عِوض۔۔ پھول کا ۔۔۔ حنیف سید

آج پھر دے گیا مات، اور ایسی مات کہ اَب کوئی بساط بھی نہ بچھا سکوں گی مَیں، یعنی کہ آخری مات۔  قبر کے آخری پٹلے جیسی، شاخ سے گرے پھول کی طرح۔

’’بڑا پیارا ہے، گلاب کا پھول۔‘‘

تقریباً بیس برس پہلے پہنچ گئی، اُس کے لان میں۔

’’تو توڑ لو نا۔۔ ۔!‘‘

اُس کی اجازت سے پھول توڑا ہی تھا کہ اُس نے ہاتھ تھام لیا میرا۔

’’کیا چاہتے ہو، تم۔۔ ۔۔؟‘‘

مَیں نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔

’’پپّی۔‘‘

اُس نے بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال ہونٹوں کو جنبش دی۔

’’تو لو۔۔! نا۔۔ ۔! مَیں نے کب منع کیا۔۔ ۔۔؟‘‘

مَیں نے آنکھیں بند کر کے اپنا چہرہ اُس کے قریب کر دیا۔

’’ایسے نہیں۔‘‘

’’پھر کیسے۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘

’’شادی کے بعد۔‘‘

’’نہیں چاہیے مجھے، یہ پھول۔‘‘

مَیں نے پھول پھینک کر بڑی بے رخی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔

’’تو لگا دو۔۔ ۔! اُسی شاخ پر۔‘‘

’’یہ کیسے ممکن ہے۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘

’’توڑنے سے پہلے کیوں نہیں سوچا، آپ نے۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘

’’کیا علم تھا کہ عِوض چاہو گے، پھول کا۔‘‘

’’ہر اِحسان، یا مہربانی میں کچھ نہ کچھ چھپا ہوتا ہے۔‘‘

’’یہ پہلے بتایا ہوتا۔‘‘

’’تو پوچھا کیوں نہیں آپ نے پہلے۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘

’’کیا معلوم تھا کہ اِس خواہش کے عِوض میں کچھ چکانا بھی پڑے گا، مجھ کو۔‘‘

مَیں نے پھول توڑنے کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ندامت ظاہر کی۔

’’اپنی خواہش کی تکمیل کے بعد اُس کے عِوض میں دوسروں کی خواہش کو نظر انداز کرنے والے خود غرض ہوتے ہیں۔‘‘

وہ نہ جانے کیا کیا کہتا رہا، اور مَیں اس کی باتوں کا بوجھ لیے، اپنے گھر آ گئی۔

اکثر سوچتی کہ اُس نے میری خواہش کا احترام کیا، تو مجھ کو بھی اُس کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔  خواہش، خواہش ہے۔  ہو چاہے کسی کی بھی، کیسی بھی۔

ویسے تو اُس کی بات ماننے میں کوئی عار نہ تھی، مجھ کو۔  وہ دولت مند تھا، اور خوب صورت بھی۔  خود غرض ہوتی تو مان لیتی اُس کی بات۔  انکار اِس لیے کیا کہ وہ میرا محبوب تھا، اور مَیں اُس کے لائق نہ تھی۔  وہ امیر تھا، مَیں غریب۔  چلو یہاں تک تو چل جاتا۔  پانچ سال بڑی بھی تو تھی، اُس سے۔  اُس کی ضد پر، چلو یہ بھی اِس لیے چل جاتا، کہ اِس کا علم تو تھا، اُس کو۔  اور خود کو کسی حد تک سمجھا بھی لیتی، لیکن اہم بات یہ تھی کہ وہ جو سمجھتا تھا، مجھ کو۔  وہ تھی نہیں، مَیں، یعنی کہ کنواری نہ تھی۔  چوں کہ وہ اصول پرست تھا۔  اسی لیے مَیں بھی ضمیر کے پُل صراط پر لٹکی تھی۔  یعنی کہ پارسا نہ تھی۔  جانے کتنے کھیتوں کی مُنہ ماری ہرّانٹ بکری تھی، میں۔  وہ بھی کب دودھ کا دھُلا تھا۔؟ نہ جانے کتنے قصّے سنائے بھی تھے، اُس نے مجھ کو۔  ایسی حالت میں اُس کی بات مان لینے میں کوئی قباحت بھی نہ تھی، کیوں کہ ہم دونوں، ہم حمّام تھے۔  فرق تھا تو صرف اِتنا کہ وہ سب کچھ بتا چکا تھا، اور مَیں بہت کچھ چھپائے رکھنے پر مجبور تھی۔  حالاں کہ کئی موقعوں پر اپنا جسم اُس کی آغوش میں ڈھیلا چھوڑ دیا تھا، مَیں نے۔  لیکن اُس نے شادی سے پہلے مُنہ مارنے سے ہر بار انکار کر دیا تھا۔  یہ سوچ کر کہ نہ جانے کتنی فُوٹ بالوں پر لات مارنے والا شخص، جب اُصول کی بات کرتا ہے، تو مَیں پیچھے کیوں رہوں۔۔؟ اِسی لیے اُس کے شادی کے آفر کو ہر بار پامال کرتی رہی۔  اور اِنھیں اصولوں پر رہنے کے ناتے، میرا محبوب رہا وہ۔  ویسے نہ جانے کتنوں سے ناتا جوڑنے کے بعد میں نے چلتا کیا، سب کو۔  کاش میری خواہش اور کوشش پر ایک بار بھی مُنہ مار لیتا، کبھی وہ، تو ممکن تھا کہ اُس کا آفر نہ ٹھکراتی۔  چوں کہ ہر بار میری پیش کش ٹھُکرائی، اُس نے۔  اِسی لیے مَیں نے بھی تَہیہ کر لیا کہ وہ اصول توڑ بھی دے گا، تب بھی اپنے عہد پر قائم رہوں گی، مَیں۔  کیوں کہ کچھ اور بھی تھا، جو تا حیات چھپائے رکھنا تھا، اُس سے۔  وہ یہ کہ ایک بچّی کی ماں بھی تھی، مَیں۔

’’بیٹی، سلام کرو۔۔ ۔! خالا جان کو۔‘‘ باہر کا دروازہ کھول کر، اپنے پیر نِل پالِش اور منہدی سے رچائے، پازیب کے سُروں کا سرگم کانوں میں گھولتی ہوئی، خضاب لگے بالوں سے گندھی چوٹی کو مستانی چال سے لہراتی ہوئی، اندر داخل ہونے والی اَن جانی خالا جان کو، ماں نے سلام کرنے کے بعد، مجھ سے سلام کرنے کو کہا۔  سلام کے جواب سے پہلے خالا جان نے مجھ بکری کے جسم کو قسائی کی کجراری آنکھ سے ٹٹولا، پھر گہرے رنگ کی لپ اسٹک سے سجے ہونٹوں پر تبسّم کی کلیاں چٹکاتے ہوئے آگے بڑھ کر خوش بوسے مہکتے ہوئے پہلو میں جکڑا، پھر کہنیوں تک منہدی لگے ہاتھ کو کلائی بھری چوڑیوں سے کھنکا کر سر پر پھیرتے ہوئے میرے سلام کا جواب دیا۔  جھرّیاں پڑے، کریم پاؤڈر سے اَٹے خوب صورت چہرے والے مُنہ میں دبے قوام پڑے پان کی بھبک نے میرے ذہن پر ایسا وار کیا کہ تلملا گئی، مَیں۔  بناؤ سنگھار سے، تیرہ چودہ کی بننے والی، لگ بھگ پینتالیس کی خالا جان کے نہ جانے کیا احسانات ہوں گے کہ دو دن تک مجھ سے الگ، ماں سے کھُسَر پھُسَر کرنے کے بعد، ماں نے ہر دم اپنی آنکھوں میں رکھنے والی، بِن باپ کی مجھ اکلوتی چہیتی کو، اُن کے ایک اِشارے پر، میرے اِنکار کے باوجود، اُن کے ہم راہ کر دیا۔  وہ جنگ جیتنے کے انداز میں خوشی خوشی فرید آباد اپنے گھر لے پہنچیں، مجھ کو اور ایک رات اپنے میاں سے کھُسَر پھُسَر کر کے اگلی صبح ہی گھر کا سارا سامان سٹّا لے کر کسی پلاننگ کے تحت بریلی کی اَن جان بستی میں، پہلے سے لیے کِرایے کے مکان میں جا پہنچیں۔

دو دنوں کے لاڈ پیار میں خالا جان نے میرا دِل ہاتھ میں لے لیا اور تیسرے دن اپنے گہنوں کپڑوں سے مجھے لاد کر، سولہ سنگھار کر کے دُلھن بنا کر اپنے پاس سلا لیا۔  اچانک ایک آہٹ سے آنکھ کھلی تو خالہ جان غائب تھیں اور کوئی قسائی مجھ پرسوار تھا۔  اُس نے مجھ کو بکری کی طرح اُٹھایا، اور دے مارا۔  میرے جسم کا طوفان بھی اُمڈ کر میرے وجود کو چکنا چور کرنے لگا۔  اور مَیں بھاری بھرکم گہنوں، کپڑوں میں دبی، سہمی، کانٹا پھنسی مچھلی، زور سے بلبلائی اور تڑپ کر رہ گئی۔  بھاری بھرکم بھیڑیا، سب کچھ لوٹ لے گیا میرا، پل بھر میں۔  یعنی کہ خالو میاں جب مُنہ مار کر نکل لیے، تو خالا جان آئیں، اور بڑے پیار سے مجھ کو گود میں دبوچ کر بیٹھ رہیں۔  کافی دیر تک پچکارتی، سہلاتی اور میرا سر دباتی رہیں۔  دستِ شفقّت کے مرہم سے راحت پا کر نیند کی آغوش میں کب لڑھک گئی۔۔ ۔۔ ۔؟ کچھ پتا نہ چلا، اور جب آنکھ کھلی، تب بھی خالا جان کی آغوش میں تھی، اُس روز پورے دن خالا جان نے چار پائی نہ چھوڑی، میری۔

شام آتے آتے طوفان پھر منڈلانے لگا، اور پھر رات نے جیسے ہی اپنا دامن دراز کر کے انگڑائی لی تو خالا جان بہلا پھسلا کر بحرِ ظلمات میں پھر دھکیل گئیں، مجھ کو۔  کچھ روز یہی معمول رہا، پھر تو خالو میاں جب چاہتے میرا ہاتھ تھام کر مستی کے حمّام میں اُتر جاتے۔  مَیں بھی جذبۂ انبساط کے سمندر میں اِس حد تک ڈوب گئی تھی کہ جیسے ہی خالو میاں اپنا دامن دراز کرتے، مَیں شاخ کے پھول کی طرح ٹپک کر خود بہ خود بپھر جاتی اُن کی آغوش میں۔

جب دِن چڑھے میرے، تو خالا جان نے دھوم دھام سے نیاز کرائی اور بڑے چاؤ سے میرے مُنہ میں لڈّو ٹھونس کر، مجھ پر ناگن کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ گئیں، پوری طرح۔  مجال کیا کہ خالو میاں پھر کبھی آنکھ بھی اُٹھا پاتے مجھ پر۔  خالا کے لاڈ پیار نے میرے پیروں میں مِہندی لگا کر اُٹھنا بیٹھنا محال کر دِیا میرا۔  کافی دنوں تک گھبرائی گھبرائی رہی اَن جانے خوف سے، ایک عجیب سی کیفیت کے ساتھ۔  بہ ہر حال جو ہونا تھا وہ ہوا، اور ایک روز خالا نے چاند جیسی بیٹی کو میری آغوش سے اُٹھا کر اپنی چھاتی سے لگا لیا۔

اَب تو خالا جان دِن بھر میری بیٹی کو لیے پڑی رہتیں اور مَیں نوکرانی کی طرح گھر کے کام نبٹاتی رہتی۔  خالا جان بچّی کو اُوپر کا دودھ پلاتیں، اور مجھ کو بچّی کے پاس پھٹکنے نہ دیتیں۔  مَیں کوشش کرتی بھی تو وہ ڈانٹ دیتیں۔  اُن کا پہلے جیسا پیار کافور ہو گیا۔

ایک دِن جیسے ہی وہ بیت الخلا گئیں، مَیں بچّی کے قریب پہنچ گئی۔  وہ فوراً آ کر برس پڑیں مجھ پر پھر ماں کو فون کر کے فوراً بلایا، اور میرا بوریا بستر باندھ کر بِن بچّی کے چلتا کیا۔

گھر آ کر پھر تو چارا کھائی ہرّانٹ بکری ہو گئی، میں۔  اِدھر اُدھر مُنہ مارنا عادت بن گئی میری۔  اَب ایسے پُل صراط سے گرنے کے بعد سمندر کی لہروں کے تھپیڑوں سے بچتی بھی تو کیسے۔۔ ۔۔؟ حقیقت تو یہ تھی کہ مجھ کو بس اُسی سے پیار تھا۔  پیار نہیں بلکہ عشق کہیے عشق۔  وہ بھی جنونی کیفیت تک۔  لیکن پتا نہیں دِل کیسا تھا، جو ضمیر کے ہاتھوں ہمیشہ پٹخیاں کھا جاتا تھا۔  ورنہ تو اس کی پیش کش پر کب کی شادی کر چکی ہوتی اُس سے۔  اُس کی آغوش میں سما جانے کے لیے تو تھی ہی بے قرار، لیکن وہ تھا کہ شادی کی ضد پر اَڑا تھا۔  جھوٹی پلیٹ، محبوب کے رو بہ رو رکھنا، خمیر میں نہ تھا، میرے۔

