اگر ہم بیش تر شاعروں، ادیبوں، علماء، حکماء یا محض ان پڑھ لیکن تخلیقی مزاج کے حامل لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں ان کے کردار میں ایک طرح کی بوالعجبی بہر حال ملے گی۔ وہ مشرق ہو یا مغرب، غالب ہوں یا ایڈگر ایلن پو یا ہم اپنے آس پاس ہی نگاہ دوڑائیں کوئی بہت ذی علم دانش ور، فن کار، موسیقار، شاعر، مصور یا غیر معروف مگر جینوئن ادیب۔ اس کی زندگی اگر ہمیں غزل کے شعر کی طرح دو لخت نظر نہ آئے (اگرچہ کہ ایسی بہت مثالیں ہیں ) تب بھی اس میں ایک شدید ناہمواری، بے اعتدالی ضرور نظر آئے گی۔ میراجی نے تخلیقی اظہار اور اعصابی خلل میں گہرے رشتے کی بات کہی ہے۔ یا جیسے انھوں نے ایک اور جگہ لکھا ہے ’’صرف ایک الجھن، ادب اور آرٹ کی ازلی (اور ابدی) الجھن۔ ‘‘میرے خیال میں ایک ادیب شاعر کے لیے یہ الجھن، یہ انتشار کی کیفیت، ایک نوع کی دوری، دوئی، معاشرے سے، اپنے گرد اپنے ماحول سے (بلکہ فراق کے الفاظ میں ’’حضور! خود اپنے آپ سے ایک طرح کا فاصلہ‘‘) بے حد ضروری ہے۔ چاہے اس کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ اب اس کی نوعیت کیا ہو گی اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارے ادبی ذوق کی تشکیل میں کیا عوامل کارفرما رہے ہیں۔ genes کا بھی کچھ عمل دخل ہو گا۔ ہم نے زندگی کب اور کہاں کیسے گذاری۔ تاریخ، جغرافیہ سب آ جائے گا۔ محسوس یا غیرمحسوس طریقہ پر۔ منظر کے ساتھ پس منظر خود آ کر جڑ جاتا ہے۔
میری کہانی سنیے۔ میری جائے ولادت بدایوں ہے۔ وہی بدایوں جس کے بارے میں امیر خسرو کہہ گئے ہیں ع بجائے سرمہ در دیدہ کشم خاک بداؤں را۔ بدایوں جسے مدینۃ الاولیاء بھی کہتے ہیں، میں اسی شہر کے محلہ سوتھ میں پیدا ہوا۔ میری پیدائش (1939یا1940؟) کے فوراً بعد میرے والد بہ سلسلہ ملازمت حیدرآباد آ گئے تھے، لیکن میری ماں اور میں جب مستقلاً حیدرآباد آئے اس وقت میری عمر 6 یا7 سال رہی ہو گی۔ حیدرآباد ان دنوں (بلکہ آج بھی) علم و ادب کا مرکز تھا۔ حیدرآباد کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ اہل کمال جو یہیں کے متوطن تھے، ان کے علاوہ شاہانہ سرپرستی کے زیر اثر ملک کے مختلف گوشوں سے اہل علم و دانش یہاں آ کر بس گئے اور اسے اپنا وطن ثانی بنا لیا تھا۔
بدایوں میں میری ننھیال اور ددھیال دونوں گھرانوں میں شعر و ادب کا چرچا تھا۔ میرے نانا قاضی محمدؐ نبی سوزؔ فارسی زبان میں شعر کہتے تھے۔ والد کے پھوپھا عبد الجامع جامیؔ بدایونی کی حیثیت بدایوں میں استاذالاساتذہ کی تھی۔ ان کے بے شمار شاگردوں میں منور بدایونی، فائق بدایونی اور دلاور فگار کے نام قابل ذکر ہیں۔ میرے چچا فرید بخش قادری بھی باقاعدہ شاعر تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے۔ خلیل الرحمن اعظمی نے ’’نیا عہد نامہ‘‘ کے پیش لفظ میں اپنے قریبی احباب میں ان کا نام بھی لکھا ہے۔ ابھی میں تیسری جماعت میں تھا جب میرے خالہ زاد بھائی (ڈاکٹر واجد صدیقی) جو مجھ سے صرف سوا سال بڑے ہیں انھوں نے ’بال جبریل‘ مجھے تحفتاً دی۔ یہ کتاب انھیں اسکول کے ایک تقریری مقابلے میں انعام میں ملی تھی۔ میں اسے پڑھتا تو کچھ سمجھ میں نہ آتا۔ بہنیں (خالہ زاد) بڑی تھیں، جب میں ان سے پوچھتا پھول کی پتّی سے ہیرے کا جگر کیسے کٹ سکتا ہے تو وہ ہنس پڑتیں۔ یوں ایک شعر و ادب کا ماحول تھا جس میں، مَیں ابھی غوں غاں کرنا سیکھ رہا تھا۔ چوتھی جماعت میں نے حیدرآباد سے کی لیکن 1954تک جب میں نے میٹرک پاس کیا ہمارے سارے قریبی عزیز بدایوں ہی میں تھے اور ہم نے بدایوں کو پوری طرح خیرباد نہیں کہا تھا۔
اس طرح بدایوں نے مجھے ایک ذہنی فضاء عطا کی جو بعد میں شعر و ادب سے میرے فطری لگاؤ کی بنیاد بن سکی۔ چوتھی جماعت سے ایم۔ ایس۔ سی تک کی تعلیم، ذہنی نشو و نما، ادبی ذوق کی تربیت، رفاقتیں، محبتیں مجھے بہت کچھ حیدرآباد سے ملا۔ حیدرآباد میں ہمارا گھر فانی بدایونی کی رہائش گاہ (فانی میدان) سے بہت قریب تھا۔ میرے دادا عبدالباسط صدیقی مرحوم (جو اپنے یتیم بھانجے، میرے والد کو اپنے ساتھ حیدرآباد لے آئے تھے ) کہتے تھے جب میری عمر ایک سال سے بھی کم رہی ہو گی، میں ایک گروپ فوٹو میں فانی صاحب کی گود میں ہوں۔ یہ تصویر جو شاید فانی صاحب کی آخری تصویر ہو، مجھے نہیں مل سکی۔ ہمارا گھر علامہ حیرت بدایونی کے گھر سے بھی محض چند منٹوں کے فاصلے پر تھا۔ میری پھوپی (میرے والد کی چچازاد بہن) اور میری والدہ ’’شام ہوئی کہ دفعتاً مڑ گئے اک طرف کو ہم‘‘ کے مصداق، اندھیرا پھیلتے ہی چادر اوڑھ کر پیدل حیرت صاحب کے گھر کا رخ کرتیں۔ میری پھوپی وہاں سے نئے پرانے رسائل۔ ’ساقی‘ ’شاہراہ‘ ’ادبی دنیا‘ ’ادب لطیف‘ وغیرہ لے آتیں، میں بھی انھیں پڑھنے کی کوشش کرتا۔ اسکول کے زمانے ہی میں، مَیں نے احمد جلیس (علامہ حیرت بدایونی کے تیسرے فرزند) کے ساتھ مل کر بچوں کا ایک قلمی رسالہ ’کہکشاں ‘ کے نام سے نکالا جس کا ٹائٹل مہربانو(جیلانی بانو کی چھوٹی بہن) نے بنایا تھا، وہ بہت اچھی آرٹسٹ تھیں۔ میرے انٹرمیڈیٹ کا پہلا سال ہو گا جب اپنے ہم محلہ دو دوستوں علی الدین نوید اور سکندر (عظیم صدیقی) کے اشتراک سے، ہم نے بزعمِ خود ایک ادبی رسالہ شائع کیا۔ اس کے پہلے اور آخری شمارے میں میری غزل عارف بدایونی کے نام سے چھپی تھی جس کا مقطع تھا ’’مجھ کو جس دل پہ ناز تھا عارفؔ ؍ آج اسی دل نے چوٹ کھائی ہے ‘‘
میرے چچا مجھے چھیڑتے۔ میری ماں سے کہتے ’’بھابی! کچھ سناتم نے ؟ تمہارے بیٹے نے دل پر چوٹ کھائی ہے۔ اب جلدی سے اس کی شادی وادی کر دو، ورنہ پچھتاؤ گی‘‘ اور سب ہنسنے لگتے۔
رفتہ رفتہ، سنیما کی ریل کی طرح یہ پس منظر بلکہ منظر کہہ لیں، اب ایک نئے منظر میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک آتے آتے مجھ میں تھوڑی بالغ نظری، مطالعہ میں وسعت اور ادبی ذوق میں نکھار آ گیا تھا۔ ’’آب حیات‘‘ پڑھی تو کلاسیک شعراء کے حالات اور ان کے کارناموں سے واقفیت حاصل ہوئی۔ میں نے ایک بیاض رکھ لی تھی جس میں نہایت خوش خطی کے ساتھ 15، 20 نظمیں محفوظ تھیں۔ کئی سینئر شاعروں کے نام، ان کی شاعری اور ان کے چہرے بھی میں پہچاننے لگا تھا۔ سلیمان اریب صاحب کا گھر وجئے نگر کالونی میں تھا۔ ان کے ساتھ شاعروں کا ایک قافلہ جس میں شاہد صدیقی، وحید اختر، انور معظم، شاذ تمکنت، عزیز قیسی اور کئی شاعر ہوتے، شاموں کو اکثر ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتا۔ بڑا جی چاہتا کہ یہ لوگ مجھے بھی ساتھ لے لیں۔ پھر میں نے دل کڑا کر کے ایک نظم ’صبا‘ کے لیے اریب صاحب کو بھیجی۔ یہ نظم آزاد نظم کے فارم میں تھی۔ اریب صاحب نے مجھے خط لکھا کہ نظم آزاد کی تکنیک ذرا مختلف ہوتی ہے۔ بہتر ہو گا اگر میں خود اُن سے یا شاذ تمکنت سے مل لوں۔ مجھے قدرے مایوسی تو ہوئی لیکن خوشی بھی کہ اس بہانے میں اپنے کسی پسندیدہ شاعر سے مل سکوں گا، اور ایک دن ہمت کر کے میں شاذ سے ملنے ان کے گھر پہنچ گیا جو اسی محلّے میں تھا۔ میں نے شاذ کو اریب کا خط اور اپنی نظم دکھائی۔ شاذ ہنسنے لگے بولے ہاں تکنیک تو ہوتی ہے لیکن وہ تکنیک یہی ہے جو اس نظم میں ہے۔ پھر کہا ایسی باتوں پر دھیان مت دیا کرو میں بھی نہیں دیتا۔ اُن دنوں ان کے مراسم اریب صاحب سے ذرا کشیدہ تھے۔ شاذ کے مشورے سے میری یہی نظم ’’قند‘‘ میں چھپی جو مردان (پاکستان) سے تاج سعید کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ شاذ سے دوستی اور محبتیں بڑھیں۔ وہ کہیں باہر نکلتے تو میرا گھر راستے میں پڑتا۔ کچھ ایسا آنا جانا ہوا کہ شاذ مجھے اپنے بھائی سید امتیاز الدین ہی کی طرح عزیز رکھنے لگے۔ میں ان کے گھر جاتا یا وہ میرے گھر آتے تو ہم گھنٹوں ساتھ گزارتے، ساتھ کھانا کھاتے۔ اریب صاحب کے تعلق سے میرے دل میں خواہ مخواہ جو رنجش پیدا ہو گئی تھی وہ رفتہ رفتہ دور ہو گئی اور اریب صاحب اور صفیہ بھابی کی خوبیاں مجھ پر کھلنے لگیں۔ ہندوستان میں جس رسالے میں میری نظمیں سب سے زیادہ چھپیں وہ ’’صبا‘‘ ہی تھا۔
اب میں باقاعدہ شاعر ہو گیا تھا اور ہندو پاک کے ہر قابل ذکر رسالے اور معیاری انتخاب (انتھالوجی) میں میری نظمیں شامل تھیں۔ یہ ممکن نہ ہوتا اگر مجھے شاذ تمکنت اور عوض سعید کی رفاقت اور اورینٹ ہوٹل کی شامیں میسر نہ ہوتیں۔ ہم روز اورینٹ جاتے، کبھی 17۔ مجرد گاہ (’صبا‘ کا دفتر) یا احباب کے گھر نشستیں۔ ہر جگہ آپس میں پہلا سوال یہ کہ تم نے کیا لکھا ہے سناؤ۔ میں نے بھی ایک نظم لکھی ہے، دیکھو کیسی ہے ؟ ہر شخص کی اپنی اپنی رائے۔ کبھی بے حد تعریف۔ کبھی ہاں ٹھیک ہے۔ کبھی یہ بھی کوئی نظم ہوئی۔ پھر بحثیں ہوتیں۔ ابتداء ً میں نے صرف نظمیں لکھیں۔ شاعری کے آغاز سے کئی برس بعد تک۔ زیادہ تر آزاد نظمیں، کم بہت کم، معریّٰ یا پابند۔ غزل بالکل نہیں۔ میں سمجھتا تھا مجھ میں غزل لکھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ شاذ کے اکسانے پر میں نے غزل لکھنی شروع کی۔ ہوا یہ کہ ہم روز ہی شام کو اورینٹ کا چکر لگاتے۔ لیکن اتوار کو دن میں بھی گیارہ، ساڑھے گیارہ بجے وہاں پہنچ جاتے۔ خورشید احمد جامی صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے۔ شاذ کوئی مصرعہ لے آتے میرؔ ، مصحفیؔ ، قائمؔ کسی کا بھی اور جامی صاحب سے کہتے کہ اگلے ہفتے اس زمین میں ہم سب اپنی اپنی غزل سنائیں گے۔ جامی صاحب استاد شاعر، ان کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ شاذ کا اصرار اقبال تم بھی لکھو۔ میرا مزاج تو تھا غزل کا، بس ایک ذہنی رکاوٹ تھی جو آہستہ آہستہ دور ہو گئی۔ جامی صاحب شاذ اور راشد آزر، ہم لوگوں نے کئی ہم طرح غزلیں لکھیں۔ شاذ کے ساتھ تو میں نے ابھی گنا، میری گیارہ ہم طرح غزلیں ہیں۔ غزل کے شعر میں آمد اور آورد کی بات بہت ہوتی ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ end productکیسا ہے ؟ باقی سب processesہیں۔ کبھی شعر کے دونوں مصرعے غیب کے مضامین کی طرح ذہن میں آ جاتے ہیں۔ کبھی ایک مصرع وہ بھی ایسا غضب کا کہ دوسرا مصرع ( جو اکثر مصرعِ اولیٰ ہو گا) اب اسے ڈھونڈتے پھریئے اپنی گمشدہ اولاد کی طرح۔ مجھے تو اساتذہ کے ہاں بھی آمد اور آورد سے جڑے ایسے کئی شعر محسوس ہوئے کہ لگا جب دونوں مصرعے یکجا ہوئے ہوں گے تو اس شعر نے شاعر ہی نہیں اس کے قاری کے وجود کو بھی روشن کر دیا ہو گا۔ غالب کا یہ شعر ہی لیں:
سراپا رہنِ عشق و نا گزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
اکثر اس شعر کا مصرعِ اولیٰ فوراً میرے ذہن میں نہیں آتا۔ یہ مجھے آورد کی دین لگتا ہے۔ لیکن جب پورا شعر زبان پر آتا ہے تو لگتا ہے جس کرسی پر بیٹھا ہوں اس کرسی سمیت کسی نے مجھے اوپر اٹھا لیا ہے۔ محض آورد کا کھیل سمجھ کر کچھ لوگ غزل کو نظم سے کم ترسمجھتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا مزاج ہی غزل کا نہ ہو اور اس نے کچھ اچھی نظمیں لکھیں ہوں اور اب وہ محض اپنی برتری ظاہر کرنے کی خاطر (دوسروں پر یا خود اپنے آپ پر) غزل لکھنے کی کوشش کرے اور یہ اعلان کرے کہ غزل کی صنف نظم سے ہیٹی ہے تو یہ نہایت غیر منصفانہ بلکہ بچکانہ بات ہو گی۔ میں مانتا ہوں آمد سے جو مصرعہ یا شعر ذہن میں آئے وہ ایسا ڈھلا ڈھلایا آتا ہے کہ آپ خود بعد میں لاکھ سر پٹکیں کوئی متبادل مصرعہ یا اسی مصرعہ کا کوئی لفظ ادھر سے ادھر نہیں کر سکتے لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آمد کے مصرعے میں بھی کوئی جھول ہو ’’سب کچھ اللہ کی مرضی ہے میاں ‘‘اب اسے آورد کہئے یا آمد کی کیفیت خود پر دوبارہ طاری کرنے کی سعی، کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔
یاد کرتا ہوں وہ زمانے، کیسے کیسے لوگ تھے کیسی کیسی محفلیں، مخدومؔ شاہد صدیقی، اریبؔ جامی صاحب، عالم خوندمیری، اخترحسن، مغنی تبسم، حسن عسکری، وحید اختر، شاذ تمکنت۔ مخدوم بھائی کا داد دینے کا انداز کہ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے تو دو چلّو خون بڑھ جاتا۔
جمگھٹے دیکھے ہیں جن لوگوں کے ان آنکھوں نے
آج ویسا کوئی دے ہم کو دکھا ایک ہی شخص
یہ ہمہ وقت، شاعر، ادیب، نقاد ان کی بڑائی، یہ بھی تھی کہ میری کم مائگی کے باوجود انھوں نے مجھے اپنا سمجھا، عزت اور محبت دی، شعر و ادب کی صحبتوں اور مصروفیتوں میں مجھے اس قدر الجھائے رکھا کہ آئینہ میں اپنی کوتاہ قدی پر نگاہ ڈالنے کی مجھے فرصت ہی نہ مل سکی۔
فن عروض، علم معانی، فصاحت، بلاغت، لوازم بلاغت، مصدر کی کتنی قسمیں ہیں وغیرہ وغیرہ ان سوالوں کے جواب اور ان سے متعلق علوم کے حصول کے لیے مجھے کسی استاد کی شاگردی نصیب نہ ہو سکی۔ نہ بدایوں نہ حیدرآباد میں۔ اس محرومی سے تلافی کی صورت میں نے یہ نکالی کہ نہ صرف کلاسیک بلکہ اپنے پیش رو، ترقی پسند اور حلقے کے شاعروں کو جی لگا کر خوب خوب پڑھا۔ جہاں اساتذہ کے مطالعے سے مجھے شاعری کی زبان سیکھنے اور برتنے کا سلیقہ میسر آ سکا وہیں فوری پیش روؤں اور معاصرین کا کلام پڑھنے سے ذہن کی کچھ کھڑکیاں کھلیں، باہر کا منظر دیکھا کہ ادب میں کیا ہو رہا ہے ؟ اور یہ کہ میں کیا لکھ رہا ہوں، کیوں لکھ رہا ہوں ؟۔
متقدمین میں مجھے سب سے زیادہ میرؔ پسند ہیں۔ میرؔ کی بات ہی اور ہے۔ اردو شاعری کی ساری تہذیب، اس کی لطافت اور اثر پذیری کا مبداء اور مرکز میرؔ کی شاعری ہے جس کے اطراف وقت کے دائرے پھیلتے پھیلتے ہم تک پہنچے ہیں۔ پھر غالبؔ ہیں، مومنؔ ہیں۔ مومنؔ ، مولوی فضل حق کے خیال میں اگر عشق عاشقی کے قصّوں میں نہ پڑتے تو ان کے فضل و کمال کو دنیا دیکھتی۔ لیکن اگر مومنؔ مولوی صاحب کے خیال کے مطابق عمل کرتے تو ممکن ہے ہمیں ایک اور غالبؔ مل جاتا لیکن مومنؔ کہاں ملتا۔ ان کے علاوہ جن شاعروں سے میں نے اثر قبول کیا ان میں اقبالؔ اور ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق سے جڑے کئی شاعر ہیں خاص طور پر میراجی جو اپنے پیش روؤں اور معاصرین میں سب سے تنہا سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ ان کے آگے پیچھے کوئی چہرہ، کوئی پرچھائیں نہیں۔
میں نے جب شاعری کے کوچے میں قدم رکھا اس وقت تک ترقی پسند تحریک اپنا رول ادا کر چکی تھی۔ ترقی پسندی کا انحصار نظریئے پر تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تحریک نے ہمارے ادب کو ایک نیا آہنگ، نئی سوچ اور ایک نئی سیاسی سماجی بصیرت سے آشنا کیا۔ میں فیض، مخدوم، سردار، ندیم، مجاز، جذبی، جاں نثار، مجروح، منیب الرحمٰن، اختر انصاری ان سب شاعروں کا گرویدہ تھا۔ حیدرآباد میں جو لوگ تحریک سے وابستہ تھے ان میں سے بیشتر اور خاس طور پر مخدوم سے شخصی ملاقاتوں اور ان کی شاعری سے میں نے فیض اٹھایا ہے لیکن ترقی پسند نقطۂ نظر سمجھنے میں مجھے ہمیشہ دشواری محسوس ہوتی۔ میری سمجھ میں یہ بات آج تک نہ آ سکی کہ کوئی فلسفہ، کوئی نصب العین، کوئی سیاسی، سماجی عقیدہ کتنا ہی معتبر کیوں نہ ہو اور خیرِ کثیر کا درجہ رکھتا ہوکسی شاعر کی شاعری کا لازمی جزو کیسے ہو سکتا ہے جب تک وہ اس کے خون میں از خود رواں نہ ہو۔ میں نے ابھی جن شاعروں کے نام لئے ان کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ انھوں نے اجتماعی فکر واحساس کو اپنے داخلی تجربہ میں منقلب کرتے ہوئے تخلیقی اظہار کی شمعیں اپنے لہو سے روشن کیں اور یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ ترقی پسند شعرا کے مقابلے میں حلقہ ارباب ذوق کے شاعر بھلے ایک household نام نہ ہوں لیکن ان کا نقطۂ نظر مجھے زیادہ قرین قیاس لگتا تھا۔ راشد اور میراجی کے علاوہ کئی شاعر تھے جیسے مجید امجد، مختار صدیقی قیوم نظر، ظہور نظر، یوسف ظفر، ضیاء جالندھری ان کی اپنی ایک انفرادی شان تھی۔ حلقے کے لوگوں نے ادیب کی شخصی آزادی پر زور اور اس خیال کو فروغ دیا کہ انسانی نفسیات کی گتھیوں کو سلجھائے بغیر اور اپنی ذات کے نہاں خانے کو روشن کئے بغیر انسانی فلاح کا ہر منصوبہ درہم برہم ہو سکتا ہے۔ حقیقت کے کئی پہلو ممکن ہیں اور ادب میں اس کے ہر پہلو کی عکاسی کی گنجائش ہے۔ ساٹھ کی دہائی کی جدیدیت نے میرے خیال میں اپنا اتاپتا (clue) حلقہ سے ہی لیا اور فرد کے باطن کے انکشاف کو اپنا سروکار بنایا۔ خود ترقی پسندوں میں شامل اور ان سے جدا بھی، کچھ ایسے لوگ تھے جو نظریے کی سخت گیری کو خود نظریہ کی ترویج کی راہ میں رکاوٹ محسوس کرتے تھے۔ منٹو نے عصمت کی کہانی ’’لحاف‘‘ پر عصمت سے بات کرتے ہوئے جب ایک انچ اٹھے ہوئے لحاف والے جملے کو غیر ضروری کہا اور عصمت کو شرماتے دیکھا تو سوچا کہ یہ تو نری عورت نکلی۔ اس وقت انھیں عجیب سا لگا لیکن بعد میں خود انھوں نے اپنے خیال کی اصلاح کی اور لکھا کہ اپنے فن کی بقاء کے لیے انسان کو اپنی فطرت کے حدود میں رہنا ازبس ضروری ہے۔
فطرت کے حدود میں رہنے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہم بس ایک routine زندگی گزار دیں۔ ظفر اقبال کے الفاظ میں ’’صبح کو اپنے گھر سے نکل کر شام کو واپس آنے میں ‘‘ اور دل و دماغ کی ساری کھڑکیاں بند کر لیں۔ بفرض محال ہم اپنے داخلی اور خارجی احتیاجات کے پیش نظر اپنے ماحول اور سماج سے بظاہر ایک مفاہمانہ رویہ اختیار کر لیں تب بھی اپنے تخلیقی رویہ میں اس سماج اس معاشرے بلکہ خود اپنے آپ سے ایک غیر مفاہمانہ روش اپنانا میرے خیال میں ایک ادیب شاعر کے لیے بے حد ضروری ہے اور یہیں سے اس اعصابی خلل یا الجھن کی ابتداء ہوتی ہے جس کا ذکر میراجی نے کیا ہے۔
میری ذات میں یہ اعصابی خلل یا الجھن کی صورت میرے گھریلو حالات اور اس بات سے پیدا ہوئی کہ میں سوچتابہت ہوں۔ اکثر غیر ضروری باتیں اور ان سے الجھنا میری فطرت ہے۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ میں محض ایک سبب ہوں اور بہت کمزور سبب، لیکن مسبب بننا چاہتا ہوں۔ یہ تک نہیں سوچا کہ جو کام یگانہؔ نہیں کر سکے میں کیسے کر لوں گا؟ ’’خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا‘‘۔ میرے گھر کا نقشہ عام گھروں سے مختلف تھا۔ میرے والد صوفیانہ مزاج رکھتے تھے۔ گھریلو معاملات سے بے تعلق۔ اپنے آپ میں مگن۔ بینک کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو اتنے خوش جیسے منہ مانگی دولت مل گئی ہو۔ گھر کا عجیب حال، مجھے لگتا تھا اس نیّا کو مجھے ہی پار لگانا ہو گا لیکن مجھ پر اپنے نفس کی یلغار تھی، اپنی دلچسپیاں، کھیل تماشے، مختلف مشاغل اور ساتھ ہی ذمہ داری کا شدید احساس بھی۔ میری فطرت میں یہ دوئی ایک عدم توازن کی شکل اختیار کر گئی۔ مزید پریشانی یہ کہ شاعری ہر وقت میرے حواس پر طاری رہتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی اہم کام درپیش ہے کہ اچانک کسی نظم یا مصرعے کی آہٹ محسوس ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ ایم۔ ایس۔ سی کے امتحان کے دنوں میں کئی نظموں نے مجھے بہت پریشان کیا۔ امتحان میں پاس ہوا۔ نظمیں بھی لکھ لیں لیکن امتحان ختم ہوا اور پھر جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ میرے ساتھ کئی بار یہ ہوا ہے کہ بے حد مصروف ہوں۔ دفتر میں خوردبین پر نگاہ جمی ہے کہ اچانک کوئی نظم کوئی مصرعہ سامنے کرسی پر آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ میرے ساتھ بس میں سفر کرتا ہے۔ بس اسٹینڈ سے پیدل گھر کے راستے میں پھل اور ترکاری خریدتا ہے۔ رات کو میرے بستر پر پائینتی سوبھی جاتا ہے لیکن مجھے آزاد نہیں کرتا۔ اس تخلیقی لمحہ کی گرفت میں رہتے ہوئے ایک رو بوٹ کی طرح میں زندگی کے معمولات میں شریک رہتا ہوں۔ کبھی یہ لمحہ فوراً اپنے آپ کو ظاہر کر دیتا ہے، بس سوچا اور نظم یا غزل ہو گئی۔ کبھی یہ تخلیقی لمحہ گھنٹوں، دنوں، ہفتوں میں پھیل جاتا ہے اور میرے لہو میں شامل رہتا ہے اس وقت تک جب تک کاغذ پر اپنے خدوخال نہ سنوارلے۔ یہ لمحے بھی عجیب ہوتے ہیں کبھی آسمان پر روشن ستاروں کی طرح، کبھی روشنائی کے دھبوں کی صورت کاغذ پر، کبھی آنسوؤں کی طرح مٹی میں ع ’شرم کا ان کی طبیعت میں تقاضا ہی نہیں ‘۔
میں ایک نہایت بے چین روح کا مالک ہوں۔ اس لئے کبھی اپنے آپ سے مطمئن نہیں رہا۔ میرے خیال میں یہ بے چینی، بے اطمینانی میری ہی نہیں ہر ادیب شاعر کا مقدر ہے۔ مجھے ’شہاب نامہ‘ میں قدرت اللہ شہاب کا لکھا ہوا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو کچھ اس طرح ہے کہ جب ابن انشا بستر مرگ پر تھے اور شہاب صاحب ان کی عیادت کے لیے گئے تو ابن انشا نے ان سے پوچھا کہ اگر انھیں دوبارہ زندگی ملے تو وہ کیسے بسر کریں گے۔ شہاب صاحب نے کہا کہ انھوں نے زندگی جیسے گزاری ہے وہ اس سے مطمئن ہیں۔ ابن انشا بولے نہیں، انھیں زندگی پھرسے گزارنے کا موقع ملے تو وہ یہ کریں گے، یہ نہیں کریں گے، یوں رہیں گے اور یوں نہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں ہم فرض کر لیں کہ ابن انشا شاعری میں میرؔ کے ہم رتبہ ہیں اور ان کے پاس مال دولت کی بھی کوئی کمی نہیں، میرے خیال میں تب بھی وہ ایک مطمئن زندگی نہیں گزارسکتے اور اگر ایسا کر بھی لیتے تو یہ ان کی تخلیقی موت ہوتی۔ اور قدرت اللہ شہاب۔۔ وہ بڑے عہدوں پر فائز رہے اور اچھے ادیب بھی۔ لیکن ہو سکتا ہے ان کی بے اطمینانی کی نوعیت مختلف ہو اور وہ اسے بیان نہ کر پائے ورنہ یہ ایک استثنائی صورت ہو گی۔
میں جیالوجی کا طالب علم رہا ہوں۔ پیشے کے اعتبار سے جیالوجسٹ۔ تقریباً بیس برس تک ہر سال کم از کم چھے ماہ۔۔ اپنی نوجوانی کا نصف سے زائد عرصہ میں نے جنگلوں میں کیمپوں میں گزارا ہے۔ میرے پہلے مجموعے کا نام ’’فائزا‘‘ تھا۔ ’فائزا‘ ایک fossilہے۔ fossil(سنگوارے ) زندگی کی ابتدائی شکلوں کی وہ باقیات ہیں جو کروڑوں برس پہلے زمین پر بستے تھے اور پتھروں میں دب کر اپنے حجرائے ہوئے نقوش چھوڑ گئے ہیں۔ منظر، سائے، موسم، رنگ، خوشبوئیں، تہذیبیں، یہ بھی تو کل تک متحرک تھے اور لفظ۔۔ یہ بھی تو سنگوارے ہیں۔ مجھے زندگی کی بے مائگی کا شدید احساس رہا ہے۔ زندگی خلاء میں بجھتے ہوئے ستارے کی طرح ہے۔ بس ایک ڈوبتا، بجھتا ستارہ، ایک نقطہ، ایک لمحہ، ہم اس لمحہ کو کس قدر طول دے سکتے ہیں۔ میں نے بہت چاہا کہ وقت پیچھے کی طرف لوٹ سکے یا کم از کم یہ ہو کہ جہاں ہے وہیں ٹھہر جائے۔ ہم سب جوان بچے بوڑھے جیسے ہیں ویسے ہی رہیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔ وقت کا کھیل جاری ہے کبھی کوئی بے معنی چیز بامعنی اور کبھی ہمارے لئے کوئی بہت عزیز نہایت اہم شئے بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ جیالوجیکل mappingکے دوران ہم کسی چھوٹی سی چٹان کو محدب عد سے سے دیکھتے اور اس میں قدرت کے بنائے ہوئے نقوش (texture) کی مدد سے ایک وسیع خطۂ ارض کے structure کے بارے میں بہت کچھ، بلکہ سب کچھ جان لیتے۔ اس کلّیے کا زندگی پر اطلاق کرتے ہوئے میں نے جانا کہ کوئی چیز اصلاً چھوٹی یا بڑی نہیں۔ ہر بڑی چیز چھوٹی اور چھوٹی چیز بڑی ہوتی ہے۔ اس لئے کبھی کبھار میں کسی بہت بڑے سانحے یا مسرت کا زیادہ اثر نہیں لیتا اور کوئی چھوٹا سا غم یا ناگوار واقعہ مجھے کئی دنوں تک غم زدہ اور بے دست و پا کر دیتا ہے۔
اپنے بارے میں اتنی سنجیدگی سے، اتنی دیر تک میں نے کبھی نہیں سوچا، نہ لکھا۔ لیکن اب تو لکھ دیا۔ ع ’آئینہ آئینہ دیکھے گا تو حیراں ہو گا‘۔ کہتے ہیں کہ شاعر خود اپنا سب سے اچھا نقاد ہوتا ہے۔ اب یہ اچھا یا معتبر نقاد کہنا کہاں تک درست ہے میں نہیں جانتا۔ عام آدمی تو اپنے بارے میں اچھا ہی سوچے گا اور شاعر بھی عام آدمی ہے اسے اپنی خوبیاں ہی نظر آئیں گی۔ میں نے یہاں جو اپنی سیلفی لی ہے وہ میں ہوں یا کوئی اور شخص جس پر میں نے خود کو گمان کر لیا۔ یہ تحریر کوئی ایسا شخص پڑھے، میرے شعری مجموعے بھی جس کی نظر سے گزرے ہوں، وہی قیاس کر سکتا ہے کہ کیا یہ میں ہی ہوں اور ان ساری باتوں میں کوئی سچائی ہے کچھ وزن بھی ہے یا نہیں ؟۔
٭٭٭
تشکر: امروز، علی گڑھ