سفید تحریر ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

 

آؤ

بچپن کی ان سنہری وادیوں میں چلیں

شاید وہاں میرے خوب صورت بھیا مل جائیں

دو ننھے قدموں کے نشان گھاس پر موجود ہوں

ایک رومال

جس پر ٹیڑھے میڑھے حروف میں پنسل سے میں نے اپنا نام لکھا تھا

اور باجی نے سرخ اور نیلے ریشم سے کاڑھا تھا

باجی۔ جو، اب ہزاروں میل دور ہیں

سنا ہے ان کے بالوں میں ایک سفید تحریر آ گئی ہے

تو ان سے کہیں۔ ’’باجی! ایسا ہی ڈھیروں سفید ریشم ہمیں بھی لے دیجیے سرخ اور نیلے رنگ تو کہیں کھو گئے ‘‘

سفید رنگ، جسے زندگی کے ساتوں رنگ درکار ہیں

شاید کم یاب ہے

میرے ذہن میں ایک تصویر بنتی ہے

ڈبو مجھ سے بھی بڑا ہو گیا ہے

ہر طرف سکون ہے

اور خاموشی …

’’تو آپ کیا سوچ رہے ہیں ‘‘

وہ اچانک آ جاتی ہے

اور میں اس کے ہاتھ ہاتھوں میں لے کر

ہنسنے لگتا ہوں !!

٭٭٭

 

دور کنارا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے