سورج نکلنے میں دیر تھی۔ گرودیو نے آنکھیں موندے موندے سوچا وہ سب اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہوں گے۔ دو گھنٹے بعد وہ میڈٹیشن ہال میں جمع ہو جائیں گے۔ آج انھیں لکچر دینا تھا۔ انھیں اس بات کا اچھی طرح احساس تھا کہ ان کے پاس ایسے الفاظ ہیں جو سننے والوں پر جادو کر دیتے ہیں۔ ان لفظوں میں باندھ کر وہ اپنے عقیدت مندوں کو جہاں جی چاہا پہنچا سکتے ہیں۔ ان کے الفاظ سن کر سب پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ان لفظوں کے سہارے وہ نئے نئے جہانوں کی سیر کرنے لگتے ہیں اس لیے وہ دیوانہ وار اس ہال میں جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ جادو بڑے گرودیو کے پاس بھی نہیں تھا وہ سب ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کی تپسیا کے قصے، ان کی عبادت کی کہانیاں سارے جگ میں مشہور تھیں وہ بہت بڑے گیانی تھے۔ رات دن دنیا سے بے خبر اپنی کٹیا میں بیٹھے بوسیدہ بوسیدہ پتروں میں علم کا سمندر کھنگالتے تھے۔ گرودیو جانتے تھے کہ بڑے گرودیو کی عزت ساری دنیا کرتی ہے۔ مگر ان کے پاس وہ لفظ نہیں ہیں جو مختلف روپ دھار کے ایک نئی دنیا بناتے ہیں۔
اُپدیش دینے کے بعد وہ اپنی کٹیا میں چلے آتے ان کے پیچھے کچھ چیلے چیلیاں آ جاتیں وہ سب ان کے گرد جمع ہو جاتے۔ ویسے ان کی کٹیا میں آنے کی ہر ایک کو اجازت تھی۔ لیکن ایک مخصوص گروہ جو ان سے بے پناہ عقیدت رکھتا تھا۔ انھوں نے اسے ہر قسم کی آزادی دے رکھی تھی۔ جسے بھوک لگتی وہ برتن ٹٹول کے جو کچھ بھی ملتا کھا لیتا۔ گرودیو کے برتن کبھی خالی نہیں رہتے۔ اکثر عقیدت مند مٹھائی اور پھل لے کر آ جایا کرتے۔ کبھی کبھار چیلے چیلیاں کھیلنے لگتے۔ پانی سے ہولی کھیلی جاتی۔ گیروے رنگ کے لباس بھیگ کر چیلیوں کے بدن کے سارے راز عیاں کر دیتے۔ لڑکیاں کھلی کتاب بن جاتیں لڑکوں کی آنکھیں چمکنے لگتیں۔ وہ ان کتابوں کا لفظ لفظ پڑھ لینا چاہتے اور اس کوشش میں وہ ایسے ایسے حصوں پر پانی بھری بالٹیاں الٹنے لگتے جہاں پانی تیزی سے بہہ کر آبشار بنانے لگتا۔
گرودیو مسکرا دیتے ’’دیکھو وہ سب کیسے معصوم لگ رہے ہیں بچوں کی طرح۔ ہر چھل کپٹ سے آزاد‘‘۔
’’ان میں کوئی بچہ نہیں ہے‘‘ ماں جوگیشوری برا سا منہ بنا کر کہتیں جو چالیس بیالیس سال کی ہو کر بھی غیر شادی شدہ تھیں۔ رات دن خدمت کر کے انھوں نے گرودیو کے دل میں جگہ کر لی تھی سارے چیلے چیلیاں ان کا لحاظ کرتے تھے۔ ’’یہ اس وقت تک بچے ہی ہیں جب تک اپنے خول توڑ کر باہر نہیں آتے‘‘ گرودیو مسکراتے۔ ’’اس کی طرف دیکھئے‘‘ ماں جوگیشوری اس دراز قد چیلے کی جانب انگلی اٹھا کر کہتیں۔ جو ہر وقت بڑے گرودیو کے کھڑاویں سینے سے لگائے رکھتا۔ اس وقت اس دراز قد چیلے کی آنکھیں رال ٹپکاتی ہوتیں۔ چھوٹے سے قد کی اس لڑکی کو دیکھ کر وہ زیادہ ہی مضطرب ہو جاتا۔ جس کا جسم بھر پور تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے جسم پر صرف دائرے ہی ہیں۔ دراز چیلے کی آنکھیں اس وقت اپنے حلقوں سے نکل کر ان دائروں میں گردش کر رہی تھیں۔ ایسی حالت میں اسے دیکھ کر وہ چیلی قہقہہ لگاتی اور اپنے ساتھیوں سے کہتی ’’طوطا‘‘ اور پھر قہقہہ اجتماعی آواز کا شور بن جاتا۔
’’بچے ہی ہیں نا؟ ان کی ہنسی میں چھپی معصومیت کو سنو‘‘ گرودیو کہتے ’’اس کی آنکھوں میں ہوس صاف جھلک رہی تھی۔ آپ انھیں سزا کیوں نہیں دیتے؟‘‘ ماں جوگیشوری برا سا منہ بنا کر کہتیں۔
’’دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں کی کیچڑ صاف ہو گی۔ دیکھو ہم سب منش ہیں تم بھی اور میں بھی۔ غلطی منش ہی کرتا ہے۔ اسے معاف کرنا سیکھو ’’سزا دینا ہمارا نہیں ایشور کا کام ہے‘‘ گرودیو کہتے۔
گرودیو کو آشرم کی پوری خبر رہتی تھی۔ وہ ان کے نجی مسائل میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ ان کے مسائل حل کرنے کی بھی کوشش کرتے ان کے عقیدت مند ان کے ہاتھوں مہورتیں نکلواتے۔ جنم کنڈلی دکھاتے۔ گرو دیو انھیں مشورہ دیتے۔ اس لیے ان کی کٹیا عقیدت مندوں سے بھری رہتی۔ کچھ ضرورت مند بھی وہاں موجود ہوتے کیوں کہ وہ لوگوں کی ضرورتیں ان کے چہروں سے پڑھ لیا کرتے اور اس طرح مدد کرتے تھے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔
صبح وہ مڈیٹیشن ہال پہنچ گئے۔ حسبِ معمول وہاں بہت سارے چیلے اور چیلیاں موجود تھیں۔
’’آتم وچار کرو۔ اپنے نفس کو پہچاننے کی کوشش کرو۔ اسی میں مکتی ہے۔ سیّم شانتی نفس کو پہچاننے سے ملتی ہے۔ اس کے سوا سب دھوکا ہے مایا جال ہے۔ منش کی ظاہری شکل بھی دھوکا ہے۔ اس لیے آثار و مظاہر میں نہیں کھونا چاہیے۔ اصل آتما ہے شریر ایک خول ہے۔ آتما کو پہچانو۔ منش کی اصلیت کو جانو۔ اور واستو کتا کا گیان حاصل کرو۔ آتما سے پر ماتما تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرو۔
’’پھر ہمارے شریر کیا ہیں؟‘‘ گورے چٹے چیلے نے ان سے سوال کیا؟
’’ایک سندر سا خول اور کچھ نہیں‘‘
’’ہماری حقیقت کیا ہے؟‘‘
’’کسی کی کوئی حقیقت نہیں۔ حقیقت یا واستو کتا صرف بھگوان ہے۔ سرشٹی کا۔
استھتوا واستوک یا ستیہ نہیں ہے۔ جو کچھ نظر آتا ہے وہ دھوکہ ہے‘‘
’’آتما کیا ہے؟‘‘
’’آتما کا بھگوان سے الگ کوئی وجود نہیں سرشٹی کے کَن کَن میں وہ اپستھت ہے۔‘‘
’’بھگت کو یہ کلپنا کرنی چاہیے کہ بھگوان اس سے جدا نہیں ہے بلکہ اس کے گھٹ میں سمایا ہوا ہے تب ہی آتما اور پرماتما ایک ہو سکتے ہیں۔ اس لیے آتما کو مضبوط بناؤ۔ خول مٹی میں مل جائے گا اسے کیڑے مکوڑے کھا جائیں گے اس لیے خول کے جال میں نہ پھنسو۔ ساری آتمائیں ایک جیسی ہوتی ہیں جگ میں ستری اور پرش بھیتر سے ایک جیسے ہیں‘‘
’’ہمارا اصل روپ کیا ہے؟‘‘
’’بہت ہی گھناؤنا۔ تم لوگ سہن نہ کر پاؤ گے۔ اس پر جھوٹ کا ملمع چڑھا رہنے دو‘‘
’’ہم اپنے آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں‘‘
’’اس کی تم میں طاقت نہیں ہے‘‘
’’آپ بتائیے ہمیں اپنا اصل روپ ’’سب نے اصرار کیا۔
پھر وہ مجبوراً راضی ہو گئے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد انھوں نے کہا۔
’’جسے اپنے آپ کو دیکھنا ہو وہ میرے ساتھ کٹیا چلے‘‘
’’ان کے پیچھے وہی مخصوص چیلے چیلیاں رہ گئے۔ باقی کو اپنی ذات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
سب کٹیا میں جمع ہو گئے۔ انھوں نے ایک بڑے سے برتن میں جل ڈالا اور کچھ اشلوک پڑھنے لگے۔ ایک سناٹا چھا گیا۔ کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اپنا اصلی روپ دیکھے پتہ نہیں کیسا ہو؟
سب سے پہلے وہ لنگڑا چیلا اچھلتا ہوئے برتن تک گیا۔ اپنا عکس دیکھ کر وہ چونک پڑا سب برتن پر جھک گئے۔ بڑی عجیب شکل تھی گدھے کا سر، بیل کا جسم، کوے کی چونچ، سب سے قہقہہ لگایا۔ لنگڑا چیلا کھسیانی ہنسی کے ساتھ وہاں سے ہٹ گیا۔ پھر گورا چٹا چیلا برتن کے پاس گیا۔ وہاں چھوٹا سا بندر نظر آ رہا تھا۔ بے چین مضطرب!! قہقہہ!!
دراز قد چیلے کو سب نے دھکیل کر برتن تک پہنچایا۔ طوطے کی شکل، آنکھوں میں کیچڑ، اس کے چہرے پر سب سے نمایاں زبان تھی۔ بار بار تلوے چاٹنے کے عمل سے لپلپی ہو گئی تھی۔ اک دم بھی نظر آ رہی تھی جو تیزی سے ہل رہی تھی۔ اس بھیانک روپ کو دیکھ کر وہ سب چپ ہو گئے۔
پھر اس سیاہ فام چیلے نے اپنا عکس دیکھا۔ ایک بڑا سیاہ ناگ پھنکارتا نظر آیا۔ سفید رنگ اور لمبی گردن والی چیلی نے خود کو دیکھا تو بلی اور خرگوش کی ملی جلی تصویر بنی۔ عینک والا کاہل چیلا اس برتن میں ایک چنپینزی دکھائی دینے لگا چپٹی ناک والا برتن کے قریب آیا تو اس کا عکس دیکھ کر وہ سب کانپ گئے۔ خطرناک بلڈاگ جیسا چہرہ سور جیسی تھوتنی!!
ماں جوگیشوری بھی سب کے اصرار پر اپنا عکس دیکھنے پر راضی ہو گئیں۔ مقدس جل پر ایک چالاک لومڑی کا عکس بنا۔ ماں جوگیشوری کھسیانی ہو گئیں۔ اور وہ سب کو بے تحاشہ گالیاں دینے لگیں۔ یہی ان کے اصل روپ تھے تو پھر بہت گھناؤنے تھے۔
وہ ایک مسلسل عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ وہ اپنے اصلی چہرے بھول گئے تھے۔ برتن کے عکس ان کے ذہنوں پر نقش ہو گئے تھے۔ اب وہ سوچ رہے تھے کہ کاش وہ اس کا مطالبہ نہ کرتے پھر ان سب کے ذہنوں میں ان ہی سوال ڈنک مارنے لگا اس پوتر جل میں گرودیو کیسے نظر آتے ہوں گے؟ وہ سب ایک دن جمع ہو گئے اور اپنی خواہش کا انھوں نے گرودیو سے اظہار کیا۔ گرودیو مسکرائے۔
انھوں نے پوتر جل کا برتن پھر ان کے درمیان رکھ دیا۔ اور کہا ایک ایک کر کے اس برتن میں جھانکو۔ سب نے ان کا روپ دیکھ لیا۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اس کا روپ بیان کرے۔ انھوں نے پوچھا بھی نہیں۔ وہ سب کٹیا کے باہر آ گئے اور ایک دوسرے سے گرودیو کا روپ پوچھنے لگے۔
’’مجھے دھواں ہی نظر آیا‘‘ بندر نے کہا
’’اتنی روشنی تھی کہ میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ لنگڑے نے کہا
’’مجھے ایک پر سکون دریا نظر آیا‘‘۔ بلّی نے کہا
’’میرے پاس ایسے شبد نہیں کہ میں گرو دیو کا روپ بیان کر سکوں‘‘
لپلپی زبان والے نے کہا
’’فائدہ ہی فائدہ۔’’ بلڈاگ اور سوّر کا امتزاج بڑبڑایا۔
’’اور تمھیں‘‘ سب نے ایک زبان ہو کر ناگ سے پوچھا۔ ناگ وہاں موجود نہ تھا۔ پتہ نہیں وہ کب وہاں سے کھسک گیا تھا۔ ان میں سراسمیگی بھر گئی۔
اس ناگ کو وہ سپیرا کسی جنگل سے اٹھا لایا تھا۔ سپیرے نے اس ناگ کو آشرم میں چھوڑا اور خود کہیں چلا گیا۔ یہ ناگ کوئی خاص نسل کا بھی نہیں تھا نہ اس کی کھال چمکدار تھی۔ گرودیو کی دیکھ بھال اور توجہ نے اس کی آنکھوں میں بے پناہ چمک پیدا کر دی تھی اور پہلے سے خوب صورت ہو گیا تھا۔
ساری مصیبت ان کے اصلی چہروں کی وجہ سے ہوئی تھی۔ وہ اپنے آپ کو بھول گئے تھے اور یہیں سے آشرم میں ایک زیریں طوفان آیا تھا۔
سب سے پہلے ماں جوگیشوری نے کٹیا میں آنا بند کر دیا۔ کیوں؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کسی نے کہا کہ سیاہ ناگ نے اسے ڈس لیا۔ کوئی کہتا تھا بندر نے کھسوٹ دیا۔ کوئی اسے لپلپی زبان والے کا کارنامہ سمجھتے تھے۔ حقیقت کا علم کسی کو نہ تھا اور نہ گرودیو نے کبھی حقیقت بتائی وہ یہ کہتے رہے۔ ’’دیکھو ہم سب منش ہیں۔ تم بھی اور میں بھی ہو سکتا ہے کوئی بھول ہو گئی ہو۔ فیصلہ تو ایشور ہی کرے گا نا؟‘‘
ماں جوگیشوری اب کٹیا میں نہیں آتی تھیں۔ آشرم میں آتیں تو سیدھے بڑے گرودیو مہاراج سے مل کر چلی جاتیں۔ ماں جوگیشوری کے اس طرح چلے جانے کا غم بہت دن تک گرودیو کرتے رہے۔ ان دنوں وہ احمق سی چیلی گرودیو کی دلجوئی کرتی رہی اس نے گرودیو کی جی جان سے خدمت شروع کر دی دیکھتے ہی دیکھتے اس نے وہی استھان حاصل کر کیا جو ماں جوگیشوری کا تھا۔ لیکن کوئی چیلا اسے ماں نہیں کہتا تھا۔ کیوں کہ اس کی اور گرودیو کی عمر میں کافی فرق تھا۔ ہاں گرودیو کی قربت نے اس چیلی کی اہمیت بڑھا دی تھی۔
پھر ایک واقعہ ہوا۔ پرانے مندر کی مہربان پجارن ماں آشرم آئیں۔ وہ سب ماں کے ارد گرد جمع ہو گئے کیوں کہ ماں کے ہاتھوں میں روٹیاں تھیں۔ ماں نے بندر کے آگے روٹی ڈالی۔ اور گلے میں زنجیر ڈال کر پرانے مندر لے گئیں، بندر مچلنے لگا تو گرودیو نے کہا ’’جا اب تجھے وہیں سے روٹیاں ملیں گی پجارن ماں بندر کو پرانے مندر میں بٹھا کر تیرتھ استھانوں کو چلی گئیں۔ ان کی جگہ جس پجارن نے پرانے مندر کو سنبھالا وہ بھی بندر پر بہت مہربان تھیں۔ سارا دن بندر کا خیال رکھتیں۔ اور جب ماں اپنی کٹیا چلی جاتیں تو بندر قلانچیں بھرتا ہوا آشرم آ جاتا اور گرودیو کے قدموں پر لوٹنے لگتا گرودیو اسے پچکارتے۔ بندر پرانے مندر کے باسیوں کی نقلیں اُتارتا۔ گرودیو خوب ہنستے اسے کندھے پر بٹھا لیتے۔ ایسے میں وہ بلّی جیسی چیلی اٹھتی اور بندر کو نیچے مارنے لگتی بندر اسے سارے کمرے میں نچاتا پھرتا۔ گرودیو ان کی لڑائی سے خوب لطف لیتے، لڑائی ختم ہو جاتی تو بلی اپنے مالک گرودیو کے جسم سے اپنا بدن رگڑ نے لگتی۔ اور مونچھیں صاف کرتی۔ بلّی اور بندر کی خوب نبھنے لگی۔ کبھی کبھی وہاں ناگ بھی آ جاتا۔ گرودیو کی خواہش تھی کہ بندر اور ناگ ساتھ ساتھ رہیں۔ مداری کا تماشا اسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب ڈگڈگی پر بندر ناچے اور بین پر ناگ جھومے اور شاید ایسا ہی ہوتا لیکن۔ پھر ایک اور واقعہ ہوا۔ بڑے گرودیو مہاراج نے ایک عجیب سا مشروب تیار کیا اور اسے دو پیالوں میں رکھ دیا۔ اور کہا کہ جو اس مشروب کو پی جائے گا وہ اسی آشرم کا ہو رہے گا۔ لپلپی زبان والے نے تلوے چاٹنے کا عمل تیز کر دیا۔ گرودیو جانتے تھے کہ لپلپی زبان والا کسی طرح اس پیالے کا مشروب پی جائے گا۔ البتہ ناک کی زبان بہت چھوٹی ہے۔ اس کے ہاتھ ہیں نہ تلوے۔ ہاں بندر اس مشروب کو منٹوں میں ختم کر سکتا ہے لیکن وہ چاہتے تھے کہ سیاہ ناگ اس مشروب کوکسی طرح پی لے اور جب پیالے رکھے گئے تو ایک پیالہ لپلپی زبان والے نے حاصل کر لیا۔ گرودیو مہاراج نے بندر کی دم کھینچی اور اسے کندھے پر بٹھا کر کہا کہ تمھارا پیٹ پہلے سے بھرا ہوا ہے اب یہ مشروب پیو گے تو سب کچھ اگلنا پڑے گا۔ ادھر بیٹھے بیٹھے تماشا دیکھو بہت آنند ملے گا۔ سیاہ ناگ نے اس مشروب کو چٹ کر ڈالا۔ وہ لنگڑا عجیب الخلقت چیلا یہ منظر دیکھ کر پاگل ہو گیا۔ وہ آشرم کی دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر بہت ہی خوفناک آواز میں رونے لگا تھا۔ اس روز گرودیو کے کندھے سے بندر اُترا تو بس اُتر ہی گیا۔ گرودیو نے پھر کبھی اسے کندھے پر بیٹھنے نہیں دیا۔ بندر کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ ایک ایسے مداری کے پاس ہے جہاں سانپ تماشے کے آخر میں پٹاری سے نکلتا ہے اور چند لمحوں کے لیے زمین پر جھومتا ہے۔ سارے کرتب اور نقلیں بندر کو دکھانی پڑتی ہیں۔ بندر کی اچھل کود سے وہ خوش تو ہوتے ہیں لیکن احترام ناگ کا کرتے ہیں۔
ایک روز بندر پرانے مندر سے آشرم آیا تو بھگوان کی کٹیا خالی پڑی تھی وہ پورنیما کا دن تھا۔ کٹیا میں بلّی تنہا بیٹھی اپنے بال چاٹ رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ گرو دیو کا لے ناگ کے ساتھ ندی کے بیچوں بیچ تپسیا کر رہے ہیں۔
بندر گرودیو کی نقل میں ان کے آسن پر جا بیٹھا۔ اس نے گرودیو کے لہجے میں بلّی سے کہا۔
’’سرشٹی کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘‘
’’شریر ایک مایا جال ہے۔ اصل شئے آتما ہے۔ اس مایا جال میں کبھی نہ پھنسنا، رشیوں منیوں کی تپسیا بھنگ کرنے کے لیے راکششوں نے یہ جال بنایا ہے۔ اس لیے شریر کی طرف سے آنکھیں بند کر لو۔ آتما میں جھانکو ساری آتمائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔‘‘
بندر کو محسوس ہوا جیسے بلّی اس کے سینے پر آ بیٹھی ہے‘‘ کیا بات ہے تمہاری سمسیا کیا ہے‘‘اس نے بلّی کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا بلّی نے کچھ نہیں کہا۔ لیکن بندر نے محسوس کیا وہاں بلّی کے نرم نرم بال نہیں بلکہ ایک عورت کا جسم ہے اس نے خود کو سمجھایا کہ وہ ایک معصوم بلّی ہے۔ کوئی لڑکی نہیں ہے۔ لیکن ہاتھوں کا لمس اسے صاف جھٹلا رہا تھا۔ وہ ایک بھر پور عورت کا بدن تھا اس کی انگلیاں اس پیچ و خم کو محسوس کر رہی تھیں۔ جگہ جگہ کٹاؤ، ابھار، نشیب و فراز بند پلکوں کے پیچھے سے آنکھیں کھسک کر انگلیوں میں سما گئی تھیں اس عورت کے جسم کے سارے دریچے، ساری کھڑکیاں کھلتی جا رہی تھیں وہ ایک کھڑکی بند کرتا تو دوسری کھڑکی کھل جاتی۔
یہ مقدس گرودیو کا پوتر آسن ہے۔ شریر ایک دلدل ہے۔ وہ اس دلدل میں اُترتا جا رہا ہے۔ اس مایا جال سے وہ کیسے نکلے؟ فرار کا ایک ہی راستہ تھا اسے یاد آیا کہ وہ جب ان کے اصلی روپ دیکھے گا تو شریر کا جال خود ہی ٹوٹ جائے گا۔ اور اسے مکتی مل جائے گی۔ اس سنکٹ سے نکلنے کا یہی ایک راستہ ہے۔
اس نے آنکھیں پھر سے واپس لگا لیں۔ مقدس پانی میں عکس دیکھا۔ لیکن وہاں تو آگ لگی ہوئی تھی۔ اور اس آگ میں ستری اور پرش کے ایسے شریر نظر آ رہے تھے جیسے انھوں نے پہلی بار دھرتی پر قدم رکھا ہو۔ وہ گھبرا گیا۔
’’تمھیں اس برتن میں کیا نظر آ رہا ہے‘‘ اس نے استری سے پوچھا۔
’’آگ اور جلتے ہوئے دو شریر‘‘ ستری نے کہا
’’تمھیں بھی…..‘‘
اس نے بوکھلا کر پوچھا
’’تم نے یہ منظر پہلے کبھی دیکھا؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’پھر کیا دیکھتی رہیں اس برتن میں؟‘‘
’’مرگ ترشنا۔ عورت نے کہا
’’پھر کیا گرودیو کے استھان سے دیکھنے پر منظر بدل جاتا ہے؟‘‘ اس نے سوچا
’’نہیں‘‘ یہ برتن جھوٹا ہے۔ اس نے برتن اٹھایا اور فرش پر چھوڑ دیا۔
سارے کمرے میں آگ اور دھواں پھیل گیا۔
تیسرے دن وہ کٹیا پہنچا تو گرودیو نے پوچھا
’’یہ برتن تم نے توڑا؟‘‘
’’ہاں گرو دیو‘‘
’’کیوں؟‘‘
اس نے پورا قصہ کہہ سنایا۔
گرودیو گہری سوچ میں پڑ گئے۔ ’’وہ تو کچھ اور ہی کہتی ہے‘‘
’’گرودیو میرا لباس ایسا بھی نہیں تھا کہ جس کا دامن بہت بڑا ہوتا اور آپ کو بتاتا کہ میرا دامن سامنے سے نہیں پیچھے سے پھٹا ہے‘‘
’’ہوں۔ گرودیو گہری سوچ میں کھو گئے کئی لمحوں بعد انھوں نے کہا ’’تم نے دو غلطیاں کیں۔ ایک ہمارے آسن پر جا بیٹھے۔ دوسرے وہاں سے برتن میں خود کو دیکھنے کی کوشش کی‘‘
’’میں کیا کرتا گرودیو‘‘ کیسے اس مایا جال کو توڑتا؟‘‘
’’اسے معصوم بچی کی طرح تھپک تھپک کر سلا دیتے‘‘
’’میں نے کوشش کی گرودیو لیکن میری انگلیاں اس جھوٹ کے لیے تیار نہیں ہوئیں کیوں کہ میری آنکھیں انگلیوں کے پوروں میں منتقل ہو گئی تھیں‘‘
’’ہماری ساری شکشا بے کار گئی۔ تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
’’ویسا کچھ بھی نہیں ہوا گرودیو۔ میں اس دلدل سے نکل آیا۔ اس کے بعد بھی گرودیو مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو میں ایک سادھا رن منش، ہوں اور بھول منش سے ہی ہوتی ہے۔‘‘
’’بھول کی سزا ملے گی تمھیں۔‘‘
’’لیکن گرودیو سزا دینا تو ایشور کا کام ہے اور۔
’’خاموش رہو‘‘ گرودیو دھاڑا۔ ہمیں کیا سمجھتے ہو تم؟ پرماتما کا روپ ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ بھگوان ایک خزانہ تھا۔ اس نے
چاہا کہ پہچانا جائے پس اس نے جگ کو بسایا۔ ادھر دیکھو ہمارے گلے میں کیا ہے؟ گرودیو نے پوچھا۔
چیلے نے دیکھا گرودیو کے گلے میں سیاہ رنگ کا ناگ پھن کاڑھے بیٹھا ہے۔
تم نے کسی منش کے گلے میں اسے جھومتے دیکھا؟ نہیں نا‘‘
’’اسے ہم نے بنایا تاکہ ہمیں پہچانا جائے۔ اس نے ہمیں پہچان لیا۔ اب ہم سویم بھگوان ہیں۔ ہمیں پر نام کرو۔ ہماری دی ہوئی سزا قبول کرو۔ اپنے پاپوں کا پرایشچت کرو۔ جب تک ایسا نہیں کرو گے اس سورگ کے دروازے تم پر بند رہیں گے‘‘۔
لیکن گرودیو سزا تو اسے بھی ملنی چاہیے‘‘
’’نہیں ایشور نے ستری اور پرش کو ساتھ ساتھ سزا کاٹنے کے لیے دھرتی پر بھیجا تھا۔ جانتے ہو اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ وہ سورگ کو بھول گئے۔ اور اسی غلطی کے سہارے انھوں نے پورا سنسار بسا لیا اب ایسا نہیں ہو گا صرف ستری سورگ میں ہو گی اور پرش کو سورگ چھوڑنا پڑے گا۔ اپنا ماتھا ٹیکو۔ ہاتھ جوڑو ہمیں پرنام کرو۔ اور سزا کاٹنے چل پڑو۔‘‘ گرودیو نے کہا۔
اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ ماتھا نہیں جھکایا۔ پرنام کرنے کو ہاتھ نہیں جوڑے۔ اس نے گرودیو کی طرف دیکھا۔ ان کے گلے میں جھومتے سانپ کی طرف دیکھا۔ فرش پر ٹوٹے ہوئے برتن کو دیکھا، چپ چاپ اس کٹیا سے چلا آیا جو اس بھگوان کا سورگ تھی۔ اب اس کے جسم پر کسی خول کا بوجھ نہیں تھا۔ وہ ایک معمولی سا منش تھا۔ سیدھا سادا ہلکا پھلکا۔ وہ جنگل میں دوڑتا چلا گیا۔
٭٭٭