محض
میں اپنے پیروں کے ٹکاؤ، ہاتھوں کی پینگ اور سر کی چھتری پر ہی اپنی ذات کو محمول کرنے لگا اور میری اصلی ذات سالہا سال بڑے صبر و سکون سے دو سرے عالم میں میرا انتظار کرتی رہی اور ہنستی رہی کہ میں اپنے آپ کو محض جوگندر پال سمجھ بیٹھا ہوں۔
٭٭٭
گمشدہ
اُس کی ابھی آنکھ بھی نہ کھلی تھی کہ اُس نے ایک دم چیخ مار کر اپنی بیوی کو بلایا۔ وہ بیچاری سراسیمگی میں دوڑی دوڑی آئی۔ ‘‘ کیا ہوا؟‘‘
‘‘ اب کیا ہو گا؟‘‘ اس کا پاگل پتی اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگا
‘‘ اپنا آپ تو میں اپنے خواب میں ہی چھوڑ آیا ہوں۔ ‘‘
٭٭٭
کچّا پَن
‘‘ بابا، تم بڑے میٹھے ہو۔ ‘‘
‘‘ یہی تو میری مشکل ہے بیٹا۔ ابھی ذرا کچا اور کھٹا ہوتا تو جھاڑ سے جڑا رہتا۔ ‘‘
٭٭٭
جیون کھیل تماشہ
‘‘ میں سپنوں میں بہتر دِکھتا ہوں۔ ‘‘
‘‘ مگر اس وقت تو آپ ہو بہو میرے سامنے موجود ہیں۔ ‘‘
‘‘ کیا سپنے میں بھی سب کچھ ہو بہو نہیں ہوتا؟‘‘
‘‘ مگر پھر آنکھ کھلتے ہی سب کچھ ایک دَم مٹی کیسے ہو جاتا ہے؟‘‘
‘‘ ہاں بابا، جیسے آنکھ لگتے ہی ہم۔۔ ۔ ‘‘
٭٭٭
نہیں رحمان بابو
میرے کلینک میں آج ایک رو بو آ نکلا، رحمن بابو، چیک اپ کے بعد میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بتانے لگا، میں تھکا تھکا رہنے لگا ہوں، ڈاکٹر۔
اور اس کی شکایت سن کر مجھے یہ فکر لا حق ہونے لگی کہ کہیں اس میں جان تو نہیں پڑ گئی۔
٭٭٭
نہیں، رحمن بابو، میں پاگل نہیں ہوں۔۔ ۔
کیا؟۔۔ ۔
اپنے آپ سے باتیں کیوں کرتا رہتا ہوں؟
تم ہی بتاؤ رحمن بابو، گم شدگان تک اور کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟
٭٭٭
ہم سب ہم مذہب ہیں رحمن بابو،
مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہر کسی کو اپنی اپنی بساط کا ہی خدا ملتا ہے۔
٭٭٭