سوچ ٹہنی پہ
نظم آپ سے آپ کھِلتی ہے
کتنا تعاقب کریں
ہاتھ آتی نہیں
اپنی مرضی سے لیکن
اچانک کسی موڑ پر آن ملتی ہے
جیسے کبھی
کوئی موجِ ہوا
تن بدن گدگدائے
تو جاں گنگنائے
کہ جیسے پرندہ
کسی اور ہی لہر میں چہچہائے
یہ لمحے وہ ہوتے ہیں
جن میں
افق پار کی دید کو
کھڑکیاں خود بخود کھلتی جاتی ہیں
اور پھر
نظر در نظر تیرتے رنگ و عکس
آپ سے آپ
الفاظ میں ڈھلتے جاتے ہیں
انجانے احساس تصویرتے ہیں
شعور و گماں کے
نئے باب تحریرتے ہیں
کہی ان کہی کو ملا کر
کہانی بناتے ہیں
ان دیکھی دنیا کے سپنے جگاتے ہیں
ہم جو کمال اِس کو اپنا جتاتے ہیں
دل پوچھتا ہے
کہ اسرار کیا ہے
یہ کس کا کرشمہ ہے
٭٭٭