حالاں کہ وہ بھی اِس عمل سے اچھوتا کب تھا۔۔ ۔۔؟ بہت سے قصّوں میں اُس نے بتایا:  ’’فلمی اداکارہ گلستاں کے یہاں، اُس کے بچپن میں ایک بار ’’سموسے‘‘ لے گیا تو گلستاں کی امّی نے گلستاں کے انکار کے باوجود ’’سموسے‘‘ رکھ ہی نہیں لیے بلکہ کھانے پر مجبور بھی کر دیا تھا، گلستاں کو۔  اُس اِحسان تلے دبی گلستاں آج بھی اِنکار نہیں کرتی۔  یہ بھی بتایا:  صنوبر کی امّی کے آپریشن پر خون دینے کے عِوض میں صنوبر کو اپنے ارمانوں کا خون کروانا پڑا۔  شبنم کے یہاں چولھے پر توا چڑھوا کر سب کی آنکھوں میں روشنی کرنے کے عِوض میں شبنم کا ہاتھ پکڑا تو اُس نے خود بہ خود آنکھیں بند کر کے قرض اُتار دیا، چولہے پر توا چھڑھوانے کا۔‘‘ وہ اکثر ایسے قصّے سنا سنا کر پھول توڑ لینے کا عِوض چاہتا، اور مَیں ہر بار جسم ڈھیلا چھوڑ کر قرض ادا کرنے کے لیے بے قرار ہو جاتی، لیکن وہ مُنہ پھیر کر کہتا:  ’’میری خواہش، مُنہ مارنے کی نہیں، بلکہ  شریکِ حیات بنانے کی ہے۔‘‘ دِل چاہتا کہ اپنے ضمیر کو پیروں تلے روند کراُس کی خواہش کا اِحترام کر ڈالوں۔  لیکن ضمیر بغاوت کر دیتا۔  طرح طرح کے کیڑے مکوڑے کلبلا کر میرے ضمیر کو لہو لہان کر دیتے، اور مَیں شادی سے فوراً انکار کر دیتی، اُس پر خود سر، خود غرض، مطلبی، نہ جانے کیا کیا کہتا، مجھ کو۔  ایک دِن ایسی ہی ایک بحث کے دوران مَیں نے پوچھا:  ’’اپنے اِحسانوں سے دبی گلستاں، روبی، تبسّم، گلشن، عرشی، گلفشاں، خوشبو، صبا، ادیبہ اور روحی وغیرہ کوا ِس لائن میں کیوں نہیں کھڑا کرتے۔۔ ۔۔؟‘‘جس پراُس نے جواب دیا:  ’’مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ خواہش کو پورا کرنے والے کو اپنی خواہش کا بدل، اپنی مرضی سے نہیں بلکہ  دوسرے کی خواہش کے مطابق چکانا چاہیے۔‘‘

بات چوں کہ سچ تھی، ماننی پڑی، مجھ کو۔

’’صرف مجھ سے ہی شادی کرنے کی خواہش کا سبب۔۔۔؟‘‘

مَیں نے پوچھ ہی لیا ایک دن اُس سے۔

’’دلّی میں عرشی نام کی ایک لڑکی سے مجھے عشق تھا، وہ بھی جان چھڑکتی تھی، مجھ پر۔  لیکن اُس کے والدین نے روڑا بن کراُس کو خود کشی پر مجبور کر دیا۔  وہ ہم شکل تھی تمھاری، بالکل سے۔‘‘

اُس نے بتایا، اور مَیں نے اُس سے شادی کا وعدہ کر کے اپنا فیصلہ ماں کو سنایا، تو ماں کی آنکھیں پھیل گئیں، اور اُنھوں نے اُس کے والد کے قہر و غضب کی اُونچ نیچ سے آگاہ کر کے میرا ذہن ایسا پھیرا کہ اُسی رات ایک نئے عاشق کے ہم راہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھر سے نکل گئی۔  کئی دنوں بعد ماں نے چھاپا مار کر ایک مکان میں دھر دبوچا، اور اسی سے نکاح پڑھوا دیا، میرا۔  بعد میں پتا چلا، اُس کی پہلے سے ایک بیوی اور تین بچّے ہیں، پھر تو اپنے نصیب کو کوس پیٹ کر سمجھوتا کر لیا، مَیں نے۔

اُس کے بعد کچھ مَیں دبی اور کچھ میری سوتن، یعنی کہ جیسے تیسے دونوں تلواریں ایک ہی نیام میں سما گئیں۔  نیام میں تلواروں کاجو حال تھا، وہ میرا دِل ہی جانتا تھا، لیکن فی الحال نیام نے دنیا والوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا تھا۔  پردہ، تو پردہ ہی تھا۔  کب تک رہتا، ایک نہ ایک دِن تو ہٹنا ہی تھا۔  آخر کو ایک دِن نیام چٹ سے پھٹ گیا، اور جب الگ ہوئی، تو گود میں ایک ہم شکل بچّی کے ساتھ۔  بچّی کے ہم راہ بحرِ ظلمات کے کئی سمندر پار کرنے تھے، مجھے۔

آخرش کارچوب کے اَڈّے کے گرد گھومتے گھومتے بچّی سولہ کے سِن کو جا لگی۔  جب کبھی بھی نصیب کی دہلیز پر ٹھوکر کھانے کا احساس ہوتا، اُس کی تصویر سامنے آ کر شادی کا وعدہ نہ پورا کرنے کے جرم میں پھانسی پر لٹکا کر تڑپنے کے لیے چھوڑ دیتی، مجھ کو۔  ویسے اُس سے سامنا کبھی نہ ہوا میرا، اور اگر کہیں دِکھائی بھی دیا وہ، تو مَیں نے خود کو مجرمہ محسوس کر کے راستہ بدل لیا، اپنا۔  لیکن دل میں یہ بوجھ بنا رہا، کہ نئے عاشق کے ہم راہ گھر سے نکلنے کی کتنی بڑی بھول کی تھی، مَیں نے۔  کاش اپنا ضمیر کُچل کراُس کی بات مان جاتی، تو شادی کرنے کا وعدہ بھی پورا ہو جاتا، اور پھول توڑ لینے کا عِوض بھی ادا کر دیتی، اس کا۔

ایک روز ندی میں باڑھ آئی تو مَیں اپنا سامان سٹّا لے کر کِرائے کے مکان میں جا پہنچی، سامان درست کرنے کے بعد جب تیسرے روز بیٹی کے ہم راہ مکان کی چھت پر چڑھی، تو پچھواڑے ایک نو تعمیر مکان کے لان میں اپنے دوستوں کے درمیان محوِ گفتگو تھا، وہ۔  کھان پان سے اُس کے جِسم کی کاٹھی اُنّیس نہ ہوئی تھی، اَب تک۔  مَیں تو چُپ چاپ اُتر آئی، لیکن بیٹی کو چھت پر جانے کے ساتھ ساتھ اُس کے مکان میں بھی جانے کا چسکا لگ گیا۔  بیٹی سے پتا چلا کہ مکان میں ماں بیٹے کے علاوہ کوئی اور نہیں۔  بیٹی کی جوانی نے نیندیں حرام کرنی شروع کر دیں۔

ایک رات ذہن کے تل چٹّے نے رینگ رینگ کر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا  ’’ایسا ہو جانے میں ضمیر کا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا، اور حالات کی دھوپ چھاؤں وعدہ شکنی کے نقوش کو مٹ میلا بھی کر دے گی، پھول توڑنے کے عِوض میں اُس کی خواہش پر اپنی کنواری کلی سونپ کر بدل بھی دے سکوں گی، اور اُس کو اپنی تمنّا کے مطابق عرشی بھی مل جائے گی۔  کیوں کہ میری بیٹی ناک نقشے میں پوری طرح مجھ پر گئی تھی۔  یہی سوچ کر بیٹی کو اپنی لگام سے پوری طرح آزاد کر دیا، مَیں نے۔  میری بٹی بھی پوری طرح وہیں کی ہو رہی۔  بیٹی کو صاف ستھرا رہنے کا شوق بڑھ گیا۔  حالاں کہ وہ چال چلن کا اچھا نہ تھا۔  چوں کہ اِس تجربے سے خود ہی گزر چکی تھی کہ وہ اپنی سیج پر کنواری کلی ہی دیکھنے کا خواہش مند تھا، کیوں کہ پھول توڑنے کی خواہش کا بدل دینے میں اپنے ہر جتن پر مات کھا چکی تھی، مَیں۔

جب بھی بیٹی وہاں سے لوٹتی تو اپنے تجربے کی آنکھ سے اُس کا انگ انگ کھنگال ڈالتی، مَیں۔  لیکن کوئی داغ نہ ملتا، بیٹی کے دامن پر۔  مَیں اپنی بیٹی میں کچّے آم کی مہک پا کر باغ باغ ہو جاتی، اور اُس کے احترام میں سر فوراً جھُک جاتا۔  پھر چھل چھل کر پوچھتی بھی، بیٹی سے۔  اکثر یہی جواب ملتا کہ اُسے ہی دیکھتے رہتے ہیں، ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں، سارا گھر اُسی پر چھوڑ دیا ہے، تجوری کی چابی بھی اُسی کے پاس ہے۔  حالات کے مطابق سب ٹھیک چل رہا تھا۔  بس انتظار تھا تو صرف اِس کا کہ اُس کی ماں کسی دِن آ کر دو بول پڑھوانے کی اِجازت مانگ لے، مجھ سے۔

عید آنے کو تھی۔  جھما جھم تیاریاں چل رہی تھیں۔  اُس کی ماں نے میری بیٹی کے کپڑے منگوا کر عید کے کپڑوں کی ناپ لی، اور جب جوڑا سِل کر آیا تو آنکھیں پھیل کر رہ گئیں، میری۔  سوچنے لگی:  ’’شادی کے اِس جوڑے میں میری بیٹی کسی راج محل کی رانی سے کم نہ لگے گی۔‘‘  عید کے دن قریب آتے گئے لیکن بات ٹس سے مس نہ ہوئی۔  سوچا کہ سلسلہ کیا چلنا۔  عید بعد سیدھے طور سے رسم ادائیگی ہی ہو گی۔  نہ مجھ کو کچھ دینا، اور نہ اُن کو ڈھنڈورا پیٹنا۔  دو مکانوں کے بیچ، ایک دیوار ہی تو ہے، چُپ چاپ ہٹا لی جائے گی۔  عید آئی اور چلی بھی گئی، دیوار وہیں کی وہیں رہی۔  اگلے دِن میری بیٹی سجی سنوری، اور عید کا وہی دُلھن جیسا جوڑا پہن کر اپنی سہیلی کی سال گرہ کے لیے نکل گئی۔  دو گھنٹے بعد دروازہ کھلا۔  اُس کی امّی کے ہم راہ میری بیٹی اندر داخل ہوئی، اور مَیں جل بھُن کر کباب اِس لیے ہو گئی کہ ایک ماں ہونے کے ناتے میری بیٹی کو اپنی بہو بنانے کے لیے، کیا مجھ سے اجازت لینا بھی ضروری نہ تھا۔۔ ۔۔؟

’’بیٹی، سلام کرو۔۔ ۔! امّی کو۔۔۔۔!‘‘

ماں نے میری بیٹی سے کہا۔

’’کیسی امّی۔۔ ۔۔ ۔؟ کیا ماں سے مشورہ بھی ضروری نہ تھا۔۔ ۔۔۔؟ غریب تھی، پر اِتنی نہیں کہ ایک جوڑا نہ دے سکتی۔‘‘

بیٹی کے سلام کرنے سے پہلے ہی غُبارے کی طرح پھٹ پڑی، مَیں۔

’’اُوئی دُلھن۔۔ ۔۔!، تم تھیں بھی کب، یہاں۔۔ ۔۔ ۔؟ تم تو اَب آئی ہو، شادی تو تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔  اِن کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا، وہیں تو تھیں یہ، رات ہی تو اِن کے ابّو لے کر آئے ہیں، ان کو۔  اپنے ابّو کی اکلوتی ہی تو ہیں، یہ۔‘‘

اُس کی ماں نے بتایا، اور مَیں سمندری طوفان کی تہہ میں جا لگی۔

’’فرید آباد کی ہو بیٹی۔۔ ۔۔؟‘‘

مَیں نے پوچھا۔

’’ہاں امّی۔‘‘

’’مَیں ہوں، نا۔۔ ۔۔؟ ماں تیری۔‘‘

اُس نے سلام کیا، اور مَیں نے اپنی بیٹی کو چھاتی سے لگا کر اُس کے پھول کا قرض ادا کر دِیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے