محوِ غفلت تھا مَیں ، پہلے پہل ۔۔۔ ! پھر لگا الکٹران، پروٹان ٹکرا گئے ہوں ، آپس میں، بل کھا کر ۔۔۔ !اور نا قابلِ برداشت دھماکے سے موالید ثلاثہ کا ذرّہ ذرّہ لرز گیا ، کرب سے، تھرّا کر ۔۔۔ ۔ !جیسے کائنات کو، دو پیالوں میں کس کر بگھار دیا ہو کسی نے جامنوں کی طرح، جھلّا کر ۔۔۔ ۔ ! پھر میرے یخ وجود میں ہلکی سی انگڑائی لی، حرارت نے، مسکرا کر۔۔ ! اُس کے بعد میرے احساس کے ساکت سمندر کی سطح پر دستک دی ، ہوا کے معصوم جھونکے نے، شرما کر۔۔ !اور جب میرے شعور کی کالی رات کو اُفق کی نئی نویلی کرن نے احساس کرایا، اپنے وجود کا، جگا کر۔ !تو میرے سامنے ایک عجیب و غریب، لحیم شحیم، نٹ کھٹ، مُتَلَوِّنْ گرگٹ ، سہ بُرُوْتی کھڑا مسکرا رہا تھا۔
’’ت، ت، تم ہو کون ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ ‘‘ مَیں نے جھجک کر پوچھا۔
’’کیوں ۔۔۔ ۔۔ ؟ ڈر گئے کیا ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘اس نے پہلے، اپنی گول گول آنکھیں گھمائیں، پھر فٹا فٹ سارے رنگ بدل کر مجھ پر بھرپور رعب جماتے ہوئے بڑے اطمینان سے پوچھا۔
’’ہاں ۔۔۔ ۔۔ !‘‘ مَیں نے اپنے شعور کے تانے بانے توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے ، داعش کی زد میں آئے معصوم و مظلوم بچّے کی طرح گھبرا کر ہانپتے کانپتے جواب دیا۔
’’ڈرنا کیا، اِس میں۔۔ ؟ ‘‘اُس نے کہتے ہوئے اپنی آنکھیں پھر گھمائیں ، گول مٹول۔ پھر مٹک مٹک کر چلتے ہوئے زمین پر ایک دائرہ بنایا، گول گول۔ پھر اپنا بد رنگا جسم پھُلایا، لمبی دُم کو اوپر اُٹھایا۔ پھر اپنے اندر کے یکے بعد دیگرے سبھی جبلّتی رنگوں کو بدل بدل کر دِکھلایا، پھر اُچھل کر پیروں پر کھڑے ہو کر دونوں ہاتھوں سے اپنی بائیں کالی مونچھ کو زمین میں اور بیچ کی کھچڑی دار مونچھ کو موالید ثلاثہ کے ذرّے ذرّے میں پھیلایا، پھر دائیں سفید مونچھ کو اوپر کی جانب ہوا میں لہرایا۔ یعنی کہ اپنے سارے کے سارے کرتب دکھا ڈالے ، داعش کے کسی خوں خوار سرغنہ کی طرح، اِٹھلا اِٹھلا کر۔
’’دائیں طرف کی تمھاری سفید مونچھ تو جا رہی ہے سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ کو اور بائیں طرف کی کالی مونچھ، تحت الثریٰ کو اور بیچ کی کھچڑی دار مونچھ ، کائنات کو گرفت میں لیے ہوئے ہے ، جو کبھی اوپر کی سفید مونچھ میں پیوست ہونے کی کوشش کرتی ہے، تو کبھی نیچے کی کالی مونچھ میں۔ ‘‘ مَیں نے ڈرتے ہوئے قصیدہ پڑھا، اُس کا۔
’’تو اس میں حیرت کیا ہے ۔۔۔ ۔۔ ؟ جناب ۔۔۔ ۔۔ !‘‘
’’ہے کیوں نہیں حیرت ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’ یہ آج سے تو ہیں نہیں، میری مونچھیں ، یہ تو ازل سے ہیں، بچّو ۔۔۔ ! اور رہیں گی بھی، ابد تک۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں، بھائی ۔۔۔ ۔۔ !‘‘
’’پر مَیں نہیں جانتا، اَنکل ۔۔۔ ۔۔ !‘‘ مَیں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بھولے انداز میں کہا۔
’’ہو تو تم بڑے فطرتی، نسلاً۔ یعنی کہ عالم، فاضل اور نہ جانے کیا کیا ۔۔۔ ۔ ؟ اُس پر اَشرف المخلوقات بھی اور اتنا نہیں جانتے ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘
’’نہیں انکل ۔۔۔ ! مَیں نہیں جانتا، یہ سب۔ ‘‘
’’بڑے بھولے ہو، نا ۔۔۔ !بھولے کا ہے کو۔ یوں کہو کہ فطرتی، جیسی کہ فطرت ہے، تمھاری۔ یعنی کہ عام لوگوں جیسی۔ وہی تو بول رہی ہے ، اندر سے تمھارے۔ تمھارے آباء و اجداد جیسی، تمھاری اپنی فطرت۔ ‘‘امریکا ، جیسے شیر نے دریا کا پانی میمنے کے گندا کرنے سے انکار پر، الزام اس کے باپ پر تھوپتے ہوئے، آنکھیں مجھ پر نکالیں۔
’’نہیں ۔۔۔ ۔۔ ! مَیں نہیں جانتا، فطرت وطرت۔ ‘‘ مَیں نے بھی میمنے کی طرح، پانی گندا ہونے کی لا علمی ظاہر کی۔
’’آ ۔۔۔ ۔۔۔ ہاہاہا ۔۔۔ ۔۔ !کیا بات کہہ دی۔ کوئلے کی کان میں رہ کر، کوئلہ نہیں جانتے ۔۔۔ ۔۔ ؟ سمندر کے واسی، پانی نہیں پہچانتے ۔۔۔ ۔ ؟ آگ میں رہ کر، شعلوں کو نہیں گردانتے ۔۔۔ ؟ اپنی مونچھوں کو، مونچھیں نہیں مانتے ۔۔۔ ۔ ؟ دیکھو ۔۔۔ ۔ !دیکھو ذرا غور سے ۔۔۔ ۔ !‘‘اس نے رعب سے آنکھیں نکال کر، سینہ تان کر، اپنی مونچھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اشارہ کرتے ہوئے آگے کہا: ’’ یہ ہیں میری، مونچھیں ۔۔۔ !یہ مونچھیں تو ہمیشہ رہی ہیں، میری۔ صرف میرے ہی نہیں، سبھی کے ہوتی ہیں یہ۔ تمھارے بھی ہیں۔ ہیں کہ نہیں ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘اس نے آنکھیں مزید نکال کر انگلیاں ہوا میں نچاتے ہوئے پوچھا کہا۔
’’نہیں۔ !میرے تو ہیں نہیں مونچھیں۔ ‘‘مَیں نے اپنے ہونٹوں کے اوپر ٹٹول کر جواب دیا۔
’’ہیں ، ہیں، ہیں ۔۔۔ ۔۔ !ہیں مونچھیں، تمھارے بھی۔ مکمل ہیں، پوری طرح ہیں، سمجھے ۔۔۔ !لیکن ، ابھی پیٹ میں ہیں، دوست ۔۔۔ ! تم محسوس بھی کر رہے ہو۔ لیکن، چھپا رہے ہو تم، ان مونچھوں کو، اپنی فطرت کے مطابق۔ ایک تم ہی نہیں، سبھی چھپائے رہتے ہیں، اِن مونچھوں کو، ایک دوسرے سے اور مصنوعی چہرہ عیاں رکھتے ہیں سب، اپنا اپنا اور جب بھی موقع ملتا ہے ، اینٹھنا شروع کر دیتے ہیں ، اِن مونچھوں کو، بڑے رعب کے ساتھ۔ جو سب کرتے ہیں ، وہی تم بھی کر رہے ہو، بچّو ۔۔۔ ۔ !‘‘ گِرگَٹ نے غصّے میں پہلے جسم پھلا یا، پھر فٹافٹ اپنے رنگوں میں بدلاؤ لایا۔ بڑی بڑی مونچھیں دکھا کر امریکا کی طرح اپنے سارے ہتھیاروں اور بین الاقوامی رسوخ کی دھونس دیتے ہوئے، بندر گھڑکی کے ساتھ اُچھل اُچھل کر پہلا مدار ہلا ڈالا۔
’’اچھا، یہ بتاؤ ۔۔۔ ۔ !تمھاری اوپر اور نیچے کی مونچھوں میں تضاد کیوں ہے، اتنا ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘ مَیں نے سوال کرنے کی جسارت کی۔
’’تضاد ۔۔۔ !تضاد کا ہونا بہت ضروری ہے، پیارے ۔۔۔ !یہ تضاد سبھی میں ہوتا ہے ، بڑی اہمیت ہے تضاد کی، اسی تضاد سے مدارج قائم ہیں۔ مثلاً تحت الثریٰ نہ ہو تو سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ کی اہمیت کیا ۔۔۔ ۔ ؟ اور اگر سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ نہ ہو تو تحت الثریٰ کا کیا مقام ۔۔۔ ؟ نہیں سمجھے ۔۔۔ ؟ ‘‘ اس نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں ۔۔۔ ۔ !‘‘ میں نے انکار کیا۔
’’اور سمجھو گے بھی نہیں، ابھی تم ۔۔۔ ۔۔ ! چلو سمجھاتا ہوں تم کو، ، تمھاری بھاشا میں، یوں سمجھو کہ کالا رنگ نہ ہو تو، کیا مقام ہے، سفید کا ۔۔۔ ۔۔ ؟ اور سفید نہ ہو تو، کیا اہمیت ہے، کا لے کی ۔۔۔ ۔۔ ؟ گرمی نہ ہو تو، سردی، اور سردی نہ ہو تو، کیا مقام ہے، گرمی کا ۔۔۔ ۔۔ ؟ سمجھے ۔۔۔ ۔۔ ؟ یا نہیں ۔۔۔ ۔۔ ؟ اگر نہیں ۔۔۔ ۔ ! تو اور سمجھاؤں ۔۔۔ ۔ ؟ یعنی کہ تفصیل سے۔ ویسے مَیں یہ جانتا ہوں کہ تم سمجھتے سب کچھ ہو۔ چوں کہ میری اِن مونچھوں کی طرح تمھارے اندر بھی لبادے ہیں۔ اسی لیے تم اندر کے کالے پن کو، سفیدی کے لبادے سے ڈھانکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہو۔ دنیا والوں کی طرح۔ کیوں کہ تم رہ ہی رہے ہو، اس دنیا میں۔ جو نہ اوپر میں ہے اور نہ نیچے میں۔ نہ سفید میں ہے ، اور نہ کالے میں۔ نہ دن میں ہے ، اور نہ ہی رات میں۔ مطلب یہ کہ نہ اِدھر میں ، اور نہ اُدھر میں۔ چوں کہ مَیں بھی اسی دنیا میں ہوں۔ اسی لیے نہ اِدھر میں ہوں ، اور نہ اُدھر میں۔ دنیا بھی اِدھر ادھر کے چکّر میں لٹک گئی۔ اس لیے تو کچھ بھی نہ رہی۔ ہاہاہا ۔۔۔ ۔۔ !‘‘اس نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے آگے کہا: ’’ایک بات اور بتاؤں ۔۔۔ ؟ معرکے کی۔ لو، سن لو ۔۔۔ ۔۔ ! اگر یہ اوپر ہوتی، تو سبھی کچھ ہوتی اور نیچے ہوتی، تب بھی سبھی کچھ ہوتی۔ اگر یہ اُوپر ہوتی، تو اُوپر ہونے کا اندازہ کس سے لگایا جاتا ۔۔۔ ؟ تحت الثریٰ نہ ہوتا تو ۔۔۔ ۔۔ ؟ غالبؔ نے یہی کہا ہے: ’’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا: ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا مَیں، تو کیا ہوتا ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘ جانتے ہو غالبؔ چچا کو ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘اس نے رک کر سوال کیا۔
’’وہ تو میرے ابّا تھے۔ ‘‘ مَیں نے خوشی سے اچھل کر بتایا۔
’’ابّا تھے تمھارے ۔۔۔ ؟ اُن کے اولاد تو تھی نہیں کوئی، پھر تم کہاں سے ٹپک پڑے غالبؔ کے ابّا ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘پہلے تو وہ اُچھل کر ہنسا، پھر اس نے اپنے ہاتھ کے پنجے کے بیچ کی انگلی اٹھا کر ہوا میں دائرہ بناتے ہوئے گھمائی اور آگے پوچھا: ’’اپنے ابّا کا کوئی شعر یاد ہے، تم کو ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’شیر ۔۔۔ ۔۔ !شیر تو کوئی تھا نہیں، میرے یہاں۔ ‘‘
’’یہی امید تھی تم سے، غالبؔ کے ابّا ۔۔۔ ۔ !‘‘اس نے ٹھٹّا لگا کر آگے کہا: ’’شعر(اشعار) تو بے شمار تھے، اُن کے، کچھ کو تو جلا کرتا پ گئے ہو گے۔ کچھ ردّی میں بیچ کر پتنگیں اُڑا ڈالی ہوں گی، اچھا ہوا، جو کچھ بھی ہوا، اور ہوتا بھی کیا اُن کا ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ پڑھنے والے ہی کتنے رہ گئے ہیں، اُن کے ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘وہ کچھ سوچ کر آگے بولا: ’’ہاں، تو مَیں کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔ ۔ ؟ ہاں ۔۔۔ ! مَیں کہہ رہا تھا کہ کسی اور نے بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے ، غالبؔ سے ملتا جلتا: ’’ تو مثلِ سیاہی، حرف ہوں مَیں: تو آبِ بقا، اور برف ہوں مَیں: جب حرف مٹا، اور برف گلا: تو اور نہیں ، مَیں اور نہیں۔ یعنی کہ کوئی فرق ہی نہ ہوتا۔ ‘‘ سمجھے ۔۔۔ ! اور اگر اب بھی نہیں، تو اور آگے سمجھاؤں ۔۔۔ ۔ ؟ لو وضاحت کیے دیتا ہوں۔ یہ کالا پن، وہ ہے، جس سے سفیدی کا معیار قائم ہے۔ مَیں بھی چاہتا ہوں کہ یہ میری بائیں کالی مونچھ ، جو تحت الثریٰ میں پیوست ہے ، کسی طرح سفید ہو جائے اور مَیں پھر اپنے اُسی مقام پر پہنچ جاؤں۔ یا پھر یہ دائیں طرف کی سفید مونچھ، جو سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ کی جانب لپک رہی ہے ، کسی طرح کالی ہو جائے۔ تو بھی بات بن جائے۔ یوں تو نہ اِدھر کا ہوں ، اور نہ اُدھر کا۔ اور یہ جو بیچ کی مونچھ ہے، نا۔۔ ؟ یعنی کہ کھچڑی دار ۔۔۔ ؟ جو موالید ثلاثہ میں پیوست ہے، یعنی کہ دنیا کو جکڑے۔ اوپر نیچے دونوں میں شامل ہونے کے باوجود نہ اِدھر کی ہے ، اور نہ اُدھر کی۔ یعنی کہ معلّق۔ بس اِسی طرح مَیں بھی ہوں اور تم بھی۔ کہیں دور نہ جاؤ ۔۔۔ ۔ ! سِدرَۃُالْمُنْتَہیٰ اور تحت الثریٰ کی بات بھی چھوڑ و۔۔ !دنیا کو ہی لے لو۔ چلے جاؤ۔ !اُوپر، یعنی کہ پہاڑ پر۔ کیا ملے گا ۔۔۔ ۔۔ ؟ صاف ہوا۔ شفاف پانی۔ سفید ہی سفید برف۔ ٹھنڈا ٹھنڈا کول کول۔ کیا کہلاتا ہے ۔۔۔ ۔ ؟ پہاڑ ۔۔۔ ! یعنی کہ سب سے بڑا، سب سے اُونچا۔ پھر برف کی طرح پگھلو ۔۔۔ ۔ ! چلے آؤ بہتے ہوئے نیچے۔ پتھروں سے ٹکراتے ہوئے۔ دنیا کی غلاظت اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے۔ : کیا بن گئے اب ۔۔۔ ۔۔ ؟ سمندر بن گئے، نا۔۔ ؟ یعنی کہ سب سے بڑے۔ اوپر تھے ، تب بھی بڑے۔ نیچے پہنچے، اب بھی بڑے۔ بیچ میں کیا تھے ۔۔۔ ۔۔ ؟ کچھ بھی تو نہیں۔ یعنی کہ غلاظت ہی غلاظت۔ ‘‘
’’پانی کیسا ہوتا ہے، سمندر کا ۔۔۔ ؟ کھارا۔ یعنی کہ بدمزہ۔ وہی جب اُوپر چلا جاتا ہے، پھر ٹھنڈا ٹھنڈا کول کول۔ وہی غرور اُسے لے آتا ہے نیچے، میری طرح۔ یعنی کہ غلاظت ہی غلاظت اور جب اس میں عاجزی و انکساری آ جاتی ہے، تو زمین اُس کے وجود کو اپنے میں جذب کر کے پاتال میں لے جا کر پھر شفاف، ٹھنڈا اور شیریں بنا دیتی ہے۔ اگر کچھ بننا چاہتے ہو تو پاتال کے پانی سے سیکھو۔۔ !پہاڑ پر رہو ۔۔۔ ! یا پاتال میں۔ پسند کیے جاؤ گے، بیچ میں کچھ نہ پاؤ گے۔ گندے نالے کا کوئی مقام نہیں۔ کچھ بننا ہے دنیا میں۔ تو اندر کے کالے پن کو نکال پھینکو۔ یا پھر سفید پن کو۔ سب کچھ بن جاؤ گے۔ دنیا سلام کرے گی، جھکے گی تمھارے سامنے، یہ دنیا۔ آمیزش میں کچھ نہ ملے گا۔ لیکن مَیں جانتا ہوں۔ کہ مکمل طور سے نکال نہ سکو گے، کسی کو بھی۔ کیوں کہ یہ دنیا نکالنے ہی نہ دے گی، کبھی۔ کوشش تومیں بھی کر رہا ہوں، ازل سے۔ لگتا ہے ، نکال نہ سکوں گا کبھی۔ کاجل کی کوٹھری میں ہوں، نا۔ ؟ دیکھو ۔۔۔ ! اس کالی مونچھ کو ۔۔۔ ! کئی بار کاٹ چکا ہوں اسے، لیکن بار بار نکل آتی ہے، کم بخت۔ اسی طرح تم بھی نہ بچ سکو گے، کاجل کی کوٹھری سے۔ کیوں کہ جو مَیں ہوں ، وہی تم بھی ہو۔ ہو، نا وہی تم ۔۔۔ ۔ ؟ یعنی کہ دنیا والے۔ خربوزے کی طرح ایک دوسرے کا رنگ پکڑ نے والے۔ شاہین جیسی فطرت اب کہاں، تم میں ۔۔۔ ؟ تم بھی چھپائے رہتے ہو اپنی مُتلوِّن فطرت، ایک دوسرے سے، میری طرح۔ ‘‘
’’آدم علیہ صلاۃ والسلام کا نام تو سنا ہو گا ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘اُس نے کچھ سوچ کر سوال کیا۔
’’ہاں، ہاں۔ ‘‘میں نے برجستہ اقرار کیا۔
’’کیوں نہیں، ابّا جو تھے تمھارے وہ، کبھی اُوپر تھے، سفید پوش۔ پھر میرے ایک اشارے پر یعنی کہ قدرتی نظام کے تحت نیچے آ گئے، دھڑام سے ، ہاہاہا ۔۔۔ ہا۔۔ !۔ کہتے ہیں: تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغامبر آئے، دنیا میں۔ سارے کے سارے، سفید پوش۔ سفید چہروں پر مونچھیں لیے، سفید سفید۔ پیغام بھی دیے، اپنی نسل کو۔ لیکن اولادوں کی مونچھیں نکلیں پھر کالی، بھیڑوں جیسی چال والی۔ تم بھی وہی ہو، نا ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘
’’ مَیں کہاں ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘میری آواز ممیا گئی، شیر کے سامنے۔
’’کہا نا مَیں نے ۔۔۔ ۔۔ ؟ تم چھپا رہے ہو خود کو، مجھ سے۔ دیکھو ۔۔۔ ! مَیں تمھارا ہی بھائی ہوں، پہچانتا خوب ہوں، تم کو۔ مجھے بے وقوف بنا رہے ہو ۔۔۔ ! دائی سے پیٹ چھپا رہے ہو ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘اُس نے پھر گھڑکی دی۔
’’نہیں بھائی، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘‘ میں کانپ گیا۔
’’ہے ۔۔۔ ، ہے ۔۔۔ ۔ ، ایسا ہی ہے کچھ۔ ابھی اُتارتا ہوں، تمھارے کپڑے۔ کرتا ہوں ننگا سرِ عام، تم کو، پیاز کے چھلکوں کی طرح۔ سمجھے ۔۔۔ ۔ !‘‘اس نے لمبا سانس لے کر آگے پوچھا: ’’اچھا پہلے یہ بتاؤ ۔۔۔ ۔ ! کہ تم ہو کون ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’اُسی آدم کی اولاد ۔۔۔ ۔۔۔ !جس کی تم بات کر رہے تھے۔ ‘‘
’’اوہ ۔۔۔ ۔۔ ! آدم ۔۔۔ ۔۔ ؟ تھا جو مسجودِ ملائک، تم وہی آدم ہو ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘
’’ہاں، ہاں وہی وہی ۔۔۔ ۔۔ !‘‘
’’ہاں ہاں وہی وہی ۔۔۔ ۔ !تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ اوپر سے تو آئے تھے آدم کے روپ میں۔ مگر اب کیا ہو، وہی وہی ۔۔۔ ۔ ؟ میرا مطلب سکھ ہو ۔۔۔ ؟ ہندو ہو ۔۔۔ ؟ یا پھر عیسائی ۔۔۔ ۔ ؟ کچھ تو بولو ۔۔۔ !میرے بھائی ۔۔۔ ۔ ؟ کون ہو، اُن میں سے تم ۔۔۔ ؟ وہی وہی ۔۔۔ !‘‘ اس نے ایک ہاتھ اٹھلا کر انگلیاں نچاتے ہوئے میرا مذاق بنایا۔
’’ مَیں تو مسلمان ہوں، بھائی۔ ‘‘
’’مسلمان ۔۔۔ ۔۔ !آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ۔۔۔ ۔۔ ؟ شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ۔۔۔ ۔۔ !مسلمان اب رہے کہاں ۔۔۔ ؟ ابے نمرود ۔۔۔ !بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے ، بت گر ہیں۔ ہو گا، تو ہو گا کوئی، ڈھکا چھپا۔ میری نظر میں تو کوئی ہے نہیں مسلمان، اب۔ ہاں، نام نہاد تو ہیں ، بے شمار ہیں۔ ‘‘اس نے ذرا رُک کر پوچھا: ’’ جانتے ہو ۔۔۔ ؟ نام نہاد مسلمان، کیا ہوتا ہے ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘
’’بالکل جانتا ہوں۔ ‘‘مَیں نے وثوق سے کہا۔
’’بتاؤ تو ذرا ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘اس نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
’’پکا مسلمان، میری طرح۔ ‘‘ مَیں نے برجستہ بتایا، جس پر وہ ہنستے ہنستے لوٹ گیا، پھر بڑی دیر میں پیٹ پر ہاتھ رکھ کر، ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولا: ’’چلو مان لیتا ہوں کہ پکے مسلمان ہو تم، یعنی کہ نام نہاد۔ مگر یہ تو بتاؤ میرے دوست کہ تم ہو کون سے مسلمان ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’کون سے مسلمان ۔۔۔ ۔۔ !‘‘ مَیں نے تعجب کیا۔
’’ہاں بھئی ہاں، ہو کون سے مسلمان ۔۔۔ ۔ ؟ مسلمانوں کی کٹاگری ایک دو تو ہیں نہیں۔ دنیا بھری پڑی ہے، مسلمانوں کی کٹاگری سے ۔۔۔ ! اور ان کی مسجدیں الگ الگ ہیں، بھائی ۔۔۔ ۔۔ !خدا ایک اور اس کی مساجد کے خدا، جدا جدا ، یعنی کہ بے شمار ۔۔۔ ۔ !سمجھے کہ نہیں ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘اس نے مجھ کو ٹارگٹ مان کر مِزائل داغ دیا۔
’’نہیں ‘‘اور میں نے نہیں کہہ کر خود کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔
’’ سمجھو گے بھی نہیں تم، اور نہ ضرورت ہے سمجھنے کی، ابھی تم کو۔ بس، نام ہی کے بنے رہو مسلمان۔ آپس میں مار کاٹ کرنے والے۔ کچھ دنوں میں خود ہی سمجھ جاؤ گے۔ ابھی تو اتنا بتاؤ ۔۔۔ ! میرے بھائی کہ ہو کون سے مسلمان ۔۔۔ ۔ ؟ شام کے نصری ۔۔۔ ۔ ؟ عمان کے عبادی ۔۔۔ ۔ ؟ دروز ۔۔۔ ؟ داعش ۔۔۔ ۔ ؟ کر دوں ۔۔۔ ؟ خارِجی تکفیری ۔۔۔ ؟ داؤدی بوہرا ۔۔۔ ۔۔ ؟ آغا خانی بوہرا ۔۔۔ ۔۔ ؟ ایزدی ۔۔۔ ۔۔ ؟ سنّی ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ یا پھر شیعہ ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘اُس نے میرا سراغ لگانے کے لیے مجھ کٹی پتنگ کو پھانس کر لانے کے لیے اپنی پتنگ کی ڈھیل مزید بڑھا دی۔
’’ شیعہ شیعہ۔ ‘‘ مَیں نے برجستہ کہا۔
’’پر کون سے شیعہ ہو بھائی ۔۔۔ ؟ کون سے شیعہ۔۔ ؟ علوی ۔۔۔ ؟ حسنی ۔۔۔ ؟ یا پھر حسینی ۔۔۔ ؟ زیدی ۔۔۔ ؟ باقری ۔۔۔ ؟ جعفری ۔۔۔ ؟ کاظمی ۔۔۔ ؟ رضوی ۔۔۔ ؟ تقوی ۔۔۔ ؟ نقوی ۔۔۔ ؟ عسکری ۔۔۔ ؟ کچھ تو بولو بھائی ۔۔۔ !‘‘ یا پھر آنے والے منہدی ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’نہیں نہیں، شیعہ نہیں۔ مَیں تو سنّی ہوں ، سنّی، یعنی کہ ٹنا ٹن سنّی۔ ‘‘
’’اوہ ۔۔۔ !ٹنا ٹن سنّی۔۔ ؟ سمجھ گیا، سمجھ گیا مَیں ، پوری طرح سمجھ گیا، تم سنّی ہو، یعنی کہ ٹنا ٹن سنّی۔ مگر ٹنا ٹن سنّی صاحب ۔۔۔ ۔ ! یہ تو بتاؤ، ہو کون سے سنّی ٹنا ٹن۔۔ ؟ سلفی۔۔ ؟ شافعی۔۔ ؟ صوفی ۔۔۔ ؟ مالکی ۔۔۔ ؟ حنبلی۔۔ ؟ یا پھر حنفی ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’م۔ م۔ م۔ مَیں حنفی ہوں، حنفی۔ ‘‘
’’کون سے حنفی بھائی ۔۔۔ ۔ ؟ بریلوی ۔۔۔ ۔ ؟ یا دیو بندی ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’دیو بندی۔ ‘‘
’’کون سے دیوبندی۔ ؟ ‘‘وہابی۔۔ ؟ تبلیغی۔ ؟ مظاہری۔۔ ؟ قاسمی۔۔ ؟ جماعت اسلامی۔۔ ؟ مودودی۔۔ ؟ سر سیّد والے نیچری۔۔ ؟ چکڑالوی ۔۔۔ ؟ قادیانی ۔۔۔ ۔ ؟ شمع نیازی ۔۔۔ ۔ ؟ سلفی ۔۔۔ ۔ ؟ یا اہلِ حدیثی ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’ نہیں نہیں۔ مَیں دیو بندی نہیں ، بریلوی ہوں، بریلوی۔ ‘‘
’’کون سے بریلوی بھائی ۔۔۔ ؟ کون سے بریلوی ۔۔۔ ؟ قادری۔۔ ؟ سہروردی ۔۔۔ ؟ نقشبندی ۔۔۔ ؟ چشتی۔۔ ؟ قطبی ۔۔۔ ؟ فریدی ۔۔۔ ۔ ؟ صابری۔ ؟ واحدی ۔۔۔ ؟ برکاتی۔۔ ؟ اَشرفی۔۔ ؟ رِضوی ۔۔۔ ؟ عطاری ۔۔۔ ۔ ؟ قدیری ۔۔۔ ۔ ؟ فردوسی ۔۔۔ ۔ ؟ یاسالمی۔۔ ؟ ‘‘اصولی؟ اخباری؟ ملنگ؟ اثنا عشری خوجہ۔ ؟ مولائی۔ ؟ دیوبندی ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ بریلوی ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ سلفی ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ حنفی ٹنا ٹن۔۔ ؟ شافعی ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ اہلِ حدیث ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ مواحدون ٹنا ٹن۔۔ ؟ خواجہ ٹنا ٹن ۔۔۔ ؟ یا کہ پھر صوفی ٹنا ٹن ۔۔۔ ۔ ؟ تم ہو کون سے سنّی ٹنا ٹن، یہ تو بتاؤ ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘
’’ کون سے سنّی ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘ مَیں نے کہا۔
’’ارے بھئی ہاں۔ مجھے لگتا ہے کہ تمھیں پتا ہی نہیں کہ تم ہو کون ۔۔۔ ۔۔ ؟ بھئی ٹنا ٹن سنّی صاحب ۔۔۔ ۔ !اگر تم نے بتا بھی دیا کہ مَیں فلاں سنّی ہوں ، تو مَیں پھر پوچھوں گا کہ تم سیّد ہو ۔۔۔ ۔ ؟ ادریسی ہو۔۔ ؟ قریشی۔ ؟ عباسی۔۔ ؟ تیلی۔۔ ؟ نائی۔ ؟ دھوبی۔۔ ؟ تنبولی۔ ؟ بہشتی۔۔ ؟ رنگریز یا انصاری۔۔ ؟ یا کہ پٹھان ۔۔۔ ۔ ؟ سلمانی، فاروقی، میراثی، کون ہو ٹنا ٹن بھائی ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘
’’پٹھان، پٹھان، پٹھان، بھئی پٹھان ہوں مَیں تو پٹھان، ٹنا ٹن پٹھان۔ ‘‘ مَیں نے برجستہ جواب دیا۔
’’پٹھان۔۔ ! او۔۔ ہ۔۔ ! پٹھان۔۔ ؟ یعنی کہ خان بھائی۔ لڑھی جوت، یا لال منہ کے پٹھان یا پھر چوڑی ہڈّی والے یعنی کہ۔۔ ‘‘
’’ہاں ہاں ۔۔۔ وہی وہی۔ ‘‘میں نے اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی چوڑی ہڈی والے پٹھان ہونے کی حامی بھر لی۔
’’خان بھئی، پہلے اپنی پٹھانوی پر ایک لطیفہ سن لو، ایک پٹھان تھے یعنی کہ خان صاحب ، اور ایک تھے پنڈت جی۔ دونوں کی ایک دوسرے سے دوستی تھی، دانت کاٹی اور ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا بھی۔ ایک بار ہندو مسلم فساد ہوا، تو خاں صاحب نے پنڈت جی کے یہاں جانا بند کر دیا، لیکن پنڈت جی برابر آتے رہے، خان بھائی کے یہاں۔ پنڈت جی نے خاں صاحب سے ان کے نہ آنے کا شکوہ کیا تو خاں صاحب نے کہا: ’’ پہلے آپ مسلمان ہو جائیں ، تب ہی آؤں گا، ورنہ نہیں۔ ‘‘پہلے تو پنڈت جی بہت چکرائے، لیکن جب محبت نے جوش مارا تو بے چارے مجبور ہو گئے۔ انھوں نے خاں صاحب سے کہا: ’’ مجھے بتاؤ ۔۔۔ ۔ ! مَیں کیسے مسلمان بنوں۔۔ ؟ ‘‘خان صاحب نے برجستہ کہا: ’’ قلمہ (کلمہ )پڑھو۔۔ ! قلمہ (کلمہ)۔ ‘‘ پنڈت جی نے جوش میں آ کر کہا: ’’اچھا، پڑھاؤ کلمہ۔۔ !‘‘ خاں صاحب پہلے تو کچھ دیر کے لیے خاموش رہے، پھر چکرا کر بولے: ’’ قلمہ(کلمہ) تو بھائی مجھے بھی نہیں آتا ۔۔۔ !‘‘ لگتا ہے اسی طرح کے خان ہو، تم بھی ۔۔۔ ۔۔ ؟ ٹنا ٹن۔ ‘‘
’’اچھا ۔۔۔ !اچھا، اب تم بتاؤ ۔۔۔ ۔۔ ! کہ تم کون ہو ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘ مَیں نے گِرگَٹ سے پوچھا۔
’’ارے۔۔ ! کمال ہے، کمال ہے بھائی ۔۔۔ ! ساری دنیا جانتی ہے ، اور تم نہیں پہچانتے مجھے ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘
’’نہیں، مَیں نہیں پہچانتا ۔۔۔ ۔ !‘‘مَیں نے برجستہ کہا۔
’’ نہیں پہچانتے ۔۔۔ ؟ تو سنو ۔۔۔ ! تم نے اقبالؔ کو تو پڑھا ہو گا۔۔ ؟ : ’’گر کبھی خلوت میسّر ہو تو پوچھ اللہ سے ، قصّۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو: مَیں لرزتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح، تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو۔ ‘‘
’’نہیں، مَیں نے تو نہیں پڑھا۔ ‘‘
’’نہیں پڑھا، تو تم کیا جانو، اُن کو ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘
’’ہاں، جانتا تو ہوں۔ ‘‘
’’جانتے ہو ۔۔۔ ۔ ! مگر کیسے ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’وہ تو میرے چچا تھے، گھنگرو باندھ کر ناچتے تھے اور دوسروں کو بھی سکھاتے تھے۔ ‘‘ مَیں نے بتایا اور اس نے بڑے زور سے ٹھٹّا لگایا۔
’’چلو شکر ہے ، اتنا تو جانتے ہو اقبالؔ کو۔ وہ ناچتے تھے اور دوسروں کو بھی سکھاتے تھے۔ ‘‘اس نے ٹھنڈی سانس لے کر آگے کہا: ’’وہ بے چارے ناچ ناچ کر خود کو گھایَل کر کے زندگی بھر دوسروں کو درس دیتے دیتے مر گئے اور تم ان کے گھنگروؤں کی آواز بھی نہ سمجھ سکے، یار ۔۔۔ ۔۔ !اور اَب سمجھ بھی نہ سکو گے۔ اب تو اُن کے گھنگروؤں کی وہ دل دوز جھنکار اردو ہی چھین لی، مَیں نے، تم سب سے، جس میں درس تھا اُن کا اور تمھارا سبھی کلچر بھی۔ جس سے شناخت تھی تمھاری۔ اَب نہ رہا بانس اور نہ بجے گی بانسری، اب تو اپنی ہی بجے گی بانسری اور بج بھی رہی ہے۔ سنو ۔۔۔ !اردو ختم کرنے والا کون۔۔ ؟ حوّا کو بہکانے والا کون۔۔ ؟ آدم کو نیچے لانے والا کون ۔۔۔ ؟ دنیا کو ملکوں میں بٹوانے والا کون ۔۔۔ ۔ ؟ مذہبی تفریق پھیلانے والا کون۔۔ ؟ مسلمانوں کو مسلکوں میں بٹوانے والا کون۔۔ ؟ انسان کو شیطان بنانے والا کون ۔۔۔ ؟ سمجھے ۔۔۔ ۔ ؟ مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا، ہم نے اُسے انسان سے شیطان بنایا۔ انسان تو انسان، بھگوان کی ہر شے کو مذہبوں کے رنگ دے ڈالے ہیں، مَیں نے، سمجھے ۔۔۔ ؟ یہاں تک کہ چرندوں، پرندوں، سبزیوں، پھلوں، اَناجوں، کھانوں، مٹھائیوں، دِنوں، مقاموں، مکانوں کی گرستیوں، سمتوں، پیڑ، پودوں، ندیوں، پتھروں، لباسوں اور رنگوں تک کو مذہبی رنگوں میں رنگ ڈالا ہے۔ ساری دنیا میں میری ہی حکومت ہے، اِس وقت۔ یہ اُونچ نیچ، ذاتیں، میری ہی ہیں کراماتیں۔ ننگا ناچ، مَیں ہی تو کروا رہا ہوں، دنیا میں۔ یہاں تک کہ سڑکوں پر نیم برہنہ دوشیزائیں مٹکتی پھرتی ہیں، چھیل چھبیلی، خوش بودار، تنگ کپڑوں میں، اپنے جسموں کی نمایش کرتی ہوئی، سرخی پاؤڈر پوتے ، میرے ہی اشارے پر تو۔ تو تم کیا سمجھتے ہو، یہ سب جنّت میں جائیں گی ۔۔۔ ۔۔ ؟ ان کو بہلا پھسلا کر، بہکا کر بے غیرت، بے شرم، بے حیا اور ننگا اسی لیے کر دیا ہے کہ یہ سب جہنّم میں جھونکی جائیں، سمجھے ۔۔۔ ۔۔ ؟ اور مَیں عیش کروں، اُن کے ساتھ، سمجھے ۔۔۔ ۔ ؟ عورتیں پسند ہیں، مجھ کو، کیوں کہ یہ اپنے شوہروں کی اتنی نہیں مانتیں ، جتنی کہ میری۔ حوّا نے بھی میری مان کر آدم کو گندم کھلایا تھا۔ مَیں انھیں میں رہتا بھی ہوں، زیادہ تر یعنی کہ بٹورے پر۔ وہیں اپنے رنگ ڈھنگ بدل بدل کر دل بہلاتا ہوں، اِن کے ساتھ۔ ‘‘
’’لے تو اُن کے شوہروں کو بھی جاؤں گا جہنم میں۔ پیر دبوانے کے لیے، اپنے۔ کیوں کہ وہ اپنی عورتوں کو آوارہ چھوڑے ہیں، بے لگام۔ یہ لوگ اپنے ماں باپ کی خدمت نہ تو خود کرتے ہیں اور نہ اپنے بیوی بچّوں سے کرواتے ہیں۔ ضرورت تو بچّوں کی بھی ہو گی، وہاں۔ اسی لیے تو بگاڑ رکھا ہے، اُن کو۔ وہ اب میرے اشاروں پر چلتے ہیں، وہ اب بڑوں کا کہنا نہیں مانتے اور نہ ہی پڑھنے میں من لگاتے۔ ٹی۔ وی اور موبائل پر فیس بک وغیرہ میں لگ رہتے ہیں۔ یہ لت مَیں نے ہی ڈال رکھی ہے، اُن میں۔ ‘‘ گِرگَٹ نے اچھل اچھل کر ناچتے ہوئے بتایا۔
’’مگر یہ تو بتاؤ ۔۔۔ !ایسا تم کر ہی کیوں رہے ہو ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’اپنی بھلائی کے لیے۔ ‘‘
’’اس میں کیا ہے تمھاری بھلائی ۔۔۔ ۔ ؟ ‘‘ مَیں نے تعجب سے پوچھا۔
’’جس کے گناہ زیادہ ہوں گے وہی تو جائے گا جہنم میں، سب جانتے ہیں کہ مَیں نے بے شمار خدا کی عبادت کی ہے تمھاری بہ نسبت۔ بس ایک نافرمانی پریہ حشر ہوا میرا۔ اور تم سب تو بے شمار نافرمانیاں کرتے ہو روز، اللہ کی، تم لوگ تو ہم سے کہیں زیادہ گناہ گار ہو۔ مَیں اَب بھی تم سب سے لاکھ گنا اچھا ہوں۔ اس لیے میں جاؤں گا بہشت میں، یہاں تک کہ دس جانور تک بہشت میں جائیں گے، اصحاب کہف کا کتا اور زبیر عَلَیہِ السّلام کا گدھا بھی۔ اور میاں تم جیسے حضرت یعنی کہ اشرف المخلوقات جہنم میں۔ مَیں تو خوب عیش کروں گا بہشت میں حسیناؤں کے ساتھ۔ او۔ کے۔ ‘‘ گِرگَٹ نے کہتے ہوئے اپنا سینہ تان کر اپنے سارے جسم کے سفید رنگ کو سمیٹ کر سفید مونچھ میں پیوست کر کے، سفید مونچھ کو مزید سفید کیا اور پھر ایک بھیانک آواز کے ساتھ، بھر پور زور لگاتے ہوئے آسمان کی جانب اُٹھاتا گیا، اُٹھاتا گیا۔ اور پھر ایک بھیانک دردناک چیخ کے ساتھ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کی سفید مونچھ آگ سے جھلس کر کالی پڑ گئی۔
’’اس کا مطلب کہ توابلیس ہے ۔۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘جب وہ کافی دیر بعد ہوش میں آیا تو مَیں نے مسکرا کر پوچھا۔
’’تم نے صحیح پہچانا، دوست ۔۔۔ ۔ ! مَیں ابلیس ہی ہوں۔ ‘‘
’’اچھا ٹھہر ۔۔۔ ۔ !تیرا علاج تو ہے میرے پاس ۔۔۔ !‘‘ اور جیسے ہی لاحول پڑھا مَیں نے۔ وہ بجلی جانے پر ٹی۔ وی۔ کے اسکرین سے تصویر کی طرح غائب تو ہو گیا۔ لیکن میرے وجود کے سیہ خانوں میں سہ بُرُوْتی کے کَلّے پھوٹنے لگے۔
٭٭٭