مجھے صدا دے
کبھی مجھے اتنی دور سے صدا دے
کہ تیری آواز کے تعاقب میں گھر سے نکلوں
تو جنگلوں، وادیوں، پہاڑوں کا کارواں میرے ساتھ نکلے
ہزار سمتوں کے ہاتھ میں ساعتوں کے نیزے
جو میری آنکھوں میں بازوؤں میں گڑے ہوئے ہیں۔
ٹٹول کر اپنے جسم آنکھوں سے ایک ایک نیزہ نکال دوں میں دہکتے سورج کی سرخ بھٹی میں ڈال دوں میں
کبھی مجھے اتنی پاس سے صدا دے
کہ تیری آواز مجھ میں پیدا ہو
مجھ سے ٹکرائے، مجھ میں ٹوٹے
میں تیری آواز کے جزیرے میں قید ہو جاؤں
کبھی میں تجھ کو ہی قید کر لوں
ترے سمندر کو
اپنے پیاسے بدن میں بھر لوں !!
٭٭٭