غالب کی تفہیم کا سلسلہ تقریباً ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصے کو محیط ہے۔ اس عرصے میں کتنے ہی دانشور، شارحین اور محققین نے غالب کی شاعری کی مختلف جہا ت کا احاطہ کر نے کی کوششیں کیں لیکن کیا ان مفاہیم تک ان کی رسائی ممکن ہو سکی؟ کیا شعر کے ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کر لیا گیا؟ جو کہ شاعر کا اصل مدعا تھا۔ کیا حقیقت میں ان مفاہیم تک شارحین پہنچ سکے جو کہ شاعر بیان کرنا چاہتا تھا؟ کیوں کہ غالب نے اپنے اشعار کی جو شرح خود پیش کی تھی، اسے ان کے لائق و فائق شاگرد یعنی حالی نے قبول نہیں کیا اور حالی نے جو تا ویل پیش کی، اس سے مختلف نظم طبا طبا ئی نے شرح پیش کی۔ اسی طرح طبا طبا ئی کو حسرت موہانی نے، حسرت موہانی کو بیخود مو ہانی نے قبول نہیں کیا اور یہ سلسلہ یوں ہی شمس الرحمٰن فاروقی تک جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ اگر کسی ایک کی تاویل سے دوسرا سخن شناس مطمئن ہو تا تو شاید مزید تشریح کی ضرورت نہ پیش آتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عہد میں سخن فہم حضرات نے غالب کو اپنے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوششیں کی ہیں اوراس سلسلے کے آئندہ بھی جاری رہنے کے قوی امکانات ہیں۔ میں تفہیمِ غالب میں کوئی اضافہ تو نہیں کر سکتا، پھر بھی دیوانِ غالب کی پہلی غزل کے بارے میں ، جسے ان کی سب سے زیادہ مشکل غزل سمجھا جاتا ہے، دو باتیں عرض کر نا چاہتا ہوں۔
غزل کا مطلع اپنے عہد کی روایت سے مختلف ہی نہیں بلکہ منفرد بھی ہے، جس میں غالب نے تنظیم دوجہاں اورانسانی تقدیر پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ یہ ان کی ذہنی حوصلہ مندی اور فکری بلندی تھی ورنہ زمانے کا عام چلن بنے بنائے راستوں پر ہی چلنے کا رہا ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیر ہن، ہر پیکرِ تصویر کا
مطلعے کو پڑھتے ہی غالب کا یہ شعر :
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے
بے ساختہ ذہن میں آ جا تا ہے اور غالب کے ’’گنجینۂ معنی کے طلسم ‘‘ کا قائل ہو نا پڑ تا ہے۔ کیوں کہ اس شعر میں جس قدر معنوی پہلو پوشیدہ ہیں ، اسی قدر صنعتیں بھی موجود ہیں۔ اس طرح کی تہ داری شاعری میں عام نہیں۔ اس شعر کی تشریح خود غالب نے کی ہے کہ ’’نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورت تصویر ہے، اس کا پیر ہن کاغذی ہے۔ یعنی ہستی اگر چہ مثل تصاویر اعتبار محض ہ، موجب رنج و آزار ہے ‘‘۔
شعر کی گرہ کھولنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے شعر کے کلیدی لفظ کو تلاش کر لیا جائے۔ اس کے ہاتھ آ جانے کے بعد شعر کی گر ہیں خود بخود کھلتی چلی جائیں گی۔ زیر بحث شعر میں لفظ ’’کِس‘‘ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے بعد ’’نقش‘‘ اور ’’شوخی تحریر‘‘ خاص توجہ کے طالب ہیں۔ اگر ’’کِس‘‘ کو خالقِ کونین کا استعارہ تسلیم کر لیا جائے تو شعر کے معنی کسی حد تک واضح ہو جائیں گے لیکن شعر کی معنو یت محدود ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ’’کِس کی‘‘ کے استفہام کا لطف بھی جاتا رہے گا، جو کہ اس شعر کی حقیقی جاذبیت ہے۔ پھر بھی اتنا کہا جا سکتا ہے کہ’’کِس‘‘ کا اشارہ خالقِ مطلق کی طرف ہی ہے کہ اس نے از راہِ شوخی تصویر کو نا پائیدار بنایا ہے، اسی لیے تصویر اپنی زبان بے زبانی سے فریاد کر رہی ہے کہ جب ہستی کو نا پائیدار ہی بنا نا تھا تو اس میں اس درجہ کمال، اس درجہ کشش رکھنا کیا ضروری تھا ؟
دنیا کی یہ رنگا رنگی یہ کشش یہ دلفر یبی اور مو ہ کیا ہے ؟ جب کہ ہر چیز فانی ہے۔
قدیم زمانے ہی میں کیا آج بھی یہ چلن عام ہے کہ شعری مجموعوں کے آغا ز میں حمد، نعت اور منقبت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غالب نے روش عام سے گریز کرتے ہوئے، دیوان کے پہلے ہی شعر میں تخلیقِ کائنات پر سوالیہ نشان لگایا۔ اس شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غالب کائنات کے فلسفے کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس کائنات کا راز کیا ہے؟ جہاں ہر شئے مجبورو لاچا ر دکھا ئی دیتی ہے اور شاید اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے ہی انہوں نے کہا تھا کہ :
سبزہ و گل کہا ں سے آئے ہیں ؟
ابر کیا چیز ہے ؟ ہوا کیا ہے ؟
جب کہ تجھ بن نہیں کو ئی موجود ہے
پھر یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے ؟
اب شعر کے اس مفہوم کی طرف رخ کر تے ہیں ، جس کا ذکر عموماً کیا جاتا ہے کہ ایران میں رسم تھی کہ فریادی فریاد کے لیے کاغذی لباس پہن کر دربار میں حاضر ہوا کر تے تھے۔ کیوں کہ کاغذ کی کو ئی وقعت نہیں ہوتی، یہ ہوا کے تیز جھو نکے سے، آگ کی گرمی سے، حتٰی کہ ذرا سی رگڑ لگنے سے بھی تار تار ہو سکتا ہے، لہٰذا کاغذی پیرہن فریادی کی بے بساطی کی دلیل سمجھا جاتا تھا یعنی اس دنیا میں انسان کی ہستی ٹھیک کاغذی پیرہن کی طرح ہے، جس کی کہ کو ئی ساکھ،کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ چوں کہ مصور، تصویر کو کاغذ پر بناتا ہے، جس کا وجود عارضی اور بے بساط ہوتا ہے، اس لیے تصویر اپنے خالق سے جدائی پر فریاد کر رہی ہے۔
زیر بحث شعر کے دوسرے مصرعے ’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا‘‘ کے ’’ہر‘‘ سے یہ گمان ہو تا ہے کہ اس سے تمام جاندار مراد ہو سکتے ہیں لیکن شعور و احساس چوں کہ صرف انسان ہی کو حاصل ہے، ا س لیے ’’فریادی‘‘ سے مراد انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت انسان کے علاوہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے، لہٰذا ’’شوخی تحریر‘‘ سے اگر انسانی ’’شعور و احساس‘‘ مراد لیے جائیں اورسا تھ ہی ساتھ فرشتوں اور تمام جانداروں کو ملحوظ رکھا جائے تو انسان کی عظمت کا قائل ہونا پڑتا ہے، جو کہ خالق کائنات کی ’’شوخی تحریر‘‘ کا سب سے بڑا کرشمہ ہے۔
غالب کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے، اس بات کو خاص طورسے ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان کی شاعری کا اصل جوہر استفہام، فلسفہ، فکر کی بلندی اور احساس کا وہ انوکھا پن ہے، جو ہمارے دلوں کو چھو جاتا ہے۔ اس لیے ان کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں مذکورہ با توں کا لحاظ خصوصی طور پر رکھنا ہو گا۔ اس شعر پر اگر صنائع لفظی اور معنوی کے اعتبار سے غور کریں تو تلمیح، استعارہ، تجاہلِ عارفانہ، تجنیس صوتی اور حسن تعلیل کا ذکر کرنا نا گریز ہو گا لیکن ذہن نشین رہے کہ غالب کی شاعری میں ان چیزوں کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور تفکر و تخیل کی اول۔ اس شعر کے مفہوم کو واضح کر نے میں غالب ہی کا ایک شعر ہماری رہنمائی کچھ اس طرح کر رہا ہے کہ :
نہ تھا کچھ، توخدا تھا؛ کچھ نہ ہوتا، تو خدا ہو تا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں ، تو کیا ہو تا؟
اس شعر کا پہلا مصرع بالکل واضح ہے اوردوسرا ہماری رہنمائی اس طرح کر رہا ہے کہ میرے وجود نے یا میرے ہو نے نے، مجھ کو یعنی انسان کو خوار اورسوا کیا ہے ورنہ میں تو ’’کُل‘‘ کا ’’جُز‘‘ تھا مگر افسوس کہ ’’کُل‘‘ سے بچھڑنے کے باعث میں کہیں کا نہیں رہا۔ اس شعر کے اور بھی پہلو ہیں مگر ان کی تفصیل کا محل یہ نہیں۔ اب ایک بار پھر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تصویر مصور سے یا ’’نقش‘‘ اپنے خالق سے جدا ہونے اور اپنے وجود کے عارضی ہونے کی شکایت کر رہا ہے۔
کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لا نا ہے جوئے شیر کا
اس شعر کا بنیادی مضمون یہ ہے کہ انتظار محبوب میں رات گزارنا، جوئے شیر لانے کے مترادف یعنی انتہائی دشوار گزار امر ہے۔ ائے سخت جان محبوب، میری تنہا ئی کے بارے میں مت پوچھ کیوں کہ جو کاوشیں ، جو تدبیریں اور جو کوششیں میں اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے کرتا ہوں وہ جوئے شیر لانے سے کسی صورت بھی کم نہیں۔
اس شعر کا ایک مفہوم یہ بھی ممکن ہے کہ جوئے شیر لانے یا کوہ کنی کی تمام مدت میں جو مشکلیں ، صعوبتیں اور جو سختیاں فرہاد پر گذریں ، وہ مجھ پر ہر رات گذر جاتی ہیں۔ ایک پہلو یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر انتظار محبوب میں شام کو صبح کر نے کے اپنے عمل کو، کوہکن کی صعوبتوں سے بڑھ کر ثابت کر نا چا ہ رہا ہو یا یہ کہ فرہاد پر جو گذری ہو سوگذری ہو لیکن میری مشکل، مجھے تو اس سے بڑھ کر معلوم ہوتی ہے۔ اگر شبِ تنہا ئی سے دنیاوی زندگی مراد لی جائے تو اس کی صبح کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ کوہ کنی کرنا۔
اگر صبح کو سفید اور شام کو سیاہی کی تمثیل تسلیم کر لیا جائے تو سیا ہی کے بطن سے سفیدی پیدا کرنے کے عمل کو جوئے شیر لانے کے مترادف کہا جا سکتا ہے۔
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
اس شعر کی بنیاد ’’حسنِ تعلیل‘‘ پر ہے۔ اس لیے سب سے پہلے حسنِ تعلیل کی تعریف جان لینا مناسب ہو گا۔’’تعلیل کے معنی ہیں وجہ بیان کرنا، وجہ متعین کرنا۔ یہ اس عمل کی خو بی و ندرت کی مثال ہے جب کہ کسی عمل یا واقعے کے لیے کو ئی ایسی وجہ بیان کی جائے جو چا ہے واقعی نہ ہو مگر اس میں کو ئی شاعرانہ جدت و نزاکت ہو اور بات فطرت اور واقعے سے مناسبت بھی رکھتی ہو تو اسے حسنِ تعلیل کہتے ہیں ‘‘۔ چونکہ ’دَم‘ لفظ اس شعر میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے، اس لیے یہاں لفظ ’دَم‘ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ’دَم‘ کے معنی ہیں سانس، روح، جان، تلوار کی دھار، باڑ وغیرہ۔ تلوار کی دھار اندر کی طرف نہیں بلکہ باہر کی طرف ہو تی ہے، جو ایک فطری چیز ہے لیکن غالب نے جس خوبصورتی سے حسنِ تعلیل کی بنیاد پر اس شعر کی بند ش کی ہے، اس کا لطف اہلِ نظر ہی جانتے ہیں۔ تلوار کے ’دَم‘ کو یا تلوار کی دھار کے باہر ہو نے کو اس کے قتل کر نے کی آرزو، عاشق کے جذبۂ بے اختیار شوق پر محمول کرنا، شاعرانہ جدت اور فکر کی با لید گی کا کمال ہے۔
عاشق کہتا ہے کہ مجھے قتل کرنے کی آرزو میں تلوار اس قدر بے اختیار، بے قا بو ہوئی جا رہی ہے کہ دمِ شمشیر، سینۂ شمشیر سے با ہر نکل آیا ہے۔
محاورہ ’’آپے سے باہر ہونا‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر غور کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ عاشق کو قتل کر نے کے لیے تلوار اس قدر بے اختیار ہوئی جا رہی ہے کہ اس کا دم اس کے سینے سے باہر نکل آیا ہے۔
عاشق کے شوقِ شہا دت کو دیکھ کر شمشیر کے بے اختیار ہو نے میں ایک پہلو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شمشیر، شمشیرِ حقیقی نہ ہو کر محبوب کے ناز و ادا کی شمشیر ہو، جس سے قتل ہو نے کے لیے عاشق بے قرار ہے کہ کاش میرا محبوب مجھے اپنے عشوہ و غمزے سے قتل کر دیتا تو میرے دل کی مراد پوری ہو جاتی۔
آگہی، دامِ شنیدن جس قدر چا ہے بچھائے
مدَّعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
زبان اظہار کا محض ایک ذریعہ ہے۔ شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے، اس کا اصل مقصد ان لفظوں اور بین السطور میں پنہاں ہوتا ہے، جن کا کہ وہ استعمال کر تا ہے یعنی اس کا منشا یہ ہو تا ہے کہ فکر و تخیل کی جس سطح سے اس نے اپنا ما فی الضمیر ادا کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں تک سا مع و قاری کی رسا ئی ان لفظوں کے وسیلے سے ہو جائے، جن کا کہ شاعر نے استعمال کیا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر قاری و سامع کی رسائی فکر کی اس سطح تک ہو ہی جائے، جہاں سے کہ شعر کہا گیا ہے کیوں کہ اس میں قاری وسامع کی بصیرت، سخن فہمی اور لیاقت کا دخل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعر زیرِ بحث میں غالب چیلنج کر تے نظر آتے ہیں کہ :
آپ کی قوت فہم، سخن شناسی اور سخن فہمی کی صلاحیت، خواہ کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لے، اپنی لیاقت اور عقل مندی کے گھوڑے خواہ کتنے ہی کیوں نہ دوڑا لے مگر میں جس بلندی سے جو بات کہنا چاہتا ہوں ، وہاں تک آپ کی رسائی ممکن نہیں ہے اور قطعی نہیں ہے۔ اس موقع پراس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ غا لب کے ہم عصر انہیں مہمل گو کہا کر تے تھے۔ ممکن ہے اس شعر میں ان حضرات کی طرف غالب کا تخاطب ہو۔ ساتھ ہی اس شعر میں یہ بات بھی پنہاں ہے کہ شاعر کو اپنی شاعری کے معیار اوراس کی دائمیت کا کسی قدر اندازہ ہو گیا تھا، جبھی تو انہیں بارگاہ ایزدی میں اپنے ہم عصروں کے لیے یہ دعا مانگنی پڑی تھی کہ :
یا رب! نہ وہ سمجھے ہیں ، نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری شاعری تمہاری سمجھ میں اس لیے نہیں آ رہی ہے کہ میں آج کا نہیں بلکہ آئندہ آنے والے زمانے کا شاعر ہوں۔ شاید اسی لیے انہیں یہ کہنا پڑا:
ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشنِ ناآفریدہ ہوں
زیر بحث غزل کا آخری شعر ہے :
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
آتش زیرِ پا یعنی اضطرابی کیفیت، بے چینی اور بے قراری۔ شاعر کہتا ہے کہ قید ہونے کے باوجود میری کیفیت سیمابی ہے اور میرے جوشِ جنوں کے سامنے زنجیر کی کو ئی حیثیت نہیں ہے۔
گرفتارِ عشق، گرمی عشق سے بے قرار ہے اور عاشق کی آتشِ عشق سے زنجیر موئے آتش دیدہ یعنی بے وقعت ہو کے رہ گئی ہے۔ مذکورہ شعر کے مفہوم سے ملتا جلتا غالب کا ایک اور شعر ہے:
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا؟
اب شعر کا مفہوم یہ ٹھہرا کہ عاشق کو گرفتار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ، کیوں کہ عاشق کی گرفتاری سے اس کا جنونِ عشق، نہ ہی کم ہوتا ہے اور نہ ہی فنا ہوتا ہے بلکہ اور فروغ پاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عاشق کی سیمابی کیفیت نے یعنی اس کی آتش زیر پا ئی نے، زنجیر کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔
اب ہم ایک بار پھر جب غزل پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس غزل کی ابتدا فطرت کے جبر سے ہو ئی تھی، جس کا انسان کے پاس کوئی چا رہ نہیں۔ فطرت کے سامنے انسان مجبور و بےبس ہے لیکن مقطعے تک آتے آتے بات اختیار کی منزل تک آ گئی، جہاں انسان کی آتش زیر پائی نے فطرت کی زنجیروں کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی مجبوریوں کو موئے آتش دیدہ بنا دیا ہے اوراس طرح فطرت کے جبر کی گرفت ڈھیلی ہوتی نظر آتی ہے، اتنا ہی اس کا اختیار ہے اور بس۔
٭٭٭
اس وقت مجلس میں موجود جب استاد ذوقِ، مومن خان مومن اور بہادر شاہ ظفر بھی نہ سمجھ سکے تو اس دور کے لوگ جن میں اکثریت اردو سے پنجابی لہجہ جھلکتا ہو وہ کیا بہتر تشریح کرسکیں گے مگر پھر بھی آپ نے کوشش کی میں اس کوشش کا آپ کو 0 نمبر دیتا ہوں
ذرہ نوازی کا شکریہ۔ آپ کی بات درست ہے لیکن مجھے جہاں تک یاد ہے، حالی سے فاروقی تک 24 شارحین نے اپنے طور شرح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور میں سخن فہمی رکھنے والوں نے میر، غالب اور اقبال وغیرہ کے کلام کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے اور آئندہ بھی آنے والی نسلیں اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں گی۔ آپ نے وقت نکالا، پڑھا اور اپنی رائے کا اظہار کیا، اس کے لیے شکریہ۔
ویسے سمت والوں نے کہاں سے یہ مضمون حاصل کیا مجھے نہیں معلوم۔ کم از کم ایک بار اجازت تو لینا تھا۔ 16 سال پہلے یعنی طالب علمی کے دور میں لکھا گیا مضمون ہے، بندہ ایک بار نظر ثانی کرکے مزید حذف و اضافہ کردیتا۔
بہت اچھی تشریح ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہر شخص اپنی سوچ اور انداز میں جس طرح چہے شرح کرتا ہے.
شاعر کے دل میں کیا ہت پہلا مصرع تو واضح ہے لیکن دوسرے مصرعے میں جو ابہام ہے اس نے سوچ کے در وسیع تر کر دیے ہیں سے جد وجہد فہم جاری رہے گی