پروفیسر ڈاکٹر سید معین الدین عقیل پاکستان کے علمی و ادبی منظر نامے کے ایک ایسے درخشاں ستارے ہیں جن کی علم پروری اور ادب دوستی کی روشنی ہمیشہ پوری آب و تاب کے ساتھ آسمانِ علم و ادب پر چمکتی رہے گی۔ اگرچہ آج کل وہ عام مجالس میں نظر نہیں آتے اور گوشہ نشین ہو چکے ہیں؛ تاہم ان کی تحقیق مزاجی اب بھی ان سے کوئی نہ کوئی نیا اور اچھوتا کام کرا ڈالتی ہے۔ دو سال قبل یعنی 2019ء میں انہوں نے دہلی کی تاریخ اور اس کے آثار کو اپنا موضوع بناتے ہوئے ایک علمی، ادبی اور تاریخی تالیف ’’تاریخ و آثارِ دہلی‘‘ مرتب کی تھی، جسے انجمن ترقی اردو (ہند) نے شائع کیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم الحروف نے لکھا تھا کہ اس موضوع پر لکھی جانے والی اپنی نوعیت کی یہ نئی کتاب ہے نیز یہ ایک ادبی ہی نہیں تاریخی کام ہے جسے عصر حاضر اور پچھلے زمانوں کے ادباء اور مؤرخین ایک دستاویزی ثبوت کے طور پر یاد رکھیں گے اور جب جب اس کا حوالہ دیا جائے گا تب تب ڈاکٹر معین الدین عقیل کو سراہا جائے گا گویا یہ کام ہمیشہ زندہ رہنے اور رکھنے والا ہے۔
اردو زبان ادب کے اس نابغۂ روزگار نے 25 جون 1946ء میں تاریخی شہر ’’ادگیر‘‘ میں سید ضمیر الدین کے یہاں جنم لیا۔، تقسیم ہند کے بعد مسلم کش فسادات میں جب حالات زیادہ خراب ہو گئے تو دیگر خاندانوں کی طرح ان کا خاندان بھی مارچ 1953ء میں ہجرت کر کے کراچی میں آ بسا اور ان کی ابتدائی تعلیم یہیں ہوئی۔ ذہانت و فطانت قدرت نے انہیں ودیعت کی ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال تو یہ ہے کہ یہ ابھی پانچ سال کے تھے کہ ناظرہ قرآن ’’الحمد‘‘ سے ’’ناس‘‘ تک ختم کر لیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول لانڈھی نمبر 1 سے 1963ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اردو کالج میں داخل ہو گئے جہاں سے 1965ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا پھر جامعہ کراچی سے 1968ء میں بی اے اور بعد ازاں یہیں سے 1969ء میں ایم اے (اردو) کی ڈگری فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں حاصل کی، جس پر انہیں انجمن ترقی اردو پاکستان بابائے اردو ایوارڈ ملا۔ ایم اے کی تعلیم کے دوران ہی تحقیق سے دلچسپی پیدا ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ 1975ء میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی زیرِ نگرانی ’’تحریک آزادی میں اردو کا حصہ‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کئی کتب کے مصنف و مؤلف ہیں۔ ان کے پروفیشنل کیرئیر کا آغاز 1967ء میں ہوا جب انہیں امریکہ کے سفارت خانے میں اردو کی تدریس کے لیے منتخب کیا گیا۔ اسی دوران انہیں اورینٹل یونیورسٹی نیپلز، اٹلی سے ملازمت کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا اور دو سال تک اس یونیورسٹی کے ایشین اسٹڈیز کے شعبے سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں واپس آ کر 1970ء میں پاکستان شپ اونر کالج کراچی سے منسلک ہو گئے اور کم و بیش چودہ سال تک اسی کالج میں شعبہ اردو کے لیکچرار رہے۔ 1984ء میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی اور صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے انہیں جامعہ میں شعبہ اردو کا استاد مقرر کیا۔ 1993ء میں جاپان چلے گئے جہاں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے 2000ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ 2001 ء میں جاپان سے واپس آ کر جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے ایک بار پھر تدریس کا آغاز کیا اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت میں 2006ء میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک ہو گئے جہاں چیئرمین شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ لٹریچر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ آج کل جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کی مجلس مشاورت کے صدر نشین ہیں۔ حکومتِ جاپان نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے 2013ء میں جاپان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’آرڈر آف دی رائزنگ سن‘‘ (Order of the Rising Sun) عطا کیا۔
اب وہ ایک اور تاریخی کام منصہ شہود پر لائے ہیں۔ ان کا یہ کام تاریخی تو اس حوالے سے ہے کہ میر تقی میرؔ جنہیں اس دنیا سے گزرے دو صدیاں ہو گئیں؛ ان کے غیر مطبوعہ دیوان کو ڈھونڈ نکالا گیا لیکن اہمیت کا حامل اس لیے ہے کہ اس غیر مطبوعہ دیوانِ ہفتم کے شائع ہونے پر میر تقی میرؔ کو خراجِ تحسین عطا ہوا ہے اور طلبہ کے لیے میر ؔ کی شاعری کے حوالے سے تحقیق کے اور در کھلیں گے۔ ’’میر تقی میرؔ کا غیر مطبوعہ دیوانِ ہفتم‘‘ سنگِ میل پبلیکشنز لاہور نے نہایت دیدہ زیب سرورق کے ساتھ زیورِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ سرورق پر پڑنے والی پہلی نظر ہی قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ اس کا انتساب انہوں نے اقبال اکادمی پاکستان کے سابق ناظم محمد سہیل عمر کے نام کیا ہے اور اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اس کام کی تکمیل میں ان کی مساعی جلیلہ کو اس حد تک دخل ہے کہ ان کی کوششوں سے وہ ملیشیا کی انٹر نیشنل یوینورسٹی سے اس دیوان کے مخطوطے کا عکس حاصل کر پائے۔
انتساب کے بعد کتاب میں شامل عنوانات کی فہرست دی گئی ہے، جس میں سب سے پہلے انہوں نے مقدمہ بعنوان ’’میر تقی میرؔ کا غیر مطبوعہ دیوانِ ہفتم‘‘ لکھا ہے۔ مزید آگے بڑھنے سے پہلے کچھ احوال میر تقی میرؔ کا بھی کر لیتے ہیں۔
میر تقی میرؔ ہندوستان کے شہر آگرہ میں 1724ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد علی تھا لیکن علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ اور درویش گوشہ نشین تھے۔ میرؔ ابھی نو برس ہی کے تھے کہ ان کے والد بزرگوار کا انتقال ہو گیا۔ یہیں سے ان کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کا آغاز ہوا۔ سوتیلے بھائی محمد حسن کے جور و ستم سے تنگ آ کر تلاش معاش میں دہلی کا سفر کیا اور خان آرزوؔ کے یہاں قیام پذیر ہوئے اور بقول محمد حسین آزادؔ ’’خان آرزوؔ کے پاس انہوں نے اور ان کی شاعری نے پرورش پائی‘‘۔ لیکن یہاں بھی تنگدستی و مشکلات نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا نیز ان کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ چنانچہ کچھ غم دوراں اور کچھ غم جاناں سے جنوں کی کیفیت پیدا ہو گئی، لہٰذا یہ گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے اور بالآخر سفر کی صعوبتوں کے بعد لکھنؤ پہنچے۔ یہاں معلوم ہوا کہ مشاعرہ کا اہتمام ہے چنانچہ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جا پہنچے۔ مولانا محمد حسین آزاد ؔ نے اپنی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ میں اس کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے۔
’’ان کی وضع قدیمانہ تھی۔ کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، اک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رو مال پٹڑی دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع پاجامہ، جس کے عرض کے پائیچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ، نئے انداز، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے، میرؔ صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، شمع ان کے سامنے آئی، تو پھر سب کی نظر پڑی۔ بعض اشخاص نے سوچا! حضور کا وطن کہاں ہے؟ میرؔ صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
یوں سب کو معلوم ہو گیا کہ دہلی سے میر تقی میرؔ لکھنو تشریف لائے ہیں اور سب نے اپنے رویے پر معذرت طلب کی۔ پھر کیا تھا شہر بھر میں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے دو سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ اور میرؔ آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن تند مزاجی کی وجہ سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی اور بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 87 سال کی عمر پا کر 1810ء میں لکھنؤ کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ اس سے سبھی واقف ہیں کہ میرؔ نے غزلوں کے چھے دواوین لکھ کر اردو شاعری کے دامن کو مرصع کیا؛ لیکن یہ بات اب تک آنکھوں سے اوجھل تھی کہ ان کا ساتواں دیوان بھی ہے۔
یہی وہ دیوان ہے جس کے موجود ہونے کے باوجود کبھی کسی نے ذکر نہیں کیا بلکہ محمد حسین آزادؔ نے بھی ان کے چھے دیوان لکھے ہیں؛ لیکن ڈاکٹر معین الدین عقیل کی تحقیقی اور عمیق نظر نے میرؔ کا ساتواں دیوان بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔ در اصل انہیں ملیشیا کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سٹڈی سنٹر کے کتب خانے سے استفادہ کرنے کے مواقع میسر رہے جس کا تذکرہ خود انہوں نے ’’میر کے دیوان ہفتم‘‘ کے مقدمے میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
راقم الحروف نے اس کتب خانے کے اس ذخیرے سے خاصا استفادہ کیا ہے۔۔۔ اسی استفادے کے دوران وہاں موجود میر کے دواوین کا علم مجھے ہو گیا تھا لیکن میں نے، وقت کی کمی کے پیشِ نظر، اپنے سامنے میر کی حد تک صرف ’’مجموع نیاز‘‘ کو اپنے جائزے و مطالعے کا موضوع بنائے رکھا اور دواوین کے بالاستیعاب مطالعے سے گریز کیے رکھا۔
وہ آگے چل کر میر کے ساتویں دیوان کی موجودگی کا انکشاف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
جب اس لائبریری کے کیٹلاگ کا مزید بغور جائزہ لیا تو پتا چلا کہ دیگر متعدد مقامی و عالمی کتب خانوں کی طرح ملیشیا کے مذکورہ کتب خانے میں میر تقی میر کی فارسی تصنیف ’’مجموع نیاز‘‘ کے علاوہ میر کے اردو کلام کی تین جلدیں موجود ہیں جو در اصل میر کے معروف چھے دواوین پر مشتمل ہیں۔ ان ہی دواوین میں ’’دیوانِ ہفتم‘‘ بھی ہے۔
ڈاکٹر معین الدین کے مطابق جب انہوں نے ان تین جلدوں کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ پہلی دو جلدوں کے برعکس تیسری جلد کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ پہلی دو جلدوں کی ترتیب کے برعکس اس میں دیوان ہفتم بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان کے لیے یہ ایک انکشاف بھی تھا اور دریافت بھی۔ تاہم اپنے قیامِ ملیشیا میں وہ اس کام کو پایۂ تکمیل تک نہ پہچا سکے لیکن اس کام کو شائقین ادب اور میر شناسوں تک پہچانے کا عزمِ مصمم ضرور کر لیا۔ اگرچہ اس کے بعد روز افزوں مصروفیات کے سبب وہ خود ملیشیا نہ جا سکے لیکن اپنے کرم فرماؤں کے تعاون سے آخرکار اس دیوان کے مخطوطے کا عکس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کا ذکر انہوں نے مقدمے میں تفصیل سے کیا ہے۔ مقدمے کے آخر میں لکھتے ہیں:
مجھے خوشی ہے کہ بالآخر ’’دیوان ہفتم‘‘ کا جو ایک عمدہ عکس اپنے مذکورہ بالادوستوں [محمد سہیل عمر، ڈاکٹر عثمان بکر، ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی، پروفیسر ممتاز علی، ڈاکٹر جنید مغل، عزیزی محمد تنزیل شاہ، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر جاوید احمد خورشید] اور کرم فرماؤں کی توجہ اور زحمتوں کے نتیجے میں اشاعت کے مرحلے تک پہنچا ہے چنانچہ اس کا اب تعارف اور مکمل متن پیش کرنا مقصود ہے۔
میر تقی میرؔ کے اس ’’دیوان ہفتم‘‘ کے صفحات کے نمبر مخطوطے کے عکس میں مؤلف کو نہیں ملے جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یا تو صفحات کے نمبر اتنے مدھم تھے کہ عکس میں نہ آ سکے یا پھر وقت کے ساتھ صفحات سے معدوم ہو گئے۔ چنانچہ مؤلف نے اپنے قلم سے صفحات کی ترتیب ایک سے اٹھاون تحریر کر دی ہے تاکہ قاری کو پڑھنے یا حوالہ دینے میں دقت نہ ہو۔ صفحہ اٹھاون خالی چھوڑا گیا ہے جب کہ صفحہ چھپن پر درج غزل کا آخری شعر صفحہ ستاون پر درج ہے۔ یہ آخری شعر جو مقطع ہے۔ ذیل میں درج کیا جا رہا ہے:
آنکھوں کی خونابہ فشانی دیکھیں میرؔ کہاں تک یہ
زرد ہمارے رخساروں پر ہر دم خون بہا جاوے
ڈاکٹر معین الدین عقیل چونکہ ایک کہنہ مشق محقق ہیں اس لیے یہ نا ممکن تھا کہ وہ اس بات کی تحقیق نہ کریں کہ آیا یہ دیوان ہفتم کہیں کسی کا میر کے دواوین کا انتخاب نہ ہو، لیکن وہ اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ ایسا بھی ہر گز نہیں ہے۔ اب دو صورتیں ہی باقی ہیں؛ اول یہ کہ یہ میر کا باقاعدہ دیوان ہے۔ دوم یہ کہ یہ خود میر کا اپنے دواوین کا انتخاب ہے۔ صورتِ دوم کا شائبہ اس لیے بھی زیادہ وزن رکھتا ہے کہ اس’’دیوانِ ہفتم‘‘ کی پہلی غزل سے ہر اردو شناس واقف ہے۔ شعر دیکھیے:
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
نقادوں کے تمام تحفظات کے باوجود ڈاکٹر معین عقیل کا یہ ایک اہم کارنامہ ہے جسے انہوں نے نہایت کامیابی سے سر انجام دیا ہے اور جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں اور اردو ادب کے طلبہ ان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرؔ جیسے اردو کے بڑے شاعر کے دیوان کو تلاش کیا اور شائع کرایا۔
٭٭٭