تیری تلاش میں ۔۔۔ مکرم نیاز

 

میں برسوں سے اس کی تلاش میں ہوں۔  جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، اسے حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا ہوں۔  مگر آہ! وہ کبھی میرے ہاتھ نہیں آئی، البتہ اس کے بھیس میں سینکڑوں مل کر مجھے دھوکہ ضرور دیتے رہے اور میں جان بوجھ کر دھوکہ کھاتا ہی رہا کہ شاید ایک نہ ایک دن میری لگن ضرور رنگ لائے گی اور میں بالآخر اسے پا جاؤں گا مگر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آج تک وہ میری نظروں سے اوجھل ہے۔

نہ جانے اس کی خاطر میں نے عمر کا کتنا بڑا فاصلہ طے کر لیا ہے، میں اپنے پیچھے نظر دوڑاتا ہوں اور مجھے خار دار جھاڑ جھنکار سے پر وہ طویل راستہ نظر آ رہا ہے جس پر کبھی میں نے بچپن میں ایک دفعہ موسم خزاں کے دوران سیر کی تھی۔  قدم قدم پر مجھے ٹھوکر لگتی رہی تھی۔  ایک ایک قدم مجھے سنبھال سنبھال کر رکھنا پڑا اور پھر ایک طویل مسافت طے کرنے کے باوجود میں اس چمکیلے جگنو کو پکڑ نہ سکا، اسے اپنی گرفت میں نہ لے سکا۔  اسے حاصل کرنے سے محروم رہا، وہ میرے آتشِ شوق کو بھڑکا کر نجانے کہاں غائب ہو گیا تھا؟

اور آج عمر کے اس موڑ پر جب میں ایام ماضی کی طرف اپنی بے چین نظریں دوڑاتا ہوں تو نجانے کیوں مجھے اس طویل اور سنسان تاریک راہ کی یاد آ گئی ہے۔  میں اس مانوس راہ پر ڈرتے ڈرتے اپنے قدم بڑھاتا ہوں۔  میرے چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔  میں اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چند قدم چلتا ہی ہوں کہ اچانک ٹھٹھک کر رک جاتا ہوں۔  اس سنسان راستے کے سنّاٹے میں یہ آواز کیسی؟

میں اس آواز کی طرف اپنے کان لگا دیتا ہوں۔

"کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے تمہیں یوں ہی پال پوس کر بڑا کیا ہے؟ نہیں، یہ تمہاری خام خیالی ہے، بہت پڑھ لیا ہے تم نے، اب میرے بزنس میں تمہاری شرکت ناگزیر ہو چکی ہے۔  کہاں تک میں اکیلا یہ بوجھ سنبھال سکوں گا ۔۔۔ ۔۔  میں نے تو جہاں تک ہو سکے تمہاری مثالی تربیت کی، تمہاری ایک ایک ضرورت کا خیال رکھا، تمہیں کسی چیز کی کمی نہ ہونے دی، صرف اس لئے کہ وقت آنے پر تم بھی اپنے فرض سے انکار نہ کر سکو ۔۔۔   اب میں تھک چکا ہوں۔  اب مجھے آرام کی ضرورت ہے، اب وقت آ گیا ہے تم میری جگہ لے لو ۔۔۔  ”

میں مخاطب کو دیکھنا چاہتا ہوں مگر اس گہرے اندھیرے میں یہ ممکن نہیں، میں اس کے قریب جاتا ہوں، قریب اور قریب تر، اور اس ہستی کی صورت مجھ پر آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی گئی ہے۔

اوہ ۔۔۔   یہ ۔۔۔   یہ تو میرے ابا جان ہیں۔  یہ تو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔  اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔  پھر ان کے ان جملوں کا کیا مطلب ہے؟ نہیں ۔۔۔   نہیں، یہ میرے ابا جان نہیں ہو سکتے۔  یہ ان کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔

میں غور سے ان کے چہرے کو دیکھنے لگتا ہوں، ان کی آنکھوں میں اس شئے کو ڈھونڈنا چاہتا ہوں جس کی مجھے ہمیشہ سے تلاش رہی ہے، مگر مجھے وہ شئے تو کیا اس کی جھلک تک نظر نہیں آ رہی ہے۔  اچانک میرے ابا جان کا چہرہ دھندلا پڑنے لگا ہے، ان کے چہرے کے نقوش مٹنے لگے ہیں۔  میں حیرت و استعجاب سے انہیں تک رہا ہوں۔  اب ان کے چہرے کی جگہ محلے کے دکاندار کے چہرے نے لے لی ہے۔  وہ دکاندار جس کے پاس میں بچپن میں سودا سلف لانے کی خاطر جایا کرتا تھا اور وہ ہمیشہ ہی اپنے ایک ہاتھ سے مجھے سودا تھماتے ہوئے دوسرا ہاتھ پیسوں کے لئے آگے پھیلا دیا کرتا تھا۔

میں عجب مخمصے میں گرفتار ہو گیا ہوں۔  تو کیا وہ پیار، وہ چاہت وہ لگاؤ محض ایک سودا تھا؟ کیا وہ صرف ایک ڈھونگ تھا جسے میں بچپن سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں؟ نہیں، مجھ میں اس تلخی کو قبول کرنے کی ہمت نہیں۔  میں خوف زدگی کے عالم میں چونک کر پیچھے ہٹ جاتا ہوں اور پھر اچانک میں نے وہاں سے دوڑ لگا دی ہے۔  اس کے باوجود اس مانوس آواز نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔  اس کی بازگشت اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔

” ۔۔۔   میں نے تمام وقت تمہاری ناز برداری کی، تمہاری ساری تکلیفیں اٹھائیں، تمہیں سر اٹھا کر جینے کے قابل بنایا اور اب ۔۔۔   تمہیں میری خدمت کرنی چاہئے۔ ”

٭٭

 

میں بھاگ رہا ہوں، بھاگتا چلا جا رہا ہوں۔  اندھیرے راستے میں یکدم میں نے ٹھوکر کھائی اور زمین بوس ہونے ہی والا تھا کہ دو ہاتھوں نے مجھے سنبھال لیا۔

"کون ہو تم ۔۔۔ ۔ ؟ "میں نے ڈرتے ہوئے سوال کیا۔

"میں ۔۔۔ ۔ میں ۔۔۔   مجھے نہیں پہچانتے تم؟ کیا زمانہ آ گیا ہے میرے خدا، تم بھی اتنی جلد احسان فراموش بن جاؤ گے، مجھے قطعی اس کا احساس نہ تھا، میں بچپن سے تمہارے ساتھ رہا ہوں۔  ہر نازک موڑ پر تمہارے کام آیا ہوں۔  جہاں جہاں تمہیں مدد کی ضرورت ہوئی میں نے اپنا فرض نبھایا ہے اور آج ۔۔۔   آج جب کہ مجھے تمہارے تعاون کی ضرورت لاحق ہوئی ہے، تم نے یکلخت مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔  کیا یہی تمہاری دوستی ہے؟ اپنے لنگوٹیے یار کے لئے کیا یہی تمہارا حسنِ سلوک ہے؟ ”

میں حد درجہ شرمندہ ہو کر اس چہرے کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں اور اب اس کے چہرے سے اندھیرا کچھ کچھ چھٹنے لگا ہے۔  ارے ۔۔۔ ۔ یہ تو میرا بچپن کا جگری دوست ہے، مگر اس کے یہ الفاظ ۔۔۔   یہ جملے ۔۔۔  ؟

میں اس کی آنکھوں میں اپنی مخصوص شئے کو تلاش کرنا چاہتا ہوں مگر وہاں اس کی پرچھائیاں بھی نہیں ۔۔۔   وہاں تو مجھے صرف ‘ضرورت’ اور ‘غرض’ نظر آ رہی ہے۔  دفعتاً میرے دوست کا چہرہ آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگا ہے۔  میں اچھل پڑتا ہوں۔  مجھے ایک دفعہ پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔  اور میں نے دوبارہ دوڑ لگا دی۔  پشت سے آواز کا سلسلہ برابر جاری ہے ۔۔۔ ۔۔

"سنو ۔۔۔   ذرا سنو تو ۔۔۔   میں ان دنوں سخت پریشانیوں میں گرفتار ہوں، میرے بزنس کا دیوالیہ نکل گیا، قرض خواہ الگ تنگ کر رہے ہیں، تمہاری مالی اعانت کے بھروسہ پر ہی اب زندہ ہوں میں، تمہیں میری دوستی کا واسطہ ۔۔۔   ”

٭٭
مگر میں وحشت زدہ سا ہو کر دوڑتا چلا جا رہا ہوں۔  میرے چاروں طرف اندھیرا ابھی تک طاری ہے اور راستہ طویل۔  میں دم لینے کے لئے ذرا دیر کو رک جاتا ہوں۔  میری سانس تیز تیز چل رہی ہے۔  اس حالت میں اچانک مجھے اپنے شانے پر ایک نرم و نازک سے لمس کا احساس ہوتا ہے اور میرے کانوں میں میٹھی اور سریلی سر گوشی گونجنے لگی ہے ۔۔۔

” اس طرح کہاں دوڑے چلے جا رہے ہو جانم؟ اب کون سی فکر تمہیں کھائے جا رہی ہے؟ میرا بھی تو کچھ خیال کرو، اب میں اپنے ابو سے زیادہ بہانے نہیں بنا سکتی۔  خدا کے فضل سے تم اپنے شاندار بزنس کی شروعات کر چکے ہو، پھر دیر کس بات کی؟ میں نے صرف تمہاری خاطر اپنے لئے آئے ہوئے بے شمار رشتے ٹھکرا دئیے ہیں ۔۔۔   اب یہ تمہارا فرض بنتا ہے کہ جلد سے جلد میرے گھر اپنا رشتہ بھیجو۔  آخر کہاں تک انتظار کروں تمہارا ۔۔۔  ۔۔۔  ؟ ”

میں چونک پڑتا ہوں، اس نسوانی لہجے میں تو چاہت بھرا شکوہ ہے، لگاؤ والی شکایت ہے، میں اسے پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں۔  ہاں، یہ میری محبوبہ ہے ! میں نے زندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ صرف اسی معصوم اور پر خلوص دوشیزہ سے پاکیزگی سے بھرپور عشق کیا ہے۔  مگر دوسروں کی طرح اس کے ان جملوں نے بھی مجھے الجھن میں مبتلا کر دیا ہے۔  اس کے باوجود میں نے اس کی آنکھوں میں اپنی امید بھری آنکھیں ڈال دی ہیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی مخصوص شئے اس کی آنکھوں میں ضرور جاؤں گا۔

مگر مجھے ایک دھکا سا لگتا ہے۔  نہیں ! ان آنکھوں میں بھی اس شئے کا وجود نہیں اور اب اس نیلی آنکھوں والی کا چہرہ بھی دم بدم بدلتا جا رہا ہے۔ اس کا چہرہ اس بنک کی لیڈی کیشئر کے چہرے میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں سے میں اپنی رقم نکالا کرتا تھا اور وہ کیشئر چیک پیش کرنے پر ہی مجھے اپنی جمع شدہ رقم ادا کرتی تھی۔  تو کیا یہاں بھی وہی معاملہ تھا؟ اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے؟ میں گھبرا کر دوڑ پڑتا ہوں۔  پیچھے سے نسوانی آواز برابر چلا رہی ہے:

"نہیں۔  مجھے اس موڑ پر اکیلا نہ چھوڑ جانا۔  میں نے تو تمہاری خاطر کئی قربانیاں دی ہیں ۔۔۔ ۔۔  پلیز، یوں بے درد نہ بنو ۔۔۔   ”

٭٭
ایک بار پھر میں اس طویل اور سنسان راہ پر دوڑا چلا جا رہا ہوں، تھکن کا احساس مجھ پر بہت حد تک غالب آ چکا ہے۔  میں رک کر ذرا دم لینا چاہتا ہوں لیکن ڈرتا ہوں کہ پھر کسی غرض مند چہرے سے بھینٹ نہ ہو جائے، دوڑتے دوڑتے اچانک سامنے سے آتے ایک شخص سے ٹکرا کر میں لڑکھڑا جاتا ہوں۔

"اندھے ہو کیا؟ ” میں جھنجھلا کر بول پڑتا ہوں۔

"معافی دے دو بھیا ۔۔۔  ”

"یہ آواز ۔۔۔ ۔  یہ آواز ۔۔۔   "میں سوچنے لگتا ہوں۔

"یہ آواز تو مانوس سی لگتی ہے۔ ” اب میں ذرا قریب سے اس کا مشاہدہ کرنے لگتا ہوں۔  ہائیں، یہ تو میرا ماں جایا ہے۔  میرا چھوٹا بھائی۔  اور پھر اس مخصوص چیز کی یاد آتے ہی میں اس کے چہرے پر اپنی آنکھیں گاڑ دیتا ہوں، وہ خود کچھ نہیں بول رہا، مگر اس کی آنکھیں بہت کچھ بول رہی ہیں۔

"میں نے ہمیشہ سے تمہاری بھلائی چاہی ہے، بھیا۔  رات کے اندھیرے میں تمہارے شاندار مستقبل کی دعائیں مانگی ہیں۔  تمہارے تعلیمی کیرئیر کے دوران میں نے ہر طرح سے تمہاری مدد کی ہے۔  سودا سلف لانے کی تمام ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔  تم پر گھریلو پریشانیوں کی جھلک تک نہ پڑنے دی کیونکہ مجھے تمہاری تعلیم کا خیال تھا۔  اور اب، اب جب کہ تم قابل ہو چکے ہو مجھے تمہاری مدد کی ضرورت آ پڑی ہے، ہاں بھیا، میں اپنا مستقبل سنوارنے کی خاطر مڈل ایسٹ جانا چاہتا ہوں۔  میرے پاس لیاقت ہے، ہنر ہے، مناسب تعلیم ہے۔  مجھے دوبئی کا ویزا دلا دو بھیا ۔۔۔   ”

میں بوکھلا جاتا ہوں، میری امیدوں کا محل یہاں بھی مسمار ہو چکا ہے۔  چونکہ میرے چھوٹے بھائی کے چہرے پر بھی اس دکاندار کی شبیہ ابھر آئی ہے جو ایک ہاتھ سے کچھ دیتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے کچھ لینے کی امید نہیں بلکہ یقین رکھتا ہے۔

٭٭

 

میں اس کی آنکھوں کو نظر انداز کر کے تھکے تھکے انداز میں دوبارہ اپنے راستے پر چل پڑتا ہوں۔  اب میں نے ایک طویل مسافت طے کر لی ہے۔  راستے میں مجھے کئی چہرے ملے۔  وہ سبھی میرے احباب اور رشتہ دار تھے۔  مگر افسوس کہ ان تمام کی آنکھوں میں بھی میں اس شئے کو نہ پا سکا جس کی مجھے تلاش تھی، ہے اور رہے گی بھی!

سبھی لوگ، اپنے چہرے پر کوئی نہ کوئی خول چڑھائے ملے۔  میں ضرور دھوکہ کھا جاتا اگر ان کی آنکھیں سچ نہ بول دیتیں۔  آنکھوں کو پردہ میں چھپایا نہیں جا سکتا۔  وہ تو وہی کہتی ہیں جو باطن میں چھپا ہوتا ہے اور جس طرح آنکھیں انسان کے ظاہر کی وفادار نہیں ہوتیں اسی طرح اس وسیع و عریض دنیا میں کوئی کسی کا مخلص نہیں ہوتا، نہ کوئی کسی کا وفادار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی کا رشتہ دار۔  یہاں سبھی غرض مند ہوتے ہیں، سب ایک دوسرے سے سودا کرتے ہیں۔  اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔

٭٭

 

اس سنسان اور تاریک راہ پر میں اب بھی اپنے قدم بڑھائے چلا جا رہا ہوں۔  راستے میں کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر مجھے لگتا ہے جب تک اسے ڈھونڈ نہ لوں گا تب تک مجھے قرار نہ آئے گا، تب تک میرے من پر بے چینی اور الجھن کے بادل چھائے رہیں گے۔

"اجی، سنو تو ۔۔۔  ” اندھیرے میں کہیں سے مجھے مخاطب کیا گیا ہے۔

"آئندہ ماہ میری خالہ زاد بہن کی شادی ہے، اس دفعہ میں زری کے کام والی ساڑی ضرور لوں گی۔  پچھلی بار ماموں زاد بہن کی شادی میں تو تم نے مجھے ٹال دیا تھا، مگر اس مرتبہ تمہیں ضرور میری خواہش پوری کرنی ہو گی۔  آخر کب تک تم مجھے بہلاتے رہو گے؟ میں نے تو تم سے شادی کرنے کی خاطر سارے میکے کی مخالفت مول لی تھی۔  پورے تین سال کئی اچھے خاصے رشتوں کو ٹھکرایا۔  ایک ادھر تم ہو کہ ایک معمولی سی ساڑی مجھے خرید کر نہیں دے سکتے۔  دوسری طرف ہر ماہ خاصی بڑی رقم اپنے والدین کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہو۔  اپنے بھائی کو دوبئی بھجوانے کا تمام بندوبست خود کرتے ہو، خودغرض دوستوں کی اب تب جب تب مدد کرتے رہتے ہو اور بہن کی شادی کا سارا خرچہ اٹھانا بھی اپنا فرض سمجھ لیتے ہو۔  مگر میرے لیے تمہاری چاہت بس یہی کنجوسی ہے؟ ”

اپنائیت سے کہے گئے ان شکوہ بھرے الفاظ میں میری بیوی کے طنز کی جھلک خاصی نمایاں ہے، میں خاموشی کے ساتھ اپنی بیوی کی آنکھوں میں اس شئے کا سراغ لگانا چاہتا ہوں جس کی ایک جھلک میں نے شادی کے فوری بعد چند دنوں تک اس کی آنکھوں میں دریافت کی تھی مگر اب ۔۔۔   اب وہ شئے تو کیا اس کی جھلک تک مفقود ہے۔  اور میری بیوی کا چہرہ ۔۔۔   وہ بھی اب آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

بیوی کے اس طنز کے ساتھ مجھے اپنی ماں کے اس وقت کے چہرے کی بھی یاد آئی ہے جس سے میں ایک بار اسی سنسان راہ کی تاریکی میں ٹکرا چکا تھا۔  مجھے پورا پورا یقین تھا کہ میں ماں کی آنکھوں میں اس مخصوص مطلوبہ شئے کو ضرور پالوں گا۔

"میں نے نو ماہ تک تمہاری تخلیق کا بوجھ برداشت کیا۔  دو سال تک اپنا دودھ پلا کر تمہاری پرورش کی اور پھر کئی سال تمہیں انسان بنانے کے لیے دکھ درد جھیلے۔  تو اس کا صلہ تم یہی دو گے کہ اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کر لو؟ کیا تمہاری زندگی کا ایک فیصلہ کرنے کا اختیار مجھے نہیں؟ کیا اسی لئے میں نے تمہاری پرورش کی تھی کہ جوان ہونے پر اپنی شریک حیات خود منتخب کر بیٹھو؟ تمہارا اعلیٰ تعلیم یافتہ خالہ زاد بھائی تمہاری اکلوتی بہن سے شادی کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ تم اس کی نیک سیرت اور قبول سیرت بہن سے شادی کر لو۔  اس پیشکش کو قبول کر لینے کے میرے مشورے کو کیا تم میری اتنی ساری قربانیوں کی خاطر نہیں مان سکتے، جس میں تمہاری بہن کی بھلائی بھی شامل ہے ۔۔۔  ؟ ”

گویا ماں کے نزدیک میں شطرنج کا ایک معمولی پیادہ ٹھہرا جسے مخالف کھلاڑی کے ایک مہرہ کو قبضہ میں کرنے کے لئے قربانی کا بکرا بنا دیا جائے؟ کیا میرے جذبات نہیں؟ کیا میری امنگیں نہیں؟ کیا میری اپنی کوئی ذاتی شخصیت نہیں ہے؟ میں ماں کی نظروں میں ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ اس مخصوص شئے کو بھی تلاش کرنا چاہتا ہوں جس کے لئے میں اندھیری راہوں میں مسلسل سفر کرتا رہا ہوں۔  مگر مجھے بے انتہا حیرت اور شدید مایوسی کا تیز ترین جھٹکا لگتا ہے، ماں کی آنکھیں بھی تو میری مطلوبہ شئے سے یکسر عاری ہیں۔  میں بڑی مشکل سے یہ صدمہ برداشت کر پاتا ہوں۔

بہن کی آنکھوں میں بھی میں نے وہ شئے نہیں پائی چونکہ اس کی آنکھوں میں پوشیدہ سوال کے جواب کے طور پر مجھے اس کی تمام نوازشوں، مہربانیوں کا صلہ اس کے جہیز کی شکل میں چکا کر جو دینا پڑا۔

٭٭

 

اور اب ۔۔۔

اب میں اس سنسان طویل اور تاریک راستے پر دوڑتے دوڑتے کافی تھک گیا ہوں، میرے اعصاب مضمحل ہو چکے ہیں۔  حالانکہ ابھی میرے سامنے ایک طویل زندگی کھڑی ہے، مگر لگتا ہے اس کی تلاش اب فضول ہو گی۔  میں سمجھتا تھا کہ وہ اس دنیا میں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہو گی مگر اس مشینی اور ادلے بدلے کی دنیا سے اب تو شاید اس کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔

اس لئے عرصہ ہوا میں نے چہرے دیکھنا چھوڑ دیا ہے، حوصلہ ہی نہیں رہا۔  ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کے بجائے کوئی دوسرا نہ نکل آئے۔

اب میں چاہتا ہوں یہ طویل سنسان راستہ جلد سے جلد ختم ہو جائے تاکہ میں اس کے دوسرے سرے پر پہنچ جاؤں، جہاں روشنی میرا انتظار کر رہی ہے، جہاں میں اس اتھاہ تاریکی سے نجات پا جاؤں گا۔  اس لئے میں نے اپنی رفتار میں کافی تیزی پیدا کر لی ہے، میں دوڑتا چلا جا رہا ہوں، تیز اور تیز تر، تیز ترین رفتار سے ۔۔۔

٭٭

 

اچانک اپنی پوری کوشش کے باوجود میری رفتار میں فرق آ گیا ہے، میں رکنا نہ چاہتے ہوئے بھی رکنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔  کیونکہ ۔۔۔   ایک طویل عرصے بعد گہرے اندھیرے سے ایک بار پھر کسی نے مجھے آواز دی ہے۔  میں نے اس آواز کی طرف کان لگا دئے ہیں ۔۔۔   وہ مدھم ہے، بہت خفیف سی۔

"پا ۔۔۔  ۔۔۔  پا ۔۔۔   پاپا ۔۔۔ ۔۔ ”

میں آواز کی سمت بڑھ جاتا ہوں۔

"پاپا ۔۔۔   پاپا، آپ مجھے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا پاپا ۔۔۔ ۔ ”

میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس ننھے سے لڑکے کو اپنی طرف کھینچتا ہوں۔  ارے، یہ تو میرا بیٹا ہے۔

 

"ضرور بیٹے، ضرور ۔۔۔   ” یہ کہہ کر میں اسے گود میں اٹھا لینا چاہتا ہوں کہ اپنی پرانی عادت کے سبب بے اختیار میری بے قرار نظریں اس کی آنکھوں سے جا ٹکرائی ہیں اور میں اچھل پڑتا ہوں ۔۔۔   حیرت و استعجاب سے نہیں بلکہ مسرت و انبساط سے۔  کیوں کہ ۔۔۔

کیونکہ میں نے ایک طویل عرصے کی تلاش کے بعد بالآخر اپنے بیٹے کی آنکھوں میں جگمگاتی محبت کی خالص، بے غرض اور بے ریا چمک کو پا لیا ہے لیکن ۔۔۔ ۔

٭٭

 

میں اپنی آنکھوں کو کیا نام دوں جن کا عکس میں اپنے بیٹے کی آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں اور جس میں اپنی چاہت، عنایت اور تربیت کا اجر اپنی اولاد سے وصول کرنے کی تمنا انگڑائیاں لے رہی ہے !!

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے