مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ایسی پرکشش اور جاذبِ نظر ہے کہ کوئی بھی اہلِ ذوق اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس شخصیت کے اندر جانے کتنے پہلو پوشیدہ ہیں کہ ایک پر نظر ڈالو تو دوسرا دعوت نظارہ دینے لگتا ہے اور کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں زبردست چارمنگ نہ ہو۔ ان کی عوامی زندگی میں بھی بڑی کشش ہے اور علمی زندگی میں بھی۔ ان کی تصنیفات میں اس قدر علم کا دریا موجزن ہے کہ اگر کسی نے کسی کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو وہ ساحل پر کھڑے ہو کر تماشائی بنا نہیں رہ سکتا۔ اس کا ذوق و شوق اسے مجبور کرے گا کہ وہ اس دریا کی تہوں میں اتر جائے اور علم و عرفان کے موتی نکال لائے۔
مولانا آزاد کی بہت سی قیمتی تحریریں گوشۂ تنہائی کے بطن سے پیدا ہوئی ہیں۔ وہ گوشۂ تنہائی خواہ جیل کی کال کوٹھری ہو یا پھر شہر بدر کے سرکاری حکم سے پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ۔ بعض اوقات مولانا کے قلم کو بس ایک مہمیز کی ضرورت پڑتی تھی اور جب وہ چل پڑتا تھا تو وہ خود اشہبِ قلم کی باگ کھینچ نہیں پاتے تھے۔ وہ اپنے قلم کو شتر بے مہار کی مانند چھوڑ دیتے اور پھر ایک ایسی تحریر منظر عام پر آ جاتی جو شہ پارہ کہلاتی۔ اسی کے ساتھ ایسا بھی ہوا ہے کہ مولانا نے بہت سی چیزیں اس لیے نہیں لکھی تھیں کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا جائے، لیکن وہ کتابی صورت میں جلوہ گر ہوئیں اور پوری علمی دنیا سے داد وتحسین کی حقدار بنیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ انہوں نے کسی کی بے انتہا فرمائش پر کچھ لکھا اور یہ سوچ کر لکھا کہ اسے زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہونا ہے لیکن ایسی چیزیں بھی کتابی صورت میں سامنے آئیں اور جب علم نواز حلقوں میں پہنچیں تو دھوم مچ گئی۔ ’’تذکرہ‘‘ اور ’’غبار خاطر‘‘ دو ایسی ہی قابل ذکر کتابیں ہیں۔ ثانی الذکر کتاب ایسے خطوط کا مجموعہ ہے جو طباعت کے بعد مکتوب الیہ تک پہنچے اور اول الذکر ان کے خاندان کا ایسا تذکرہ ہے جس کو شائع کرانے کے لیے مولانا آزاد تیار نہ تھے۔ لیکن ان کے بہت گہرے دوست فضل الدین احمد نے، جن کی بے انتہا فرمائش پر مولانا نے ’’تذکرہ‘‘ تصنیف کیا تھا، بالآخر اسے کتابی پیرہن پہنا ہی دیا۔
فضل الدین احمد مولانا آزاد کے ایسے دوست تھے جو ان سے عمر میں بڑے تھے اور مولانا کی طالب علمی کے زمانہ سے ہی دونوں میں دوستی تھی۔ انہوں نے ’’الہلال ‘‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد جب دیکھا کہ مولانا کی شخصیت بڑی پر کشش، جاذب نظر اور تہ دار ہے اور وہ خود بھی بہت اتار چڑھاؤ سے گزرے ہیں تو انہوں نے ان سے فرمائش کی کہ وہ اپنے حالات زندگی رقم کر دیں۔ لیکن مولانا اس کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑی بڑی شخصیات کے تذکرے اور حالات زندگی نہیں لکھے گئے، ان میں ایسی کون سی بات ہے کہ وہ اپنے حالات زندگی قلم بند کریں۔ وہ اس کام کو ’’تمسخر انگیز‘‘ کہہ کر ٹالتے رہے۔ بعد میں انھوں نے لکھا کہ ’’خاندان کے فخر کا بت بھی دنیا کے عہد جاہلیت کی ایک یادگار مشؤم ہے اور اسلام نے انسان کے بہت سے بنائے ہوئے بتوں کے ساتھ اس کو بھی توڑ دیا تھا‘‘۔ لیکن بہر حال فضل الدین احمد نے مولانا کو آمادہ کر ہی لیا۔ وہ بھی کس حال میں کہ جب انگریزی حکومت نے انہیں کلکتہ سے بے دخل ہونے کا حکم دیا تو وہ رانچی چلے گئے۔ ان کے دوست کو ان کی فکر تھی لہٰذا وہ بھی رانچی پہنچے اور جب تک وہ حالات زندگی قلم بند کرنے پر راضی نہیں ہوئے فضل الدین بھی لوٹنے کو راضی نہ ہوئے۔ مولانا کی رضامندی لے کر وہ رائے پور چلے گئے اور تذکرہ نگاری کی یہ صورت نکالی گئی کہ مولانا دس دس بیس بیس صفحات بیک جنبش قلم لکھ کر ان کے پاس بھیج دیتے تھے۔ فضل الدین نے لکھا ہے کہ پہلا مسودہ دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ مولانا پہلے اپنے خاندان کے حالات لکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد شاید وہ اپنے حالات قلم بند کریں۔ بہر حال قسطوں میں مولانا کا مسودہ ان تک پہنچتا رہا اور جب انھوں نے کچھ دنوں کے بعد اوراق شماری کی تو وہ پانچ سو صفحات تک لکھ چکے تھے۔ جب مولانا کسی مسئلے کو چھیڑتے اور اس میں بحث نکل پڑتی تو وہ بحث کو منطقی انجام تک پہنچانے میں سرگرم ہو جاتے جس کی وجہ سے صفحات بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے مذکورہ دوست ان سے بار بار اصرار کرتے کہ وہ مختصر لکھیں، کیونکہ ان کو خدشہ تھا کہ وہ جس طرح بالکل خالص علمی بحث کا سلسلہ آگے بڑھا رہے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ وہ جلد اپنے حالات قلم بند کرنے کی منزل پر پہنچیں گے۔ جب ان کا اصرار اختصار نویسی کے لیے بڑھتا گیا تو مولانا نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’میری طبیعت میں رکاوٹ پیدا نہ کرو۔ جو کچھ بے اختیار قلم سے نکل جاتا ہے بھیج دیتا ہوں، جمع کرتے جاؤ۔ ہر حال میں فائدہ سے خالی نہ ہوگا‘‘۔
اس طرح مولانا سب سے پہلے اپنے والد کے جدی سلسلۂ نسب میں سب سے بزرگ اور علم و طریقت میں سربرآوردہ شخصیت ان کے دادا حضرت شاہ محمد افضل کے مادری سلسلے کے ایک مورث اعلیٰ حضرت مولانا جمال الدین المعروف بہ شیخ بہلول دہلوی کے حالات قلم بند کرتے ہیں۔ وہ اکبر کے دربار سے وابستہ تھے۔ اکبر کو دینی پیشوا بنانے کے لیے جو محضر نامہ مرتب ہوا تھا اس پر دستخط کرنے سے انھوں نے انکار کر کے اپنی دینی حمیت اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیا تھا۔ ان کے لڑکے شیخ محمد حضرت مجدد الف ثانی کے خلیفہ تھے۔ ننھیالی سلسلہ میں ان کے ایک بزرگ قاضی رشید الدین احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ہندوستان آئے اور پنجاب کے قاضی القضاۃ بنائے گئے۔ مولانا کے والد کے نانا مولانا منور الدین حضرت شاہ عبد العزیز کے تلمیذ رشید تھے۔ وہ سلطنت مغلیہ کے آخری رکن المدرسین تھے۔ مولانا آزاد شیخ بہلول دہلوی کے حالات زندگی کے بعد سلسلہ در سلسلہ اپنے والد کے حالات تک آتے ہیں۔ لیکن یہ پورا مسودہ بہت ضخیم تھا۔ اس لیے فضل الدین نے اس کا انتخاب تیار کیا اور اس انتخاب کو کتابی صورت میں شائع کر دیا۔ مولانا نے یہ کتاب مارچ ۱۹۱۶ء سے دسمبر ۱۹۲۵ء تک اپنی نظربندی کے دنوں میں، جبکہ انہیں فرصت ہی فرصت تھی، تحریر کی تھی اور یہ مکمل نہیں تھی۔ اس کتاب کو مولانا کی آپ بیتی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی آپ بیتی تو ’’آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی ‘‘ ہے جو ان کے انتقال کے بعد ۱۹۵۸ء میں شائع ہوئی۔ مولانا کے رفیق جیل مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی لکھتے ہیں ’’میں نے مولانا کو اکسانا شروع کیا کہ تذکرہ کی دوسری جلد لکھا دیں، ہفتوں ’میرے بھائی میرے بھائی‘ کہہ کر ٹالتے رہے مگر میں بھلا پیچھا چھوڑنے والا تھا۔ تقاضا جاری رکھا آخر راضی ہو گئے اور کتاب لکھانا شروع کر دی۔ وہ بولتے جاتے تھے اور میں پنسل سے گھسیٹتا جاتا تھا۔ رات کو مسودہ صاف کر لیتا تھا۔ مولانا نے یہ کتاب اس طرح لکھوا دی کہ سامنے نہ کوئی نوٹ ہوتا تھا اور نہ کبھی مجھ سے پوچھا ’’کل کیا لکھا‘‘۔ دوسرے دن بیٹھے نہیں کہ بولنے کا رشتہ فوراً مل گیا۔ خیر مولانا کتاب لکھاتے رہے لکھاتے رہے۔ پھر میرے دل میں گدگدی پیدا ہوئی۔ مولانا نے ’’تذکرہ‘‘ میں اپنی جوانی دیوانی کا تذکرہ اس طرح کیا ہے کہ اردو ادب قیامت تک فخر کرتا رہے گا … تو میں نے مولانا کو پھسلانا شروع کیا اور تذکرہ میں جن معاملات کا اجمال ہے ان کی شرح بھی آ گئی۔ مگر ہوا کیا؟ دوسرے دن صبح ہی مسودہ لوٹا لیا۔ فرمایا ’’نظر ثانی کر لوں‘‘۔ عرض کیا، آپ کی نظر ثانی کا حال معلوم ہے یعنی مسودہ غائب اور وہی ہوا بھی‘‘۔
رانچی کی جلا وطنی کے سلسلے میں مولانا آزاد لکھتے ہیں ’’۷؍ اپریل ۱۹۱۶ء کو حکومت بنگال نے ڈیفنس آرڈیننس کے تحت مجھے بنگال سے خارج کر دیا تھا۔ میں رانچی گیا اور شہر سے باہر مورا بادی میں مقیم ہو گیا۔ پھر کچھ دنوں بعد مرکزی حکومت نے وہیں قید کر دیا اور اس کا سلسلہ ۱۹۲۵ء تک جاری رہا‘‘۔ معروف صحافی ناز انصاری نے اپنے ایک مضمون میں اس قید و بند کو اردو ادب کے لیے ایک گراں قدر علمی سرمایے کا سبب بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’یہ نظربندی اردو زبان و ادب کے حق میں گراں قدر سرمایہ فراہم کرنے کا موجب بن گئی۔ یہاں مولانا کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’تذکرہ‘‘ سپرد قرطاس ہوئی اور یہیں ’’ترجمان القرآن‘‘ کی وہ تفسیر منصہ شہود میں آئی جس نے تفسیروں میں ایک گراں قدر اور انقلابی تفسیر کا اضافہ کیا‘‘۔
یہ تذکرہ خاندانی حالات سے قطع نظر ایک زبردست علمی و تاریخی کتاب بھی ہے۔ اس میں مختلف فرمانرواؤں کے دور میں دنیا پرست علماء کی دین پرست علماء کے خلاف سازشوں کی تفصیل بھی ہے۔ اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح دنیاوی حرص میں مبتلا علمائے سُو حق کی راہ سے بھٹکتے رہے ہیں اور قرآن و حدیث کو اپنے مطلب کے لیے غلط مفہوم میں پیش کرتے اور تاویلیں کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کس طرح حق کی سربلندی کے آرزومند علماء دنیاوی عز و جاہ کو پائے حقارت سے ٹھوکریں مار کر عسرت و تنگ دستی کی زندگی کو محض اس لیے ترجیح دیتے رہے ہیں کہ کہیں حق رسوا نہ ہو جائے اور باطل کا بول بالا نہ ہو جائے۔ اس سلسلے میں بے شمار بحثیں آئی ہیں اور بہت سے واقعات پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ مولانا نے متعدد تاریخ نویسوں کے حوالے سے ان بحثوں کو آگے بڑھایا ہے جس میں انہوں نے ملا عبد القادر بدایونی کی منتخب التواریخ اور الرشید اور نظام الدین ہروی کی صبقات ، شیخ عبد القادر محدث دہلوی کی اخبار الاخیار اور اس کے علاوہ تذکرۃ الواصلین اور طبقات اکبری کے متعدد مقامات پر حوالے دیے ہیں۔ دوسری مذہبی و تاریخی کتابوں کے حوالے بھی موجود ہیں۔ انھوں نے اس دور کی پوری مذہبی تاریخ رقم کر دی ہے۔ کس طرح بادشاہوں کے درباروں میں خوشامدی ملاؤں کا حکم چلتا تھا اور کس طرح حق پرست علماء کو ان ابن الوقت مولویوں اور ملاؤں کی خواہش پر بادشاہ وقت سزائیں دیتے رہے ہیں، اس پر اس انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ پڑھتے ہی بنتا ہے۔
سطور بالا میں اکبر کو مذہبی پیشوا بنانے سے متعلق جس محضر نامے کا ذکر کیا گیا ہے وہ ملا مبارک نے تیار کیا تھا اور اس کا مقصد اکبر کے دربار میں عروج حاصل کرنے والے دو علما مخدوم الملک ملا عبد اللہ سلطانپوری اور صدر الصدور شیخ عبد النبی کے مابین جاری رسہ کشی سے نجات حاصل کرنا تھا۔ اس کے الفاظ یوں تھے ’’پادشاہ خلیفۃ الزمان اور امام عہد واجب الاطاعت ہے اور اس کو حق پہنچتا ہے کہ مسائل مختلف فیہ میں حسب ضروریات وقت اجتہاد کرے اور اس کا اجتہاد واجب العمل ہے‘‘۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں ’’اصلاً تو یہ بات ٹھیک تھی۔ فی الحقیقت خلیفۂ وقت و ارباب حل و عقد اصحاب شوریٰ کو ہر عہد و دور میں حق اجتہاد حاصل ہے اور اسی کے سد باب نے اسلام کے تمام مصائب کی بنیاد ڈالی۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ اکبر بالکل مذہب سے بے خبر تھا اور اس کے مشیروں کا رنگ دوسرا تھا۔ نتیجہ یہ نکلتا (اور نکلا) کہ پادشاہ کی امامت و اجتہاد بے قیدی و الحاد کا ایک محکم ذریعہ بن جاتی اور بالآخر بنی۔ اس لیے ضروری تھا کہ علمائے حق کو اس محضر کے قبول کرنے میں سخت تامل ہو‘‘۔ تذکرہ کے مطابق شیخ جمال الدین مدت العمر دربار شاہی کے علائق سے کنارہ کش رہے اور علم حق کی عزت کو متاع دنیا کے معاوضے میں تاراج کرنا گوارا نہ کیا۔ جب دیکھا کہ زمانے کی حالت دگر گوں ہو گئی ہے اور وقت کی حکومت دنیا سازوں اور دین بازوں کے قبضے میں چلی گئی ، حتیٰ کہ گوشہ نشینوں کے لیے بھی امن باقی نہ رہا تو ترک وطن پر آمادہ ہو گئے اور ہندوستان ہی کو چھوڑ دیا۔
اس کے ساتھ ہی مولانا آزاد یہ بھی لکھتے ہیں ’’یہی صورت حال آج بھی درپیش ہے۔ مذہب کے دکانداروں نے جہل و تقلید اور تعصب و ہوا پرستی کا نام مذہب رکھا ہے اور روشن خیالی و تحقیق جدید کے عقل فروشوں نے الحاد و بے قیدی کو حکمت و اجتہاد کے لباس فریب سے سنوارا ہے۔ نہ مدرسہ میں علم ہے، نہ محرابِ مسجد میں اخلاص اور نہ میکدے میں رندانِ بے ریا۔ ارباب صدق و صفا ان سب سے الگ ہیں اور سب سے پناہ مانگتے ہیں‘‘۔ مولانا آزاد نے یہ سطور آج سے تقریباً سو سال قبل لکھی تھیں اور آج بھی اس صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ آج بھی مذہب کے دکانداروں اور مسلک کے ٹھیکیداروں نے پوری ملت کو مختلف خانوں میں بانٹ رکھا ہے تاکہ ان کا حلوہ مانڈا چلتا رہے اور ارباب صدق و صفا ان سے پناہ مانگتے ہیں۔
بہر حال یوں تو یہ تصنیف ایک خاندان کا تذکرہ ہے لیکن در اصل مختلف شخصیات کے حوالے سے یہ تاریخ کی ایک کتاب بھی ہے۔ اس کتاب میں مولانا کا انداز تحریر انتہائی عالمانہ و فاضلانہ ہے اور جگہ جگہ عربی اور فارسی کے اور کچھ اردو کے ایسے برجستہ اشعار استعمال کیے گئے ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ پتہ نہیں ان کو سیکڑوں کی تعداد میں اشعار کیسے یاد رہتے تھے اور وہ کیسے ان کا بر محل استعمال کرتے تھے۔ غبار خاطر میں بھی انھوں نے بے شمار اشعار کا استعمال کیا ہے اور تذکرہ میں بھی۔ تذکرہ میں بعض مقامات پر انتہائی بھاری بھرکم اور بوجھل اور فارسی آمیز تحریر بھی لکھی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ’’اور یہ معاملہ صرف شیخ عماد الدین واسطی ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ امام ابن تیمیہ کے برکاتِ امامت و وراثتِ کاملہ نبوت کے اس فیضانِ جاری وساری کا ان کے تمام معاصرین محققین نے خصوصیت کے ساتھ اعتراف کیا ہے اور آج بھی ان کے علوم معارف سنت کے اس خاصہ عظیمہ کا ہر وہ شخص اور جماعت تجربہ کر سکتی ہے جو شک کی بیماریوں سے مایوس اور یقین کی محرومیوں سے لبِ مرگ ہو اور جس کو حدیثِ نفس اور وہمِ خاطر و فاتر کے زخموں نے چور چور کر دیا ہو‘‘۔
جب مولانا نے اپنے والد کے حالات قلم بند کر لیے تو فضل الدین نے اندازہ لگایا کہ اب وہ اپنے حالات لکھیں گے۔ لیکن پھر خاموشی چھا گئی۔ ان کے بقول ’’جب انھوں نے اپنے والد ماجد کے حالات بھی ختم کر دیے تو اب میں منتظر ہوا کہ حسب وعدہ اپنے حالات لکھنا شروع کریں گے۔ لیکن اس کے بعد بالکل خاموشی رہی اور کچھ عرصہ کے بعد پھر وہی عذرات کیے گئے جو پہلے بارہا ہو چکے تھے۔ جب میں نے پھر لگاتار اصرار شروع کر دیا تو بیس صفحوں میں ایک فصل لکھ کر بھیج دی اور لکھا کہ اس سے زیادہ میں اپنا حال نہیں لکھ سکتا۔ اس کو دیکھا تو اس میں کوئی بات ایسی نہ تھی جس پر حالات کا اطلاق ہو سکے۔ البتہ اپنے مخصوص طرز میں کچھ اشارات کیے ہیں اور پھر شاعرانہ پیرائے میں بات ٹال دی ہے‘‘۔ لیکن راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ شاعرانہ باتیں محض باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ پورا حصہ کسی انتہائی قیمتی ادبی شہ پارے سے کم نہیں ہے جس کو پڑھ کر خوبصورت انشائیے کا مزا آ جاتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ ایک میں مولانا کے خاندانی حالات اور علمی بحثیں اور دوسرے میں ان کے اپنے حالات ہیں جو انہوں نے شاعرانہ انداز میں رقم کیے ہیں۔
غبار خاطر میں جو ادبی چاشنی ہے وہی تذکرہ کے اس حصے میں بھی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کتاب کے دونوں حصوں میں الگ الگ اسلوب تحریر اختیار کیا ہے۔ آخری حصے میں انھوں نے اشاروں کنایوں میں گفتگو کی ہے اور واقعات پر ادبی جملوں کے زرنگار پردے ڈال دیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان پردوں سے چھن چھن کر بہت سے حقائق سامنے آ جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی محبوب چلمن کے پیچھے کھڑا ہے وہ نہ تو پوری طرح چھپ رہا ہے اور نہ ہی پوری طرح بے پردہ ہو رہا ہے۔ یہ باریک سی خوبصورت چلمن مولانا کے حسن تحریر کی ہے جو انتہائی جاذب نظر اور پر کشش ہے۔ اس کے علاوہ شاعرانہ طرز بیان میں علم و حکمت کی بہت قیمتی باتیں بھی پوشیدہ انداز میں پیش کر دی گئی ہیں۔ شگفتہ جملوں نے ایسا سماں باندھا ہے کہ تحریر میں بے پناہ لذت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ پورا حصہ انشا پردازی کا ایک اعلیٰ نمونہ بھی ہے جسے آسانی سے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا آزاد نے جس خوبصورت انداز میں بات شروع کی ہے اس کی داد نہ دینا کم ظرفی، بے ادبی اور بد ذوقی ہوگی۔ ملاحظہ فرمائیں ایک اقتباس ’’جتنی زندگی گزر چکی ہے گردن موڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک نمودِ خاطر سے زیادہ نہیں اور جو کچھ سامنے ہے وہ بھی جلوہ سراب سے زیادہ نظر نہیں آتا۔ قلمِ درماندہ تذکرہ و نگارش سے عاجز، اور فکرِ گم گشتہ حیرانِ اظہار و تعبیر۔ اپنی سرگذشت اور روئیدادِ عمر لکھوں تو کیا لکھوں؟ ایک نمودِ غبار اور جلوۂ سراب کی تاریخِ حیات قلم بند ہو تو کیونکر ہو؟ دریا میں حباب تیرتے ہیں، ہوا میں غبار اڑتے ہیں۔ طوفان نے درخت گرا دیے، سیلاب نے عمارتیں بہا دیں۔ عنکبوت نے اپنی پوری زندگی تعمیر میں بسر کر دی۔ مرغِ آشیاں پرست نے کونے کونے سے چن کر تنکے جمع کیے۔ خرمن و برق کا معاملہ، آتش وخس کا افسانہ، ان سب کی سرگذشتیں لکھی جا سکتی ہیں تو لکھ لیجیے۔ میری پوری سوانح عمری انہی میں مل جائے گی۔ نصف افسانہ امید اور نصف ماتمِ یاس‘‘۔
اس طرح مولانا نے اپنے حالات قلم بند کرنے سے قبل دنیا کی بے ثباتی پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے بڑے ہی لطیف پیرائے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جسے قلم بند کرنا ضروری ہو یا جسے دنیا کے سامنے لانا مفید ہو۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی پچیس سالہ زندگی کے واقعات پر دلچسپ پیرایۂ بیان میں روشنی ڈالی ہے۔ (یاد رہے کہ یہ کتاب جس وقت لکھی گئی تھی مولانا کی عمر بقول فضل الدین پچیس سال تھی) ۔ مولانا آزاد کی زندگی یقیناً اتار چڑھاؤ سے بھرپور رہی ہے۔ ان کی طبیعت نے جس طرف آمادگی ظاہر کی انھوں نے اپنی زندگی کی باگ اسی جانب موڑ دی۔ اس راہ میں عشق و عاشقی کی دلچسپ داستانیں بھی ہیں اور موسیقی ریز ایام کی سرگذشت بھی ہے۔ جام و سبو کا تذکرہ بھی ہے اور دنیاوی خواہشات و لذات کا افسانہ بھی ہے۔ انھوں نے اپنے کسی شوق کو تشنہ نہیں چھوڑا۔ طبیعت جس کام پر مائل ہو گئی اس کو پورا کر کے ہی چھوڑا۔ جبھی تو کہتے ہیں ’’آنکھیں کھلیں تو عہد شباب کی صبح ہو چکی تھی اور خواہشوں اور ولولوں کی شبنم سے خارستانِ ہستی کا ایک ایک کانٹا پھولوں کی طرح شاداب تھا۔ اپنی طرف دیکھا تو پہلو میں دل کی جگہ سیماب پایا‘‘۔ پھر تو مولانا نے اس سیماب کی کوئی بات نہیں ٹالی، اس کی ہر خواہش پوری کی، اس کا ہر ناز اٹھایا۔ لیکن جب دنیا کی بے ثباتی کا کشف ہوا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک الگ راہ اختیار کر لی اور وہ راہ تھی عشق و عرفان کی۔ عشق مجازی نہیں بلکہ عشق حقیقی کی راہ۔
وہ لکھتے ہیں ’’ناگہاں جذبۂ توفیقِ الٰہی پردۂ عشقِ مجاز میں نمودار ہوا اور ہوس پرستی کی آوارگیوں نے خود بخود شاہراہِ عشق و محبت تک پہنچا دیا۔ آگ لگتی ہے تو رفتہ رفتہ شعلے بھڑکتے ہیں، سیلاب آتا ہے تو بتدریج پھیلتا ہے۔ یہ تو ایک بجلی تھی جو آناً فاناً نمودار ہوئی، چمکی اور دیکھا تو خاک کا ڈھیر تھا‘‘۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ اصل میں منزلیں تین ہی ہیں ہوس، عشق، حقیقت۔ مولانا آخری منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں پوشیدہ حقیقتیں علم و عرفان کے روزن سے اندرونِ ذات میں داخل ہو کر انسان کی ہستی کو تہ و بالا کر دیتی ہیں اور اس کے اندر ایک ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے جو کسی بھی تدبیر سے سرد نہیں ہوتی، سرد کرنے کی کوششیں سرد پڑ جاتی ہیں مگر شعلے بھڑکنا بند نہیں ہوتے۔ مولانا آزاد ایسی ہی کیفیات سے دوچار تھے اور وہی دنیا جو غفلت و لاپروائی کا منظرنامہ پیش کرتی تھی حقائق کا محضر نامہ بن کر سامنے آ گئی۔ ہشیاری دیوانگی میں بدل گئی اور دل کا ویران گوشہ ایک بار پھر بہارستان میں تبدیل ہو گیا۔ لیکن اس بار مجاز نے نہیں حقیقت نے دستک دی تھی اور اس حقیقتِ منتظر نے ان کی دنیا ہی بدل دی۔
ایک اور اقتباس ملاحظہ فرمائیں جو اگر چہ طویل ہے لیکن مولانا آزاد کی دلی کیفیات اور جذب و شوق کا اندازہ لگانے کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ ’’وہی دنیا جس کے میکدہ خود فراموشی نے جام لنڈھائے تھے، اپنے ہر جلوہ سے آنکھوں کو، اپنے ہر نغمہ سے کانوں کو سرمستی وسرشاری کی پیہم دعوتیں دی تھیں، اب اس کا کونہ کونہ چپہ چپہ ہشیاری و بینش کا مرقع تھا۔ بصیرت و معرفت کا درس تھا۔ ذرے ذرے کو گرم گفتار پایا۔ پتّے پتّے کو مکتوب ومسطور دیکھا۔ پھولوں نے زبان کھولی، پتھروں نے اٹھ اٹھ کر اشارے کیے۔ خاکِ پامال نے اڑ اڑ کر گہر افشانیاں کیں۔ آسمانوں کو بارہا اترنا پڑا تاکہ سوالو ں کے جواب دیں۔ زمین کو کتنی ہی مرتبہ اچھلنا پڑا تاکہ فضائے آسمانی کے تارے توڑ لائے۔ فرشتوں نے بازو تھامے کہ کہیں لغزش نہ ہو جائے۔ سورج چراغ لے کر آیا کہ کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے۔ سب نے نقاب اتار دیے۔ سارے پردے چھلنی ہو گئے۔ سب کی ابروؤں میں اشارے تھے۔ سب کی آنکھوں میں حکایتیں بھری تھیں۔ سب کے ہاتھ بخشش و قبولیت کے لیے دراز تھے۔ بادل کو پکڑا تو سازِ ہستی کا طنبورہ نکلا۔ بجلی کو پاس بلایا تو لب ہائے راز کا ایک تبسمِ آشکارا نکلی۔ ہوا کے جھونکے مٹھیوں میں آ گئے مگر پھر بھی خالی رہیں۔ سمندر نے اپنی ساری موجیں خرچ کر دیں مگر ہاتھ کا پیالہ نہ بھرا … جب کبھی آنکھیں بند کیں تماشے دیکھے۔ جب کبھی کان بند ہوئے صداؤں اور نواؤں سے بھر گئے۔ سورج نے کہا دو لاکھ میل دور ہوں، قطبِ شمالی سے روشنی اتری اور بولی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ نوے ہزار میل طے کرتی ہوں۔ مگر آنکھوں نے کہا یہ تو تارِ نگاہ کی پہلی منزل ہے اور دل ہنسا کہ اپنا پیامِ محبت جب شوق کے پروں پر اڑتا ہے تو بھلا روشنی کی لنگ پائی کب اس کا ساتھ دے سکتی ہے۔ غرض کہ ہمتِ خوابیدہ جاگ اٹھی اور دلِ رفتہ پھر نئی نئی طاقتوں اور نئے نئے سامانوں کے ساتھ واپس آ گیا‘‘۔
بتائیے جب مولانا آزاد اس کو اپنے حالات زندگی بتا رہے ہیں تو بھلا ان کے دوست کو کیونکر یقین آئے اور ان کا دل کیسے باور کرے کہ یہ مولانا کی سوانح حیات ہے۔ یہ تو ہر اس شخص کی سوانح حیات ہے جس پر دنیاوی بے ثباتی واضح ہو جائے اور کائنات کی حقیقتیں آشکارا ہو جائیں اور جو بڑی بڑی ریاستوں اور سلطنتوں کے عوض دردِ دل خرید نے کے لیے تیار ہو جائے۔ اسی لیے فضل الدین نے لکھا ہے کہ مولانا نے جو کچھ بیس صفحات میں لکھ کر بھیجا وہ سوانح نہیں تھی شاعرانہ گفتگو تھی۔ لیکن یہ شاعرانہ گفتگو انتہائی بیش قیمت ہے جو کسی ادب پارے سے کم نہیں ہے۔ اس معرکۃ الآرا تصنیف ’’تذکرہ‘‘ میں بہت کچھ ہے اور اس کا تذکرہ ’’تذکرہ در تذکرہ‘‘ ہو سکتا ہے۔ لیکن تنگ دامانی قرطاس اجازت نہیں دیتی کہ مزید اظہار خیال کیا جائے۔ جو کچھ راقم نے لکھا ہے وہ بھی اشاروں کنایوں ہی میں لکھا ہے ورنہ ’’تذکرہ‘‘ کے تذکرہ کے لیے تو پورا دفتر چاہیے۔
٭٭٭
بہترین مضمون اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھیں