شیخ ابن سکینہ نے فرمایا۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ( قادر ہے کہ اپنے کسی بندے کے لیے زمانے کو پھیلا دے اور وقت کو دراز کر دے جب کہ وہ دوسروں کے لیے بدستور کوتاہ رہے۔ اسی طرح، اللہ تعالیٰ کبھی قبض زماں فرماتا ہے کہ زمانۂ دراز کوتاہ معلوم ہوتا ہے۔
[کنز الکرامات، یعنی مولانا جامی کی نفخات الاُنس سے چند کرامات کا اردو ترجمہ، از: حامد حسن قادری]
میں بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا،اس وجہ سے نہیں کہ میرے ذہن میں کوئی خلفشار تھا یا دل میں کوئی خلش تھی۔ کبھی کبھی شام ڈھلتے ہی اور بستر پر جانے کے پہلے احساس ہو جاتا ہے کہ آج کی رات نیند نہ آئے گی۔ مجھے کیفی اعظمی کے مصرعے یاد آئے،لیکن یہ خیال میں نہ آسکا کہ میں نے انھیں کب اور کہاں پڑھا تھا ؎
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
ہم ہندوستانیوں کے لیے گرمی سے بہت زیادہ سردی آزار رساں ہے (کم از میرا تو یہی خیال ہے) لیکن ہم گرم ملک کے رہنے والے،مئی جون کی کٹھور دھوپ میں چٹیل میدانوں میں ننگے پاؤں چلنے والے،ہمیں گرمی۔ ۔ اف گرمی۔ ۔ ۔ لگتا ہے آ سمان سے آگ برس رہی ہے۔ ۔ زمین یوں تپ رہی ہے کہ دانہ ڈالو تو بھن جائے۔ ۔ ۔ وہ دھوپ ہے کہ چیل انڈا چھوڑتی ہے (یہ محاورہ میں نے بچپن میں کہیں پڑھا تھا،اب تو سننے میں بھی نہیں آتا،لیکن اسی وقت سے مجھے خلجان رہتا تھا کہ آخر چیل ہی کیوں ؟اور انڈا چھوڑنے کے کیا معنی ہیں ؟ اگر یہ کہ چیل انڈے پر بیٹھی تھی اور اب اسے انڈے کو سینے کی ضرورت نہیں بھی کہ گرمی کے مارے انڈا خود ہی سے جائے گا،تو پھر بہت سے پرندے ایسے ہوں گے،بچاری چیل ہی کیوں ؟شاید اس لیے کہ چیلیں صرف مئی جون میں انڈا دیتی ہیں ؟مگر یہ بات کچھ دل کو لگتی نہیں۔ اس وقت تو نہیں سمجھ سکا تھا،لیکن ذرا علم لسان کی شد بد ہوئی تو معلوم ہوا کہ زبان یوں ہی الل ٹپ ہوتی ہے۔ لفظ "الل ٹپ” سے اب شاید بہت سے لوگ واقف نہ ہوں، اس لیے اس کا انگریزی ترجمہ arbitrary عرض کیے دیتا ہوں (گویا اس لفظ کے جاننے والے بہت سے ہوں گے)۔ ۔ ۔ بچپن میں ایک بار "الف لیلہ”(اب اس کو کیا کیجیے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ اسے "الف لیلیٰ”سمجھتے ہیں، یعنی شاید الف ب کی وہ کتاب جسے لیلیٰ پڑھتی تھی)۔ ۔ ۔ خیر میں اسی "الف لیلیٰ ” کی سند باد جہازی والی کہانی فارسی میں پڑھ رہا تھا۔ کہانی یوں شروع ہوتی تھی کہ اس دن اس قدر گرمی اور تپش تھی کہ "جگر حربا می سوخت۔ "بھلا یہ "حربا”کون ہے؟مولوی صاحب نے بتایا کہ اسے اردو میں "گرگٹ” کہتے ہیں (بلکہ ہماری طرف تو اسے "گرگٹان” کہتے تھے،شاید اس لیے کہ اس طرح گرگٹ اور زیادہ زہریلا معلوم ہوتا تھا)۔ اس وقت بھی مجھے یہ فکر لگی تھی کہ آخر بچارا گرگٹان ہی کیوں ؟اور بھی تو ایسے جانور ہوں گے جنھیں گرمی بہت لگتی ہو گی؟ لیکن یہ معما اب تک حل نہ ہوا۔ مجھے زوالوجی(Zoology)پڑھنی چاہیے تھی۔ (آج کل بہت سے لوگ اسے "جولاجی”کہتے ہیں۔ پھر فرق کیا پڑتا ہے؟علم تو وہی ہے۔ )
کیفی صاحب مرحوم کی نظم (اگر یہ نظم ان کی ہے)کے دو مصرعوں نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ یہ بہر حال حقیقت تھی کہ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، اور ہوا بھی کچھ گرم تھی۔ آخر اپریل کی رات تھی،مئی جون نہ سہی،اور میں اپنے آبائی گاؤں کے آبائی مکان کے دروازے پر دور تک پھیلی ہوئی کھلی زمین پر نیم کے نیچے سورہا۔ ۔ ۔ نہیں، بلکہ سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ پرانی وضع کا بھاری پلنگ،جسے کئی لوگ مل کر میری خاطر اٹھا کر اندر میری دادی کے کمرے سے لے آئے تھے۔ اس کی نواڑ ابھی اچھی حالت میں تھی،دادی کے زمانے کی دریاں اور چادریں بھی مہیا تھیں۔ دادی کا زمانہ؟اب ان کو غریق رحمت ہوئے چھ دہائیوں سے زیادہ گذر چکی تھیں۔ خاندان کے لڑکے لڑکیاں جواب کم و بیش تمام دنیا میں پھیلے ہوئے تھے،ان کے لیے ساٹھ برس سے بہت کم کی مدت بھی قبل تاریخ کا زمانہ معلوم ہوتی تھی۔ فرینک کرموڈ نے کہیں لکھا ہے کہ آج کل کے طالب علم کے لیے ہر کتاب قبل تاریخ کے زمانے کی ہے اگر وہ پندرہ، یا ا س سے زیادہ برس پہلے لکھی گئی تھی۔
دادی کے زمانے میں ان کے پلنگ،بلکہ سبھی کے پلنگ، کھٹملوں کا صدر مقام تھے۔ تمام رات انھیں کاٹتے گذرتی تھی مگر ہم لوگوں کی رات بے کھٹکے جاتی تھی کیوں کہ ہماری نیندیں ایسی نہ تھیں کہ کوئی کھٹمل، کوئی مچھر،انھیں فتح کر سکے،یا ان کی دیواروں میں ذرا سا رخنہ ہی ڈال دے۔ لیکن میر کاشعر اکثر میرے ایک چچازاد بھائی کی زبان پر اکثر رہتا تھا ؎
آخرش شام سے ہو شب بیدار
کھیلتا ہوں میں کھٹملوں کا شکار
خدا جانے اس پلنگ میں مچھروں کے کتنے شہر،کتنے قلعے،کتنی فصیلیں اب بھی باقی ہوں گی۔ مجھے تو ابھی کچھ خاموشی ہی لگ رہی تھی لیکن اس خاموشی کا کچھ اعتبار نہیں۔ نہ جانے کب، کس طرف سے حملہ کر دیں۔ مجھے یاد آیا کہ امریکہ کے بعض جنوبی شہروں میں ہندوستان پاکستان کے لوگ ٹریفک پولیس والوں کو اسی لیے کھٹمل کہتے ہیں کہ خدا جانے کہاں سے بالکل اچانک بر آمد ہو کر آپ کا پیچھا کرنے لگتے ہیں۔ اور اگر ایک بار وہ آپ کے تعاقب میں لگ گئے تو آپ ان سے بچ نہیں سکتے۔ وہ آپ کا چالان کر ہی کے چھوڑیں گے۔
ہمارے آبائی گھر کے آگے کوئی صدر دروازہ یا چہار دیواری نہ تھی،پتہ نہیں کیوں۔ دور تک بنجر زمینیں، کچھ کھیت اور دو چار پرانے پرانے درخت تھے۔ رات میں باہر سونے والوں کو وسعت، بلکہ غیر دلچسپ لیکن بے پرواوسعت کا احساس ہوتا تھا۔ (یہ بات میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں، کیونکہ اس وقت بھلا کون دس برس کے بچے پر اپنے تاثرات ظاہر کرتا،اور خود میں کبھی اکیلا کھلے میں سویا نہ تھا۔ )مجھے تو وہ سارا منظر مجھ سے،لہٰذا ہم انسانوں کی زندگی سے بے نیاز لگتا تھا۔ گویا اسے کوئی غرض نہ ہو کہ یہاں کون سو رہا ہے، کون جاگ رہا ہے،کون جلد اٹھنے والا ہے،کون دن چڑھے تک سوتا رہے گا۔ لیکن ذرا ٹھہرئیے۔ اس زمانے میں ہمارے دروازے پرسونے والوں میں کس کی مجال تھی کہ دن چڑھے تک سوتا رہتا؟اور کچھ نہیں تو بدلتی ہوئی ہوا کی بے خوابی،دل شب کے طے ہو جانے کے بعد اس کا بتدریج ہلکا پڑتا ہوا بہاؤ،اس کی بے چین آواز میں کمی، اندھیرے کی آہستہ، بہت آہستہ پسپائی، افق کے دھیرے دھیرے نزدیک آتے چلنے کا احساس،جو شعور کی کسی بہت گہری سطح پر سیاہی کی ٹھوس دیوار کا کسی بہت ہی نامحسوس لیکن یقینی عمل کے اثر سے ملگجے پتوں اور سر کنڈوں کی ڈالیوں کے گھنے اور پھر ہلکے سبز ارتعاش میں بدلتا دکھائی دیتا ہے،یہ سب اور بہت سی باتیں الفاظ جن کا بیان نہیں ہو سکتا،ان کے ہوتے ہوئے کھلے آسمان تلے کشادہ زمین پر سونے والا دن چڑھے تک سو بھی کہاں سکتا تھا؟
اب تو ہمارے بھی شہروں میں آسمان پردہ پوش رہنے لگا ہے۔ اور میں اس جگہ سے آیا تھا جہاں اگر کبھی ستارے دکھائی دے جائیں تو اسے قابل ذکر واقعہ خیال کیا جاتا ہے۔ اور یہاں کا عالم نہ پوچھیے۔ آدھا چاند آسمان پر،نیم کی چھوٹی پتیوں کا جھرمٹ بنائے ہوئے پیڑ کی شاخیں، ہوا ذرا سی بھی سنکتی تو چاند کی ایک آدھ کرن مجھ تک پہنچ ہی جاتی۔ مجھے ناسخ کا شعر یاد آیا ؎
ہجر میں اب کس طرح بے یار جاؤں باغ کو
سارے پتوں کو بنا دیتی ہے خنجر چاندنی
میرے وطن اقامت و اختیاری میں تو ہم لوگ کام کے لیے نکلتے تھے تو روشنی پوری طرح پھیلی نہ ہوتی تھی۔ کسی کو بیس میل جانا تھا،کسی کو پچیس میل،کسی کو اور بھی دور۔ صاحب استطاعت اور ہم لوگوں سے بھی زیادہ کاہل تر لوگوں کے پاس ہیلی کاپٹر تھے۔ وہ ہم لوگوں سے بہت بعد میں نکلتے تو تھے،لیکن لفٹ کے ذریعہ چھت پر جا نے کے پہلے وہ اپنی خواب گاہوں یا طعام خانوں میں ہوتے۔ چاند انھیں بھی نہ دکھائی دیتا۔ اور واپسی تک تو سب کے لیے شام اچھی طرح پھول ہی چکی ہوتی تھی۔ سب لوگ اوپر کی فضا سے بے خبر (بشرطیکہ کہیں آندھی نہ آئی ہو)اپنی اپنی محفوظ دنیاؤں میں واپس چلے جاتے تھے۔
"زندہ غنودگی”،مجھے رابرٹ لوئیس اسٹیونسن(Robert Louis Stevenson)کی بات یاد آئی۔ فرانس کے نیم کوہستانی علاقوں میں تنہا گھومتے پھرنے اور جگہ جگہ کا ذائقہ چکھنے کے بعد (جس میں کھلے آسمان کے نیچے کئی راتیں گذارنے کا مزا بھی شامل تھا)اس نے ایک سفر نامہ نما چھوٹی سی کتاب لکھی۔ اس میں کھلے میں رات گذارنے کا بیان ایک جگہ لکھا ہے اور ایسالکھ دیا ہے کہ میں سو برس بھی کوشش کروں تو نہیں لکھ سکتا۔ اسی میں یہ فقرہ Living slumber (زندہ غنودگی) بھی ہے۔ مگر میں کہاں کا شاعر یا افسانہ نگار کہ اسٹیونسن یا کسی اور کی طرح لکھنے کا ارمان رکھوں۔ مسعود حسن رضوی ادیب صاحب مرحوم نے لکھا ہے کہ انھوں نے اسٹیونسن کا اثر قبول کیا ہے۔ بے شک۔ ان کی نثر ایسی شستہ اور سجل اور رواں ہے کہ بس پڑھتے جائیے۔
نیند تو مجھے بہر حال نہ آ رہی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ ہمارے گھر کے سامنے کچھ فاصلے پر،یعنی سبحان اللہ دادا کے مکان کے پیچھے ایک بڑا چھتنار اور جسیم درخت تھا۔ یہ یاد نہیں کہ کاہے کا پیڑ تھا،بس راتوں کوایسا لگتا تھا کہ وہ درخت کچھ نزدیک آگیا ہے۔ ہم لوگوں میں مشہور تھا کہ اس پیڑ پر ایک برم رہتا ہے جو ہر آنے جانے والے کو،اور خاص کر آٹھ دس برس کی عمر کے لڑکوں کو للچائی ہوئی نظر سے دیکھتا رہتا ہے۔ تو وہ کیا چاہتا ہے؟اس بات کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ الگ الگ قیاس آرائیاں تھیں۔ کوئی کہتا وہ جس کو پکڑ لے اسے بھی اپنی طرح کا برم بنا لے گا۔ اور اسی لیے اسے لڑکوں کی زیادہ ہوس تھی کہ وہ آسانی سے برم بن جائیں گے۔ کوئی کہتا،نہیں، اس کے بدن پر کھا ل اور ہڈیاں ہیں، اور کچھ نہیں ہے۔ اس کا منصوبہ ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ کسی کو پکڑ پائے تو اس کا گوشت اپنے بدن پر چڑھا لے۔ لڑکوں کو پسند کرنے کا منشا یہی تھا کہ ان کا گوشت نرم ہوتا ہے۔ ایک لڑکا کہتا تھا کہ نہیں، وہ برم کسی وجہ سے اس درخت میں قید ہے۔ اسے کسی انسان کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ راتوں کو اس پر سوار ہو کر دور دور کے گاؤں جا کر مویشیوں اور انسانوں کا خون کر سکتا تھا۔ سنا گیا کہ ایک بار برم نے ایک نوجوان کسان کو پکڑ ہی لیا تھا۔ اس نے کہا کہ تو میری راتوں کی سواری بن جائے تومیں تجھے گھوڑے کی طرح طاقتور بنا دوں گا۔ دن بھر اپنی کھیتی کسانی آسانی سے کرتے رہیو۔ کسی جھگڑے لڑائی میں بھی کوئی تجھ پر قابو نہ پاسکے گا۔ وہ کسان اس کے چنگل سے چھوٹا کیسے،یہ بات کسی کو نہ معلوم تھی۔ شاید ہمارے دادا نے اسے کوئی تعویذ پہنا دیا تھا کہ ایسے ہی کسی سنکٹ میں کام آئے۔
سنا ہے بہت دن پہلے ہمارے دادا کا ایک کارندہ راتوں کو کھلیان کی حفاظت پر مامور تھا۔ ایک دن وہ ٹھٹھرتا، کانپتا آیا، جیسے اسے جاڑا دے کر بخار چڑھا ہو۔ اس نے دادا سے کہا کہ مولوی جی، میں اب کھلیان کی رکھوالی نہ کروں گا۔ سامنے والے پیڑ میں ایک بیتال آگیا ہے۔ وہ مجھے رات بھر دانت دکھا دکھا کر خوخیاتا رہا اور کہتا رہا کہ کل تجھے نہ چھوڑوں گا۔ دادا نے اس کی پیٹھ ٹھونکی اور ایک تعویذاسے لکھ دیا اور کہا کہ لے اسے گلے میں پہن لے۔ جا،اب وہ بیتال تیرا کچھ نہ بگاڑے گا۔ اور ایساہی ہوا۔ ہمارے ایک بڑی عمر کے چچا زاد بھائی قسم کھا کر کہتے تھے کہ دادا نے تعویذ میں بھوجپوری زبان میں یہ لکھا تھا کہ دیکھو جی، یہ آدمی ہمارا رکھوالا ہے۔ کوئی اس سے ہرگز کچھ تعرض نہ کرے۔
واللہ اعلم یہ بیان سچا ہے کہ جھوٹا،لیکن مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں گھر کے سامنے کا برم والا پیڑ رات کو کچھ نزدیک اس لیے لگتا تھا کہ وہ برم اسی پیڑ کو اپنی سواری بنا ڈالنے کی کوشش میں اسے کچھ آگے پیچھے کرتا رہتا تھا۔
آج رات وہ گھنا کالا پہاڑ جیسا پیڑ مجھے دکھائی نہ دیتا تھا۔ سامنے سبحان اللہ دادا کا گھر سہ منزلہ ہو گیا تھا اور پیچھے کی تمام وسعتیں، تمام شجر حجر کی آبادیاں نظر سے اوجھل ہو گئی تھیں۔ صبح اگر میں بچ رہا تو دن کی چمکتی نیلی دھوپ میں جا کر اس پیڑ کو ضرور دیکھوں گا۔
بچ رہا؟ کیا مطلب؟کیا میں خرچ ہو رہا ہوں، یا گھٹتا جا رہا ہوں کہ بچ رہنے کی بات میرے ذہن میں آئی؟میں تو بس کل بھر کے لیے یہاں ہوں۔ شاید میں کہنا چاہ رہا تھا "ٹھہر گیا” اور کسی وجہ سے،شاید نیند کے کسی جھونکے میں "بچ رہا”کہہ گیا تھا۔ یہاں کوئی ڈر کی بات تو ہے نہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ بچپن میں ان سب بھوت،بیتال،برم،چڑیل وغیرہ کی باتوں سے ہمیں (یا کم سے کم مجھے) موت کا خوف نہ آتا تھا۔ وہ خوف تو عجب طرح کا تھا،کسی جنس غیر کے قبضے میں چلے جانے کا، گرفتار ہو جانے کا خوف،انجانی شے کا خوف۔ موت ان میں سے کسی مد حساب میں نہ تھی۔ بے شک ہم لوگوں نے سنسان یا اجنبی گھروں کے آسیب زدہ ہونے کے بارے میں کئی ڈراؤنی کہانیاں پڑھی تھیں اور ان میں سے اکثر کا انجام کسی نڈر شخص کی موت پر ہوتا تھا،لیکن اپنے اصلی اور حقیقی بھوتوں پریتوں سے ہمیں موت کا ڈر نہ تھا۔
مثلاً ایک قصہ جو میں نے پڑھا تھا، وہ اس طرح تھا کہ ایک شخص کسی اجنبی جگہ مہمان اترتا ہے،اور اسے رات رہنے کے لیے جو کمرہ دیا جاتا ہے وہ اسے ناپسند کر کے بخیال خود ایک زیادہ پر فضا کمرہ اختیار کرتا ہے، در حالے کہ میزبان اسے متنبہ کرتا ہے کہ اس کمرے میں کوئی آسیب ہے۔ خیر،وہ مہمان ہنسی خوشی اس کمرے میں شب باشی کے لیے جا کر کمرہ اندر سے بند کر لیتا ہے۔ جب دن چڑ ھ آنے کے بہت دیر بعد تک دروازہ نہیں کھلتا اور نہ دروازہ کھٹکھٹانے کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو دروازہ توڑ کر لوگ اندر داخل ہوتے ہیں۔ مہمان وہاں موجود تو ہے،لیکن وہ گھٹنوں کے بل ہے، اس کے دونوں ہاتھ آگے بڑھے ہوئے ہیں، گویا وہ کسی چیز کو روکنا یا پیچھے دھکیلنا چاہتا ہے۔ یا کسی چیز سے منت کر رہا ہے کہ اور آگے نہ آؤ۔ اس کی آنکھیں بند ہیں لیکن چہرہ وفور خوف سے ٹیڑھا ہو رہا ہے۔ میزبان اسے جلد از جلد اسپتال لے جاتا ہے لیکن راستے ہی میں مہمان کی موت ہو جاتی ہے۔
اس طرح کی خرافات سے ہم لوگوں کا دماغ ان دنوں کسی بھوت بنگلہ جیسی چیز سے کم نہ تھا۔ اب میں خیال کرتا ہوں تو زیادہ خوف (کم از کم مجھے)جنون کا تھا،کہ ایسی باتیں مجھ پر گذریں تو میں ہوش حواس کھو کر پاگل یا مجذوب ہو جاؤں گا۔ مجھے سڑک پر گھومنے والے پاگل یا فاتر العقل لوگوں اور شراب کے نشے میں چور لوگوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔ ہمارے شہر میں ایک عورت سڑکوں پر آوارہ پھرتی تھی،خدا معلوم بوڑھی تھی کہ ادھیڑ،لیکن اس کے سر پر تھوڑے بہت بال جو تھے وہ سیاہ تھے۔ ایک گندہ،کچیلا سا کرتا اور ویسا ہی آڑا پاجامہ اس کا لباس تھے۔ وہ پان بے انتہا کھاتی، اس کے منھ سے پان کی پیک مسلسل ٹپکتی رہتی تھی اور اس کا گریبان دور تک بالکل سرخ رہتا تھا۔ ایک بار میں اپنے خیالوں میں گم (اس وقت میں کوئی دس برس کا تھا لیکن خیالوں میں گم رہ کر راستہ چلنا میری عادت تھی۔ اس زمانے میں سڑکوں پر صرف پیدل راہگیر،یا سائیکل سوار،یا اکا دکا رکشے اور یکے ہوتے تھے)کہیں سے چلا آ رہا تھا کہ گھر کے پاس ہی اچانک کسی چیز سے ٹکرا گیا۔ چونک کر اوپر دیکھا تو وہی مجنونہ تھی۔ بظاہر اس پر اس بات کا کوئی اثر نہ تھا کہ میں اس سے ٹکرا گیا تھا۔ وہ مجھے بالکل خالی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن راستہ اس نے پھر بھی نہ چھوڑا تھا۔ میرے منھ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی اور اس کا راستہ کاٹ کر اندھا دھند گھر کو بھاگا۔
میں بھی کس قدر بچکانہ مزاج کا شخص ہوں۔ اتنی عمر ہونے کو آئی لیکن چھ ساڑھے چھ دہائی پہلے کی وہ سب باتیں کہیں نہ کہیں دل میں کھبی ہوئی ہیں۔ وہ اتنی دور بھی نہیں ہیں کہ ان کو کھنچ کر ہوش کی سطح پر آ جانے میں کچھ دیر لگے،یا سوچنا اور خود کو کھنگالنا پڑے۔ ایک زمانے میں مجھے بھوت پریت،مافوق العادت یا مافوق الفطر ت باتوں اور واقعات،خوف اور گھناؤنے پن والے واقعات (مثلاً آدم خوری)پر مبنی افسانے پڑھنے کی بہت چیٹک تھی۔ اب بھی میرے پاس ایسے افسانوں کے مجموعوں اور ناولوں کا بڑا ذخیرہ ہے،اگرچہ ایک بار میں نے جگہ کی تنگی کے باعث ایسی بہت ساری کتابوں کو دے ڈالیں (جس کا اب تک مجھے افسوس ہے)پھر بھی، اس وقت میرے پاس اچھی خاصی لائبریری باقی رہ گئی جس میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔
مجھے نیند تو آ رہی ہے،لیکن بہت ہی ہلکی سی۔ شاید یہ نیند نہیں ہے،میرا تھکا ہوا ذہن ہے۔ انگریز شاعر ٹامس لَو پیکاک(Thomas Love Peacock)کی بہت سی نظمیں بھوتوں کے بارے میں ہیں۔ (Peacock)،بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا،مگر انگریزوں میں ایسے، بلکہ ان سے بھی بڑھ کر عجیب نام ہوتے ہیں۔ ایک اور شاعر صاحب کا نام تھا John Drinkwater،اور LongاورShort نام تو اب بھی بہت سننے میں آتے ہیں۔ بلیک(Black, Blake)، وائٹ(White, Wight) گرے(Gray, Grey)،ڈارک(Dark)،گرین(Green, Greene)،یہ نام بھی شاذ نہیں ہیں۔ ٹائگر(Tiger) اور اسنیک (Snake)میں نے نہیں دیکھے،لیکن اٹھارویں صدی کے مشہور ڈراما نگار Sheridanکے سب سے کامیاب ڈرامے میں ایک کردار اسنیک (Snake) نام کا ہے،مگر خیر وہ تو طنزیہ مزاحیہ طور پر ایجاد کردہ نام تھا۔ لیجیے میں تو ناموں کی کھتونی لے کر بیٹھ گیا (یا پڑ گیا)۔
تو پیکاک صاحب کی جو نظم مجھے بہت پسند تھی، افسوس کہ اب مجھے اس کے دو ہی تین مصرعے یاد ہیں۔ نظم میں ایک بھوت ہے جو ایک حسینہ پر عاشق ہے۔ وہ ہر رات اس کے سرہانے آ کر ایک گیت گاتا ہے کہ”مر جا، ارے مر جا۔ ” نظم کا اختتام یاد نہیں، لیکن شروع کے چند مصرعے یاد ہیں:
A ghost that loved a lady fair,
Soft by midnight at her pillow stood,
Ever singing, "Die, Oh Die”
اس وقت،بلکہ آج بھی جو بات مجھے اس نظم میں سب سے حیرت ناک لگتی ہے، وہ یہ نہیں کہ کوئی بھوت کسی لڑکی پر عاشق ہو جائے۔ ہمارے یہاں تو عورتوں پر آسیب،شیخ سدو،جن،پری،آتے ہی رہتے ہیں۔ (حضرت غوثی علی شاہ صاحب کے یہاں لوگ ایسے معاملات میں تعویذ مانگنے آتے تھے۔ آپ تعویذ دے تو دیتے،لیکن اکثر فرماتے کہ انگریز کی عورتوں پر کوئی جن یا آسیب کیوں نہیں آتا؟انگریز کا اقبال بلند ہے اس لیے اس کی عورتیں بھی محفوظ ہیں۔ بات تو مزے دار ہے،لیکن میرے خیال میں اصل معاملہ عقیدے کا ہے۔ انگریز کو جن اور پری اور شیخ سدو وغیرہ پر نہیں، لیکن بھوت اور روح پر عقیدہ ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ ان کا اثر عورتوں یا مردوں پر نہیں بلکہ گھروں پر ہوتا ہے۔ ہمارا عقیدہ، اسلامی عقیدے کے مطابق،بھوت پریت پر نہیں، لیکن جنات،پری وغیرہ پر ہے۔ )
میرے لیے پیکاک صاحب کی نظم میں اصل حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس بھوت کو پورا یقین تھا کہ اس کی معشوقہ مر کر بھوت(یا بھوتنی؟)ہی بنے گی۔ واللہ اعلم۔ ان کی ایک نظم اور تھی جس میں دو بھوتوں کی ملاقات ہوتی ہے تو ایک پوچھتا ہے،کہو کیا حال ہے؟دوسرا کہتا ہے،پتہ نہیں جی،میں تو کل ہی مرا ہوں۔ اردو میں یہ معاملہ اضحوکہ لگتا ہے،لیکن انگریز شاعر نے خفیف سے مزاح کے ساتھ خوف یا سنسنی کی تھرتھری بھی رکھ دی تھی(شاید اس لیے کہ انگریز قوم کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان بھی بھوتوں پر اعتقاد رکھتی ہے)۔
ابھی صبح نہیں ہونے والی۔ ہمارے گھر کے پیچھے ایک خاصا بڑا تالاب تھا جسے لوگ "گڑھی” کہتے تھے۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ "گڑھا”کی تانیث کے اعتبار سے تو "گڑھی” بمعنی "بہت چھوٹا گڑھا "ہونا چاہیے تھا۔ اتنے بڑے تالاب کو "گڑھی” کہنا چہ معنی دارد؟لیکن میری مرحومہ جنت نشین بھی اپنے آبائی تالاب کو،جس میں مچھلیاں وافر ہوتی تھیں، "گڑھیا” کہتی تھیں۔ زبان کے کھیل نرالے ہیں۔ بہرحال، ہماری گڑھی میں مچھلیاں نہیں، لیکن جونکیں، گھونگھے،اور پانی کے چیونٹے بے شمار تھے۔ یہ پانی کے چیونٹے بھی خوب تھے،نہایت دبلے پتلے،بالکل جیسے وہ تنگ اور پتلی اور لمبی،ہلکی بادبانی کشتیاں جنھیں Pinnacle کہتے ہیں، یا جیسے کشمیری شکارے،بے حد ہلکے پھلکے۔ سیاہ بھورا رنگ،جسےSteel Greyکہیے،اور اس قدر لمبی لمبی ٹانگیں جیسے وہ سرکس کے جوکروں کی طر ح پاؤں میں بانس باندھے ہوئے ہوں۔ وہ پانی کی سطح پر اس قدر تیز دوڑتے جیسے دوڑ کے میدان میں گرے ہاؤنڈ کتے دوڑتے ہیں۔ مجھے اب یہ تو نہیں یاد کہ وہ کتنی دور تک دوڑتے نکل جاتے تھے(گڑھی خاصی چوڑی تھی،یا مجھے وہ چوڑی لگتی تھی۔ )مجھے یاد نہیں کہ کوئی چیونٹا کبھی اس پار سے اس پار پہنچتا ہوا دکھائی دیا ہو۔ لیکن وہ جانور بالکل ننھے منے اور ہلکے پھلکے تھے اور گڑھی کا پانی بھی کچھ بہت روشن نہ تھا،اس لیے اگر وہ اس پار نکل بھی گئے ہوتے تو مجھے نظر نہ آسکتا تھا کہ وہ اس کنارے پر پہنچ ہی گئے ہیں۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد آتا ہے ان کی دوڑ یہی کوئی دو ڈھائی فٹ کی ہوتی تھے اور مجھے ایک چھوٹے سے آبی منطقے میں دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے، اپنے تئیں ایک عجب اہمیت کا احساس اور خود نگری کا رنگ لیے ہوئے،گویا وہ سارا پانی انھیں کے لیے بنا یا گیا تھا۔ اکثر میں دیکھتا کہ وہ ایک طرف دوڑتے ہوئے گئے،پھر دفعۃً کنی کاٹ کر کسی اور طرف نکل گئے۔ چراگاہوں میں کلیلیاں کرتے ہوئے آہو بچوں اور الل بچھیروں کی طرح انھیں ایک دم قرار نہ تھا۔
اپنی دوڑ میں منہمک چیونٹوں کو کبھی کبھی میں فرض کرتا کہ وہ جنگی جہاز ہیں اور جنگی تیاریوں میں مشغول، یاسمندر پار کرنے والے ہلکے جہاز ہیں جنھیں کچھ گنے چنے مسافروں کو لے آنا اور واپس لے جانا ہو گا۔ ایسے مفروضے میں جہاز رانی اور مہم جوئی اور جوکھموں کو ہنستے کھیلتے انگیز کر لینے کا بھی سنسنی آمیز احساس بھی شامل ہو جاتا تھا۔ چونکہ میں نے انھیں کبھی ڈوبتے نہ دیکھا تھا،اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ بڑے ماہر جہازی ہیں، سند باد جہازی کی طرح نہیں ہیں کہ جس کا جہاز آئے دن طوفانی ہو جایا کرتا تھا۔
گھونگھے وہاں بہت تھے،گول، لمبے، ٹیڑھے بدنوں والے،جیسے کسی سادھو کے سر پر لپیٹی ہوئی لمبی جٹائیں۔ مجھے کبھی ان سے دلچسپی نہ ہوئی۔ کہاں وہ میرے جری اور خوبصورت اور صبا رفتار چیونٹے اور کہاں یہ بھونڈے، بھدیسل، ایک جگہ پڑے رہنے والے گھونگھے۔ کبھی کبھی میرا ہاتھ لگ جاتا تو بڑے چپچپے اور گیلے معلوم ہوتے۔ (نہیں، ان میں سے کچھ خشک بھی ہوتے تھے۔ )آخر وہ تھے ہی کس مصرف کے؟پانی میں رہنے والے(ایسا میرا خیال تھا)لیکن پانی پر تیرنے سے کترانے والے۔ دریا کے کنارے وہ لمبوترے، ہلکے پھلکے اور سفید گلابی رنگ کے گھونگھے اور ہی چیز تھے جن کے درشن مجھے بہت ہی کم ہوتے تھے کیوں کہ ہمیں دریا پر جانے کی سخت ممانعت تھی۔ اور ان دریائی گھونگھوں کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مردہ ہوتے تھے،لہٰذا ان سے کوئی خطرہ،یا کسی چپچپاہٹ، کسی گھن کے احساس کا خطرہ نہ تھا۔
جونکیں تو میں نے شاید وہاں دیکھیں نہیں، لیکن گول،مندر نما گھونگھوں کے نیچے سے دو لمبی، سرخ، مٹ میلی بھوری پتلی زبانیں سی کبھی کبھی نکل آتی تھیں۔ میرے گاؤں والے ساتھی مجھے خبردار کرتے تھے کہ انھیں کبھی ہاتھ نہ لگانا،کیوں کہ یہ بھی جونک کی طرح خون نکال لیتی ہیں، سرپت کی تیز پتی کی طرح یا چھوٹے سے دھار دار چاقو کے پھل کی طرح یہ تمہارے بازوؤں یا ہاتھ پر لمبی سی خونی لکیر چھوڑ جائیں گی۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ یہ سب بچوں کا جھوٹا خوف یا شرارت بھرا ڈھونگ تھا،کیوں کہ اب مجھے معلوم ہے کہ وہ لمبی سی دھاگے سے چیزیں در اصل گھونگھے کے پاؤں ہیں۔
اس گڑھی کے کنارے،ہمارے مکان کے پچھواڑے کی طرف،اور اتنا نزدیک کہ میں راتوں کو اس کی(دن کو) چمکیلی (رات کو)سیاہ پتیوں میں ہوا کو غل مچاتے،لمبی لمبی سانسیں بھرتے، بند کمرے میں اپنے پلنگ پر سے گذرتے سنتا اور محسوس کرتا تھا۔ وہ راتیں میرے لیے بڑی قیامت کی ہوتی تھیں۔ میری ماں تو دادی کے گھر میں دوسری بہوؤں کے ساتھ کھانا پکانے،کھلانے،اور کھانے میں لگی رہتیں۔ اور میرے باپ رات کی نماز (شاید عشا،شاید مغرب)کے بعد دادا کی محفل میں دیر تک بیٹھے رہتے۔ خدا معلوم کیا کیا باتیں کرتے ہوں گے۔ لڑائی کے دن تھے (میرا خیال ہے وہ سال 1943یا 1944رہا ہو گا)، اس لیے لڑائی میں انگریزوں کی فتح یا پسپائی کے چرچے ضرور ہوتے ہوں گے،اور چونکہ سارا گھرانہ بہت مذہبی تھا،اس لیے اللہ رسول کی باتیں بھی ہوتی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ سب لوگ مجھے اپنے باپ کے گھر میں پوری طرح محفوظ اور گہری نیند میں ہر خوف اور ہر وجود سے بے خبر سمجھتے ہو ں گے۔ گھر،جس کے ایک سرے پر،گڑھی کی پرلی طرف ایک سنسان بیت الخلا تھا جسے کوئی استعمال نہ کرتا تھا،لیکن وہ بند بھی نہ رہتا تھا، مگر گڑھی کی جانب اس میں کوئی کھڑکی یا دروازہ نہ تھا،لہٰذا اسے ہر طرح محفوظ سمجھاجاتا تھا۔ چاروں طرف اونچی دیوار بھی تھی،خاص کر پیپل کے درخت اور گڑھی کے رخ پر،اور جس کا دروازہ شاید کھلا رہتا ہو گا،لیکن اس گھر کی جائے وقوع ایسی تھی کہ دروازے پر آنے والا کئی لوگوں کی نگاہ میں رہتا(یا کم سے میرے باپ ماں کا یہی خیال رہا ہو گا)۔ ایسی صورت میں آٹھ نو سال کے سمجھ دار،اسکول جانے والے اور انگریزی پڑھنے والے لڑکے کے لیے کسی خوف کی بات واقع ہونے کا امکان ہی کہاں تھا؟
لیکن آہ،میرے والدین کو کیا معلوم تھا کہ وہی پیپل کا درخت جو دن کو انتہائی دوستدار اور خوشگوار اور ہریالا سایہ دار پڑوسی تھا،شام پھولتے ہی دشمن، اور مجھ سے خدا جانے کس قصور کا بدلہ لینے یا خدا جانے کب کی دشمنی نکالنے پر آمادہ، خون خشک کر دینے والا آسیبی وجود بن جاتا تھا۔ اور وہ ہوائیں، جنھیں وہ بار بار مجھے دھمکانے کے لیے میرے سر کے اوپر، میری چھت کے اوپر،سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے کی طرح دوڑاتا تھا۔ اور کیا رات کے وقت وہ سارے گھونگھے اور وہ میرے دوست چیونٹے،اور شاید پانی کی تہ میں خفیہ زندگیاں گذارنے والی مخلوق،سب اس پیپل پر چڑھ کر چڑیل اور جنات بن جاتے تھے؟یا شاید وہ پیپل کا گھنا،لمبا،گرانڈیل پیڑ ہی کوئی جنات بن جاتا تھا؟یا ہواؤں کے شور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی چڑیل،کوئی برم، کوئی پشاچ،چپ چاپ پیپل سے اتر کر مجھ کو دبوچنے ہی والا ہے؟
خدا جانے پیپل کے پیڑ میں اتنی قوت کہاں سے آتی تھی۔ آج بھی اس قوت کا مظاہرہ میں اس طرح دیکھتا ہوں کہ شہر میں جہاں اب میں رہتا ہوں، ایک پیپل وہاں سے کم سے کم ایک ڈیڑھ میل کی دوری پر سڑک کے اس پار کھڑا ہے۔ وہاں کئی درخت اور بھی ہیں، جیسے کہ سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ آندھی تو ایک طرف،تیز ہوا بھی شہر کے اس حصے میں کبھی کبھی ہی بہتی ہے۔ لیکن میرے گھر کی کوئی دیوار،لان کا کوئی گوشہ،اندرونی آنگن کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں جہاں پیپل کے پودے تکلیف دہ اور پریشان کن تواتر سے نہ اگ آتے ہوں۔ ہزار بار اکھڑواتا ہوں، سینکڑوں بار خود نوچ کر پھینکتا ہوں، لیکن توبہ کیجیے،وہ کہاں ہار مانتے ہیں۔ میں ہار مانتے مانتے رہ جاتا ہوں۔ جانتا ہوں کہ ان پودوں کو اگر بڑھنے دیا گیا تو یہ موذی دیوار، چھت، سب کو توڑ پھوڑ ڈالیں گے۔ اس لیے ہر مہینے دو مہینے مالی کو تاکید کرتا ہوں، دوسروں کی ہمت افزائی کرتا ہوں کہ بھائی انھیں ٹھہرنے مت دینا۔ مگر وہ پھر آ جاتے ہیں۔ پیپل نہ ہوا،ایڈگر ایلن پو(Edgar Allen Poe)کی نظم The Ravenکا وہ کچھ شیطانی ساپربت کاگ ہو جسے نظم کا متکلم ہزار کوشش اور ترغیب کے باوجود اپنی کھڑکی،بلکہ یوں کہیں کہ اپنے سینے سے ہٹا نہ سکا تھا۔
ہر رات میری اور پیپل کے چھتنار، دشمن،بھوت جیسے سیاہ فام، غیر انسانی وجود اورپچاسوں ریل گاڑیوں کے ایک ساتھ کسی پل پر گذرنے کے شورجیسا ہنگامہ کرنے والی ہواؤں سے جنگ ہوتی۔ اور ہر صبح کو وہ پیپل وہی پہلے جیسا سایہ دار، ٹھنڈا، اور ہلکی شیرینی لیے ہوئے گول گول چھوٹے چھوٹے پھلوں والا گھر بن جاتا۔ نہ جانے کتنی دوپہریں اپنے والدین کی آنکھ بچا کر وہاں میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیپل کی گوندنیاں چننے اور مزے لے لے کر کھانے میں گذاری ہیں۔ ایک بار میرے ایک ساتھی نے غلطی سے بکری کی ایک مینگنی بھی گوندنی سمجھ کر منھ میں ڈال لی تھی(میں آپ کو یقین دلاتا ہوں وہ میں نہیں تھا)۔ یہ واقعہ ہم لوگوں کے لیے تھوڑی بہت تفریح کا سبب بنا ضرور تھا،لیکن ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس کی خبر ہمارے بڑوں کو لگ گئی تو بڑی ڈانٹ (اور اغلب یہ کہ مار بھی)پڑے گی،اس لیے ہم لوگوں نے بہت جلد ہی اس موضوع کو اپنی گفتگو سے خارج کر دیا۔
آج خدا جانے کتنی مدت بعد میں گاؤں واپس آیا ہوں۔ کل مجھے دادا کی زمین پر نو تعمیر اسکول کا افتتاح کرنا ہے۔ دادا کے دروازے پر نیم کا پیڑ،جس کے نیچے خاندان کے لوگوں کے ساتھ گاؤں کا ہر اجنبی مسافر کھانا کھاتا تھا،اب نہیں ہے۔ جس درخت کے سائے میں اس وقت میں لیٹا ہوا سونے کی کوشش کر رہا ہوں، اس کی عمر بمشکل تیس چالیس برس ہو گی۔ وہ گڑھی اور وہ پیپل تو اس طرح صفحۂ وجود سے محو ہو چکے ہیں گویا کبھی تھے ہی نہیں۔ ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں خاک تھے آسماں کے تھے ہی نہیں جون ایلیا نے ہجرت کے پس منظر میں کہا تھا۔ ان بچاروں کو کیا معلوم کہ ہم لوگ جو یہیں کے تھے اور کہیں نہ گئے،ہم لوگوں کا سارا بچپن، سارا لڑکپن، تمام اٹھتی ہوئی جوانیاں، تمام دوستیاں اور رقابتیں ان اشجار کے ساتھ گئیں جو کٹ گئے،ان تال تلیوں کے ساتھ ڈوب گئیں جو سوکھ گئے،ان راہوں سے اٹھا لی گئیں جن پر گھر بن گئے۔ اے تو جو شہر کے باہر کھڑا اس طرح بے تحاشا رو رہا ہے،بول تو نے اپنی جوانی کے ساتھ کیا کیا؟مجھے ورلن کے مصرعے یاد آئے۔ لیکن میں نے تو کچھ کر کے دکھا دیا ہے،میں آج دور شہر سے بلایا گیا ہوں کہ اسکول کی عمارت کا افتتاح کروں۔ میں تو اب کچھ خاصا اہم آدمی ہوں، وہ چھوٹا سا لڑکا نہیں جو دل ہی دل میں اپنے باپ سے ناراض رہتا تھا کہ رات کے کھانے کے بعد مجھے آم اور خربوزوں میں سے اتنا حصہ کیوں نہیں ملتا جتنا میں چاہتا ہوں ؟ لیکن اس گلی سے کسی نے نہ کہا تھا کہ جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں۔ میں تو یہیں کا تھا،یا شاید نہیں تھا۔ بھلا کون اپنے دل میں اورسر پر ان بھوت پریتوں، چڑیلوں، جناتوں، تیز چل کر ڈراتی ہوئی ہواؤں اور بھیانک مسکراہٹ مسکرا کر دور سے اشارہ کر کے بلانے والی بلاؤں کا پیلا، گندہ، سیاہ خون لیے لیے پھر سکتا تھا؟
مگر وہ دنیا ہر طرف متحیر کرنے والی،ہر طرح سے جرأتوں کو آواز دینے والی،ہر لمحہ وسعتوں اور گہرائیوں کا احسا س دلانے والی دنیا تھی۔ جس بیت الخلا کا ذکر میں نے ابھی کیا(خدا جانے کیوں ہم لوگ بھی اسے بیت الخلا کہتے تھے،پاخانہ نہیں )،اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر کوئی چالیس دن تک متواتر اس میں جا کر "سلام علیکم” کہے تو اکتالیسویں دن اس کی ملاقات ایک جنات سے ہو جائے گی جو وہیں رہتا ہے۔ میں نے سنا تھا کہ ایک بار ایک صاحب نے چالیس دن تک "سلام علیکم”وہاں جا کر کہا تو اکتالیسویں دن واقعی ایک شخص انھیں نظر آیا، جو تھا تو انسانوں جیسا،لیکن اس کا قد آسمان کو چھوتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ بیت الخلا کی چھت بہت اونچی نہ تھی،لیکن اس وقت اتنی اونچی، اتنی اونچی ہو گئی تھی کہ ٹھیک سے نظر نہ آتی تھی۔ "وعلیکم السلام” ایک بڑی گونجتی ہوئی سی آواز آئی،جیسے بہت بڑا نقارہ بج اٹھا ہو،یا جیسے کوئی بہت بڑا،بہت ہی بڑا سانڈ ڈکار رہا ہو۔
اس کے بعد کیا ہوا،یہ بتانے والا کو ئی نہ تھا۔ لیکن وہ پیپل اب پھر میرے سامنے ہے۔ ۔ ۔ نہیں، پیپل نہیں، لگتا ہے کوئی شخص کہیں بلندی سے اتر رہا ہو،شاید نیم کے اس پیڑ سے جس کے تلے میں سو رہا ہوں۔ دھندلی، لمبی صورت،نہیں بہت لمبی نہیں، لیکن کچھ گھنی گھنی سی۔ اور وہ پیپل اب اس کے پیچھے ہے اور اس پیپل سے اب کچھ نیلی،کچھ سیاہ سی روشنی پھوٹ رہی ہے۔ بہت ہلکی روشنی،لیکن وہ صورت،وہ پیپل کا پیڑ۔ ۔ ۔ نہیں، وہ انسانی صورت،مجھے صاف دکھائی دیتی ہے۔ کوئی انسان ہے،ڈرنے کی کیا بات ہے؟کوئی بوڑھا،پرانا مسافر ہو گا جو یہاں رات کے لیے جگہ مانگنے آیا ہے۔ صبح کو چلا جائے گا۔ مگر،مگر اس کے کپڑے تو بہت ہی پرانے زمانے کے ہیں۔ ہم لوگ ایسے موقعے پر "دقیانوسی” لفظ استعمال کرتے تھے،اب بہت دن سے یہ لفظ سننے میں نہیں آیا۔
اجنبی آ کر میرے پلنگ کی پائینتی کھڑا ہو گیا ہے۔ نہیں، میں اسے اپنے پلنگ پر رونے نہ دوں گا۔ رونے؟ نہیں سونے۔ ہرگز سونے نہ دوں گا۔ میں چاہتا ہوں اٹھ کر اس سے پوچھوں، کون ہو تم؟ اورساتھ ہی سامنے کوئی پچاس قدم دور پر دادا کی مسجد میں سوئے ہوئے موذن کو آواز دوں۔ لیکن میرا بدن کچھ اکڑ سا گیا ہے۔ آواز کے عضلات (عضلات بھی کیا فضول لفظ ہے جیسے بہت سارے موٹے پتلے تار جھنجھنا گئے ہوں ) میں وہ لچک نہیں رہ گئی جس کے ذریعہ آواز بنتی ہے۔
گرمی تو کچھ خاص نہیں ہے،لیکن میرے سارے بدن میں، خاص کر ماتھے پر، گریبان اور بغل میں عجیب طرح کی تری ہے۔ مجھے چاہیے کہ اٹھ کر پسینہ خشک کروں، ہو سکے تو کہیں سے پنکھا جھلنے کے لیے کسی چیز کا اہتمام کروں۔
روشنی اب اس اجنبی کے پیچھے ہی نہیں، اس کے اطراف میں بھی ہے۔ اب میں اسے اچھی طرح دیکھ سکتا ہوں۔ یہ کمبخت کچھ بولتا کیوں نہیں ؟متوسط قد،گٹھا ہوا بدن،سر پر بھاری لیکن مضبوط بندھی ہوئی پگڑی،سیاہ کپڑے کی،جس میں سفید دھاریاں ہیں۔ بدن پر سوتی شلوکا،کچھ اونچا لیکن آستین دار۔ کپڑے کا رنگ اس وقت متعین کرنا مشکل ہے۔ شلوکے پر آدھی آستیوں کا انگرکھاکسی پھولدار موٹے کپڑے کا، زین کے کپڑے کا اونچا پاجامہ،پنڈلیوں پر چست لیکن کمر کے نیچے ڈھیلا۔ پاجامے کی لمبائی پنڈلیوں کے نیچے تک نہیں ہے۔ کمر میں ایک ڈوپٹہ بہت تنگ کساہوا،اس میں ایک خنجر یا چھرا آویزاں۔ (یہ کوئی خونی قاتل وغیرہ تو نہیں ؟)لیکن خنجر میان میں ہے۔ میان بہت سادہ کسی لکڑی یا سینگ کی بنی ہوئی ہے۔ خنجر کا قبضہ بھی نقش و نگار سے عاری ہے۔ پاؤں میں جوتیاں ہیں کہ نہیں، پتہ نہیں لگتا۔ گلے میں مختصر سا ہار کسی پتھر کا،لیکن قیمتی یا چمک دار نہیں۔ مونچھیں کچھ کچھ طویل لیکن بہت گھنی نہیں، ہاں دہانے کے دونوں طرف انھیں بل دے رکھا تھا۔ داڑھی ایک مٹھی سے کم، لیکن خاصی نمایاں اور تل چاولی۔ ڈاکو تو نہیں لگتا۔ اور ڈاکو اس طرح چپکے چپکے تن تنہا تھوڑا ہی آ جاتے ہیں۔
میں نے دوبارہ اٹھنا چاہا،لیکن فضول۔ آواز بھی اسی طرح بند تھی،گلا اسی طرح خشک تھا۔
"بندگی عرض کرتا ہوں حضور خان دوراں، عالی جاہ۔ مزاج سرکار کا کیسا ہے؟”
عجیب سی آواز تھی۔ کچھ کھوکھلی سی۔ لہجہ بھی ہماری طرف کا نہ تھا۔ لیکن مغربی اضلاع والوں جیسا بھی نہ تھا۔ لگتا تھا یہ شخص مدتوں فارسی بولنے والوں کے ساتھ یا آس پاس رہا ہو۔ پچھم والے ذرا ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہیں۔ ایرانی،یعنی آج کے ایرانی،الفاظ کو تیزی سے ادا کرتے ہیں۔ اس شخص کی بھی ادائیگی ذرا تیز تھی۔ حرکات و سکنات بدن میں فدویانہ پن کے باوجود لہجے میں کچھ قوت اور سختی تھی۔
نیند کا ایک جھونکا آیا۔ میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں، ہوا بھی ٹھنڈی اور شیریں ہو گئی تھی۔
خداوند عالم سکندر سلطان لودی ابن سکندر سلطان لودی فرماں روا عرصہ بیس سال سے ملک ہندوستان، پنجاب، دو آبۂ ہند و شرق،اور بنگالے سے بندیل کھنڈ تک کے علاقے پر نہایت شان اور دلجمعی اور انصاف و عظم و شان کے ساتھ تھے۔ یہ آخری برس (923) ان کی حکومت بابرکت کا تھا۔ لیکن خبرکسی کو کیا تھی کہ اقبال سکندری کا یہ آفتاب اب لب بام ہے۔ بلاد روم کے آگے مشرق میں دار الخلافۂ اسلام،شہر فرحت و قوت التیام، یعنی حضرت دہلی کو چھوڑ کر خداوند عالم نے ایک نیا شہر گوالیار سے کچھ اوپر دہلی کے جنوب میں آگرہ نام کا سنہ910تعمیر کر کے اسے اپنا دار السلطنت ٹھہرایا تھا۔ خداوند عالم کا بیشتر وقت نئے شہر کی تزئین اورتوسیع میں صرف ہوتا تھا۔ حکومت میں ساری دبدبۂ خداوند عالم کے بل پر امن و امان ہر طرف تھا۔ کہیں بھی،کچھ بھی، طول و عرض سلطنت با حشمت میں واقع ہوتا،خداوند عالم کو پلک مارتے میں خبر اس کی لگ جاتی تھی۔ لوگوں میں عقیدہ عام تھا کہ خداوند عالم حضور سلطان سکندر کے قبضے میں کئی موکل ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے قبضے میں سکندر ذوالقرنین کے بھی تھے۔ اور یہ موکلان سلطان سکندر کے،انھیں آگاہ و باخبر کلیۃً رکھتے تھے۔ کسی کو مجال ظلم رانی نہ تھی۔
میں گل محمد، عمر کوئی پچاس سال(صحیح عمر والدہ کو میری معلوم تھی لیکن اب وہ مدت ہوئی اس دنیا میں نہیں ہیں )،اپنے آبائی گاؤں سے باپ اپنے کے ساتھ دہلی آگیا تھا۔ اس وقت میر ا لڑکپن تھا،فارغ البالی کے دن تھے۔ باپ خان جہاں لودی جو مشہور عالم مسند علی خان کے نام سے تھے،ان کی ڈیوڑھی پر تا عمر دربان رہے۔ میں اکیلی اولاد،کھیلنے کھانے سے فرصت نہ ملتی تھی۔ تاہم باپ میرے نے مجھے خان جہاں کے دوسرے نوکروں کے بچوں کے ساتھ حویلی کے مولوی کے سپرد کر دیا۔ بعد ازاں عمر ابھی گیارہ ہی برس کی تھی کہ مجھے مشہور زمانہ، شیخ عصر شاہ اللہ دیا صاحب جونپوری کے فرزند جگر بند شیخ بھکاری صاحب دہلوی کے مدرسے میں ڈال دیا گیا۔ تین چار برس تک مدرسے میں خوب کٹائی منجھائی ہوئی۔ شیخ بھکاری صاحب کو تقریر سے زیادہ تحریر سے شغف تھا،اس لیے اصل کام تعلیم کا ان کے شاگردوں کے سپرد تھا۔ میں نے جہاں تک ہو سکا پڑھائی محنت سے کی۔ تھوڑا بہت لگاؤ شعر گوئی سے تھا،اس لیے مطول اور المعجم اور بعد میں اسرار البلاغۃ اور اعجاز القران اور البیان والتبئین میں تھوڑا بہت درک حاصل کیا۔ باقی معقولات ہوں یا منقولات، ایک ذرا سے علم انجم شناسی اور علم ہیئت کے سوا کچھ میرے پلے نہ پڑا۔
میں نے حضرت شیخ جمالی کنبوہ کی خدمت میں حاضری دینی شروع کی اور فن شعر کے کچھ نکات ان سے حاصل کیے۔ لیکن مجھ میں ملکہ شعر گوئی کا حقیقتاً نہ تھا۔ ایک دن میری غزل پر خط تنسیخ پھیر کر انھوں نے فرمایا:
"میاں صاحب،شما شاعر نہ خواہید شد۔ می بینیم کہ شما مذاق شناوری و کشتی گیری دارید۔ پیشۂ سپہ گری ہم براے شما خوب می باشد۔ ”
مجھے برا تو بہت لگا۔ افسوس بھی بے حد ہوا،لیکن اس کو کیا کیجیے کہ حضرت شیخ نے مجھے متعدد بار کنار جمنا پر پتنگ اڑاتے،یا بابا سلطان جی صاحب کی باؤلی میں شناوری کرتے، یا استاد بھوپت رائے ماہر کشتی گیری کی خدمت میں حاضر ہوتے بھی دیکھا تھا۔ بسنت پھولتی یا میلاد شریف کے دن آتے یا ہولی کا تیوہار ہوتا،میں ہر اس جگہ موجود رہتا جہاں مواقع سیر اور گلچھروں کے مہیا ہوتے۔ حضرت شیخ کا آنا جانا کہاں نہ تھا،تغلق آبادسے لے کر کوٹلہ فیروز شاہ تک ان کے شاگرد پھیلے ہوئے تھے۔ از صبح تا شام وہ اپنی پالکی میں شہر کی سیر کرتے یا شاگردوں اور عقیدت مندوں کے دیوان خانوں میں شعر و سخن کی محفلوں کے صدر مجلس ہوتے۔ انھیں خوب معلوم تھا کہ بندہ بھی نہ ٹلد گل محمد جیسا تھا،اپنے شوق اور اپنے لہو و لعب کو ترک کرنے والا میں نہ تھا۔
اس طرح نہ تو میں شاعر بن سکا،نہ ہی عالم۔ بس یہ ضرور تھا کہ عربی فارسی کی شد بد،تھوڑا بہت علم الحساب،جو میں کسب کر سکا تھا،میرے بہت کام آیا۔ اپنے کھلنڈرے دوستوں میں تو میں مولانا گل محمد دہلوی کے نام سے معروف ہو گیا تھا۔ باپ کا گھر سونے اور کھانے کے لیے،اور دہلی کا شہر سیر سپاٹوں اور کھیل کود کے لیے،پھر اور کیا چاہئے تھا۔ یہ ضرور ہے کہ باپ نے شادی میری برس اٹھارہ کے سن میں کر دی۔ بی بی اور گرہستی سے لگاؤ مجھے اتنا ہی تھا جتنا کسی ایسے جوان کو ہوتا جسے شہر کی ہوا لگ گئی ہو۔
باپ کے ہوتے فکر بال بچوں کی کسے ہوتی۔ کبھی کبھی تیج تیوہار کے زمانے میں گھر ہو لیے،گھر والی کے لیے شیرازی جوتیاں، بھاگل پوری نینو اور بنارسی کمخواب دست بقچے میں باندھے، بچوں کے لیے متھرا اور بداؤں کے پیڑے،جو دہلی میں مفرط ملتے تھے،ہانڈیوں میں رکھوائے اور چاند دسنے کے کچھ پہلے گھر پہنچ لیے۔ میری شادی کے تیسرے سال باپ نے اچانک مرض فرنگ میں جان دی۔ فرنگی تو ہمارے یہاں دور دور تک نہ تھا۔ لیکن کہتے ہیں کہ اب سے دور ایک بار سارے ملک فرنگ میں مرض طاعون کا پھیلا اورایسا پھیلا کہ مسافروں، یا شاید جناتوں اور شیطانوں کے توسط سے بلاد شرق میں بھی جگہ جگہ متمکن ہو گیا۔ تب سے ہر دو چار سال بعد کسی نہ کسی علاقے میں ہندوستان کے یہ موذی مرض پھوٹ پڑتا اور صدہا جانیں لے کر ہی جاتا۔ اس وقت سے لوگ طاعون کو مرض فرنگ کہنے لگے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ در اصل مرض آتشک مرض فرنگ ہے،کیونکہ یہ بلا بھی انھیں دیار و امصار سے ہم تک پہنچی تھی۔ لیکن یہ قول قوی نہیں۔ میں نے سنا ہے کہ شیخ الرئیس اور امام رازی کی کتابوں میں بھی ذکر آتشک کا ہے۔ پس دریں صورت آتشک کو مرض فرنگ کیونکر کوئی کہوے۔
باپ کے مرنے کا غم میں نے بہت کیا۔ اور دوسرا اتنا ہی بڑا غم کسب معاش اور پرداخت خاندان کا تھا۔ بارے میرے مرحوم باپ کی نوکری اور توسلی رشتے یہاں بھی کام آئے۔ خان جہاں لودی نے جب میری بدحالی سنی اور دیکھی تو مجھے خان دوراں اسد خان ابن مبارک خان کے رسالے میں احدی بحال کرا دیا۔
سن رہے ہو صاحب، آپ سن رہے ہو نہ؟
"ہاں سن رہا ہوں، ” میں نے بیزاری سے کہا اور دوسری کروٹ سو گیا۔ یا شاید سونے کی کوشش کرنے لگا۔ رات کچھ ٹھنڈی سی ہو رہی تھی۔ میں نے بستر کی چادر میں خود کو لپیٹ لینے کی کوشش کی۔
احدی سے آپ کو یہ گمان نہ ہو کہ میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے زمانے کے احدیوں میں شامل ہو گیا۔ اکبر بادشاہ اس وقت کہاں تھا۔ اور اکبر کے احدی تو یوں سمجھیے آپ کہ وظیفہ یاب قسم کے نفر تھے،مفت کی روٹی توڑتے تھے۔ خداوند عالم سلطان سکندرابن سلطان سکندر کے احدی فوجی ہوتے تھے، سلطان کے ہمہ وقت جاں نثار اور دن رات سینہ سپر کرنے کو تیار۔ ہمیں اپنا گھوڑا،اپنی ڈھال تلوار، خنجر، فوجی کپڑے اور اسلحہ کی دیکھ بھال کا انتظام خود کرنا پڑتا تھا۔ عوض اس کے ہمیں خداوند عالم کی بارگاہ سے در ماہہ ملتا تھا اور سر چھپانے کو خیمہ یا بڑے بڑے گھر ملتے تھے جن میں دس دس یا اور بھی زیادہ احدیوں کے سونے کا اہتمام رہتا تھا۔
کہنے کو میں نوکر تھا خان دوراں اسد خان ابن مبارک خان کا، لیکن در حقیقت آقا میرا خداوند سلطان سکندر تھا۔ خان دوراں کی ذمہ داری صرف اس قدر تھی کہ بخشی فوج تک مجھے پہنچانا اور اس بات کی ضمانت روبروئے کوتوال لینا کہ میں زمرۂ بد معاشان میں نہ تھا اور نہ کبھی میں نے ساتھ کسی بھی باغیان حکومت کا دیا تھا۔ اگر مجھ سے کوئی جرم سرزد ہوتا،یا میں ادائے فرض میں کوتاہ پایا جاتا تو پہلی جواب دہی انھیں کی تھی۔ مجھے جو سر چنگ ملنی تھی وہ تو ملتی ہی۔
جب میرا باپ اس دنیا سے سدھارا تو سلطان خداوند عالم ابن سلطان سکندر لودی کو تخت سلطانی پر متمکن ہوئے دس سال ہو چکے تھے۔ چار دانگ علم میں سلطان کے غلغلے تھے۔ داب سلطنت کے شہرے اور سکہ و خطبہ کا نفوذ از ہند تا سند،از پنجاب تا بنگال اور از دہلی تا دھور سمدرا تھا۔ سلطان کی حق بینی اور انصاف پرستی کا ایک واقعہ ان دنوں زباں زد خاص و عام تھا کہ علاقۂ سنبھل کے ایک غریب مزارع کو اپنے کھیت میں ایک دن ایک کانسے کا گھڑا ملا جس میں سلطان علاء الدین کے زمانے کی پانچ سوسلطانیاں، یعنی سونے کے سکے تھے۔ حاکم صوبۂ سنبھل کو پرچہ لا گا تو اس نے بفور وہ سلطانیاں ضبط کر لیں۔ بیکس مزارع سلطان کی بارگاہ میں عرض پرداز کسی نہ کسی طور ہوا تو بازپرس حاکم سنبھل سے ہوئی۔ اس بدبخت نے باب حکومت میں یہ پاسخ بھیجا کہ خداوند عالم کی خدمت اقدس میں عرض کیا جائے کہ وہ مزارع ایک مرد نا مشخص ہے اور ہر گز لائق و مستحق اس خزانے کا نہیں۔
خداوند عالم نے فرمان صادر فرمایا کہ اے احمق، جس نے یہ خزانہ اس مفلس کشا و رز کو ارزانی کیا ہے وہ مجھ سے اور تجھ سے زیادہ جانے والا ہے کہ کون مستحق کس مہربانی کا ہے۔ اشرفیاں اس غریب کی فوراً پھیر دی جائیں ورنہ آتش غضب سلطانی تجھے دم کے دم میں بستر نرم سے خاکستر گرم پر سلا دے گی۔ حاکم سنبھل اتنا سراسیمہ ہوا کہ اشرفیوں کی گاگر خود لیے ہوئے اس دہقان بچے کی جھونپڑی پر پہنچ گیا اور سو تنکے اپنی طرف سے دے کر اس نے مزارع سے راضی نامہ لکھوایا۔
ایک بار تھانیسرکے علاقے سے اطلاع آئی کہ ہندوان نے ایک تالاب قدیم کو از سر نو تعمیر کر کے وہاں میلہ ایک ماہ بماہ منعقد کرنا شروع کیا ہے اور پوجا پاٹھ بھی کرتے ہیں اور گھنٹ ناقوس بھی بجاتے ہیں۔ پس اس باب میں حکم عالی کیا صادر ہوتا ہے؟سلطان والا شان نے مفتی اعظم سے مشاورت کر کے فرمان لکھوایا کہ وہ اپنے مذہب پر ہیں، پس جب تک ان کے مناسک و رسوم کے باعث کوئی خطر امن و امان کے لیے نہ ہو،ان سے ہرگز کچھ تعرض نہ کیا جائے۔
انتظام سلطنت میں ہشیاری اور خبر داری غرض سے حضرت دہلی اور اس کے گرد و نواح میں اسی ہزار مسلح فوج ہر وقت تیار رہتی تھی۔ کہیں سے ذرا بھی بد امنی کی خبر آئی اور جیوش سلطانی حرکت میں آ گئے۔ تغلق آباد،غیاث پور،بیگم پورہ،سیری اور کیلو کھیڑی جو پایہ تخت کے پرانے شہر تھے،ان سب میں میدان وسیع و مرتفع و مسطح دیکھ کر فوجوں کے خیام کے لیے مقرر کر دئیے گئے تھے۔ میں جس فوج میں تھا وہ غیاث پور سے ذرا ورے کنار جمنا پر قیام کرتی تھی۔ اس ندی کو جن نے دیکھا ہے وہی اس کے وسیع پاٹ کا قیاس کر سکتے ہیں۔ برساتوں میں ندی پر دریائے اعظم کا گمان ہو نے لگتا۔ غازی آباد میں ہنڈن کے ورلے کنارے سے کچھ آگے جنوب کی طرف سے لے کر اوکھلے تک سارا علاقہ پانی سے بھر جاتا۔ اسی بنا پر اس علاقے کو خلق اللہ طنزاً پٹ پڑ گنج کہنے لگی تھی،حالانکہ وہاں مچھروں، پسوؤں، جونکوں اور دیگر لساع کیڑوں کے سوا گنج کے نام پر کچھ نہ تھا۔
واللہ وہ بھی کیا زمانے تھے۔ بارہ برس میں میرا درماہہ بارہ تنکے سے بڑھتے بڑھتے بیس ہو گیا تھا۔ اس زمانے میں پانچ تنکہ ماہانہ خرچ کر نے والے اجلے خرچ سے رہتے تھے۔ سلطان بہلول لودی کو اللہ بخشے،ان کا جاری کیا ہوا تانبے کا سکہ بہلولی کہلاتا تھا۔ وہ اب بھی رائج تھا اور اس میں طاقت اس قدر تھی کہ آدمی یہاں سے کول تک کا سفر اپنے گھوڑے کے ساتھ کرتا تو ایک بہلول اس کے لیے کافی ہوتا۔ مجھے اپنے گھوڑے کے ساز و یراق، سائیس اوراسلحہ کی دیکھ بھال پر بہت صرف کرنا پڑتا تھا،پھر بھی میں ہر مہینے تین سے چار تنکے گھر بھجوا دیا کرتا تھا۔ شراب کی لت مجھے نہ تھی،لیکن بازاروں اور کنچنیوں پر کچھ خرچ تو لازم ہی آتا تھا اور ایسی محفلوں میں کچھ شراب کچھ نقل تو بہر حال ضروریات میں تھی۔ مولانا گل محمد اب ذرا پیچھے چھوٹ گئے تھے اور گل محمد اوپچی کچھ آگے آ گئے تھے۔
اب سلطان سکندر کا یہ اکیسواں سنہ جلوس تھا۔ میری بیٹی بارہ برس کی ہو کر تیرہویں میں لگی تھی۔ گھر سے خبر آئی کہ اس کی سگائی اور پھر بیاہ آئندہ برساتوں سے پہلے ہو جائے تو خوب ہو۔ مجھے بلایا گیا تھا کہ جا کر سب معاملات طے کر دوں۔ ہر چند کہ خداوند عالم سلطان سکندر ابن سلطان سکندر نے شرع شریف کی پابندی پر بہت کچھ زور دیا تھا،لیکن ہم ان اطراف کے گنوارمسلمانوں میں ہندوؤں کی بو باس ابھی بہت کچھ باقی تھی۔ جمعے کے سوا ہر دن ہم لوگ ہندوانی دھوتی پہنتے تھے۔ جمعے کو البتہ دو بر کا ڈھیلا سفید پاجامہ گاڑھے کا اور محمودی کا کرتا پہنا جاتا تھا۔ ہماری عورتیں گھر سے باہر نکلتی تھیں لیکن لمبا گھونگھٹ کاڑھ کر۔ ہر گھر میں ایک صندوق تھا جس میں دیوالی اور دسہرے اور عید بقر عید شبرات کے لیے روپیہ پس انداز کیا جاتا تھا۔ شادی کی رسمیں بہت کچھ ہندوانہ تھیں۔ کنیا دان یا جہیز کی صورت نہ تھی لیکن لڑکے والے شادی سے پہلے منگنی لے کر ضرور آتے اور اس موقعے پر شادی سے کچھ ہی کم خرچ ہوتا۔ نکاح کے بعد رخصتی (جسے ہم لوگ گون یا گونا کہتے تھے) اکثر بہت دیر سے ہوتی تھی۔ ہندوؤں کی طرح ہمارے یہاں بچکانہ شادی کا رواج تو نہ تھا لیکن منگنی پھر نکاح پھر گون کی رسمیں کچھ نہ کچھ وقفے سے ادا ہوتی تھیں۔
جیٹھ نکل کرا ساڑھ کی آمد آمد تھی جب میں نے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ تین ساڑھے تین سوتنکے کا انتظام میں نے کر لیا تھا کہ مصارف شادی اس سے کم بھلا کیا ہوں گے۔ ارادہ تھا کہ شام ہونے کے پہلے لیکن عصر کے بعد چل نکلوں کہ موسم ٹھنڈا ہو چکا ہو گا۔ ایک منزل کرتے کرتے غروب آفتاب ہو نے لگے گا، کہیں کوئی اچھی سرائے دیکھ کر رات گذار لوں گا اور صبح ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے گاؤں ننگل خورد پہنچ لوں گا۔ زاد سفر بہت تھوڑا رکھا،تحفہ تحائف کی ضرورت نہ تھی کہ سارا سامان شادی اور دیگر رسوم شادی کے لحاظ سے گھر کی عورات ہی کو خرید کرنا تھا۔ سواری کے لیے گھوڑا تھا ہی،اور کچھ درکار سپاہی کو نہ تھا۔ میرا راستہ نہر فیروز شاہی کے بائیں کنارے سے لگا ہوا کئی کوس چل کر پھر نہر سے کٹ جاتا تھا۔
وزیر پور پر نہر فیروز شاہی خود ہی خم کھا کر کرنال اور حصار کی جانب رواں ہو جاتی تھی۔ دو رویہ گھنے پیڑ اور آتی برسات کے بادلوں کی دھندلی روشنی نے نہر کے دونوں طرف نیم تاریکی سی پیدا کر دی تھی۔ ایک جگہ خم اس قدر سخت تھا کہ خم کے پہلے اور بعد دونوں سرے نظر نہ آتے تھے۔ خم میں داخل ہو جائیں تو گویا دونوں طرف کی راہ بند ہو جاتی تھی۔ لیکن خطر کوئی نہ تھا۔ حکومت میں سلطان والا شان کی راہیں سب محفوظ تھیں اور یہ جگہ تو حضرت دہلی سے کوئی پانچ ہی چھ کروہ تھی۔ در حقیقت میرے لیے جگہ رات کے پڑاؤ کی یہاں سے بہت دور نہ تھی۔ میں گھوڑے پرسوار گنگناتا دلکی چلتا چلا جا رہا تھا۔ سامنے ایک پلیا تھی جس کے نیچے نالہ ابھی خشک تھا۔ پلیا کے ورلی طرف ایک بڑھیا،نہایت تباہ حال نظر آئی،مجھے دیکھتے ہی اس نے کچھ دعائیہ لہجے میں مگر ذرا بلند آواز میں پکارا:
اکیلے دوکیلے کا اللہ بیلی!
پھر اس نے بہت مسکین لیکن پھر بھی بلند آواز میں مجھ سے کہا:
"اللہ کی راہ میں کچھ دے دو بیٹا۔ بیوہ دکھیا پر ترس کھاؤ۔ ”
میں نے سوچا، سفر میں ہوں، نیک کام کے لیے جا رہا ہوں، اس وقت اسے کچھ دے دوں تو نیک شگون ہو گا۔ پھر میں نے گھوڑا آہستہ کیا،راس کو بڑھیا کی طرف موڑ کر جھکا، شلوکے کی جیب میں ہاتھ ڈالا کہ کچھ نکال کر بڑھیا کودے دوں۔ یک مرتبہ کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دیا۔ میں غصے میں اس کی طرف مڑ کر گالی دینے والا تھا کہ کسی اور نے ایک دھکا اور دیا۔ میں بے قابو ہو کر بائیں طرف کو لڑکھڑایا۔ گھوڑا الف ہونے لگا۔ راس میرے ہاتھ سے نکل گئی۔ گھوڑا الف ہو کر کدھر گیا،یہ میں نہ دیکھ سکا کہ کسی نے اتنی دیر میں میرے سر پرکالا کپڑا ڈال کر مجھے اندھا کر دیا تھا۔ کپڑا اتنا موٹا اور پسینے کی بد بو سے بھرا ہوا تھا کہ مجھے ابکائی آ گئی اور میری سانس رکنے لگی۔ کپڑا فوری طور پر میری گردن پر کس دیا گیا تو میں سمجھا کہ یہ بٹ مار ہیں۔ جان نہ بچے گی،میری بیٹی کا کیا ہو گا،میں نے کمر سے خنجر نکالنا چاہا کہ ایک دو کو ختم ہی کر دوں۔ یہ قرم ساق نہیں جانتے کہ کس کے گھر بیعانہ دیا ہے۔ ایک دو کو تو مار ہی کر مروں گا۔
میری سانس ا ب بالکل ہی رکی جا رہی تھی۔ ابکائیوں اور خنجر نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوششوں میں سانس ٹوٹی جاتی تھی۔ میں نے پوری قوت سے چلا کر ان حرام زادوں کو ماں کی گالی دینی چاہی لیکن اب تک میری مشکیں بھی کس لی گئی تھیں۔ پھر ٹانگیں بانھ کر مجھے ایسا بنا دیا گیا جوں کر کہ بکرے کو ذبح کے اس کی ٹانگیں بانھ کر کہیں اور لے جاتے ہیں۔ میری کمر میں ہمیانی بندھی ہوئی تھی۔ اسے نہایت صفائی سے کاٹ کر نکال لیا گیا۔ گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی،پھر کسی نے اس کو چمکارا اور چپ کیا۔ گھوڑوں کی چوری میں بھی ظالم اس غضب کے مشاق تھے کہ بظاہر گھوڑا بھی پلک جھپکتے میں رام ہو گیا۔ سارا کام مکمل خاموشی میں ہوا تھا۔ پھر میرے سر پر کپڑا کھینچ لیا گیا لیکن اس کے پہلے کہ میں کچھ کر سکتا،میرے منھ میں ایک اور کپڑا،پہلے سے بھی بد بو دار اور متعفن،ٹھونس کر ساتھ ہی ساتھ آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ پھر کچھ دوڑتے ہوئے قدموں اور گھوڑے کی ہلکی ٹاپ کی آواز۔ دونوں آوازیں بہت جلد مدھم ہو کر غائب ہو گئیں۔ کسی کے سانس لینے کی بھی آواز نہ سنائی دی تھی،بات کرنے یا کھانسنے کھنکھارنے یا ہنسنے کی تو بات ہی کیا تھی۔ میں یہ تو سمجھ ہی گیا کہ یہ پرلے درجے کے مشاق بٹ مار ہیں اور وہ بڑھیا ان سے ملی ہوئی تھی۔ لیکن یہ بھی تھا کہ وہ مجھے جان سے مارنا نہ چاہتے تھے۔ ان کا منشا محض یہ تھا کہ مجھے بے دست و پا کر چھوڑ دیں اور اتنی دور نکل جائیں کہ میں ان کا تعاقب نہ کر سکوں اور نہ کسی کو آگاہ ان کے بارے میں کر سکوں۔
مجھے رنج سے بڑھ کر غصہ تھا کہ میں، سارے عالم میں مانے ہوئے سلطان کی سارے عالم میں مانی ہوئی فوج کا سپاہی اور یوں کسی کچھوے کی طرح پکڑ لیا جاؤں کہ مدافعت اپنی میں ایک وار بھی نہ کر سکوں۔ لعنت ہے ایسی سپہ گری پر اور تف ہے ایسی سلطانی پر کہ رعایا یوں بے کھٹکے دن دہاڑے لٹ جائے۔ میں یہاں یوں ہی مجبور پڑا رہا تو کیا پتہ رات میں کسی موذی جانور کا شکار ہو جاؤں۔ کیا خبر مجھے کوئی اور بٹ مار قتل کر کے جو کچھ میرے بدن پر کپڑے اور تھیلی میں ستو اور جلیبیاں ہیں اور شلوکے کی جیب میں چند سکے بہلولی ہیں انھیں بھی لے کر چمپت ہو جائے۔ میں نے چیخنا چاہا،لیکن وہ متعفن کپڑا میرے حلق تک یوں ٹھنسا ہوا تھا کہ میں اگر بولنے کوشش میں منھ یا حلق پر کچھ زیادہ زور ڈالتا تو کپڑا شاید میرے حلق کے اندر ہی اتر جاتا۔ وقت کتنا گذر گیا تھا،مجھے اس کا کچھ علم نہ تھا۔ مغرب تو ہو ہی چکی تھی۔ لیکن کہیں دور سے بھی اذان کی آواز یا مندروں میں گھنٹے کی پکار، یا چراگاہ سے واپس ہوتے ہوئے کسان یا چرواہے کے ساتھ مویشیوں کے ریوڑوں کی گھنٹیوں کی آواز کچھ بھی نہ سنائی دیتی تھی۔ دانہ دنکا چن کر اپنے گھونسلوں کو لوٹنے والی چڑیوں کے جھنڈ اگر تھے تو یا تو ابھی واپس نہ ہو رہے تھے یا وہ بھی شام کی تنہا شفق میں چپ چپاتے نکل گئے تھے۔ یا اگر آواز کوئی سنائی دینے والی تھی بھی تو زور سے چلانے کی کوشش سے میرے کانوں میں سائیں سائیں اس قدر ہو نے لگی تھی کہ کچھ سن لینا مشکل تھا۔
کیا بہت دیر ہو گئی تھی؟کیا اب کوئی آنے والا نہیں ہے؟ابھی ابھی میں شیر کی دہاڑسنی تھی کیا؟شیر تو اس علاقے میں تھے نہیں، ہاں گلدار بہت تھے۔ گلدار تو جمنا کے کنارے کی کچھاروں میں دہلی سے کرنا ل تک چھوٹے ہوئے سانڈوں کی طرح بے روک ٹوک گھومتے تھے۔ اور بھیڑیے بھی۔ گلداروں کی تو ہمتیں اس قدر کھلی ہوئی تھیں کہ دہلی کے مضافات میں جو آبادیاں بوجہ نقل مکانی کے ذرا چھدری ہو جاتیں، ان کے خالی گھروں میں گلدار آباد ہو جایا کرتے تھے۔ یہاں تو میں جمنا کے کنارے سے دور تھا۔ سلطان فیروز شاہ خلد مکانی نے یہ نہر بنوائی ہی اسی لیے تھی کہ جمنا کا پانی جن علاقوں میں پہنچتا نہیں ہے وہاں بذریعہ اس نہر کے پہنچ جائے۔ لیکن یہاں بھی اب درختوں کے گھنے اور نہر کی رطوبت نے کچھار جیسا سماں پیدا کر دیا تھا۔ سلطان فیروز کو اللہ نے جنت میں اونچا مقام ضرور دیا ہو گا۔ انھوں نے اس راہ میں، اور کول کی راہ میں جگہ جگہ شاہی سرائیں بنوائیں تھیں جہاں کوئی بھی مسافر کچھ رقم دیے بغیر ٹھہر سکتا تھا۔ اور اچھا ہی تھا کہ انھوں نے یہ حکم دے دیا تھا کہ سراؤں کا خرچ تمام خزانۂ سلطانی سے ادا ہو،ورنہ مجھ جیسے لٹے پٹے مسافر کو تو راہ میں ایک وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لیے چھت کے لالے پڑ جاتے۔
میں نے بہت چاہا کہ راہ کے کسی پتھر سے رگڑ کر اپنے ہاتھوں کو بندش سے آزاد کرالوں۔ لیکن ایک تو اس اندھیرے میں پتھر کہا ں ملتا پھر میری آنکھوں پر اندھیری جو چڑھی ہوئی تھی اور ہاتھ پیٹھ پر بندھے ہوئے تھے۔ پاؤں کے بند کو رگڑ کر کاٹنے کی کوشش میں جگہ جگہ خراشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگا تھا۔ کیا سب لوگوں کو خبر ہو گئی تھی کہ یہ راہ بٹ ماروں نے ہتھیا لی ہے اور شام ڈھلے آنا ادھر انھوں نے چھوڑ دیا تھا؟کتے بھی نہ بھونکتے تھے،یا شاید گیدڑوں کا ایک غول کہیں کھیت میں غل مچا رہا تھا۔ کبھی کبھی ملک چین کے سفیرملک میں ہمارے آتے تھے تو ان کے سپاہیوں سے میں سنتا تھا کہ ان کے یہاں اصول حرب کے ماہرین نے کچھ فن ایسا ایجاد کیا کہ جب ہاتھوں اور پاؤں کو ان کے باندھتے ہیں تو وہ بدن کو اپنے کچھ اس طرح پھلا لیتے ہیں کہ کیسا ہی بند ہو،بندھنے کے بعد ڈھیلا ہو جاتا ہے کیونکہ بدن پھر اپنی حالت اصلی پر آ جاتا ہے۔ اس طرح اگر کبھی انھیں کوئی باندھ کر بالکل بے چارہ بھی کر دے تو وہ بباعث بندھنوں کے ڈھیلا ہونے کے،خود کو ذرا سی کوشش کے بعد رہا کرا لیتے ہیں۔ افسوس کہ مجھے وہ فن آتا نہ تھا اور اگر آتا بھی کیا ہوتا۔ میں تو بے خبری میں مار لیا گیا تھا۔
رات تو بیشک ہو چکی ہو گی۔ کہیں درختوں کے پیچھو کچھ کھسر پسر تو نہیں ہو رہی ہے؟کہیں وہ حرامی واپس تو نہیں آ رہے ہیں ؟یہ کچھ آواز سی کیسی ہے؟میں نے بہت غور سے سننا چاہا،لیکن کانوں میں کچھ سائیں سائیں اب بھی ہو رہی تھی۔ ہاں یہ کچھ نئی سی آواز تھی۔ ٹھہر ٹھہر کر آ رہی تھی۔ کہیں کسی مندر میں گھنٹ ناقوس تو نہیں بج رہا؟نہیں، یہ تو گہری اور دور تک پھیلنے والی آواز تھی۔ ٹن۔ ۔ ۔ ٹن۔ ۔ ۔ ٹن۔ ۔ ۔ ذرا رک رک کر۔ ۔ ۔ کوئی فیل نشین ادھر آ رہا تھا۔ ۔ ۔ میرا دل بلیوں اچھلنے لاگا۔ شاید میری جان بچ ہی جائے گی۔ ہاتھی کی گھنٹیوں کی آواز نزدیک آئی،آہستہ ہوئی،ٹھہر گئی۔
"معتبر سنگھ،ذرا دیکھنا۔ یہ راہ میں کیا پڑا ہوا ہے؟”مضبوط،ٹھہری ہوئی آواز،لیکن کسی فوجی عہدہ دار یا شاہی اہل کار کی نہیں، بلکہ کسی ایسے شخص کی تھی جو عیش و عشرت میں پلا بڑھا رئیس زادہ ہو۔ "نہیں، ابھی اترو نہیں، پاس سے دیکھو۔ ”
میں نے ہاتھ پاؤں ہلانے کی سعی اور تیز کر دی کہ مہاوت سمجھ لے کہ میں زندہ ہوں۔
"عالی جاہ، لگتا ہے ڈاکوؤں نے کسی شخص کو گھائل کر کے ڈال دیا ہے۔ ” نہایت مودب لیکن کچھ ڈری ڈری سی آواز آئی۔
"اچھا؟کوئی زخمی ہے؟ ہاں شاید اس کا کوئی دشمن اسے یہاں نہر میں پھینکنے لا رہا تھا،ہم کو دیکھ کر بھاگ نکلا۔ ہاتھی ذرا اور پاس لے چلو۔ ”
"حضور کہیں کوئی چال اس میں نہ ہو،”آواز اب اور بھی ڈری ہوئی سی تھی۔ "ایساتو نہیں کہ ہمیں ہی دھوکے سے کچھ۔ ۔ ۔ کچھ کر ڈالنے کا چکر ہو۔ ۔ ۔ ”
میں نے اپنی کشمکش اور تیز کر دی۔ اس بار میں کچھ غیں غیں سی آواز نکالنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔
"چال ؟چال بھلا اس میں کیا ہو گی؟تم بھی عجب تھڑ دلے آدمی ہو معتبر سنگھ۔ ہم ہاتھی سے اتریں گے نہیں تو ہمیں کوئی کچھ کیا کر دے گا؟اور اگر تیر کا نشانہ بنانا ہوتا تو اب لگ کئی تیر چل چکے ہوتے۔ چلو، نیچے اترو۔ اس غریب کی کیفیت دریافت کرو۔ ”
"سرکار۔ ۔ ۔ ” معتبر سنگھ کے لہجے میں کچھ شک اور بہت سارا ڈر تھا۔
میں اپنی غیں غیں اور تیز کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"اے میاں تم تو بالکل ہی بودے نکلے۔ اچھا یوں کرو۔ ہاتھی کو ذرا اور آگے لے جا کر کہو کہ سونڈ سے اس آدمی کو اٹھا کر اوپر میرے پاس لے آئے۔ چلو،شاباش۔ ”
معتبر سنگھ نے ہاتھی کو کچھ آگے بڑھایا،لیکن کتنا،اس کا مجھے اندازہ نہ ہو سکا۔ لیکن معتبر سنگھ نے ہاتھی سے سرگوشی میں کچھ کہا،اور کئی بار کہا۔ پھر مجھے لگا کہ کوئی بہت ہی طاقتور اور کئی گز لمبا موٹا اجگر مجھے بانھ کر لپیٹ کر بلوں میں اپنے اٹھائے لیے جا رہا ہے۔ میں نے سہم کر خود کو چھوٹا کرنے کی کوشش کی،لیکن کہاں میں اور کہاں وہ زبردست بادلوں جیسا زور۔ آن کی آن میں ہاتھی نے مجھے رئیس کے ہودے کے آگے مہاوت اور مالک کے بیچ کی جگہ میں دھانس دیا۔ بلا سے جگہ تنگ تھی لیکن اب میں ضیق جان سے تو بچ نکلا تھا۔
معتبر سنگھ نے، یا شاید مالک نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا، مجھے بآسانی اس عفونت سے بھرے اور شاید تیل اور تھوک سے بھی چکٹے ہوئے میرے حلق میں ٹھنسے ہوئے کپڑے اور آنکھ کی پٹی سے آزاد کر لیا گیا۔ تاہم مجھے اپنی آواز دوبارہ حاصل کرنے میں کچھ وقت لگا۔ تھوک کو بمشکل گھونٹتے ہوئے میں نے فیل نشین کے سوال کے جواب میں مختصر لفظوں میں اپنی بپتا کہہ سنائی۔
"تو سپاہی جی،تم دوہرے خوش نصیب تھے۔ ان قرم ساقوں نے تمہیں زندہ چھوڑ دیا اور پھر ہم ادھر آ نکلے۔ ”
"بندے کا بال بال آپ کے احسان سے گندھا رہے گا۔ میں تو سمجھا تھا کہ شیر بھیڑیا کوئی نہ کوئی مجھے کھا ہی لے گا۔ ”
خیر، رسیدہ بود بلائے۔ ۔ ۔ ہوا سو ہوا۔ میں بہادر گڈھ جا رہا ہوں۔ وہاں تک بآسانی تمہیں پہنچا دوں گا۔ آگے جو تمہارا جی چاہے۔ بہادر گڈھ میں بھی قیام شب کا انتظام ہو سکتا ہے۔ ”
"بندہ پروری ہے آپ کی۔ بہادر گڈھ تک بہت ٹھیک رہے گا اگر حفاظت میں جناب کی چلا چلوں۔ کل صبح دہلی واپس چلا جاؤں گا۔ "میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور دل میں ابلتے ہوئے رنج کو دباتے ہوئے کہا۔
"بہت مناسب۔ معتبر سنگھ آگے بڑھو۔ اور ہاں، سپاہی گل محمد، ایک بار خوب غور سے دیکھ لو، کچھ تمہارا یہاں چھوٹ تو نہیں رہا؟”
"چھوٹنے کو اب کیا رہا ہے جناب۔ بندگان حضور نے جان بچا لی،میں اسی پر خوش ہوں۔ فیل کو آگے بڑھنے کا حکم فرمائیں۔ ”
اثنائے راہ میں معلوم ہوا کہ فیل نشین کا اسم سامی رگھو راج بہادر سنگھ تھا۔ وہ اپنے کسی عزیز کی شادی میں شرکت کی غرض سے بہادر گڈھ کے کہیں آگے تشریف لے جا رہے تھے۔ بہادر گڈھ میں انھوں نے مجھے ایک سرائے کا سامنے اتار دیا۔ دوبارہ بندگی اور اظہار تشکر کر کے میں نے ان سے رخصت لی۔
اگلے دن میں دہلی آگیا۔ میرے شلوکے میں چار چھ بہلولی جو بچ رہ گئے تھے وہ مصارف کے لیے کافی سے زیادہ تھے۔ ایک بہلولی میں سولہ اور ایک تنکے میں چونسٹھ چھدام ہوتے تھے۔ میں نے ایک بہلولی بھنائی اور سرائے کے مصارف اور مصارف بہلی میں سفر کے بخوبی ادا کیے۔ بہلی میں میرے ساتھ چار مسافر تھے۔ خدا کا شکر بھیجتا ہوں کہ ان میں سے کسی کو عارضہ تجسس اور کرید کا بہت نہ تھا۔ نہ انھوں نے پوچھا کہ میں بہادر گڈھ کس تقریب سے آیا تھا اور نہ میں نے ظاہر کیا۔
٭٭٭
(ناولٹ سے اقتباس)