کب تلک دیوار سے سر ٹیک کر بیٹھے رہیں
چند لفظوں کو ادھیڑیں اور گھر بیٹھے رہیں
کب تلک کچھ لوگ اٹھتے جائیں سورج کی طرح
اور کب تک کچھ کئے نیچی نظر بیٹھے رہیں
اب تو دروازہ ترے مقتل کا کھلنا چاہئیے
کب تلک ہم لے کے ہاتھوں میں یہ سر بیٹھے رہیں
گزرے وقتوں کے وہ لمحے پھر جنم لے کر ملیں
ان پری زادوں کو گھیرے رات بھر بیٹھے رہیں
تو بھی میرے ساتھ ہو اس فکر میں گھلتی ہوئی
کس طرح بے فکر ہو کر عمر بھر بیٹھے رہیں
٭٭٭