غزل ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

 

زہر دیتے ہو … دوا کہتے ہو

سچ کہا تم نے … بجا کہتے ہو

اک بُت … ناک تراشی اس کی

اب اسی بُت کو خدا کہتے ہو؟

عقل کا ہوش سے ناتا ٹوٹا

نکتہ سائنس کا تھا کہتے ہو

تم ذرا دور ہی بیٹھو مجھ سے

تم تکبّر کو اَنا کہتے ہو

ایک ہی نقش ہے لوحِ دل پر

ایک ہی لفظ سدا کہتے ہو

میں نے بھی اپنی زباں کو روکا

اس نے سمجھایا … یہ کیا کہتے ہو…

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے