز و مزاح کی تحریروں سے بے انتہا دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ پھر فطری طور پر بھی ان کے اندر طنز و مزاح کی بے پناہ صلاحیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدر آباد سے وابستگی کے ذریعے انھیں اپنی غیر معمولی طنزیہ و مزاحیہ صلاحیت کے اظہار کا موقع ملا تو بہت جلد وہ ایک نمایاں اور مستحکم طنز و مزاح نگار کی شکل میں سامنے آئے۔ روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں وہ ایک کالم نویس کی حیثیت سے مقرر ہوئے تھے اور ’’کوہ پیما‘‘ کے فرضی نام سے ایک کالم بعنوان ’’شیشہ و تیشہ‘‘ لکھتے تھے۔ یہیں سے مجتبیٰ حسین کی طنز و مزاح نگاری کا آغاز ہوا۔ ان کی طنز و مزاح ‌نگاری کا سفر تقریباً چھ دہائیوں پر محیط ہے۔ اس طویل تخلیقی سفر میں ان کی تقریباً 24 کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان کے مزاحیہ مضامین کے مجموعوں میں ’’تکلف برطرف‘‘ (1968ء), ’’قطع کلام‘‘ (1969ء), ’’قصہ مختصر‘‘ (1972ء), ’’بہرحال‘‘ (1974ء), ’’بالآخر‘‘ (1982ء), ’’الغرض‘‘ (1987ء), ’’آخرکار‘‘ (1997ء), اور خاکوں کے مجموعوں میں ’’آدمی نامہ‘‘ (1981ء), ’’سو ہے وہ بھی آدمی‘‘ (1987ء), ’’چہرہ در چہرہ‘‘ (1993ء), ’’ہوئے ہم دوست جس کے‘‘ (1999ء), ’’آپ کی تعریف‘‘ مرتبہ سید امتیاز الدین، (2005ء), ’’مہرباں کیسے کیسے‘‘ مرتبہ سید امتیاز الدین، (2009ء),‘‘اردو کے شہر اردو کے لوگ‘‘ مرتبہ رحیل صدیقی، (2011ء) اور سفر ناموں میں ‌ ’’جاپا‌ن چلو جاپان چلو‘‘ (1983ء), ’’سفر لخت لخت‘‘ (1995ء) اور کالموں کے مجموعوں میں ’’میرا کالم‘‘ (1999ء), ’’مجتبیٰ حسین کے منتخب کالم‘‘ مرتبہ حسن چشتی، (2004ء), ’’کالم برداشتہ‘‘ مرتبہ سید امتیاز الدین (2007ء), ’’کالم میں انتخاب‘‘ مرتبہ سید امتیاز الدین، (2011ء) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی تخلیقات و تالیفات میں ’’مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں‘‘ جلد اول، مرتبہ حسن چشتی، (2001ء), ’’مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں‘‘ جلد دوم، مرتبہ حسن چشتی، (2002ء), ’’مجتبیٰ حسین کے سفر نامے‘‘ مرتبہ حسن چشتی، (2003ء) اور ’’امریکہ گھاس کاٹ رہا ہے‘‘ سفر نامہ اور کالم بارے امریکہ، مرتبہ احسان اللہ احمد، (2009ء) بھی سر فہرست ہیں۔

مجتبیٰ حسین اردو کے سنجیدہ اور صاحب بصیرت طنز و مزاح نگار ہیں۔ ان کا مشاہدہ بہت وسیع اور گہرا ہے۔ انھوں نے امریکہ، جاپان، لندن، ماسکو، سعودی عرب، مسقط، پیرس، کینیڈا اور پاکستان وغیرہ کئی ملکوں کا سفر کیا ہے۔ انھوں نے اپنی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں کا مواد اپنے آس پاس کی روزمرہ زندگی اور اپنے ارد گرد کے معاشرے سے حاصل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طنز و مزاح نگاری میں حقیقت کا رنگ نمایاں ہے۔

مجتبیٰ حسین کی طنز و مزاح نگاری کا دائرہ خاصا وسیع ہے اور ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ انھوں نے اپنے اردگرد پھیلی کائنات اور سماج کا مشاہدہ بہت باریک بینی سے کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سماج کا کوئی بھی پہلو ان کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا۔ انھوں نے سماج کے ہر طبقے اور معمولی سے معمولی واقعات کو موضوع بنایا ہے۔ خود غرضی و مفاد پرستی، منافقت و ریا کاری، سماجی انتشار، فکری گراوٹ، سیاسی ابتری، اہل اقتدار کی متعصبانہ روش اور ان کے سیاہ کردار، فرقہ واریت، معاشرہ میں پھیلی عصبیت اور اس کے نتیجے میں شرمسار انسانیت، لٹتی عصمتیں، اجڑتے اور ویران ہوتے گھر، بے حسی و بے ضمیری، غربت و افلاس، معاشی بحران، تہذیبی و ثقافتی قدروں کا زوال اور سماج کے دیگر رستے ہوئے ناسور، ان تمام پہلوؤں کی مجتبیٰ حسین نے اپنے مخصوص ظریفانہ انداز میں بے لاگ تصویر کشی کی ہے اور سیاہ کرداروں پر بے لاگ نشتر چلایا ہے۔ مجتبیٰ حسین نے اپنی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں کے ذریعے سماج کی تلخ سچائیوں کو اجاگر ضرور کیا ہے لیکن اس شائستگی کے ساتھ کہ کہیں بھی سوقیانہ پن کا گذر نہیں ہوتا۔ وہ نہایت خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ دلکش ظریفانہ لہجہ میں اپنی بات کہتے ہیں۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ تحریریں تمسخر، استہزاء اور پھکڑ پن سے پاک ہیں۔ در اصل مجتبیٰ حسین صرف تفریح طبع کی خاطر یا محض ضحک پیدا کرنے کے لئے نہیں لکھتے، بلکہ ان کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں ایک سبق اور ایک پیغام‌ چھپا ہوتا ہے۔ فکر کی روشنی، بصیرت کی کرن، شعور کی تیز آنچ اور جذبات کی گرمی سے لبریز مجتبیٰ حسین کی طنزیہ و مزاحیہ تحریریں اپنے شگفتہ اسلوب سے قاری کو ہنسانے کے ساتھ ساتھ اسے غور و فکر پر آمادہ کرتی ہیں اور ان کی بصیرت و آگہی میں اضافہ کرتی ہیں۔

مجتبیٰ حسین اپنی تحریروں کے ذریعے سماجی ناہمواریوں کو نشانہ ضرور بناتے ہیں اور معاشرہ کے مضحکہ خیز پہلوؤں پر چوٹ بھی کرتے ہیں مگر سپاٹ لہجہ میں نہیں، بلکہ وہ مزاح کی آمیزش سے اپنے طنز کو دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ وہ مزاح کی چاشنی سے طنز کی زہر ناکیوں اور نشتروں کی تیزی کو اس طرح مدھم کر دیتے ہیں کہ قاری کو ان کی تحریروں میں طنز کی تلخی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔

مجتبیٰ حسین ایک با شعور اور بیدار مغز ادیب ہیں۔ انھیں سیاسی، معاشرتی، سماجی اور عصری مسائل کا زبردست ادراک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں گہرا اجتماعی شعور اور عہد حاضر کے مسائل، پیچیدگیاں اور الجھنوں کی حیرت انگیز تصویریں ملتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں عالمانہ و حکیمانہ انداز قاری کو خاطر خواہ متاثر کرتا ہے۔ عام انسانی زندگی کے حقائق کو اس انداز میں پیش کرنا کہ ابتذال کا شائبہ تک نہ ہو، مجتبیٰ حسین کے فن کا کمال ہے۔ وہ بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور قلم برداشتہ لکھتے ہیں۔ برجستگی، بے ساختگی، روانی اور طنز و مزاح کے معیاری اصولوں کی پابندی ان کی تحریروں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ انھوں نے طنز و ظرافت کو نئی فکر، نئے خیال اور نئے انداز و اسلوب سے روشناس کرایا۔

مجتبیٰ حسین کی طنز و مزاح نگاری مفکرانہ شان کی حامل ہے جو ادب عالیہ کے معیار پر کھڑی اترتی ہے۔ اس میں کہیں بھی عامیانہ پن، ہجو گوئی یا کسی کی دل آزاری نہیں ہے۔ انھوں نے خود اپنے آپ کو طنز کا نشانہ بنا کر اور اپنا مذاق آپ اڑا کر اعلی ظرفی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان کا یہ طریقہ کار مرزا غالب کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے اس دلکش اور شگفتہ پیرائے میں اپنی بات کہی ہے کہ ان کی تحریر قاری پر سحر طاری کر دیتی ہے۔

مجتبیٰ حسین اپنے طنز و مزاح کی ابتدا غم کی آخری حدوں سے جا کر کرتے ہیں۔ بظاہر تو وہ اپنی تحریروں سے ہنساتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن در اصل ان کی ہنسی اور قہقہوں میں گہرا عصری کرب، معاشرتی المیوں کا درد، مفلوک الحال اور لاچار انسانوں کا رنج و غم اور آنسو پوشیدہ ہوتا ہے۔ احساس دردمندی اور انسانیت سے محبت ان کی تحریروں میں کوٹ کوٹ کر بھری نظر آتی ہے۔ مجتبیٰ حسین کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں کی یہی وہ خصوصیات ہیں جو انہیں دیگر طنز و مزاح نگاروں کے درمیان منفرد و ممتاز ثابت کرتی ہیں۔

مجتبیٰ حسین کو طنز و مزاح پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چند جملوں میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ دیکھئے انھوں نے اپنے مزاحیہ مضامین کے مجموعہ ’’بہرحال‘‘ کے مقدمہ کے اس مختصر سے اقتباس میں غیر معیاری ادب کے چلن، فکری انحطاط اور عصر حاضر کی سیاست، ان تمام پہلوؤں پر کس دلچسپ اور شگفتہ اسلوب میں اظہار خیال کیا ہے۔

’’یوں بھی ملک میں کاغذ کی قلت نے ایسا خطرناک موڑ اختیار کر رکھا ہے کہ اب ادیب کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں پاتا۔ اب صرف ضروری اور لازمی کتابیں ہی چھپ سکتی ہیں۔ جیسے جاسوسی اور جنسی ناول، فلمی رسالے یا سیاسی جماعتوں کے الیکشن مینی فیسٹو‘‘۔ (1)

مجتبیٰ حسین ایک طنز و مزاح نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سچے محب وطن تھے۔ انھیں اپنے ملک کے ذرہ ذرہ سے بے پناہ محبت تھی۔ اپنے ملک پر اگر کسی طرح کی آنچ آتی تو ان کا دل مضطرب ہو جاتا تھا۔ اس اضطراب اور حب الوطنی کا اظہار ان کی تحریروں میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ اس ضمن میں ان کے مزاحیہ مضمون ’’چینی ایش ٹرے کی یاد میں‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔

’’اور ادھر جب سے چین نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا میں اپنے سگریٹ کی آگ کے علاوہ اپنے دل کی آگ بھی اسی ایش ٹرے میں بجھانے لگا تھا، بلکہ سگریٹ کی آگ کم اور دل کی آگ زیادہ بجھانے لگا تھا‘‘۔ (2)

جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مجتبیٰ حسین نے سماج کے تقریباً ہر طبقے کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ دیکھئے انھوں نے اپنے مخصوص ظریفانہ اسلوب میں جلسہ صدارت کی کرسی کے وقار کو مجروح کرنے والے آج کل کے ناکارہ اور مفلوج صدور کا کیسا طنزیہ خاکہ کھینچا ہے۔

’’بھئی! کیا ’’جناب صدر‘‘ تم ہی ہو؟‘‘

وہ شخص اچانک بپھر گیا اور بولا ’’ذرا منہ سنبھال کے بات کرو۔ کسے ’’جناب صدر‘‘ کہتے ہو؟ کیا میں تمہیں ناکارہ، مفلوج اور بیکار آدمی نظر آتا ہوں جو تم مجھے ’’جناب صدر‘‘ کہہ رہے ہو۔ ابھی تو میرے قویٰ اچھے ہیں۔ میں اپنی روزی خود کماتا ہوں۔ میں ابھی اتنا اپاہج بھی نہیں ہوا ہوں کہ تم مجھے ’’جناب صدر‘‘ کہو۔ جناب صدر تو وہ ہے جو ڈائس پر اپنے سامنے پھولوں کے ہار رکھے یوں بیٹھا ہے جیسے شیر اپنے مارے ہوئے شکار کو سامنے رکھتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جو کرسی صدارت پر تقریباً اونگھ رہا تھا‘‘۔ (3)

ہمارا ہندوستانی سماج ان گنت مسائل سے دوچار ہے۔ ان میں ایک اہم مسئلہ نا اہل سیاست کی بے راہ روی ہے۔ اس نے متعدد مسائل کو جنم دیا ہے اور ہر شخص اس سے متاثر نظر آتا ہے۔ مجتبیٰ حسین نے سیاست کے اس پہلو پر اپنے شگفتہ و مزاحیہ انداز میں یوں اظہار خیال کیا ہے۔

’’جب سیاستداں ملک میں حکومت چلانے کے قابل نہ رہے تو ایک دن قوم پر ایسا برا وقت آیا کہ ملک میں شاعروں کی حکومت قائم ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا، ملک میں سکہ کا چلن کم اور شاعری کا چلن زیادہ ہو گیا اور یوں ساری قوم کا چال و چلن ہی بگڑ گیا‘‘۔ (4)

درج بالا اقتباس مجتبیٰ حسین کے مزاحیہ مضمون ’’شاعروں کی حکومت‘‘ سے ماخوذ ہے ‌۔ اپنے اس مضمون میں انھوں نے ہندوستانی سماج کے کئی ناہموار پہلوؤں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ دیکھئے درج ذیل اقتباس میں مجتبیٰ حسین نے عصر حاضر کی حکومت، اس کے طریقہ کار اور انتظامیہ کی لاپرواہی، ان تمام پہلوؤں کو کس دلچسپ مزاحیہ انداز میں بیان کیا ہے۔

’’جب شاعروں کی کابینہ بن گئی تو اس نے ایک حکمنامہ جاری کیا کہ سارے ملک میں اب سرکاری دفتروں کا کام ’’منظوم‘‘ ہوا کرے گا۔ اس حکمنامہ کی وجہ سے شاعری میں تو خیر کیا اضافہ ہوتا، الٹا دفتریت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ۔ حد ہو گئی کہ اگر کہیں آگ لگ جاتی اور فائر بریگیڈ کو بلانے کی نوبت آ جاتی تو لوگ فائر اسٹیشن کے عہدیدار کے نام ’’منظوم‘‘ درخواست لکھنے میں مصروف ہو جاتے اور درخواست کے مقطع تک پہنچتے پہنچتے ان کے گھر جل کر خاک ہو جاتے‘‘۔ (5)

مجتبیٰ حسین نے اپنے اس مضمون میں بناوٹی، مصنوعی اور غیر معیاری شاعری کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے مگر اپنے مخصوص ظریفانہ انداز میں اسے اس قدر لطف و دلکشی اور شائستگی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ قاری قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو درج ذیل اقتباس۔

’’شاعروں کی حکومت نے ملک میں امن و امان کے قیام کے لئے پولیس کے محکمہ کی تنظیم جدید بھی کر دی تھی۔ اب سزا اور تفتیش کے طریقے بھی بدل گئے تھے۔ حکومت نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ غیر معیاری کلام کو علیحدہ مرتب کر کے محکمہ پولیس کے حوالہ کر دیا تھا تاکہ وہ اس کلام کے ذریعہ ملک میں امن و امان قائم کر سکے۔ کسی ملزم کی تفتیش کرنا مقصود ہوتا تو اسے کمرہ میں بند کر کے ایک طویل نظم سنائی جاتی تھی۔ ‌ تھوڑی دیر تک تو ملزم اس نظم کی تاب لاتا مگر جب یہ ناقابل برداشت ہو جاتی تو وہ فوراً اقبال جرم کر لیتا۔ تفتیش کا یہ بڑا کامیاب حربہ تھا۔ ….. اگر طلباء کبھی جلوس نکالتے تو پولس کو لاٹھی چارج کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ پولیس والے صرف نظمیں سناتے ہوئے آگے بڑھتے تھے اور طلباء بھاگ جاتے تھے‘‘۔ (6)

مجتبیٰ حسین کی تحریروں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست ان‌ کا پسندیدہ موضوع ہے۔ سیاست کو موضوع بنا کر انھوں نے سیاستدانوں کی موقع پرستی، نا اہلی، لاپروائی اور نہ جانے کن کن پہلوؤں کو بے نقاب کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو۔

’’ایک امیدوار سے ہم نے پوچھا تھا ’’بھئی! آخر آپ اپنے نعرے دیواروں پر کیوں لکھواتے ہیں؟

وہ بولے۔ ’’اگر میں انتخابات میں کامیاب ہو گیا اور پانچ سال کے بعد اگر مجھے پھر اپنے حلقہ میں جانے کی ضرورت پیش آئے تو میں ان نعروں کو دیکھ کر پتہ چلا سکوں گا کہ میرا حلقہ کون سا ہے۔ نعروں کی مدد کے بغیر آخر میں کس طرح اپنے حلقہ کے حدود اربعہ کا پتہ چلا سکتا ہوں؟‘‘۔ (7)

مجتبیٰ حسین نے اپنی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں جگہ جگہ تخریبی سیاست کے ساتھ ساتھ مفلوج جمہوریت پر بھی طنز کیا ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اقتباس دیکھئیے:

’’یوں بھی پانچ سال میں ایک مرتبہ عوام‌ اور حکمران دونوں میں بے چینی کا پھیلنا نہایت ضروری ہوتا ہے، ورنہ پھر جمہوریت میں لطف ہی کیا باقی رہ جائے گا‘‘۔ (8)

مجتبیٰ حسین نے اپنی تحریروں کا موضوع سیاست کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی خوب بنایا ہے۔ در اصل آج کے ادبی معاشرے میں کئی طرح کی ناہمواریاں پائی جاتی ہیں۔ جو اصل ادیب ہیں، وہ گمنامی کی نذر ہیں اور نقلی ادیب، حقیقی ادیب بن بیٹھے ہیں۔ آج ادب کے کاروبار نے بھی کچھ عجیب و غریب چلن اختیار کر لیا ہے۔ ‌ہر بونا قد اپنے آپ کو باون گز ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ہر شخص ادب شناسی اور ادب فہمی کا دعویٰ کرتا ہوا نظر آتا ہے، بھلے ہی اسے ادب کا کچھ بھی شعور نہ ہو۔ اس ضمن میں مجتبیٰ حسین کے ایک دلچسپ مزاحیہ مضمون ’’ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن‌ فہم نہیں‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔

’’ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ قبلہ! ضروریات زندگی میں کون کون سی اشیاء شامل ہوتی ہیں؟ تو انھوں نے کہا۔ ‌ ’’کھانا، کپڑا، مکان، غالب اور دیوان غالب‘‘ صاف ظاہر ہے کہ یہ صاحب غالب کے طرفدار تھے اور اس حد تک طرفدار تھے کہ خود غالب کی ذات کو ’’دیوان غالب‘‘ سے جدا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ان صاحب نے غالب سے اپنی طرفداری جتانے کے لئے ’’کلیات میر‘‘ پر بھی دیوان غالب کا ٹائٹل چڑھا رکھا ہے۔ اور محض ٹائٹل کے دھوکے میں میر کے کلام کو بھی غالب کا کلام سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں قطع کلام کرنے کا کوئی موقع عنایت نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان صاحب کی نظر میں اردو شاعری نے صرف ایک ہی شاعر پیدا کیا ہے اور وہ ہے غالب۔ ‌ ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ جناب والا! اردو کے تین بڑے شعراء کے نام تو بتلائیے۔ تو موصوف نے کہا تھا۔ ‌ ’’غالب، مرزا غالب، اور مرزا اسد اللہ خاں غالب‘‘ اس پر ہم‌ نے فرض کرتے ہوئے کہ آگے ان کی دال نہ گلے گی۔ پوچھا کہ ’’اب لگے ہاتھوں چوتھے بڑے شاعر کا نام بھی بتائیے‘‘ تو کہنے لگے۔ ’’نجم الدولہ، دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں بہادر نظام جنگ غالب‘‘۔ (9)

مجتبیٰ حسین نے چھوٹی چھوٹی عبارت میں بھی طنز و مزاح کے انتہائی دلچسپ نمونے پیش کئے ہیں۔ مثلاً:

’’میں نے اردو شاعری کو سمجھے بغیر گلبرگہ میں ایک کل ہند مشاعرہ کا اہتمام کر ڈالا تھا‘‘۔ ‌ (10)

’’شاعری سے ہمارا تعلق صرف اتنا تھا کہ ہم مشاعروں میں بڑے اہتمام کے ساتھ ہوٹنگ کیا کرتے تھے‘‘۔ (11)

’’ان سے ملنے تک میں صرف اپنے آپ کو ہی شریف آدمی سمجھا کرتا تھا‘‘۔ (12)

’’کھنہ صاحب وقت کے بڑے پابند ہیں حالاں کہ ہندوستان میں رہ کر وقت کی پابندی کرنا اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ (13)

’’اگر کوئی شخص ان کا حلیہ بیان کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کرے تو خود اس کا بھی حلیہ بگڑ جائے‘‘۔ (14)

مجتبیٰ حسین کی تحریروں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سراپا طنز و مزاح تھے۔ نہ صرف ان کی تحریروں میں بلکہ ان کی حرکات و سکنات، گفتگو اور ہنسی یعنی ان کی ہر ہر ادا مزاح کی چاشنی سے لبریز تھی۔ یہاں تک کہ وہ کسی کو مبارکباد بھی دیتے تھے تو اس میں بھی مزاح کی بھرپور چاشنی ہوتی تھی۔ سلام مچھلی شہری کو پدم شری ایوارڈ ملنے پر انھوں نے کس دلچسپ ظریفانہ پیرائے میں مبارکباد دی ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’میں نے تو صرف آپ کو مبارک باد دینے کے لئے فون کیا تھا کہ دکھ درد میں دکھی آدمی کی ڈھارس بندھانا ہر شریف آدمی کا کام ہوتا ہے۔ لہذا میری مبارک باد قبول کر لیجئے۔ جو ہونا تھا، ہو چکا اب ضبط کیجئے۔ خدا کے علاوہ حکومت کی بھی یہی مرضی تھی‘‘۔ (15)

مجتبیٰ حسین کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں جدت و ندرت، تازگی و شگفتگی، سنجیدگی و شائستگی، احساس دردمندی اور بصیرت و آگہی، یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ اردو کے عظیم ناقد شمس الرحمن فاروقی نے طنز و مزاح نگاری میں مجتبیٰ حسین کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے۔

’’معاصر ظریفانہ ادیبوں میں دوہی چار ایسے ہیں جنہوں نے طنز و مزاح کی ادبی حیثیت کو دوبارہ مستحکم کیا ہے۔ ایسے لوگوں میں مجتبیٰ حسین کا نام بہت نمایاں ہے۔ مشتاق احمد یوسفی ظاہر ہے اس گروہ کے سردار ہیں۔ کوئی اور اصطلاح میسر نہ ہونے پر میں ان لوگوں کو ادبی مزاح و طنز نگار کہتا ہوں۔ اس وجہ سے نہیں کہ مشتاق احمد یوسفی کی طرح مجتبیٰ حسین کے یہاں بھی اردو کے ادب عالیہ کی روایت کے کارناموں سے گہری واقفیت کا اظہار ہوا ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے طنز و مزاح کی اس روایت کو زندہ کیا ہے جس کا سلسلہ سودا اور میر سے لے کر پطرس بخاری تک پھیلا ہوا ہے‘‘۔ (16)

مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے مجتبیٰ حسین کے فن پر یوں اظہار خیال کیا ہے:

’’مجتبیٰ حسین صحیح معنوں میں مزاح نگار ہیں۔ وہ ان مزاح نگاروں میں ہیں جو شائستہ اور نفیس ادب تخلیق کر سکتے ہیں۔ ان کے مزاح میں وہ تندی اور بے باکی نہیں جو طبیعت کو مکدر کر دیتی ہے، بلکہ وہ رچاؤ اور لطافت ہے جو پڑھنے والے کو کبھی زیر لب تبسم اور کبھی بلند آہنگ قہقہہ کی دعوت دیتی ہے۔ مزاح نگاری ایک مشکل فن ہے اور مجتبیٰ حسین ان مشکلات سے بہ خوبی واقف ہیں‘‘۔ ‌ (17)

مشفق خواجہ نے مجتبیٰ حسین کے فن کے حوالے سے اپنی دلچسپ رائے اس طرح پیش کی ہے۔

’’مجتبیٰ حسین خاصے ’’جہاں دیدہ‘‘ ہیں۔ انہوں نے محاورتاً دنیا کو خوب اچھی طرح برتا ہے اور عملاً دنیا کے کئی ملکوں کو دیکھا ہے۔ اس لیے ان کے تجربات و مشاہدات میں تنوع بھی ہے اور وسعت بھی۔ انہوں نے طنز کی گہرائی اپنے بڑے بھائی ابراہیم جلیس سے اور اسلوب کی چاشنی اپنے بڑے بھائی کے جگری دوست ابن انشاء سے لی ہے۔ مزاح میں وہ کسی کے مقلد نہیں۔ اس سلسلے میں ان کی طباعی اپنی مثال آپ ہے‘‘۔ (18)

میرزا ادیب نے مجتبیٰ حسین کے فن کے نمایاں اوصاف کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’مجتبیٰ حسین کے مزاح میں سنجیدگی ہے اور سنجیدگی میں مزاح۔ زندگی کے مسائل کی تفہیم میں وہ بڑے سنجیدہ ہیں مگر ان کا انداز پیش کش طنزیہ و مزاحیہ ہوتا ہے۔ ……. مجتبیٰ حسین نے ہمیں قہقہے دیئے ہیں، مسکراہٹیں دی ہیں ‌۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی خوبصورتی اور بدصورتی سے بھی روشناس کرایا ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں‘‘۔ (19)

مذکورہ ادباء کے علاوہ انتظار حسین، نثار احمد فاروقی، مخمور سعیدی، آغا روحی، شمیم قیصر نصرتی، مظہر امام، پروفیسر سوزوکی تاکیشی، فکر تونسوی، یوسف ناظم، خشونت سنگھ، اختر حسن، پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر قمر رئیس، عمیق حنفی، پروفیسر شمیم حنفی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، بھارت چند کھنہ، وجاہت علی سندیلوی، پروفیسر مظفر حنفی، مسیح انجم، پروانہ ردولوی، زبیر رضوی، علی باقر، نریندر ناتھ لوتھر، ڈاکٹر سید مصطفی کمال، سید رحمت علی، جے پال نانگیا، حسن چشتی، ڈاکٹر انور سدید، ضمیر جعفری، ڈاکٹر اجمل نیازی اور اسد رضا وغیرہ نے بھی مجتبیٰ حسین کے فن پر اپنے دلچسپ تاثرات پیش کئے ہیں اور ان کے فن کو سراہا ہے۔

مجتبیٰ حسین اردو کے ایسے طنز و مزاح نگار ہیں جنہوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے اردو طنز و مزاح کو ادب عالیہ کا درجہ عطا کیا ہے۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں آمد کی کیفیت پائی جاتی ہے، کہیں بھی آورد کا احساس نہیں ہوتا‌۔ ان کے اسلوب میں بھی تکلف، تصنع اور تکبر کا ذرہ برابر دخل نہیں۔ انھوں نے مزاحیہ اسلوب کے تمام حربوں مثلاً حسن بیان، واقعہ نویسی، بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی، لطیفہ سازی، تضاد و تناسب، صنائع و بدائع، تشبیہات و استعارات، رمز و کنایہ، عام فہم ضرب المثل، ادبی محاوروں، اشعار و مصرعوں، حاضر جوابی، حاضر دماغی اور فی البدیہہ طرز اظہار وغیرہ سے کام لیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مبالغہ آمیزی، تحریف نگاری، رعایت لفظی، تکرار، مضحکہ خیز املا اور تلفظ کے ذریعے بھی مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختصر یہ کہ مجتبیٰ حسین کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں طنزیہ و مزاحیہ ادب کی تمام خوبیاں موجود ہیں ‌۔ یہی وجہ ہے کہ طنز و مزاح پر مبنی مجتبیٰ حسین کی تخلیقات کو طنزیہ و مزاحیہ ادب میں شاہکار کا درجہ حاصل ہے اور مجتبیٰ حسین کو اردو کا انتہائی اہم، منفرد و ممتاز اور بلند پایہ طنز و مزاح نگار تسلیم کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی شگفتہ، دلچسپ اور وقیع تحریروں سے اردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب میں خوشگوار اور حیرت انگیز اضافہ کیا اور اسے ثروت مند بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ مجتبیٰ حسین نے اردو طنز و مزاح نگاری کے میدان میں جو کارنامے انجام دیئے ہیں، وہ اردو طنز و مزاح نگاری کی روایت کا روشن باب ہیں جن کے ذکر کے بغیر اردو طنز و مزاح نگاری کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔

٭٭

 

حوالے

(1) مجتبیٰ حسین، بہرحال، (مقدمہ) مشمولہ، بہرحال، نیشنل بک ڈپو، حیدرآباد، 1974ء، ص: 7

(2) مجتبیٰ حسین، چینی ایش ٹرے کی یاد میں، مشمولہ، بہرحال، ص: 30

(3) مجتبیٰ حسین، جناب صدر، مشمولہ، بہرحال، ص: 42، 43

(4) مجتبیٰ حسین، شاعروں کی حکومت، مشمولہ، بہرحال، ص: 51

(5) مجتبیٰ حسین، شاعروں کی حکومت، مشمولہ، بہرحال، ص: 52

(6) مجتبیٰ حسین، شاعروں کی حکومت، مشمولہ، بہرحال، ص: 55,54

(7) مجتبیٰ حسین، انتخابی نعرے، مشمولہ، بہرحال، ص: 83

(8) مجتبیٰ حسین، شاعروں کی حکومت، مشمولہ، بہرحال، ص: 59

(9) مجتبیٰ حسین، ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں، مشمولہ، تکلف برطرف، حلقہ ارباب ذوق، حیدرآباد، 1968ء، ص: 56

(10) مجتبیٰ حسین، عزیز قیسی_ پتھر کا آدمی، مشمولہ، بہرحال، ص: 106

(11) مجتبیٰ حسین، عزیز قیسی_ پتھر کا آدمی، مشمولہ، بہرحال، ص: 110

(12) مجتبیٰ حسین، بھارت چند کھنہ_آخری شریف آدمی، مشمولہ، بہرحال، ص: 122

(13) مجتبیٰ حسین، بھارت چند کھنہ_‌آخری شریف آدمی، مشمولہ، بہرحال، ص: 128

(14) مجتبیٰ حسین، فکر تونسوی_بھیڑ کا آدمی، مشمولہ، بہرحال، ص: 137

(15) مجتبیٰ حسین، سلام مچھلی شہری_کھویا ہوا آدمی، مشمولہ، بہرحال، ص: 94

(16) شمس الرحمن فاروقی، بحوالہ: مجتبیٰ حسین‌ اور فن مزاح نگاری، از حسن مثنی، ایلیا پبلی کیشنز، دہلی، 2003ء، ص: 190,189

(17) کرشن چندر، بحوالہ، مجتبیٰ حسین اور فن مزاح نگاری، از حسن مثنی، ص: 187

(18) مشفق خواجہ، بحوالہ: مجتبیٰ حسین اور فن مزاح نگاری، از حسن مثنی، ص: 190

(19) میرزا ادیب، بحوالہ: مجتبیٰ حسین اور فن مزاح نگاری، از حسن مثنی، ص: 191

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے