رشتوں کی تراش ۔۔۔ ڈاکٹر شائستہ فاخری

 

 

برسات کی شام جتنی خوشگوار ہوتی ہے اکثر کمرے کے اندر کی زندگی اتنی ہی گھٹن بھری ہو جاتی ہے۔ کم سے کم مس زرین ناڈیاولا کا سوچنا یہی تھا۔ اس لئے جب ایسی شام میں ان کی سانسیں گھٹنے لگتیں، جی گھبرانے لگتا، کمرے کی تنہائی کاٹنے لگتی، پیارا چھوٹا سا گھر اجنبی ہو جاتا، تو وہ اپنی چار پہیئے کی گاڑی نکال کر بے مقصد سڑکوں پر گھوما کرتیں۔ دیکھنے والے کہانیاں گڑھتے، پھبتیاں کستے، بے وجہ ان کو دیکھ کر ہنسنے لگتے اور وہ سب سے بے پروا تیز میوزک لگائے، گاڑی کا شیشہ کھولے، رم جھم پھواروں سے لطف اٹھایا کرتیں اور تیز اسپیڈ میں سڑکوں پر اپنی گاڑی دوڑایا کرتیں۔ مگر آج برسات کی اداس شام ہونے کے باوجود وہ اداس نہیں تھیں۔ گھر سے باہر بھی نہیں نکلی تھیں۔ بلکہ کھڑکی اور دروازے کے پردے کھسکا کر لانگ چیئر پر جھولتی، بارش کا نظارہ دیکھتی، آہستہ آہستہ کافی کا سپ لے رہی تھیں۔

آج ایک لمبی جد و جہد کے بعد انھیں کامیابی ملی تھی۔ حالانکہ وہ چاہتیں تو ایک دن میں وارا نیارا کر سکتی تھیں مگر نہ جانے کیوں انہیں یعقوب صاحب سے ہمدردی تھی اس لئے وہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ آخر دونوں کی رضا مندی سے لین دین کا سودا ہوا تھا۔ بچولیا بھی شریف آدمی تھا۔ ایسے میں مسز زرین چاہتے ہوئے بھی سخت نہیں ہو سکیں۔

اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ ’’ہلو‘‘ مس زرین نے ریسیور اٹھایا۔

’’میں یعقوب بول رہا ہوں۔ مبارک ہو۔ سویرا آپ کا مقدر، اندھیرا میرا نصیب۔ زینی مجھے معاف کرے۔ آپ کی خاطر کل میں اس کا گھر ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں گا۔‘‘

مس زرین جھنجھلا اٹھیں۔ عجیب سر پھرا آدمی ہے۔ یہ نفسیاتی مریض معلوم ہوتا ہے۔

’’ہیلو‘‘ دوسری طرف کی خاموشی سے یعقوب کی گھبرائی ہوئی آواز آئی۔

’’آپ کی باتیں مجھے الجھن میں ڈال دیتی ہیں۔ اگر آپ کو اپنے گھر سے، اپنی زینی سے اتنا گہرا لگاؤ ہے تو آپ نے اسے فروخت ہی کیوں کیا؟ میں کوئی دوسرا گھر خرید لیتی۔‘‘ اس نے اپنی خاموشی توڑی۔

’’نہیں نہیں میڈم، آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ مجھے یہ گھر بیچنا ہی تھا۔ میں یہاں جی نہیں سکتا تھا۔ اس جینے اور مرنے کے درمیان پانچ سال گزر چکے ہیں۔ میری ہمت جواب دے رہی ہے، میں اور نہیں سہہ سکتا۔ آپ نہ خریدتیں تو کوئی دوسرا خریدار بنتا۔‘‘

’’مجھے آپ سے ہمدردی ہے یعقوب صاحب۔ مگر مجبوریاں وہ نہیں کرنے دیتیں جو ہم چاہتے ہیں۔‘‘

’’تو کل ہم لوگ ساتھ چائے پیتے ہیں، پھر آپ اپنے راستے، میں اپنے راستے۔‘‘

’’چائے ہی کیوں ہم لوگ ساتھ ساتھ ناشتہ بھی کریں گے پھر جدا ہوں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، خدا حافظ۔‘‘

مس زرین نے اطمئنان کی گہری سانس لے کر ریسیور رکھ دیا۔

ایک مہینہ گزر گیا جب تمام لکھا پڑھی اور روپیوں کے لین دین کے بعد دونوں نے اپنے گھر ایک دوسرے کو بیچے تھے۔ وجہ دونوں کی الگ الگ تھی۔ مگر مقصد ایک تھا۔ صرف تبدیلی۔

جہاں مس زرین بغیر وقت گنوائے اپنے نئے گھر میں شفٹ ہونا چاہتی تھیں، وہیں یعقوب صاحب اپنے آپ کو اپنے گھر سے الگ نہیں کر پا رہے تھے۔

مس زرین کے لئے یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ جب یعقوب صاحب اپنے گھر سے اتنی محبت کرتے تھے تو اسے بیچا ہی کیوں؟ وہ جتنا سوچتی، اتنا ہی الجھتی جاتی، پھر جھنجھلا کر انھوں نے سوچنا ہی بند کر دیا۔

ادھر یعقوب صاحب ریسیور رکھ کر سسک اٹھے۔

’’زینی یہ مت سمجھنا کہ میں تم سے بچنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہا ہوں۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں، بے تحاشہ محبت۔ مذہب اجازت دیتا تو اس وقت میں تمہارے پاس ہوتا۔ زینی تمہاری یاد مجھے جینے نہیں دیتی۔ میں یہاں سے بھاگ رہا ہوں۔ دور جا رہا ہوں، مگر جانتا ہوں یادیں بھلائی نہیں جاتیں، بہلائی جاتی ہیں۔ بس یہ سمجھو تمہاری یادوں کو بہلانے کے لئے میں تمہارا گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔‘‘

ساری رات یعقوب صاحب غموں کے اندھیرے میں ڈوبتے ابھرتے رہے اور پھر جب رات ضرورت سے زیادہ لمبی لگنے لگی تو وضو کر کے جائے نماز پر بیٹھ گئے۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا تو نیچے آیا ہی نہیں۔ دھیرے دھیرے رات گزرتی رہی، وہ خدا کو یاد کر رہے تھے یا زینی کی یاد میں ڈوبے تھے، یہ ان کے سوا کون جان سکتا تھا۔ بہرحال رات گذر گئی۔ سویرا ہو گیا۔ جسمانی تھکن سے زیادہ ذہنی طور پر تھکے ہوئے یعقوب صاحب جائے نماز سے اٹھ آئے۔ کھڑکی کا پردہ کھسکایا، سورج کی نرم روشنی کمرے میں آنے لگی۔ وہ منہ دھونے اورفریش ہونے کے لئے واش بیسن کے پاس پہنچے۔ زینی کے ہاتھوں لگایا ہوا چھوٹا سا آئینہ واش بیسن کے اوپر لگا تھا، جسے انھوں نے جان بوجھ کر نہیں اتارا تھا۔ انھوں نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی۔ آدھے سے زیادہ سفید بال، چہرے پر ابھری ہوئی گذرتے وقت کی لکیریں، حالات کی جھریوں میں غمگین چہرہ، سوجی آنکھیں، ان کو اپنے آپ پر رحم آنے لگا۔ پچاس سال کی عمر بھی کوئی عمر ہے۔

زینب جہاں، ان کی شریک حیات، جسے وہ پیار سے زینی کہتے تھے۔ بیس سال کی خوشگوار ازدواجی زندگی انھوں نے گزاری تھی ان کے ساتھ۔ زینی سے پہلے وہ عورت کی اے بی سی ڈی سے بھی واقف نہیں تھے۔ مگر جب جانا تو لگا، یہ دنیا ادھوری ہے عورت کے بغیر۔ آج وہ ادھورے تھے، حالانکہ ان کی محبت کی نشانی ان کا بیٹا فرحان ان کے غم میں برابر کا شریک تھا۔ مگر افسوس اس کی مجبوری اسے روزگار کے لئے غیر ملک لے گئی، پھر اس کے اپنے بیوی اور بچے۔

یعقوب صاحب نے ایک گہری سانس لی۔ اکیلے آدمی کا ساتھی صرف اس کا اکیلا پن ہوتا ہے۔ پانچ سال پہلے کینسر کی گانٹھ نے زینی کو موت کے حوالے کر دیا تھا اور وہ جیتے جی مر گئے تھے۔

ایک لمبی ذہنی لڑائی کے بعد انھوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ زینی کی یاد سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس گھر کو چھوڑ دیا جائے کہ یہاں کے ذرے ذرے میں زینی کا لمس ہے۔ نہ جانے کتنی راتیں ایسی گزری ہیں کہ جب وہ اس لمس کو محسوس کرنے کے لئے در و دیوار پر اپنی انگلیاں پھیرتے رہے اور ہونٹوں سے بوسہ دیتے رہے۔ جانے والا چلا جاتا ہے بچتی ہیں تو محض اس کی یادیں۔ یار دوستوں کے بہت سمجھانے پر انھوں نے گھر بیچنے کا ارادہ پکا کر لیا، ہاں مگر دوسری شادی کے لئے وہ راضی نہ ہوئے۔

مس زرین ناڈیاوالا رحم دل عورت تھیں۔ ساری کاغذی کاروائی اور پیمنٹ کے بعد بھی انھوں نے یعقوب صاحب کے گہرے لگاؤ کو دیکھتے ہوئے گھر میں ایک مہینہ اور رہنے کی اجازت دے دی تھی۔

اچانک کال بیل بجی۔ نہ جانے کیوں انھیں مس زرین سے چڑ سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑے رہے۔ کال بیل دوبارہ بجی۔ انھوں نے بے دلی سے دروازہ کھول دیا۔

’’یعقوب صاحب، میں آ گئی۔‘‘

’’آئیے آئیے، میں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا۔‘‘

’’جھوٹ، بالکل جھوٹ، یعقوب صاحب! اگر ایسا ہوتا تو پہلی بیل پر ہی آپ دروازہ کھول دیتے۔‘‘

بات ہلکی پھلکی تھی، مگر یعقوب صاحب جھنجھلا اٹھے۔ انھیں لگا کہ مس زریں جان بوجھ کر ان کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ رہی ہیں۔ چہرے پر ناگواری چھا گئی۔

مس زرین ماحول کو بوجھل نہیں بنانا چاہتی تھیں۔ ایک اچٹتی نگاہ ان کے چہرے پرڈال کر بولیں۔

’’دیکھئے میں آپ کے لئے چائے اور وائے دونوں ساتھ لے کر آئی ہوں۔ پنیر کے سینڈوچ میں نے خاص طور سے آپ کے لئے بنائے ہیں۔ آئیے شروع کیا جائے۔ کیونکہ میری عادت صبح صبح اٹھنے کی ہے اور یہ وقت میرے ناشتے کا ہو گیا ہے۔‘‘

یعقوب صاحب کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے بولے۔

’’لگتا ہے آپ گھڑی کے حساب سے زندگی جیتی ہیں۔‘‘

’’جی نہیں میں گھڑی کی سوئیوں کو مٹھی میں دبا کر زندگی جیتی ہوں۔‘‘

’’اگر آپ برا نہ مانیں تو میں ایک ذاتی سوال کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’جب میں آپ کے ساتھ چائے پی سکتی ہوں تو آپ کی ناگوار باتوں کو بھی برداشت کر سکتی ہوں۔‘‘

’’آپ اتنی خوش مزاج عورت ہیں، پھر آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟‘‘

’’کس نے کہا کہ میں نے شادی نہیں کی۔‘‘

’’ارے! آپ کے بارے میں تو لوگ یہی کہتے ہیں۔‘‘

’’لوگ کہتے ہیں، اور میں ان باتوں کی صفائی نہیں دیتی، جو لوگ کہتے ہیں۔‘‘

’’پھر آپ تنہائی کا عذاب کیوں اٹھائے ہوئے ہیں؟‘‘

’’کون کہتا ہے کہ میں عذاب میں جی رہی ہوں۔ ہاں اگر مسٹر رانگ کے ساتھ جیتی تو ضرور عذاب میں ہوتی۔‘‘

’’چلئے ناشتہ کرتے ہیں، میں اور زیادہ تفصیل نہیں جاننا چاہتا۔‘‘

ہلکی پھلکی باتوں کے درمیان ناشتہ ختم ہوا۔ رسمی بات چیت ہوئی اور یعقوب صاحب خدا حافظ کہہ کر گھر سے باہر نکل گئے۔ مس زرین دروازے تک ان کو چھوڑ کر واپس آ گئیں۔ کچھ دیر کے لئے وہ کرسی پر ڈھہ سی گئیں۔

’’آج میں اپنے اس نئے گھر میں آرام کروں گی۔ گھر کے آس پاس کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کروں گی اور کل سے گھر کو اپنے حساب سے سجاؤں گی۔‘‘

مس زرین گرلس ڈگری کالج میں سائکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں لکچرار تھیں۔ یوں تو ان کے نام کے پہلے ڈاکٹر لگا ہوا تھا مگر انھیں مس کہلوانا زیادہ پسند تھا۔ جاننے والے لوگ انھیں شوقین مزاج کہتے تھے مگر سچ یہ تھا کہ وہ زندگی کو شوق سے جینے کا حوصلہ رکھتی تھیں۔

ایک وقت تھا جب ان کے مذہبی رجحان کو دیکھتے ہوئے ان کی ماں اکثر انہیں پیار سے مریم کہہ کر پکارتی تھیں، مگر یہ گزرے دور کی بات ہو گئی۔ اب نہ ماں باپ تھے، نہ ماں باپ کی محفوظ چہار دیواری۔ مسٹر رانگ سے شادی کے بعد اپنا شہر بھی چھوٹ گیا۔ ایک غلط فیصلے نے سب کچھ ختم کر دیا۔ زندگی نے ایسی کروٹ بدلی کہ چھوئی موئی سی نازک سی گڑیا جیسی زرین کا سب کچھ ہی بدل گیا۔ نئے سانچے میں ڈھلی تو لوگ انہیں مس زرین ناڈیاوالا کے نام سے جاننے لگے۔ حالانکہ ناڈیاوالا سر نیم نہ ان کے ماں باپ کا تھا، نہ شوہر کا۔ یہ تو محض خود کو بدل دینے کی ضد تھی۔ پرانی پہچانوں کو کھو دینے کا خود سے کیا گیا ایک قرار تھا۔

کچھ دیر گھر میں چہل قدمی کرنے کے بعد وہ چھت پر آ گئیں۔ بھیڑ والا علاقہ، نیچے مارکیٹ کی گہما گہمی، سٹی ہوئی چھوٹی بڑی دوکانیں اور ملی ہوئی ایک دوسرے کے گھروں کی چھتیں۔ حالانکہ ان کا گھر الگ تھا۔ زیادہ تر مسلم آبادی تھی۔ گھر لیتے وقت لوگوں نے منع بھی کیا، مگر انھوں نے ان باتوں کو سنا ان سنا کر دیا۔ سچائی یہ تھی کہ وہ پاش علاقے کی تنہا تنہا زندگی سے اوبی ہوئی تھیں اور تبدیلی چاہتی تھیں۔

کہاں تک پیڑ پودوں کی ہریالی سے دل لگایا جائے۔ پرندوں اور جانوروں کی زندگی کو کتنا کھنگالا جائے۔ کتنی دیر تک آسمان پر بادلوں کی بنتی بگڑتی تصویروں میں زندگی کی کہانیاں تلاشی جائیں۔ بہر حال تھیں تو وہ ایک انسان ہی۔ اس گھنے علاقے میں گھر لے کر وہ خوش تھیں۔ زندگی کے سارے رنگ وہ اس آبادی میں تلاش کر لینا چاہتی تھیں۔

اکثر جب وہ خالی ہوتیں تو انھیں یعقوب صاحب کا بھی خیال آنے لگتا۔ بے چارے حالات کے مارے ہوئے انسان۔ کتنے دنوں سے نہ وہ آئے، نہ کوئی فون آیا، پتہ نہیں کس حال میں ہیں۔ انھیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سر پھرے اور ڈھیلے ڈھالے انسان سے ہمدردی ہونے لگی۔ اس ہمدردی کے پیچھے شاید وجہ یہ بھی تھی کہ یعقوب صاحب کے بہانے وہ کہیں نہ کہیں خود کو اپنے پہلے والے گھر سے بھی جوڑ لیتیں۔ اپنے گھر کی وہی جانی پہچانی آہٹیں، وہاں کے در و دیوار، آب و ہوا انھیں بے چین کیا کرتی۔ بھیڑ بھرے علاقے میں آنے کے بعد انھیں احساس ہوا تھا کہ وہاں تو باہری طور پر اکیلی تھیں لیکن یہاں تو اندر سے بھی کھوکھلا پن انھیں محسوس ہونے لگا۔

پاش علاقے کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے ہوئے کسی کا دھیان ان کی طرف نہیں ہوتا تھا۔ وہ گھر میں کیا کر رہی ہیں، کیسے جی رہی ہیں، کن لوگوں سے مل رہی ہیں، کیوں مل رہی ہیں؟ کسی کی آنکھوں میں یہ سب سوال نہیں جھانکتے تھے۔ مگر یہاں تو ہر آنکھوں میں سوالوں کی جھڑی نظر آتی، ان کا گھر نہ ہوا کہانیوں کا ایک گڑھ ہو گیا۔ بے پر کی افلاطونی کہانیاں، کبھی کام والی کے ذریعہ، کبھی مہتر کے ذریعہ، کبھی دودھ والے یا پھر ہاکر کے ذریعہ۔ ان کے کان میں آوازیں آتی رہتیں۔ مگر جواب دینا یا صفائی دینا ان کی عادت میں شمار نہیں تھا۔ سنتے سنتے ان کا جی اب گھبرانے لگا تھا۔

اپنی ضدی طبیعت کی وجہ سے ایک دن وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ بس بہت ہو چکا۔ آج میں اپنے اس گھر میں ضرور جاؤں گی اور یعقوب صاحب سے کہوں گی کہ پھر سے کر لو ادلا بدلی۔ چاہو تو روپئے کاٹ کر ہی سہی میرا گھر مجھے لوٹا دو۔ میں یہاں نہیں جی سکتی۔

مس زرین نے آڑی ترچھی بھیڑ میں پھنسی ہوئی اپنی گاڑی نکالی اور تیزی سے اپنے اسی پرانے جانے پہچانے راستے پر دوڑا دی۔ کچھ ہی دیر میں وہ اپنے پرانے گھر کے سامنے کھڑی کال بیل بجا رہی تھیں۔ گھنٹی کی آواز وہی تھی جو انھوں نے لگوائی تھی۔ یعقوب صاحب نے بھی تو کال بیل اپنے گھر سے نہیں نکالی تھی۔

انھیں اپنے گھر کے بیل کی آواز اتنی پیاری اورمیٹھی لگی کہ دل چاہا کہ اگر یہ کوئی انسانی پیکر ہوتا تو وہ اس سے لپٹ جاتیں اور لپٹ کر جی بھر کر روتیں، جی بھر کر اپنے کو کوستیں کہ کیوں بیچا اپنا گھر، کیوں چھوڑا اپنا سکون، کیا ملا انھیں گھروں کی اس ادلا بدلی میں، کہیں گھر بدلنے سے انسان بدل جاتا ہے؟ انسان کی ضرورتیں بدل جاتی ہیں؟

اچانک مس زرین بری طرح سے گھبرا اٹھیں۔ انھیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب دروازہ کھلا اورکتنی دیر سے یعقوب صاحب حیرانی سے انھیں تکے جا رہے ہیں۔

’’میڈم آپ کہاں سوچ میں ڈوبی ہوئی ہیں؟ آئیے اندر آئیے۔‘‘

مس زرین اس طرح گھر میں گھستی چلی گئیں جیسے ابھی بھی اس گھر پر ان کا وہی حق ہوکہ جو پہلے تھا۔ سامنے رکھی ہوئی کرسی پر وہ اطمینان سے بیٹھ گئیں۔

’’ہاں کہئے کوئی خاص بات؟‘‘

مس زرین قدرے اپ سٹ ہو گئیں۔ کہیں تو کیا کہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو بولیں۔

’’بس! آپ کا حال چال نہیں ملا تو چلی آئی یہاں۔ اتنے دن ہو گئے آپ کو دیکھے ہوئے۔ آپ کو اپنا گھر بھی یاد نہیں آیا۔‘‘

یعقوب صاحب نے زور دار قہقہہ لگایا۔ کھوکھلی ہنسی کے ساتھ کھوکھلی بلند آواز۔ ایک عجیب سی ہنسی۔ چہرے پر پھیلی لکیریں گہری ہو گئی تھیں ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ زرین کو لگا یہ پانی نہیں، سرخ آنکھوں سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہوں۔

عورت کی نرم دلی جاگ اٹھی۔ وہ اپنی جگہ سے بے ساختہ اٹھیں اور یعقوب صاحب کے دونوں شانوں پر اپنے ہاتھ رکھ دئیے۔ یعقوب صاحب کو ایک جھرجھری سی محسوس ہوئی۔ نہیں! یہ لمس زینی کا تو تھا ہی نہیں اور نہ ہی ان کی اپنی پیاری بہن کا۔ یہ احساس تو ماں بھی نہیں جگا پائی تھی۔ کیا ہے مس زرین کے ہاتھوں میں۔

بے ربط ہنستے ہوئے یعقوب صاحب خاموش ہو گئے اور اس طرح صوفے پر بیٹھ گئے جیسے کوئی سدھا ہوا جانور اپنے رنگ ماسٹر کو دیکھ کر سیدھا ہو جاتا ہے۔

’’ہاں! اب بتائیے کیوں نہیں آئے آپ؟ زینی کی یادیں بھی کیا آپ کو اپنے گھر تک نہیں کھینچ سکیں؟‘‘

یعقوب صاحب نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں اس گھر کو بھلا بیٹھا ہوں۔ کوئی شام ایسی نہیں گزری جب میں اس گھر کے قریب سے نہ گزرا ہوں۔ میں یہاں بڑے ارمانوں سے آیا تھا کہ شاید سب کچھ بھلا کر چین سے جی سکوں گا مگر میرا خیال غلط نکلا۔ تنہائی میں جینا، تنہا جینے سے زیادہ مشکل ہے۔ اس بات کا احساس یہاں آ کر مجھے ہوا۔ وہاں میں اکیلے رہتے ہوئے بھی اکیلا نہیں تھا۔‘‘

مس زرین ہکا بکا سی منہ کھولے ان کا چہرہ تکتی رہ گئیں۔ انھوں نے سوچا کہ یہ آدمی کتنی سچی باتیں کہہ رہا ہے۔ انھیں پہلی بار یعقوب صاحب پر پیار آیا۔ بچوں جیسا پیار۔ باتوں میں بہلاتے ہوئے انھوں نے مٹھاس بھرے لہجے میں کہا ’’جانے دیجئے ان باتوں کو۔ چلئے چائے پیتے ہیں۔‘‘

’’ضرور، آپ بیٹھئے میں چائے بنا کر لاتا ہوں۔‘‘

’’آپ کیوں بنائیں گے، میں ہوں نا، میں خود بناؤں گی۔‘‘

’’اچھا نہیں لگ رہا ہے کہ آپ میرے گھر آئی ہیں، مہمان ہیں، میں بیٹھا رہوں اور آپ چائے بنائیں۔‘‘

مس زرین کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ ’’ارے بھئی میں اپنے گھر میں ہی تو ہوں، نیا نہ سہی پرانا سہی اور آپ بیٹھیں گے کیوں؟ آپ کو بھی ایک ضروری کام کرنا ہے۔‘‘

’’کون سا؟‘‘

’’ذرا آئینے میں اپنی شکل دیکھئے، میں صرف دس منٹ آپ کو دے رہی ہوں۔ جلدی سے اپنی داڑھی بنائیے، نہائیے اور پھر تیار ہو کر بالکنی پر آ جائیے، وہیں بیٹھ کر ہم لوگ چائے پئیں گے۔‘‘

ادھر یعقوب صاحب تیزی سے داڑھی بنا رہے تھے۔ اُدھر مس زرین اسی طرح کچن میں کھڑی ہو کر جلدی جلدی چائے بنانے کے ساتھ پکوڑیاں تل رہی تھیں جیسے وہ گھر کی مالکن ہوں۔ کریں بھی تو کیا کریں، ابھی تک وہ خود کو اس گھر سے الگ کر ہی نہیں پائی تھیں۔

چائے اور پکوڑیاں لے کر وہ بالکنی پر آ گئیں۔ وہاں رکھی ایک چھوٹی سی میز پر ٹرے رکھ کر خود ایک کرسی پر بیٹھ گئیں اور یعقوب صاحب کے آنے کا انتظار کرنے لگیں۔ اچانک آہٹ ہوئی۔ مس زرین نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو یعقوب صاحب کھڑے تھے۔ یعقوب صاحب کو دیکھتے ہی ان پر زور دار ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ کچھ دیر تک تو وہ گھبرائے رہے پھر خود بھی ہنسنے لگے۔ ہنستے ہنستے دونوں کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ پھر کسی طرح اپنے پر قابو پا کر مس زرین نے پوچھا۔

’’آپ کیوں ہنس رہے ہیں یعقوب صاحب؟‘‘

’’میں تو اس لئے ہنس رہا تھا کہ آپ ہنس رہی تھیں۔‘‘ جواب سن کر دونوں ایک بار پھر ہنس پڑے۔

’’ہنسی بھی کیا ٹانک ہے، دماغ کا سارا بوجھ اتر گیا، لگتا ہے کتنے ہلکے پھلکے ہو گئے۔‘‘

مس زرین کی بات سن کر یعقوب صاحب بولے۔ ’’مگر یہ تو بتائیے آپ ہنسی کیوں؟‘‘

’’آپ سے کس نے کہا کہ آپ چائے پینے کے لئے گرم ڈنر سوٹ پہن کر چلے آئیں۔ بارش نہ ہونے سے شدید امس ہے اور آپ ہیں کہ۔۔۔‘‘ مس زرین پھر ہنسنے لگیں۔

’’آپ نے کہا تھا کہ نہا کر جلدی سے تیار ہو کر آئیے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا پہنوں۔ یہ سوٹ پہنے برسوں ہو گئے تھے بس دل چاہا تو یہی پہن لیا۔‘‘

’’بالکل ٹھیک کیا آپ نے۔‘‘ یہ ہمارے اس گھر کی ہی دین ہے کہ آپ کا دل چاہا اور آپ نے پہن لیا۔ اگر یہ سوٹ آپ اپنے پرانے علاقے میں پہن کر نکلے ہوتے تو جانتے ہیں لوگ کیا کہتے؟‘‘

’’پاگل‘‘ یعقوب صاحب نے بے ساختہ کہا۔

ایک بار پھر دونوں ہنسنے لگے۔

’’چلئے مس زریں چائے پیتے ہیں اور پکوڑیاں کھاتے ہیں۔‘‘

’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔‘‘

دونوں بات چیت کرتے ہوئے چائے اور پکوڑیاں کھانے لگے۔ تبھی ہلکی گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہو گئی۔

’’مس زرین میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں ان بارش کی لڑیوں کو مٹھی میں پکڑ کر آسمان میں اڑ جاؤں۔ بادلوں کو چوم لوں، چاند تارے توڑ لوں اور پھر۔۔۔ اور پھر۔۔۔‘‘

’’ٹھیک ہے آپ اُڑتے رہئے اور میں پلیٹ میں بچی ہوئی پکوڑیاں ختم کئے دیتی ہوں۔‘‘

یعقوب صاحب نے ہنستے ہوئے پھر پکوڑیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور دھیمے سے بولے۔ ’’میں اتنا بیوقوف بھی نہیں ہوں۔‘‘

’’کتنا اچھا لگ رہا ہے یہ سب کچھ، ہم دونوں میں کوئی رشتہ نہیں ہے پھر بھی کتنا اپناپن ہے اس ملنے میں۔ ہم یہی تو تلاشتے ہیں اپنوں میں۔ مگر کیا ہمیں مل پاتی ہے وہ مٹھاس، وہ اپنا پن۔‘‘

مس زرین کی بات سن کر یعقوب صاحب نے ایک گہری سانس لی۔ ’’اور اگر مل بھی جاتا ہے سب کچھ تو کتنی دیر کے لئے؟ یہ بھی اپنا اپنا نصیب ہے۔‘‘

’’یعقوب صاحب سمجھداری اسی میں ہے کہ جو مل جائے اسے سمیٹ لیں، جو کھو جائے اسے بھول جائیں۔‘‘

اچانک مس زرین کی نگاہیں گھڑی کی سوئی کی طرف گئی۔ ’’رات کے دس بج گئے اور بات چیت میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔‘‘

’’آپ کھانا کھائے بغیر نہیں جا سکتیں، میں اپنے مہمانوں کو گھر سے بھوکا نہیں جانے دیتا۔‘‘

’’اچھا تو پھر میری بھی ایک شرط ہے۔ کھانا ہم دونوں مل کر پکائیں گے۔ شرط منظور؟‘‘

’’منظور‘‘ دونوں ہنستے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئے اور مل کر کھانا پکانے لگے۔

کھانا کھانے کے بعد مس زرین جانے کے لئے اٹھیں تو رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ پانی ابھی برس رہا تھا۔

’’اتنی رات گئے اور وہ بھی برستے ہوئے پانی میں، کسی اپنے کو اکیلا بھیجنا کیا اچھا لگتا ہے؟‘‘یعقوب صاحب نے سوچا۔ پھر وہ اچانک مس زرین سے مخاطب ہوئے۔

’’مس زرین کیا ایسا نہیں ہو سکتاکہ آج کی رات آپ اپنے اسی پرانے گھر میں ٹھہر جائیں۔ میں تو ڈرائنگ روم میں ہی سوتا ہوں۔ آپ کا بیڈ روم ابھی تک خالی پڑا ہے۔ آپ وہیں چلی جائیے۔‘‘

مس زرین تھوڑا ہچکیں، تھوڑا ٹھٹھکیں، پھر بھرپور نظروں سے یعقوب صاحب کو دیکھا۔ یعقوب صاحب کی سونی سونی آنکھوں میں کوئی طلب نہ تھی، انھیں اطمئنان ہوا۔

چند لمحوں بعد دونوں اپنی اپنی جگہ لیٹے تھے۔ دونوں کے چہروں پر گہرا سکون تھا اور ہونٹوں پر ایک سوچتی ہوئی مسکراہٹ۔ شاید دونوں کچھ ایک ہی جیسی کوئی بات سوچ رہے تھے۔

کیا اپنوں سے پرے بھی رشتے تراشے جا سکتے ہیں۔ ایسے رشتے جو کسی پہچان کا محتاج نہیں ہوتے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے