سامنے والی برتھ پر بیٹھی وہ، اپنی انگلیوں میں پھنسے برش سے، کینوس پر اتر آئے الگ الگ رنگوں میں بہت پیچھے کی طرف چھوٹتی ہوئی زندگی کے ان گلیاروں کو ڈھونڈ رہی تھی جہاں اٹکن چٹکن دہی چٹاکن کا کھیل تو تھا مگر لکیریں نہیں تھیں۔ بے چینی کے عالم میں اس نے HA-1 کوچ کی کھڑکی سے سرمئی بادلوں کے ان سلسلوں کو دیکھنا چاہا جو کبھی ساون کے موسم میں دواریکا سے تغلق آباد اور حضرت نظام الدین سے ہری دوار تک کے سفر میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ مگر ایک آج کا ساون ہے بادلوں کے سلسلے تو ہیں مگر اپنی صفات سے باہر ٹوٹے ہوئے بکھرے ہوئے، الگ الگ قبیلوں میں بنٹے ہوئے۔ اب قبیلہ کہاں، معاشرہ کدھر؟؟
آج ہمارا معاشرہ ٹو۔ بی۔ ایچ کے (2BHK) فلیٹ میں اکڑوں بیٹھا ہے، اورسنہری تہذیب کا آنگن گمشدہ پنچھی کی طرح۔
ایک طرف پیچھے کی طرف بھاگتے ہوئے کھیت تھے، کھلیان تھے۔ دوسری طرف ماہی گیروں کی بستیوں میں مچھلیوں کو ندیوں کے خلاف ورغلایا جا رہا تھا۔ مذہبی، نسلی اور لسانی گروہوں کی کشیدگی ظاہر ہو رہی تھی۔
ٹائر کی چپل پہلے ایک بوڑھا، آنکھوں پر، پاور کے چشمہ کو، موٹی ستلی سے کانوں میں پھنسائے، ماڈل اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر دو پر کھڑا، بھاگتی ہوئی ٹرین کی رفتار کو دیکھ رہا تھا۔
—
وہ کھڑکی سے کچھ اس قدر چپکی ہوئی تھی کہ اس کے رخسار کا سرخ رنگ کانچ کی کھڑکی پر ابھر آیا تھا، پیشانی پر لکیریں تھیں اور آنکھوں میں بادلوں سے جھانکتا ہوا سورج۔
بہت ممکن تھا ہو جاتا کسی بھی غیر کا یہ دل
تری سانسوں کی گر دھڑکن میری عادی نہیں ہوتی
بھاگتی ہوئی ٹرین کا اپنا ایک رنگ تھا۔ WAP7 LOCO کی Level Xing Gate پر چیختی ہوئی آوازوں سے بے خبر، رنگ برنگی روشنی میں لپٹے ہوئے، بے کیف چہرے، انجام سے بے خبر ٹریک پر چل رہے تھے۔
ہر زندگی رنگ کی اپنی دھڑکن ہوتی ہے اور ہر دھڑکن میں زندگی کی سانسیں۔ ان سانسوں پر ہمارا اختیار کہاں، اف یہ زندگی بھی نا خود کو کیا کیا سمجھ بیٹھتی ہے۔ سوئے ہوئے شہر کو جگانے والے چہرے یہاں پری کہانی کردار بن جاتے ہیں۔
میرے اندر یہ کون بول رہا ہے۔
شاید یہ وہی شہزادی ہے جو جسم کی سرحدوں کو توڑ کر روح کی قبا کے ساتھ بہت دور نکل جاتی ہے۔ لوٹ آتی ہے، اور پھر چلی جاتی ہے۔ چھوڑ جاتی ہے، رنگوں کی خوشبوئیں اور خوابوں کی آہٹیں۔ پھر شروع ہوتا ہے خود سے خود کے مکالمے کا کبھی ختم نہ ہونے والا ایک نیا سلسلہ۔
کہیں یہ وہی شہزادی تو نہیں جو سادگی کی لباس میں لپٹی ہوئی سامنے والی برتھ پر بیٹھی اجالوں میں رنگوں سے کھیل رہی ہے۔ نئے سروں کے ساتھ اے سی کوچ کی ٹھنڈی ہواؤں میں گھل مل رہی ہے۔
دونوں ایک ہی دشا کے مسافر تھے۔ وہ رنگوں میں زندگی تلاش کر رہی تھی اور ’وہ‘ ان رنگوں میں اپنی شہزادی کو دیکھ رہا تھا۔ ’’میں‘‘ میں اتر کر ’’میں‘‘ کی تلاش اب کہاں کوئی کرتا ہے اب تو صرف وہ اور وہ سب کی باتیں ہوتی ہیں۔ وہ دو ہاتھ کس کے ہیں۔ کہاں سے آتے ہیں اور چند لمحوں میں معصوم پرندوں کے پر کتر کر چلے جاتے ہیں اور پھر شروع ہوتا مہاجرت کا ایک نیا قصہ۔ خوف و دہشت کی چادر میں لپٹے ہوئے چہرے اپنے اپنے گھونسلوں کے بکھرے ہوئے تنکوں سے جھانکتے ہیں اور صحافی کا کیمرہ ان کا پیچھا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ شہر جس کی تہذیب کی پہچان وہاں کی شام ہوا کرتی تھی وہاں آدمی کا جنگل تو ہے مگر درختوں کی بازوئیں کٹی ہوئیں، ترقی کرتے ہوئے شہر کے آدمی کی نگاہیں جب جب برہنہ ہوئیں تو درخت ننگے، اور جڑیں کمزور ہوتی چلی گئیں۔
سنتے ہیں وہ شہزادی جب سے داستان رنگ حویلی کو چھوڑ کر چلی گئی وہاں اب کسی آسیب کا سایہ ہے اور اس حویلی کے سامنے پہاڑ کی مضبوط بانہوں سے آزاد ہوتی ہوئی ندی کے اطراف میں جھاڑ پھونک والوں کی دکانیں آباد ہو چکی ہیں۔ آدھا ادھورا آدمی سب کی مرادیں پوری کرنے والا بن گیا ہے۔
او میری شہزادی تم حویلی چھوڑ کر کیوں چلی گئیں؟
زندگی میں پل کتنے تھے شہزادی نے کبھی نہیں گنا، ہتھیلی کی نرم انگلیاں تو تھیں مگر ان انگلیوں پر گنتی گننے کا سلیقہ اسے کبھی نہ آیا۔ ہر لمحہ میں خوشیاں کتنی تھیں۔؟
موسم کے خوبصورت مزاج کے ساتھ جب کبھی شہزادی حویلی سے بہت دور نکل جانے والی گپھاؤں سے گزرتی ایک سفید روشنی اس کے قدموں کی آہٹ سے آگے چلتی دکھائی دیتی۔
اس کے جسم سے لپٹے ہوئے چوڑی دار اور کرتے کی ہر سلائی میں روح کے دھاگے تھے۔ وہ ہر جگہ موجود تھی اور نہیں بھی تھی۔ پتا نہیں وہ کس دیار میں کس کے اختیار میں تھی۔
سامنے کی برتھ پر بیٹھی وہ پنٹنگ مکمل کر چکی تھی۔ اور دوسری طرف وہ اب بھی اس کے چہرے میں اپنی شہزادی کا چہرہ پڑھ رہا تھا کہ شہزادی بھی تتلیوں کے رنگوں کو زندگی کے کینوس پر اتارا کرتی تھی۔
—
ہر ماں کا چہرہ وہ اتنے قریب سے کیوں دیکھنا چاہتا ہے؟
کیوں زندگی کتاب چہرے کے ہر ورق کو قمقموں سے سجانا چاہتا ہے۔؟
شاید وہ زندگی کے ہر ورق سے ابھرنے والی عورت، سمندر اور سڑک یا پھر ندی، سڑک پہاڑ کی موسیقی کو زندگی کے سر اور تال کے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔
آج تک خود کو وہ پہچان نہیں سکا۔
اس کا چہرہ سمندر، پہاڑ جیسا ہے یا پھر ندی جیسا۔
شاید اس کی آنکھوں سے ایک ندی بہتی ہے جو سمندر کو ایک نئی پہچان دے جاتی ہے۔ ندی پچھلے موسم کی، شہزادی۔ سمندر آج کا مرد اور پہاڑ۔؟
روشنی میں نہائی ہوئی سڑک–؟؟
اس نے کئی مرتبہ خود کو آوازوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے محسوس کیا ہے۔
—
پاپا آج ہاسٹل میس سے کھانا نہیں آئے گا؟
کیوں؟
’’آج گنیش پوجا ہے‘‘
’’کیا کھاؤ گی؟‘‘
ویج بریانی۔ گوبھی مٹر آلو، گاجر، سویابن، فرش بن سب ڈال دینا۔
الگ الگ کھیتوں میں اُگی ہوئی یہ سبزیاں جب ایک ساتھ ملتی ہیں۔ چاول کے دانوں کے ساتھ، گرم مسالوں کے ساتھ، بھاپ سے پکتی ہیں تو ایک نئی خوشبو کچن سے نکل کر پڑوس کے کچن تک سرحدوں کو توڑتے ہوئے پہنچ جاتی ہیں۔ خوشبوئیں لکیروں کو نہیں مانتیں۔ یہ ہوائیں کتنی معصوم ہوتی ہیں۔ یہاں تہذیب کی نہ تو کوئی جنگ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دیوار یں۔
تم نے کہا اندھیرا ہے اس نے کہا اجالا پھر تم نے کہا اجالا ہے اس نے کہا اندھیرا تم نے کہا گنبدوں سے صدائیں آ رہی ہیں اس نے کہا اونچے پہاڑوں سے ایک نئی جاگرتی لیے منداکنی ململ کی ساڑی میں لپٹی ہوئی اتر رہی ہے تم نے پھر کہہ دیا نہیں اس ہاں اور نہیں میں کتنے دور ہو گئے تم اندھے اور بہرے بھی کہہ دونا نہیں، نہیں، نہیں۔ کوئی نہیں صرف ’’وہ‘‘ دیکھو نا سنو نا پورے برہمانڈ سے ہر لمحہ ایک ہی آواز آتی ہے چلو پیچھا کرتے ہیں فطرت کی گود سے ابھرنے والی آوازوں کا پرندوں کی طرح، لہروں کی طرح۔ تھوڑی دیر مون رہ کر ہم خود میں خود کی تلاش کیوں نہیں کرتے؟
—
’’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ رنگوں سے کھیل رہی اس عورت نے خاموشی کو اپنی آواز دی۔ شاید اس کی پنٹنگ مکمل ہو چکی تھی۔
’’جی، میں‘‘ — جہاں تک یہ ٹرین جا رہی ہے۔
’’مطلب ہری دوار۔‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’میں بھی۔‘‘
تنہا سفر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے نا، خاص کرتب جب سفر لمبا ہو اور باتیں کرنے والا کوئی نہیں۔
’کیوں ایسا کیوں؟‘ اپنے کینوس، برش اور رنگوں کے سمیٹتے ہوئے۔ اس نے اپنے بیگ سے کیمرہ نکالا اور قریب آ کر کیمرے میں قید اپنی پنٹنگ دکھانے لگی۔ اس کی پنٹنگ کے ساتھ ساتھ اس کی انگلیاں بھی بول رہی تھیں کہ آج نئی صدی میں انگلیاں بولتی ہیں اور زبان خاموش رہتی ہے۔ کبھی انگلیاں کی بورڈ پر تھرکتے ہوئے باتیں کرتی ہیں تو کبھی انگلیوں میں پھنسے برش رنگوں کو ایک نئی زبان عطا کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
حنائی رنگ زلفوں کو بکھیرتے ہوئے اس نے پوچھا۔ ’’تمہارا نام‘‘
’ندی‘
’اچھا اچھا تم خود کو ندی سمجھ بیٹھے ہو۔ لگتے تو ہو پہاڑ جیسے مضبوط ارادے والے۔
کسی حد تک ٹھیک ہی سمجھا تم نے، ایک ایسا پہاڑ جس کی مضبوط بانہوں سے ندی آزاد ہوتی ہے۔ آج تو بارودوں سے اس کی پسلییاں توڑی جا رہی ہیں۔
’’اُف یہ بارود سے ٹوٹتی ہوئی پسلیوں کا درد!‘‘
رنگوں سے کھیلنے والی اے عورت شاید تم بھی پہاڑ ندی ہو۔
ایک مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ندی بدن پر پہاڑ نے اپنی مضبوط انگلیوں سے ایک نئی عبارت لکھنے کی کوشش کی ہو، مگر ندی کے باندھ نے اسے روک دیا ہو۔
—
پینٹری کار کے مینجر نے کافی بھجوا دی تھی، اور ساتھ میں کٹ لیٹ بھی۔ زبان خاموش ہوئی ایک نئے ذائقے کے لیے۔ مگر وہ خاموش کہاں رہنے والی تھی۔
جانتے ہیں سر جی ! دواریکا کے پانچ کوؤں کو قریب سے دیکھ کر آئی تو یہاں روحا کنواں مل گیا۔ شاید سات منزلیں بھی۔ سات طواف کی طرح۔ ایسا ہے سر جی ! میرا مطلب ندی پہاڑ۔ وہ ہنسنے لگی۔
میں بہت زیادہ بولتی ہوں اور زیادہ بولنے والوں کے ساتھ آوازوں کا ایک ہجوم چلتا ہے۔ اور آپ بہت کم بولتے ہیں، ہری دوار آنے والا ہے۔ اور اب آپ کو میرے ساتھ 250کیلو میٹر کار سے سفر کرنا ہے۔ آپ تیار تو ہیں۔
’’ہاں تیار ہوں‘‘ ۔
______
ہری دوار آ چکا تھا اور وہ دونوں کار میں بیٹھ چکے تھے۔ سامنے روشنی میں نہائی ہوئی سڑک تھی، گاؤں کی پگڈنڈی سڑک کی سہلی بن گئی تھی اور وہ دونوں زندگی کی سڑک پر چلنے والے مسافر۔
وہ سوچنے لگا ہر دن جب وہ آفس سے گھر لوٹتا تو انتظار کرتی ہوئی نگاہیں، زندگی کے گھومتے ہوئے پہیوں کی رفتار بن جانا چاہتی تھیں اور وہ ان نگاہوں کے احترام میں اپنے تھکے ہوئے جسم کی لباس کو کھونٹی پر ٹانگ دیتا اور دھیرے دھیرے وہ، وہ نہیں رہتا جس چہرہ کے ساتھ وہ دفتر میں کچھ دیر پہلے ہوا کرتا تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوتے ہی پرندوں کی طرح، کھلی فضا میں اڑنے لگتا، یہ پاکھی من بھی ایک جگہ کہاں رہ پاتا ہے۔
—
جگمگاتے ہوئے شہر کی چوڑی چھاتی والی سڑک پر کار کی اپنی رفتار تھی اور کار میں سوار ان دونوں کی سوچ و فکر کی ایک الگ رفتار۔ سفر میں ایک طرح کے خیالات کہاں آتے ہیں، جگمگاتے ہوے شہر میں جاگتی ہوئی زندگی کا قصہ گھومتے ہوئے پہیوں کی طرح ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
کبھی اس کے ساتھ ایک معصوم سی ننھی سی لڑکی چلا کرتی تھی، ندی کی طرح بہا کرتی تھی، انگلیوں کے پور کو چھوتے ہوئے، جب بھی وہ پہاڑ پر بنے عالیشان محل سے نکلتا وہ ساتھ ہو لیتی اور مٹی بدن کہانی کی طرح زندگی کا آنچل تھام لیتی۔
آج شاید وہ دونوں محل سے دور شہد کی بہتی ہوئی نہروں سے کھیلنے گئی اس شہزادی کو ڈھونڈنے نکلے تھے، جو بیتی راتوں کے ہر اجالے میں موجود ہے۔
وہ کون تھی، کہاں سے آئی تھی اور کدھر گم ہو گئی؟
کیا وہ سرسوتی تھی، یا پھر کوئی پہاڑن عورت۔ شہزادی؟
کہیں وہ منداکنی تو نہیں تھی؟؟
کچھ چہرے گم ہونے سے پہلے منزل کا پتہ دے جاتے ہیں۔ شاید وہ شہزادی بھی جو مچلتی ہوئی ندی کی طرح تھی، نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے اپنی سہیلی سڑک کو ساری داستان سنا گئی تھی، شاید تبھی سے سڑک اپنے عہد کی تاریخ کی خاموش گواہ بنتی جا رہی ہے۔
قدرت نے اس شہزادی کی فطرت میں ندی کی طرح بہنا لکھا تھا مگر نئی تہذیب کی پھیلتی ہوئی جڑوں نے اسے سسکنے پر مجبور کر دیا، درخت لگانے کی روایت ختم ہو گئی اور جڑوں کو کریدنے کی نئی روایت کی شروعات ہو گئی۔ پیاسوں کے لیے کنواں کھودنے کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
وہ دونوں کار میں سوارشہر سے دور پہاڑی علاقے میں آ گئے تھے، قدرت کے بے شمار خوبصورت نظارے نگاہوں کے سامنے تھے۔ مگر ان پہاڑوں پر بھی انسان کی نظر پڑ گئی تھی اور اس کے مضبوط سینے کو چھلنی کیا جا رہا تھا۔ بارود کی مہک دور سے آ رہی تھی۔ آدمی کی روح پانی سے خالی ہو چکی تھی اور زمین کی سطح پیاسی۔
دور کسی ڈھابے سے سل بٹا پر مسالہ پیسنے کی آواز نے انھیں چونکایا اور بھوک کا احساس بھی دلایا، ڈھابا میں وہ کون ہے جو اتنی رات گئے مشین کو چھوڑ کر پہاڑ کی موسیقی سے جڑ رہا ہے۔ کار کے گھومتے ہوئے پہیے تھم گئے اور وہ دونوں سل بٹا سے آنے والی آوازوں کے قریب پہنچے۔
مگر وہاں تو کوئی نہیں تھا—
ڈھابا تھا — مگر آدمی کے چہرے ایک بھی موجود نہیں تھے، چولھے تھے مگر اس میں آگ نہیں، پانی رکھنے کے لیے بڑے بڑے ڈرام تھے، مگر اس میں پانی نہیں، ٹین کی چھتیں تھیں، مگر ایسا لگتا تھا جیسے پچھم کی طرف سے کوئی تیز آندھی آئی اور سب کچھ اڑا کر لے گئی۔
وہ دونوں گھبرانے لگے، اور تھوڑا سہم سے بھی گئے، یہ کیسا سفر تھا، جس میں وہ ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں تھے، دوڑ کر وہ دونوں اپنی کار میں واپس آتے ہیں۔ کاراسٹارٹ ہوتی ہے۔ مگر یہ کیا؟ آگے کی سڑک ندی میں سما گئی تھی، اور پہاڑ روئی کے گالے کی طرح ندی کی طرف لڑھک رہا تھا۔
وہ سڑک جس نے شمال اور جنوب کے فرق کو مٹا دیا تھا آخر کیوں وہ ندی، درخت اور پہاڑ کے ساتھ ہو گئی۔
دونوں نے دیکھا کہ گاؤں کی ساری عورتیں، زندہ تھیں اور سارے مرد چیختی ہوئی ندی میں خاموش ہو گئے تھے، آوازیں ہمیشہ کے لیے سو گئی تھیں۔
ایک بیٹی اپنے بابا کی ننگی لاش سے لپٹ کر رو رہی تھی، جسم پر ایک بھی کپڑا نہیں تھا اور انگلیاں کٹی ہوئی تھیں۔ شاید کوئی مرد انگلیوں کو سونے کی انگوٹھیوں کے ساتھ کاٹ کر لے بھاگا تھا۔
یہ لاشیں، یہ کٹی ہوئی انگلیاں کہیں آج کے آدمی کی تو نہیں؟
کار اب تیز رفتار سے اسی طرف جا رہی تھی جہاں سے دونوں نے اس سفر کی شروعات کی تھی۔ بغل والی سیٹ پر ندی جیسی ایک عورت تھی اور ’’وہ‘‘ شاید ایک پہاڑ۔ ایک ایسا پہاڑ جس نے ندی بدن کا استحصال کبھی نہیں کیا تھا۔ ندی کو روندنے والے اکثر مرد ہی ہوا کرتے ہیں، تو کیا وہ، مرد نہیں۔ صرف ایک پہاڑ جیسا ہے۔
الگ الگ دشاؤں کے دل دہلا دینے والے مناظر کو دیکھ کر لوٹ آیا تھا جسم پھر سے روح کے قریب۔
جسم پر اب روح کی چادر تھی اور نگاہوں میں پہاڑ ندی عورت۔
٭٭٭