پیش لفظ ’ستارہ یا آسمان‘ ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

 

’’ستارہ یا آسمان ‘‘ میرا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔

میں نے اپنے پہلے مجموعے ’فائزا ‘ کے پیش لفظ میں ایک FOSSIL ’فائزا‘ (PHYSA) کی علامت کو زماں و مکاں کے طویل و عریض صحرا میں اپنی ROOTS تلاش کرنے کی خواہش سے تعبیر کیا تھا۔ ’فائزا‘ کی علامت میں، مَیں نے زندگی کو زیادہ با معنی بنانے کی آرزو کی تھی۔ وقت کا دوران (DURATION) آرزو کو جستجو سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ ’فائزا‘ جو ایک سنگوارے کی صورت زمین میں دَبا پڑا ہے اب مجھے آسمان پر ایک ستارے کی طرح دکھائی دیتا ہے اور کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے اِس ستارے نے پَل بھر کے لیے آنسو کی طرح میری پلکوں پر چمک کر سارا آسمان روشن کر دیا ہو۔

پھر یہ پَل، یہ لمحہ گزر جاتا ہے۔ میری بڑی خواہش رہی کہ وقت اگر پیچھے کی طرف نہ لوٹے تب بھی کسی صورت جہاں ہے وہیں ہمیشہ کے لیے ٹھہر جائے۔ ہم سب جوان، بوڑھے، بچّے، جیسے بھی ہیں جو بھی ہیں ہمیشہ ایسے ہی رہیں۔ اس سے پہلے کہ سب کچھ کھنڈر ہو کر رہ جائے اس دنیا سے ظلم، بربریت، نا انصافی، بھوک، بیماری، آفاقی سماوات سب رخصت ہو جائیں۔ اور جوں ہی یہ سب رخصت ہوں کسی مشین پر ’اسٹاپ‘ کا ایسا بٹن ہو جسے دباتے ہی وقت ٹھہر جائے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے اور چونکہ یہ سب ممکن نہیں اس لیے مجھے اس بات سے بڑا دُکھ محسوس ہوتا ہے۔ میں اس دُکھ کے امرت کے منتھن سے زندگی کے عرفان کی چند بوندیں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ کبھی وقت کی راہ میں کانٹے بچھا کر اس کے پاؤں لہو لہان کر دیتا ہوں تاکہ وہ چل ہی نہ پائے۔ کبھی ایک پل کو رَبڑ کی طرح کھینچ کر اسے دِنوں، مہینوں، برسوں صدیوں میں تبدیل کرتا ہوں پھر ان صدیوں کو لفظوں کے پھولوں سے ڈھک دیتا ہوں۔ یہ پھول کانٹے، دُکھ، خوشی، مایوسی کے، امید بھرے آنسوؤں کے، اِن میں کیسے کیسے رنگ ہیں، کیسی کیسی خوشبوئیں، میں حیران رہ جاتا ہوں۔

ممکن ہے میری اس ذہنی رویئے کا تعلق میرے پیشے سے ہو۔ میں جیالوجی کا طالب علم رہا ہوں۔ ہم جنگلوں میں کسی چھوٹی سی چٹان کو مُحدَّب عد سے سے دیکھتے ہوئے ایک پتھر کے ٹکڑے میں قدرت کے بنائے ہوئے نقوش(TEXTURE) کی مدد سے ایک وسیع خطۂ ارض کے STRUCTURE کی باز یافت کر لیتے تھے۔ اس کلّیے کے مطابق ہر بڑی چیز چھوٹی اور ہر چھوٹی چیز بڑی ہوتی ہے۔ ان کی ماہیت ایک جیسی ہوتی ہے، ان کے سرے آپس میں کہیں نہ کہیں مل جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے میرے لاشعور نے اِسی نکتے کو شعوری کیفیت میں ڈھالتے ہوئے مجھے اپنے اِرد گرد پھیلی ہوئی اشیاء کو محُدّب عد سے سے دیکھنے اور محسوس کرنے پر اُکسایا ہو اور میں نے ایک پَل، ایک ذرّے کو اس طرح دیکھنے کی آرزو کی ہو کہ مجھے اس میں کئی صدیوں کئی صحراؤں کی جھلک مل سکے۔ بعض اوقات خیال کی رَو اور بعض بہت معمولی روز مرہ کے واقعات، مشاہدات جیسے گھر، دفتر، پلنگ، میز، ٹریفک کا شور، بیتے ہوئے دنوں کی مہک، آتے ہوئے لمحے کی آہٹ مجھے ایسے مسحور کر دیتے ہیں، مجبور کرتے ہیں کہ میں اُنہیں اپنے وجود کا حصّہ، اور اپنے ’اندر ‘ اور ’باہر‘ کئی اَن دیکھے جہانوں کے سفر میں اپنا رفیقِ سفر بنا لوں۔

ایک پَل کا صدیوں میں ڈھل جانا، ہمارے اِرد گرد پھیلی بے جان اشیاء کا ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا تو کبھی خود میرا وقت کی راہ میں دیوار بن جانا۔ میں ایسی کئی کیفیتوں سے گزرا ہوں جو میرے احساس کا حصہ بن گئی ہیں۔ اس کی پرچھائیاں آپ کو جا بجا میری نظموں غزلوں میں نظر آئیں گی۔ لیکن کیا میں ان کے تخلیقی اظہار میں کامیاب ہو سکا ہوں، میں یہ نہیں جانتا۔ میرے لیے تو شاعری ایک پُر اسرار کرب کو آسودہ کرنے کی ایک داخلی مجبوری ہے، سامانِ عیش نہیں۔، ’مئے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو ‘۔

٭٭٭

میں جنا بِ شکیل الرحمٰن، جنابِ بلراج کومل اور جنابِ شمیم حنفی کا سِپاس گزار ہوں کہ انہوں نے میری شاعری کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور کتاب کے فلیپ پر اِن آراء کی اشاعت کی اجازت دی۔ مغنی تبسم، وزیر آغا اور شفیق فاطمہ شعریٰ اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن مختلف موقعوں پر انہوں نے میری شاعری کے بارے میں جو لکھا اس سے چند اقتباسات میں نے یہاں شامل کر لیے تاکہ میرے لیے اُن کی با وقار، محبت آمیز موجودگی کا احساس قائم رہے اور اِس کتاب کو ان ناموں کی خوشبو حاصل ہو سکے۔

میں اپنے نہایت محترم دوست اور نامور افسانہ نگار جنابِ عابد سہیل کا تہہِ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں دلچسپی لی اور جنابِ اظہار احمد ندیم سے مجھے متعارف کروایا۔ جنابِ اظہار احمد ندیم کا کہ انہوں نے اس کتاب کو عرشیہ پبلی کیشنز کے زیرِ اہتمام شائع کیا۔ اس مجموعے کی صورت گری کے مختلف مراحل میں مجھے اپنے چند احباب۔ جنابِ اعجاز عبید، پروفیسر سید خالد قادری اور پروفیسر رحمت یوسف زئی کا تعاون حاصل رہا، میں ان کا بھی بے حد شکر گزار ہوں۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے