اچھی نثر کی خصوصیات ۔۔۔ رؤف خیر

        میرے خیال میں نثر لکھنا غزل کہنے سے زیادہ مشکل ہے۔ کیوں کہ غزل میں قافیہ و ردیف کے سہارے خوش آہنگی پیدا ہوہی جاتی ہے اور ہر شعر کا کچھ نہ کچھ مطلب نکالا ہی جا سکتا ہے جب کہ نثر وضاحت اور منطقی جواز سے عبارت ہوتی ہے۔ ایک شعر کے کئی معنے نکالے جا سکتے ہیں یہی سبب ہے کہ غالب کے کلام کی شرحیں آج تک لکھی جا رہی ہیں مگر نثر کے ہر جملے کا عموماً ایک ہی متعین مطلب ہوتا ہے۔ ذو معنویت دراصل زبان کا حسن ہے۔ یہ کہنے اور سننے یا لکھنے اور پڑھنے والے کی خوش ذوقی کا غماز ہوتا ہے۔ فقرہ بازی کا یہی تو مزہ ہے کہ بات دل پر اثر ضرور کرے مگر دل نہ توڑے۔ یہ ہنر زبان و بیان پر دسترس سے آتا ہے۔ مثلاً غالبؔ کے لطیفے جیسے آم بیزار شخص جب غالب سے کہتا ہے کہ آم تو ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا۔ جواباً غالب کہتے ہیں کہ ’’ہاں گدھے آم نہیں کھاتے‘‘ اس فقرے میں بلاغت کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس میں شک نہیں بعض شعر بھی فصاحت و بلاغت کے شاہکار ہوتے ہیں جیسے:

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب  کوئی  دوسرا نہیں ہوتا

یا پھر:

ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے

کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے

سہلِ ممتنع کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ ایسا شعر جو نثر سے اتنا قریب ہو کہ اس کی مزید نثر نہ کی جا سکتی ہو یہی اس کا حسن ہے۔ گویا نثر کا حسن شعر پر غالب ہے۔

میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ شعر تو گلی کا ہر وہ شاعر جو قافیہ و ردیف سے آگہی رکھتا ہو، کہہ لیتا ہے مگر مصرع کہنا بہت مشکل ہے۔ مصرع کہنا ایک ہنر ہے۔ میرا مطلع ہے:

شعر کہنا  اگر  آ جائے تو  مصرع کہنا

آتے آتے تمھیں آ جائے گا مطلع کہنا

اسی طرح اچھی نثر لکھنا بھی ایسا ہی کما ل ہے۔ ہر لکھنے والے کو لکھنا نہیں آتا:

ہر ایک شخص کو لکھنا کہاں یہ آتا ہے

ہماری طرح لکھا کر اگر ہے کچھ لکھنا

شاعر کو تو خود یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اگلا شعر وہ کیا کہنے والا ہے۔ جب شعر اس سے ہو جاتا ہے تب خود اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ بات اس کے شعر سے برآمد ہوتی ہے جب کہ نثر لکھنے والا جو سوچتا ہے اسی کو الفاظ کے حوالے کرتا ہے یعنی اس کی فکر طے شدہ ہوتی ہے ’’جو قافیے پہ بیت گئی وہ  توسنادی‘‘ والا معاملہ نہیں ہوتا۔ گویا نثر کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ موضوع و منشا طے شدہ ہوتا ہے۔یہ کوئی مصرع طرح پر کہی جانے والی غزل نہیں ہوتی۔

نثر کی دوسری بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ تکلف و تصنع سے عاری ہوتی ہے۔ دو ٹوک انداز میں جو بات دل سے نکلتی ہے وہ ظاہر ہے دل پر اثر بھی کرتی ہے۔ لچھے دار پر تکلف گفتگو کرنے والے کو سننے والے طرح دے جاتے ہیں دل میں جگہ نہیں دیتے جیسے لیڈروں کی تقریریں۔ مولوی کو چاہیے کہ وہ حکایاتِ بے سند نہ سنائے۔ اسرائیلیات سے بچے اور اپنی ہر بات کی دلیل قرآن و سنت سے دے۔ فٹ پاتھی دوا فروشوں اور مداریوں کی باتیں دلچسپی سے سنی تو جا سکتی ہیں مگر ان پر یقین کرنے والا دھوکا کھا جاتا ہے۔ گویا نثر کی خوبی یہ ہے کہ یہ سنی سنائی پر ایمان نہیں لاتی بلکہ پکی تحریر کا تقاضا کرتی ہے۔ اسی لیے ایک عام محاورہ ہے سو بکے ایک لکھے۔ بات جب تحریر میں آ جاتی ہے تو پھر مصدقہ ہو جاتی ہے اور تحریر گنجلک اور مبہم نہ ہو۔ ابہام بھلے ہی شعر کے لیے حسن کا درجہ رکھتا ہو، نثر کے لیے عیب ہے۔ نثر تحقیق سے عبارت ہے اور تحقیق کبھی مبہم نہیں ہوا کرتی۔

        شعر میں تعقید شاعرانہ مجبوری کا نام ہے کہ بحر کے تقاضے پورے کرنے کے لیے شاعر الفاظ کو آگے پیچھے کرنے پر مجبور ہوتا ہے مگر نثر میں تعقید بہت بڑا عیب ہے۔ بغیر کسی کاوش کے جو مثال ہاتھ لگی میں وہ پیش کرتا ہوں۔

مرزا فرحت اللہ بیگ ’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں فرماتے ہیں :

 ’’محاوروں کے استعمال کا شوق مولوی صاحب کو حد سے زیادہ تھا‘‘ میرے خیال میں یہ جملہ یوں ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا ’’مولوی صاحب کو محاوروں کے استعمال کا حد سے زیادہ شوق تھا‘‘۔ معاف کرنا میں ذرا جسارتِ بے جا سے کام لے رہا ہوں کہ اہلِ زبان پر گرفت کرنے لگا ہوں۔ ڈھونڈنے والوں کو خود اس مضمون میں کئی خامیاں مل جائیں گی۔ آدمی لکھتے وقت ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دھیان دینے لگے تو اصل موضوع رہ جائے لیکن نثر کی خوبی و خرابی کی نشاندہی بھی تو ضروری ہے۔

میرے خیال میں اچھی نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جملے چھوٹے چھوٹے ہوں اور اپنی جگہ پر مکمل ہوں۔ مرکب جملے Complex Sentences نثر کے حسن کو متاثر کرتے ہیں۔ مولانا علی میاں ابوالحسن علی ندوی کی تحریروں میں مرکب جملے بہت کھلتے ہیں غالباً یہ عربی اثر ہے۔ آپ اگر عقیدت کو اک ذرا پرے رکھ کر ا ن کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو کئی مثالیں مل جائیں گی۔ Randomly میں نے سہ ماہی ’’آمد‘‘ کا صفحہ ۵۰۱ کھولا تو وصیہ عرفانہ کے مضمون کا پہلا ہی جملہ کچھ یوں دکھائی دیا:

 ’’بیسویں صدی کے نصف اول میں ہی جب کہ مختصر افسانے کے نین و نقش ابھر رہے تھے اور مختصر افسانہ رومانی حکایات اور خواب آگیں فضا کے سائے میں اپنی صنفی پہچان قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ترقی پسند تحریک نے اسے حقیقت پسندی اور سماجی صداقت نگاری کے اثر انگیز لطف سے آشنا کرایا‘‘۔

یہ دراصل تین جملے ہیں جو خواہ مخواہ ( جبکہ) (اور) (کہ) کے ذریعے جوڑ دیے گئے ہیں۔ یہ تین الفاظ نکال دیں تو تحریر رواں ہو جائے۔ مخفی مباد کہ ہندی لفظ کے ساتھ واو عطف استعمال نہیں کیا جاتا۔ (نین و نقش) کہنا  نامناسب ہے۔

گویا اچھی نثر چھوٹے چھوٹے جملوں میں ہی مزہ دیتی ہے۔ ہر جملہ اپنی جگہ مکمل بھی ہوتا ہے اور اپنے اگلے جملے سے مربوط بھی ہوتا ہے۔

نثر علمیت سے بھرپور ہوتی ہے اور جہاں علمیت ختم ہوتی ہے وہاں سے غنائیت سے بھرپور شعریت شروع ہوتی ہے جس میں نئے نئے معانی و مفاہیم فرض کر لیے جا سکتے ہیں۔ نثر میں ہر بات کی دلیل دینی پڑتی ہے ورنہ بات ناقابلِ اعتنا ٹھہرتی ہے۔ ویسے دعویٰ اور دلیل کی ہم آہنگی ہی سے اچھا شعر بھی وجود میں آتا ہے۔

نثر زیادہ تر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے پڑھنے والا زبان و بیان اور موضوع سب پر نظر رکھتا ہے جب کہ شاعری عموماً سننے میں زیادہ مزہ دیتی ہے کہ اس میں جو غنائی پہلو ہے وہ پہلے سماعت کو متاثر کرتا ہے تب کہیں دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر نہ بھی سنیں تو قاری خود بہ آواز بلند اسے پڑھتے ہوئے اس کی خوش آہنگی سے لطف اندوز ہوتا جاتا ہے۔ نثر میں غنائی عنصر نہیں ہوتا بلکہ علمی جواز ہوتا ہے جو قلمکار و قاری دونوں سے تفکر و تدبر کا تقاضا کرتا ہے اور وہی تحریر معتبر ٹھہرتی ہے جو یہ تقاضے پورے کرتی ہے۔

ردیف کی مجبوری کی وجہ سے بعض وقت شاعر ایسے الفاظ استعمال کر جاتا ہے جو حشو و زوائد شمار ہوتے ہیں۔ جیسے جہان میں ہے، مکان میں ہے، خاندان میں ہے وغیرہ وغیرہ کے ساتھ ’’درمیان میں ہے‘‘ کہہ دیتا ہے جب کہ ’’درمیان‘‘ کے ساتھ ’ میں‘ کی ضرورت نہیں۔ نثر لکھتے ہوئے ’میں‘ حذف کرنا پڑے گا جیسے ’’دونوں کے درمیان معاہدہ طے پایا‘‘ نثر میں حشو و زوائد سے آسانی سے بچا جا سکتا ہے کہ کوئی شعری مجبوری نہیں ہوتی۔

ابن صفی کے تمام ناولوں میں لفظ ’ دوران‘ کے ساتھ بھی ’ میں‘ استعمال ہوا ہے جب کہ یہاں بھی لفظ  ’میں‘ غیر ضروری ہے۔ ’’اس دوران پولیس آ گئی‘‘ لکھنا کافی ہے ’’اس دوران میں پولیس آ گئی‘‘ نامناسب ہے۔ مگر ابن صفی نے ہمیشہ دوران کے ساتھ ’ میں‘) کا استعمال کیا ہے۔ ابن صفی بہت اچھی زبان لکھتے تھے مگر ایسے جملے مجھے کھل جاتے تھے۔

اسی طرح  ’ذریعے‘ کے ساتھ اکثر قلمکار ’سے‘ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہاں بھی ’ سے‘ حشو ہے۔ ان کے ذریعے معاملہ طے پا گیا کہنا کافی ہے۔ ’ذریعے سے‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔

ایک صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا:

 ’’نام نہاد ناقد اور مبصر اپنی سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے بغیر کتاب پڑھے۔۔۔ فوراً تبصرہ لکھ کر متعلقہ مصنف کی خدمت میں بھیج دیتا ہے یا کسی اخبار یا رسالے کے حوالے کر دیتا ہے‘‘۔

اس جملے میں لفظ ’اپنی‘ کھلتا ہے اور ’بغیر کتاب پڑھے‘ کہنے کے بجائے ’کتاب پڑھے بغیر‘ لکھنا چاہیے تھا۔

آپ نے کسی کے بارے میں یہ لکھا دیکھا ہو گا کہ سات سال کی عمر میں ان کے والد کا یا والدہ کا انتقال ہو گیا۔ لکھنے والا کہنا یہ چاہتا ہے کہ لڑکا جب سات سال کا تھا اس وقت اس کے والدہ یا والد کا انتقال ہو گیا۔ مگر مضحکہ خیز جملہ لکھ گیا۔ ذرا سوچیے جب والد یا والدہ ہی سات سال کی عمر میں فوت ہو گئے تو پھر موصوف کیسے پیدا ہوئے؟ نثر میں ایسے جملے مذاق کا نمونہ بن جاتے ہیں۔

بہرحال زبان و بیان کا خاص خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ سورۂ بقرہ  (قرآن) میں ہے : صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کیا کرو بے شک نماز بھاری بار ہے  (مگر اللہ سے ڈرنے والوں پر نہیں جو اللہ سے ملاقات کے متمنی اور اس کی طرف لوٹنے والے ہیں) یہاں مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں فرمایا کہ اللہ سے ڈرنے والوں پر تو نماز کا نہیں پڑھنا بار گزرتا ہے۔

اہلِ علم کے بعض جملے بھی ضرب المثل اشعار ہی کی طرح مقبولِ خاص و عام ہیں۔ جیسے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ایک شاعر کی شاعری کے تعلق سے رائے دیتے ہوئے کہا تھا:

 ’’ان کے شعر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی خرابی نہیں اور خرابی یہ ہے کہ کوئی خوبی نہیں ہے‘‘۔

کئی کمزور شاعر ایسے بھی گزرے ہیں جن کا ایک آدھ شعر ہی مشہور ہو گیا۔ ایسی ہی صورتِ حال کے بارے میں جگر مرادآبادی نے اظہارِ خیال کیا تھا:

 ’’اللہ کسی شاعر کو سزا دینا چاہتا ہے تو اس پر برے شعر نازل کرتا ہے اور اگر کسی اچھے شعر کو سزا دینا چاہتا ہے تو اسے کسی معمولی شاعر پر نازل کرتا ہے‘‘۔

یہ جملہ بھی اکثر ترجمے کے حسن و قبح کے بارے میں کہا جاتا ہے:

 ’’ترجمہ اک ایسی عورت کی طرح ہے جو وفادار ہو تو حسین نہیں ہوتی اور اگر حسین ہو تو وفادار نہیں ہوتی‘‘۔

طنز و مزاح کے تعلق سے بھی مشہور ہے:

 ’’طنز و مزاح دو دھاری تلوار ہے جو کسی اناڑی کے ہاتھ آ جائے تو خود تلوار چلانے والے کو زخمی کر دیتی ہے‘‘۔

دلیپ کمار نے ایک نئے اداکار سے کہا تھا کہ انکار یعنی No بولنا بھی سیکھو۔ یہی بات جاں نثار اختر نے بھی کہی تھی ہر ’’نہیں‘‘ ہاں سے بڑی ہے۔ بقول خیرؔ:

ہر بات مان لینے کی عادت خراب ہے

نا قابلِ  قبول  کو  رد  بھی  کیا کرو

اسی طرح ہری چند اختر نے کہا تھا:

 ’’یہ تو بہتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا لکھنا ہے لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوتی ہے کہ کیا نہیں لکھنا ہے‘‘۔

جو بات ’’بین السطور‘‘ ہوتی ہے دراصل وہی کہنے کی بات ہے جو ان کہی ہو کر بھی کہی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑا کمال ہے۔ یہ آتے آتے آتا ہے۔

اچھی نثر لکھنے کے لیے زبان و بیان پر دسترس بے حد ضروری ہے۔ لکھنے کا کوئی جواز ہونا چاہیے۔ زبان عامیانہ نہیں بلکہ علمی ہونی چاہیے۔ جس موضوع پر لکھنا ہو اس کا حق ادا ہونا چاہیے۔ واضح اور دو ٹوک انداز اختیار کرنا چاہیے تاکہ منشا و مقصد مبہم نہ رہ جائے لیکن اس سلیقے سے کہ ان کہی بھی کھل جائے۔ Details are Dirty تکرار بہت بڑا عیب ہے۔ اس سے ہر سطح پر بچنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک ہی قسم کے الفاظ بار بار دہرائے جا رہے ہوں تو لکھنے والا اپنے ذخیرۂ الفاظ کی کوتاہی کی نشاندہی کر لیتا ہے اور اگر موضوع ہی کو دہراتا ہے تو گویا اپنی علمیت کے فقدان کی خبر دیتا ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ جب میں کوئی لفظ ایک بار استعمال کرتا ہوں تو وہ لفظ میرے لیے مر جاتا ہے میں دوبارہ اسے نہیں برتتا اسی طرح ایک موضوع پر جب قلم اٹھایا تو پھر اسے کبھی نہیں چھونا چاہیے۔ ہر بار نیا موضوع اور ہر بار نئے محاورے میں گفتگو کرنا ہی کمال ہے تبھی شاعر و ادیب زندہ رہ سکتا ہے۔

منشی پریم چند نے لکھا کہ انھوں نے اپنی ایک ایک کہانی کو چودہ  چودہ  مرتبہ لکھا ہے تب کہیں جا کر وہ کہانی ہو پائی ہے۔ اسی لیے اگر کوئی شاعر ہے تو بہتر سے بہتر مصرع کہنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اسی طرح نثر نگار کو چاہیے کہ وہ زبان و بیان کو مانجھتا رہے تا آں کہ بہتر سے بہتر اسلوب میں اپنے موضوع کا حق ادا ہو جائے۔میں نے اپنے اس مضمون میں یہی کچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔

        نثر کی جتنی اقسام ہیں اتنے ہی اس کے تقاضے بھی ہیں۔ افسانے میں ایک چھوٹا سا واقعہ محدود کرداروں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے جب کہ ناول میں کئی ذیلی کردار اپنے اپنے مسائل کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ ناول کی خوبی یہ ہے کہ ہر  رۂے کے بجائے (یل: اعجاز عبیدگل ٹرانسلیٹ کی کردار سے انصاف کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک کردار جھلک تو دکھائے مگر اچانک غائب ہو جائے۔اس کی آمد کا جواز بھی ہونا چاہیے اور منظر سے اس کے غائب ہو جانے کا سبب بھی ہونا چاہیے۔

        خود ناول کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جاسوسی ناول کا دارومدار تجسس (Suspense) پر ہوتا ہے۔ سماجی ناول کی بھی یہی خوبی ہوتی ہے۔ اگر ناول کی ابتدا ہی میں اس کے انجام کا اندازہ ہو جائے تو پھر قاری کی دلچسپی ہی ختم ہو جائے۔یہی ناول کی ناکامی ہے۔ طلسمی دنیا، تاریخی ناول، قصۂ ہوش ربا وغیرہ کی بنیاد ہی تجسس پر رکھی جاتی ہے۔ داستانیں عموماً سینکڑوں صفحات پر پھیلی ہونے کے باوجود اسی تجسس کی وجہ سے بڑے شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ یہی حال فلم کا ہے۔ اگر فلم کے ابتدائی مرحلے ہی میں اس کی پوری کہانی کھل جائے تو فلم دیکھنے میں بھلا دلچسپی کیا خاک رہ جائے گی۔

        مقالہ و مضمون میں تفصیل و اجمال کا فرق ہے۔ مقالے میں اپنے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے جب کہ مضمون میں اشاروں کنایوں میں اپنی بات مکمل کر لی جاتی ہے۔ اگر تحریر بے جواز و بے دلیل ہو اور زبان و بیان میں جھول ہو تو وہ قاری یا سامع کو بور کر دیے گی۔

        خاکہ نگاری کے لیے ممدوح سے خاکہ نگار کی قربت اور بے تکلفی ضروری ہے۔

        انشائیہ، فکاہیہ، طنزیہ و مزاحیہ مضامین میں زبان و بیان ہی سے تو کام لیا جاتا ہے۔ ویسے شعر و ادب سارے کا سارا لفظوں ہی کا کھیل ہے مگر طنز و مزاح میں لفظ کا تخلیقی استعمال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔طنز و مزاح دودھاری تلوار ہے۔ اگر یہ کسی اناڑی کے ہاتھ میں ہو تو دوسروں کے ساتھ ساتھ خود طنز و مزاح نگار کو بھی زخمی کر کے رکھ دیتی ہے۔ رعایتِ لفظی سے فائدہ اٹھانے کے لیے زبان و بیان پر دسترس لازمی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ موضوع کے بغیر الفاظ سے کھیلنے کی کوئی صورت ہی نہیں رہ جاتی۔ ادب کے منظر و پس منظر سے قاری کا واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور خامہ بگوش ( مشفق خواجہ) کی تحریروں سے لطف اٹھانے کے لیے آدمی کا پڑھا لکھا ہونا بے حد ضروری ہے۔

        اپنے ایک مضمون میں رتن ٹاٹا کے تعلق سے صابرسیوانی نے  (روزنامہ سیاست،۲۷؍نومبر۲۰۱۱ء کو) لکھا

 ’’نمک سازی سے فولاد سازی تک ٹاٹا گروپ نے صنعت سازی میں اپنا لوہا منوایا ہے‘‘

    کیسا تہہ دار جملہ ہے۔ صنعت سازی میں لوہا منوانا۔ کیسی کیسی رعایتوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔

        اچھی نثر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ صرف Data Collection  نہیں ہوتی، معلومات بہم پہنچانا صحافت کا کام ہے۔ ادب میں معلومات فراہم کرتے ہوئے ادیب کو بھی داخل رہنا چاہیے۔ ادب و صحافت میں یہی تو فرق ہے۔ شاعری میں بعض شاعروں نے اپنا منفرد اسلوب بنا لیا ہے جیسے علامہ اقبال، جوش، میر و غالب، انیس، امجد وغیرہ۔ اگر کوئی شاعر ان کی پیروی کرتا ہے تو گویا ان کے اسلوب میں خود کو گم کر دیتا ہے۔ اسی طرح نثر میں منشی پریم چند، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، مولانا ابوالکلام آزاد کا خاص اسلوب ہے۔ ان کے رنگ میں اگر کوئی لکھتا ہے تو اس کی اپنی پہچان قائم نہیں ہو پاتی۔ اسی لیے اپنا طرز آپ ایجاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جس طرح شاعری میں سرقہ و توارد کی مثالیں مل جاتی ہیں اسی طرح نثر میں بھی یہ روایت پائی جاتی ہے۔ پروفیسرابومحمدسحر کا تحقیقی مقالہ ہے ’’مطالعۂ  امیر مینائی‘‘ اسی مقالے کو سامنے رکھ کر ایک صاحب محمد علی زیدی نے ’’مطالعۂ داغ‘‘ لکھ ڈالا۔ صرف اتنا کیا کہ جہاں جہاں امیر مینائی کے اشعار مثال میں دیے گئے تھے وہاں وہاں انھوں نے داغ کے شعر ڈال دیے اور یوں ڈاکٹریٹ کر لی۔ ظہیر آباد کے رہنے والے ایک نوجوان نوید نے خورشید احمد جامی اور شاذ تمکنت پر لکھے ہوئے ہمارے مضامین (جو ہماری کتاب ’’دکن کے رتن اور اربابِ فن‘‘ میں بھی شامل ہیں) اپنے نام سے چھپوا دیے اور دیدہ دلیری تو دیکھیے حیدرآباد ہی کے روزنامہ ’’منصف‘‘ میں چھپوائے۔ ہم نے اس چوری کی ( ثبوت کے ساتھ) پول کھول دی تو اخبار نے نوید میاں کو بلیک لسٹ Black List  کر دیا۔

بلیک لسٹ پر یاد آیا کہ اردو لکھتے ہوئے ہندی یا انگریزی کا لفظ اس وقت تک استعمال نہیں کرنا چاہیے جب تک اس کا مترادف اردو میں موجود ہے۔ ناگزیر صورتِ حال ہی میں ہندی یا انگریزی لفظ برتا جا سکتا ہے مگر کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ اردو ہی کے برمحل محاورے میں منشا و مقصد ادا ہو جائے وہ ادیب ہی کیا جو اپنا ما فی الضمیر اپنی ہی زبان میں ادا نہ کرسکتا ہو۔

میرے خیال میں کسی ادب پارے کی تلخیص دراصل تخلیق اور تخلیق کار دونوں کی توہین ہے۔ نظم ہو کہ نثر بسیار گوئی کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ قافیے کے امکانات چمکانے کے چکر میں فراق گورکھپوری ترسٹھ ترسٹھ شعر کی سہ غزلہ کہا کرتے تھے جس میں بمشکل تین چار شعر ہی کام کے ہوتے تھے۔ تخلص بھوپالی کی خالہ کے لمبے چوڑے پاندان کے بالمقابل پطرس بخاری کی چھالیہ کے دس بارہ ٹکڑے آج تک زیادہ مزہ دیتے ہیں۔ ناول ہو کہ افسانہ، مضمون ہو کہ مقالہ طویل ہو جائے تو اپنا لطف کھو دیتا ہے۔ لمبی لمبی نظموں غزلوں کی جگہ دو تین یا چار چھ مصرعوں کی نظمیں زیادہ پسند کی جانے لگی ہیں۔ حتیٰ کہ یک مصرعی نظمیں تک کہی جانے لگی ہیں (جس کا موجد راقم الحروف رؤف خیر خود ہے) اسی طرح ناول و افسانہ کی جگہ افسانچے فروغ پا رہے ہیں۔ مصروفیت اور الیکٹرانک میڈیا کے اس برق رفتار دور میں اختصار ہی کی ہرسو پذیرائی ہوئی ہے۔ طوالت عموماً ادب سے زیادہ بے ادبی کو دعوت دیتی ہے۔ شعر کی ہوس جس طرح شاعر کو ہوٹ کرواتی ہے اسی طرح نثر کی حرص نثرنگار کو لے ڈوبتی ہے اسی لیے میں اپنا یہ مختصر سا مضمون یہیں ختم کرتا ہوں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے