ظفر گورکھپوری کی شاعری میں مٹی کی میٹافزکس ۔۔۔ حقانی القاسمی

 

احساس کی نئی اشارتوں اور اظہار کی نئی عبارتوں سے شاعری کا سماگم نہ ہو تو قاری کے ذہن کا حصہ بنے بغیر وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اسی شاعری کو زندگی نصیب ہوتی ہے جس میں تخیل کی نئی منطق اور خلوت لفظ کے منطقے روشن ہوں۔

ظفر گورکھپوری کی شاعری میں زندگی کے جملہ عناصر موجود ہیں کہ انہوں نے اس منبع کو تلاش کر لیا ہے جہاں دوامیت کی لہریں موجزن ہیں۔ ان میں آنسو کو آفتاب بنانے کی توانائی موجود ہے اسی لئے موضوعات اور اسالیب کے ازدحام میں بھی اپنی راہ اوروں سے الگ رکھتے ہیں۔ انہوں نے خلوت لفظ پر احساس کی بنیاد رکھ کر انبوہ میں اپنی انفرادیت قائم کر لی ہے۔ ان کے لفظوں میں ہی ان کے جہان معنی مضمر ہیں۔ جلوہ گاہ حسن معنی کے رمز کو سمجھا ہے۔ اور آئینہ ربط معانی پر ارتکاز بھی ہے۔ یہی ارتکازیت ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ موضوعی سطح پر بہت سے شاعروں کی شراکت تو ممکن ہے کہ ایک ہی موسم، ماحول، فضا میں رہنے والے ایک ہی طرح سوچ سکتے ہیں۔ مگر انداز بیان اور اسلوب اظہار میں اشتراکات کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

آج کی شاعری کے مسائل کیا ہیں، وہی صنعتی تمدن کا المیہ، صارفیت، بازاری معیشت، انسان کی گمشدگی، بے چہرگی، قدروں کا زوال، انتشار، انارکی، تہذیبوں کا تصادم،۔۔ ۔۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن پر تخلیقات کی تعداد کم نہیں ہے۔ ظفر گورکھپوری کی شاعری کے موضوعات بھی کم و بیش یہی ہیں اور ان میں اتنی عمومیت آ گئی ہے کہ اختصاص کا کوئی پہلو تلاش کرنا کارے دارد ہے۔ مگر ظفر گورکھپوری نے اپنے شعری بیانیہ کے تحرک اور توانائی سے اس عموم میں بھی خصوص کی راہ نکال لی ہے اور یہی ان کا کمال ہنر ہے۔ زمینوں کی دنیا کی بے زمینی کا احساس اپنے آپ میں نیا پن لئے ہوئے ہے۔

دعا، مسکان، آنسو کچھ نہیں ہے، کچھ دنوں سے

زمینوں کی یہ دنیا بے زمیں ہے، کچھ دنوں سے

زمینوں کے سارے انسلاکات اور تلازمات ان کے شعروں میں بانداز دگر سامنے آئے ہیں۔ زمین اپنی کیفیت اور کمیت، وسعت اور تنگی، مرگ اور زندگی، طغیان و بحران، حرکت و جمود، بلندی پستی، سرمستی و افسردگی، غم و نشاط، منفی مثبت، تیقن اور تشکیک، تصادم اور توافق۔۔ ان تمام تضادات کے ساتھ ان کی شاعری میں موجود ہے۔

کل نہ ہو گا کوئی بچوں کو بتانے والا

یہ جو دیوار ہے، دیوار سے پہلے کیا تھا

گھر ہوا ویراں، اندھیرا کھڑکیوں تک آ گیا

کیسے دن آئے کہ جنگل بستیوں تک آ گیا

مٹی جن کے فیتوں کے کرب یا طرب سے گزرتی رہی ہے، ان کے فیتوں کا مکمل اظہار ان کی شاعری ہے۔ صرف کرب ہی ان کا موضوع نہیں ہے بلکہ اس میں حرب بھی شامل ہے۔ مٹی کا نوحہ ہے تو نغمہ بھی ہے کے مٹی مسلسل تبدیلیوں کے عمل سے گزرتی ہے اور اسی میں اس کی تجدید و تازگی مضمر ہے۔ ایک ہی کیفیت یا محور پر مٹی منحصر نہیں رہ سکتی کہ یہ خلاف فطرت ہے۔ ان کا کرب صرف اتنا ہے کہ انسانوں نے مٹی کے جوہر یا زمین کی زندگی کو سلب کر لیا اور مٹی اپنے عنصری جوہر سے محروم ہو گئی۔

ہجوم، سانسوں کا زہر، سیلاب شور ہر سو

کچھ اس طرح تھا کہ شہر قسطوں میں مر رہا تھا

نواح جاں سے چولھے تک وہ ہر منظر پہ بیٹھی ہے

جسے قدموں میں ہونا تھا وہ دنیا سر پہ بیٹھی ہے

یہ شہر آواز کا جنگل، گزرنا جب یہاں سے

مسافر اپنے حصے کی سماعت ساتھ رکھنا

یہاں پتھر کی عمارات اگ آئیں کیسے

اس جگہ کھیل کا میدان ہوا کرتا تھا

یہ کوئی اور ہی دنیا ہے، وہ دنیا تو نہیں

سانس لینا جہاں آسان ہوا کرتا تھا

یہ زمینی مظاہر یا ارضی مناظر کی تبدیلی کا بیان محض نہیں بلکہ زمین کی طبیعاتی اور ما بعد الطبیعاتی تقلیب کا منظر نامہ ہے۔ ظفر گورکھپوری کا سارا مسئلہ شعری زمینی طبعیات اور مابعد الطبعیات سے جڑا ہوا ہے۔ زمین کی میٹا فزکس تبدیل ہوتی ہے تو طبعی ماہیت میں بھی بدلاؤ آتا ہے۔ گاؤں اور شہر کی صورت میں زمین کی طبعی تقسیم، در اصل مابعد الطبیعاتی تبدیلی کا مظہر ہیں۔ شہر اور گاؤں دو الگ جغرافیائی اکائیاں نہیں بلکہ فکری ثنویت اور تفریق کی علامت ہیں۔ یہ انسانی وجود کی تقسیم کے علامتی مظاہر اور دو متضاد قدروں کی علامت ہیں۔ یہ انسان کی داخلی اور خارجی جہتوں اور کیفیتوں کا اشاریہ ہیں۔ یہ تضادات نئے مادی دور کی دین ہیں۔ ماضی اس طرح کی تقسیم سے ماورا تھا۔ جغرافیائی وحدت کا تصور زندہ تھا۔ مگر انسانی تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ وحدت کا تصور ریزہ ریزہ ہوتا گیا اور تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو گیا۔ زمین کے ساتھ انسانی شخصیت بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی گئی۔ ظفر گورکھپوری نے اپنی شاعری میں اسی منقسم شخصیت کے وجودی، روحانی کرب کو پیش کیا ہے۔ ظفر کی شاعری زمین اور انسان کے اس بنیادی رشتے کی جستجو سے عبارت ہے جو ایک کلیت کی ڈور سے بندھی ہوئی تھی مگر اب یہی کل، اجزائے پریشاں میں تبدیل ہو کر اپنے خواص کھو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ایک طبعی اور وجودی کشمکش شروع ہو گئی۔ پرانی دنیا کے متوازی ایک نئی دنیا کا جنم ہوا۔ اس دنیا نے میکانکی معاشرہ کی تعمیر کر کے مابعد الطبیعاتی معاشرہ کے درو دیوار منہدم کر دئے۔ ظفر گورکھپوری کے یہاں ان دو معاشروں کے تضادات، اپنی تمام تر ہیئتوں کے ساتھ نمایاں ہیں۔

یہ کائنات اور معاشرہ کی بدلتی کیفیات پر حیرانگی یا تشویش کا اظہار ہی نہیں ہے بلکہ اس میں روح کا کرب بھی شامل ہے۔

ایک مٹھی جو یہ سبزہ ہے، اسے نم رکھو

جانے کس وقت یہ سورج کا نوالہ ہو جائے

زمین پاؤں سے باندھے رکھو اسی میں ہے خیر

کہیں سے کب وہ کدھر ہانک دے، ہوا ہی تو ہے

بوجھ جو سانسوں پہ ہے، کم نہیں ہونے والا

شہر میں حبس زیادہ ہے، کہیں چلتے ہیں

یہ شہر بھیدوں بھرا، یہاں آدمی ملیں گے

مگر کسی کے بھی دوش پر سر نہیں ملے گا

زمیں پہ پکی عمارتیں اگ رہی ہیں ایسے

دوانے سر پھوڑنے کو پتھر نہیں ملے گا

ہمیں نے اس کے لئے راستے بنائے تھے

کہ گھر تک آ گیا بازار، یہ تو ہونا تھا

سروں کی بھیڑ کہو یا دلوں کی تنہائی

وہ بمبئی ہو کراچی ہو، نام کوئی ہو

شور حد سے سوا، بھیڑ بے انتہا شہر سے گاؤں تک

سر ہزاروں مگر آدمی لا پتہ، شہر سے گاؤں تک

انسان کی سفاک تمناؤں کے ہاتھوں

لا چار زمیں کی طرح کٹتا رہا پانی

وہ جو ہری بھری دنیا کے خواب بیچتا ہے

لہو سے کتنی زمینوں کو لال اس نے کیا

پرانی دنیا کی گمشدگی اور نئی دنیا کی نمود ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ ہے۔

گھر میں چڑیوں کے چہکنے کی صدا تو آئے

کھڑکیاں کھول کہ کچھ تازہ ہوا تو آئے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

شہر کے سفاک جنگلوں میں مقید آنکھوں میں اپنے گاؤں سے مہجوری کے آنسو رواں ہیں۔ شخصیت کی تقسیم کا کرب ان کے شعروں میں نمایاں ہے

مٹی تجھ سے کیا رشتہ ہے جس دن ہم نے چھوڑا گاؤں

دیر تلک دیواریں روئیں، دور تلک ساتھ آیا گھر

ہمارے کاندھوں پہ کل پوری شخصیت تھی اپنی

یہاں کچھ ہے، کوئی حصہ کہیں ہے، کچھ دنوں سے انسان کی داخلی دنیا کے اضطراب اور خارجی دنیا

کے انتشار کی تصویریں اس شاعری میں نمایاں ہیں

بمبئی، دلی اور کراچی سارے بستر مرگ پہ ہیں

ندی پاٹ کے، جنگل کاٹ کے اور نہ کوئی شہر نکال

میرے اطراف ظفر ایک منافق بستی

اور لباسوں کی طرح چہرے بدلتے ہوئے لوگ

مسائل، شور مہنگائی، ضرورت، وحشتیں، نعرے

بہت بچھو ہیں رستے میں سنبھل کر گھر سے باہر آ

اس شہر کے باشندے محروم سماعت ہیں

اپنے ہی کو پل دو پل حال اپنا سنائیں چل

ماضی کی قدروں اور روایات سے انہیں گہرا لگاؤ ہے

بکھرتی مرتی روایات میں بہت کچھ ہے

نہ ہوکے کچھ بھی، ابھی ہاتھ میں بہت کچھ ہے

ہے شرط یہ کہ نیا ذہن اسے تلاش کرے

ابھی پرانے خیالات میں بہت کچھ ہے

روایتی تھا، پرانی تھیں اس کی سب سوچیں

پر آدمی تھا بڑا بھولا بھالا، اچھا لگا

انسان اور فطرت کے درمیان بڑھتی دوریوں کا درد ہے۔ عالم طبعی سے انسان کے ٹوٹتے رشتوں کی وجہ سے جدید دنیا جس بحران سے دوچار ہے اور طبعی ماحول میں جو عدم توازن ہے، اس کی طرف شعروں میں اشارات موجود ہیں۔

ظفر گورکھپوری کے تخلیقی اظہار و احساس کا مرکز مٹی ضرور ہے مگر ان کے فکری خلقہ میں ہندو طبیعیات کے وہ عناصر خمسہ شامل ہیں جن کو مخاطب کرتے ہوئے بھر تری ہری نے کہا تھا:

اے زمین میری ماں ہوا میرا باپ اے آگ میری دوست

پانی میرے عزیز قریب، خلا بھائی

یہاں میں دست بستہ تمہارے سامنے اپنا سر خم کرتا ہوں

ظفر گورکھپوری کے یہاں ان عناصر خمسہ سے مختلف سطحوں پر مخاطبہ جاری ہے

یہ ہوا جو ہے بیابانی، کہاں لے جائے گی

یہ مرے تالاب کا پانی، کہاں لے جائے گی

ہوا تو میرے لئے آسماں پہ سر نہ پٹک

میں مشت خاک، مجھے جانتے ہیں تارے سب

ہوا جو سب کے لبادوں کو چاک کرتی ہے

میں اس ہوا کو سر عام بے لبادہ کروں

پتھریلے کناروں سے پٹکتا رہا سر کو

دریاؤں کے ہمراہ بھی تنہا رہا پانی

پانی جہاں سب کا تھا، ہوا تھی جہاں سب کی

شہروں سے تو آرام ہمیں بن میں بہت تھا

تشخص ذات کا بحران اس شاعری کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مٹی اسی تشخص کا استعارہ ہے، مٹی ہی ذات ہے اور انسانی وجود کا مبدا و معاد بھی یہی ہے۔ لوازم خویش کی شناخت کا عمل شاعری میں نمایاں ہے:

سیاہ رات کا جنگل نگل نہ جائے مجھے

کہاں گئے مرے اندر کے ماہ پارے سب

اپنے اندر کوئی زندہ بھی کہیں ہے کہ نہیں

گاہے گاہے سہی، کچھ شور مچا کر دیکھیں

دل کہیں زندہ ہے سینے میں، پتہ کیسے چلے

کچھ نہیں اور تو، رونے کی صدا تو آئے

یہ شاعری ایلیٹ کے ویسٹ لینڈ کی طرح اس آباد خرابے کا منظر نامہ ہے، جہاں اجتماعیت مرگ پذیر ہے، اور انسانی جذبہ و احساس بھی عالم نزع میں ہے۔ میکانکی سطح پر انسانوں کے مابین رشتے تو قائم ہیں مگر روحانی اور جذباتی رشتے معدوم ہو چکے ہیں۔ آبادیاں ویرانیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ تخلیق انسان کا مقصد اپنی معنویت کھو چکا ہے۔ نئی دنیا کے یہی المیے، تخلیقی ذہن کو احساس کے اس کرب سے گزارتے ہیں:

گھر ہوا ویراں، اندھیرا کھڑکیوں تک آ گیا

کیسے دن آئے کہ جنگل بستیوں تک آ گیا

جھانک کر دیکھو گے تو خود سے حیا آئے گی

دوست آبادی کے پیچھے بڑی ویرانیاں ہیں

کل ہمیں اور تمہیں یاد بھی شاید نہ رہے

ان مقامات پہ بازار سے پہلے کیا تھا

کل نہ ہو گا کوئی بچوں کو بتانے والا

یہ جو دیوار ہے، دیوار سے پہلے کیا تھا

ظفر گورکھپوری کی شاعری میں نئی دنیا کی نمود کا نوحہ ہے اور شہر کی سفاکیت کا بیان بھی لیکن کیا اس تغیر کے نوحہ کا جواز ہے یا شہر صرف شر کا استعارہ ہے۔ تغیر یا تبدیلی پر تشویش کا اظہار اس معنی میں غیر فطری ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ اور اصول تجدد امثال کے تحت ہر شے اپنی کیفیت اور ماہیت تبدیل کرتی رہتی ہے۔ جہاں تک شہروں کی بات ہے تو ہماری تہذیبی قدروں کا بنیادی رشتہ شہروں سے ہی رہا ہے اور وہیں سے تہذیبیں، دوسرے علاقوں میں پھیلی ہیں تکسیلا۔ کاشی اور کوسمبی جیسے شہروں سے ہی سنسکرتی کا تصور ملا ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ آخر گوتم بدھ کے مرید آنند نے کیوں کہا کہ افسوس ہے کہ ان کے مرشد کے لئے کشی نگر جیسے چھوٹے شہر میں مرنا مقدر تھا، بدھ کو جن شہروں میں مرنا چاہئے تھا وہ شراوستی، کمہا راج گرہ سکیات، کوسمبی اور کاشی ہیں تو پھر ان موضوعات کی بنیاد پر ظفر گورکھپوری کی شاعری کی تفہیم اور تعیین کا کوئی منطقی جواز نظر نہیں آتا۔ اور نہ ہی یہ موضوعات کسی فنکار کو اختصاص عطا کر سکتے ہیں۔ ظفر گورکھپوری کا المیہ تبدیلی، تغیر نہیں بلکہ عدم توازن ہے اور اجتماعی احساس و آہنگ کی گمشدگی ہے اور زمین ہی اجتماعی آہنگ اور احساس کا مکمل استعارہ ہے۔ وہ تبدیلی میں مضمر تخریب کے نوحہ خواں ہیں، تشکیل اور تعمیر کے نہیں ،:

اسی بے چہرگی میں ڈھونڈنا ہو گا کوئی چہرہ

گڑھے گی زندگی اک اور چہرہ، یوں نہیں ہو گا

رات میں پورا چاند اگانا سہل نہیں

کم سے کم اک شمع جلائی جا سکتی ہے

ان کا المیہ خواب کی گمشدگی یا خاتمہ ہے

انسان کے کھاتے میں یہ نقصان بڑا ہے

اشکوں کی جگہ آنکھ سے سپنے نکل آئے

ظفر گورکھپوری کا موضوعاتی کینوس بہت وسیع ہے۔ زمین یا گھر کے حوالے سے ان کے شعری امتیازات کی تخصیص یا تفردات کی نشان دہی، ایک بحر بے کنار کو آبجو میں تبدیل کرنے کے مترادف ہو گی۔ ان کے یہاں حیات و کائنات کی مختلف اور متضاد لہریں ہیں۔ تجلی ادراک کے منظر نامے ہیں۔ قطرے میں دریا، ذرے میں آفتاب، ایک مٹھی مٹی میں پنہاں سمندر کی جستجو ہے

جان چھڑکتے ہیں کہ اپنے جیتے جی

دھرتی پر مٹھی بھر سبزہ رہ جائے

ظفر گورکھپوری کی جستجو کی راہ بہت لمبی ہے

پنگھٹ، بگیا، کچے رستے، اجیالوں میں نہائے ہوئے

رادھا کے گالوں میں سورج، سکھیوں کی چولی میں چاند

تو محض ان کے پڑاؤ ہیں، ان کے تخیل کی منزلیں جہان قدم کا حیرت کدہ ہیں۔

شہر آباد کریں، پھر اسے تاراج کریں

اس کے ملبے پہ نئے شہر کا نقشہ رکھ آئیں۔

ظفر کی شاعری میں منفعل مٹی کا احساس نہیں ہے بلکہ مٹی کی فاعلیت اور حرکیت کے اظہارات ہیں۔ ان کی شاعری کی تہ میں افسردگی اور اضمحلال کے دکھ سے زیادہ وہ چنگاریاں ہیں جن میں مٹی کی تقلیب کی قوت موجود ہے۔ اسے نہ مٹی کا حزن نامہ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس تخلیق کی تعبیر قنوطیت یا یاسیت کے سیاق و سباق میں کی جا سکتی ہے کہ یہ تو ایک مشت شرار کا نوحہ ہے، جو ذرا سی دیر میں نغمہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسے نغمہ ماتم بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابو المعانی عبد القادر بے دل کا نہایت معنی خیز مصرعہ ہے:

سخت سامان چراغاں داشت ایں مشت شرار

مٹی، زمین یا گھر کے حوالے سے ظفر کے منفعل یا ماتمی احساس کی تعبیر و تشریح میرے خیال میں اس شاعری کے ساتھ نا انصافی ہو گی کہ جن علامات، استعارات یا لفظیات، تصورات کو ظفر کے امتیازات کے بطور پیش کیا جاتا ہے، ان میں تو قدیم و جدید شعراء بھی ان کے شریک ہیں۔ گھر، زمین، مٹی کے تعلق سے شاعروں نے جو کچھ کہا، سوچا ہے اس کی تفصیلات پروفیسر مغنی تبسم کے مضامین محمد علوی۔ گھر اور جدید غزل، جدید غزل کی لفظیات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ظفر کی شاعری دو نیم، دو لخت شخصیت کا اظہاریہ ہے جو ان کی شاعری میں زمین، مٹی یا گھر جیسی علامتوں کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ یہ سب انسانی وجود کی محض علامتیں ہیں کہ اصل انسان ہے اور یہ صرف تصور ہیں۔ انسان ہی حقیقت ہے جس کی وجہ سے افلاک کی تخلیق ہوئی جس میں ایک فلک زمین بھی ہے۔ زمین اور گھر انسانی تشخصات کے اشارے ہیں۔ زمین اور گھرکی ماورائی شخصیت کو سمجھے بغیر ظفر گورکھپوری کے تمام فکری، فنی زاویوں کو سمجھنا دشوار ہے ویسے ان کا شعری اسلوب نہ گنجلک ہے اور نہ ہی اتنا ژولیدہ کہ اس کی لغوی تشریحات کے لغو عمل سے قاری کے ذہن کو زیاں سے دو چار کیا جائے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے