لکھنوی ادب و تہذیب کی وراثت اور نیر مسعود جیسا وارث ۔۔۔ نسیم صدیقی

 

 

پیر 24جولائی کو جب نیر مسعود کی سناؤنی ملی تو ایسا لگا جیسے ہمارا کوئی بزرگ ہی نہیں ایک پوری تہذیب اُٹھ گئی ہو۔ بڑی دیر تک قلب میں سنسناہٹ ہوتی رہی اور پھر ایک سرد آہ نے گزرے ہوئے برسوں کے مناظر آنکھوں میں پھیر دِیے۔ کوئی تیس برس قبل کی بات ہے جب ہم اپنے بچوں کے ساتھ لکھنؤ کا بڑا اِمام باڑہ دیکھنے گئے تھے۔ صدر دروازے ہی پر بہ مشکل دس بارہ برس کا ایک لڑکا ہماری طرف بڑھا اور اُس نے جو بولنا شروع کیا تو ہم سب اُس کو سنتے ہی رہ گئے۔ وہ امام باڑے کی تاریخ اور اس کی خصوصیات بیان کر رہا تھا، امام باڑے کی خصوصیات اپنی جگہ اُس وقت تو اس لڑکے کی بیساختگی اور اندازِ بیان سننے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، وہ لکھنوی زبان و بیان کا ایک نمونہ تھا نمونہ۔ اس نے مسکراتے ہوئے ایک لکھنوی لطیفہ سنایا، آپ بھی لطف لیجیے:

’’شفتالو کی شاخ پر شکھرے نے شکار کیا، شہر میں شور مچا شاباش رے شاباش۔ ‘‘

اس جملے میں شین کی تکرار کا ترنم نما مخرج ذہن میں اب بھی گونجتا محسوس ہوتا ہے۔۔ ۔۔

اسی کے ساتھ 1984کا سنیچر22 ستمبر بھی یاد آ گیا۔ باندرہ(ممبئی) میں واقع تالاب کے سامنے نیشنل لائبریری ہال میں حضرت پرتو لکھنوی کی کتاب ’’ لکھنؤ: مرکز زبان و ادب‘‘ کا اجرا تھا، راہی معصوم رضا، ڈاکٹر ظؔ انصاری کی شرکت نے اس پروگرام کی رونق دو چند کر دی تھی۔ پورے پروگرام میں لکھنؤ اور لکھنؤ کے محاسن ہی چھائے رہے۔ کون نہیں جانتا کہ جب ظ انصاری بولتے تھے تو بس وہ بولتے رہیں اور حاضرین سنتے رہیں جیسے مجمع کو ہپنا ٹائیز کر دیا گیا ہو۔۔ ۔

کتاب کا موضوع ’لکھنؤ‘، جلسے کے مہتمم اہل لکھنو، کتاب کا لکھنے والا اہلِ لکھنو (پرتو لکھنوی ) جس کی زبان و بیان کے لطائف پُرانوں کے ذہنوں میں آج بھی باقی ہیں۔ لکھنؤ والوں کے اس جلسے کا ہر عمل لکھنوی تھا۔ جس کتاب ( لکھنؤ: مرکز زبان و ادب) کا اجرا ہونا تھا اُس کو اُسی طرح لکھنوی جامہ دیا گیا تھا جو لکھنؤ ہی کا خاصہ ہے۔ اب ظؔ انصاری کو اجرائی تقریر کی زحمت دِی گئی۔ موصوف نے لکھنؤ اور اہل لکھنؤ کی نزاکت اور مختلف فنون میں ان کی مہارت و صناعی پر اپنے منفرد طرز میں، جاری ہونے والی کتاب کی مخصوص جِلد کیلئے لکھنؤ کے زر دوزوں نے زری سے مزین نہایت صناعی سے جو غلاف تیار کیا تھا اس کی روٗ نمائی کرتے ہوئے کہا:

’’ بمبئی والے دیکھیں کہ اہل لکھنؤ کس درجے کا نفیس ذوق رکھتے ہیں کہ اس کتاب کا، صِرف اس تقریب کیلئے گرد پوش بنانے میں بھی اُنہوں نے اپنے ذوق و مزاج سے ہٹ کر کام کرنا پسند نہیں کیا بلکہ کتاب کے نام اور اس کے موضوع کی مناسبت سے اسے لکھنوی ’امام ضامن‘ سے مشابہ کر دیا اور کیوں نہ کرتے کہ لکھنوی مزاج اور لکھنوی صناعی کا ایک عملی مظاہرہ بھی تو اس موقع پر ہونا چاہیے تھا۔۔ ۔

تو جنابِ والا! ایسے ہوتے ہیں لکھنؤ والے اور ایسا ہوتا ہے لکھنؤ۔ !!‘‘۔۔ ۔۔ ۔ نیر مسعود اپنے دور میں ہمارے افسانے کا ایک ایسا کردار تھے کہ جس کے جسد میں لکھنوی فسوں سانس کا کام کر رہا تھا۔ ان کے افسانے نہیں بلکہ ان کی تحریروں میں لکھنؤ جیتا جاگتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ وصف اس طرح، کل بھی کسی میں کہیں نہیں دیکھا گیا اور آنے والے کل میں تو توقع کرنا فعلِ فضول ہو گا۔ کہیں پڑھا تھا کہ کہانی تو ہر فرد میں، ہر ذرّے میں مخفی ہوتی ہے سوچنے والا اور لکھنے والا اسے کس طرح سے پیش کرتا ہے، بیان کرتا ہے اس پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ کہانی کے رمز کی بنیاد تو اسی پیش کش اور بیانیے میں ہوتی ہے۔۔ ۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ سننے و الا یا پڑھنے والے کے انہماک اور اس کے فہم کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

لکھنؤ محرابوں کا شہر ہے۔۔ ۔ محراب جب ہم کہتے ہیں تو ایک پوری تہذیب جیسے سمٹ کر اس لفظ میں جلوہ بن جاتی ہے۔ نیر مسعود نے ایک انٹروِیو میں کہا تھا کہ ’’جس فضا میں (میرے ) افسانے قائم ہوئے ہیں وہ اسی شہر کی فضا ہے، اور اس شہر سے مجھ کو دل چسپی بھی، علاوہ اس کے کہ وہ وطن ہے میرا، کچھ ہے یہ عجیب و غریب شہر، یوں بھی اس سے دل چسپی مجھ کو بہت ہے اور تماشے بھی بہت یہاں دیکھے، زوال وغیرہ کے۔ میں تو پیدا ہی(یہاں ) ہوا تو یہاں کا معاشرہ زوال پذیر ہو چکا تھا، اور اس کے بعد اور بھی زیادہ زوال اس میں ہوتا گیا۔ محراب سے گویا مجھ کو کچھ ذاتی طور پر عجیب سی کیفیت ہے کہ مجھ کو بڑی خیال انگیز معلوم ہوتی ہے۔ علامت میں اس کو نہیں کہوں گا، کیوں کہ علامت ولامت نہیں ہے وہ کسی چیز کی، لیکن اس میں ایک بڑی کیفیت ہے۔ ہر محراب میں کئی داستانیں پوشیدہ ہیں۔ ‘‘۔۔ ۔

یہ دور۔۔ ۔ زوال اور ملال ہی کا ہے وہ یوں کہ جس بزرگ کو(وسیع معنوں میں ) دیکھیے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ جیسے لا وارث اُٹھنے والا ہے۔ نیر مسعود، مسعود حسن رضوی ادیب کے صرف فرزند نہیں تھے بلکہ مسعود حسن ادیب کے تمام علم و ادب اور کمالات کے سچے وارث تھے اور اس پر کمال یہ بھی ہوا کہ انہوں نے اس وراثت کو جامد نہیں رکھا۔ ہمارے دَور میں ترقی اپنے عروج پر کہی جاتی ہے جو بظاہر غلط بھی نہیں مگر یہ ترقی ہماری نئی نسل نے بزرگوں کے علم و ادب اور فن کی وراثت کی قیمت پر حاصل کی ہے۔ مگر نیر مسعود جیسوں نے واقعتاً اپنے بزرگوں کی جاگیر کو جس طرح ترقی دی اس کی کوئی مثال تلاشِ بسیار بھی ملنے کی نہیں۔۔ ۔

ملنے کی نہیں۔۔ ۔ میاں ! ملے گی وہ چیز جس کا وجود ہو۔ وہ تو ہم نے خود ہی مٹی کر دی ہے۔ یہ جو نیر مسعودپانچ دن قبل اُٹھے ہیں ان کا رُخصت ہونا ایسا نہیں ہے کہ صبح ہوئی اور شام ہو گئی کل پھر صبح نیا سورج مشرق سے ابھر آئے گا مگر وہ جو کہا گیا ہے۔۔ ۔ ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

مگر فطرت کا اصول ہے کہ سورج تو نکلے گا ہی مگر وہ شعاعیں کہاں جو ہمارے لکھنؤ کے نیرِ مسعود سے تھیں۔ کہتے ہیں کہ بچے کا نام اچھا رکھنا چاہیے کہ باپ کا اپنی اولاد کے لئے سب سے پہلا تحفہ بچے کا نام ہی ہوتا ہے اور سچ یہ بھی ہے کہ اس عمل میں باپ کا کردارِ علم بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ مسعود حسن رضوی ادیب24جولائی تک اپنے فر زند کی صورت زندہ و تابندہ تھے۔ اسے کہتے ہیں وراثت اور ایسے ہوتے ہیں وارث کہ جس نے اپنے پدر کے ورثے کو زندہ رکھا اور ایسے زندہ رکھا کہ زندگی خود اُس پر نچھاور ہو گئی۔

بظاہر نیر مسعود اب نہیں رہے مگر وہ تو اپنی تحریر میں روح کی طرح سمائے ہوئے ہیں۔ اب دیکھیں کہ ہم اپنی زبان کی زندہ و تابندہ تحریروں کو کیسے فروغ دیتے ہیں کہ یہی عمل نیر مسعود کی وراثت ہم سے طلب کر رہی ہے، اُردو زبان کے اس نیرِ تاباں کو زمانے کے تغیر و تبدل میں ہم فراموش کر دیں گے یا ہم

اس کی روشنی سے نئے چراغ روشن کریں گے

جو کہ واقعتاً اُس کا حق ہے۔ !!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے