پروفیسر نیر مسعود۔ جس کی تحریروں کا جادو رہے گا کارگر ۔۔۔ صابر مغل

 

عصری دنیائے ادب کی انتہائی قد آور عالمی شہرت یافتہ شخصیت، صاحب طرز افسانہ نگار، اسکالر، محقق، دانشور، ادیب اور مترجم پروفیسر نیر مسعود دنیا فانی سے کوچ کر گئے، وہ بہت زمانے سے علیل اور مکمل طور پر صاحب فراش تھے انہوں نے 24جولائی کو دوپہر ساڑھے 12بجے لکھنؤ میں اپنے آبائی مکان میں ان کی سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی، نیر مسعود کی شکل میں ادبی دنیا کا یہ ستارہ 16نومبر1936 کو لکھنؤ میں اپنے زمانے کے مشہور ناقد، ادیب، عبقری شخصیت کے مالک اور لکھنؤ یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر مسعود حسین رضوی کے آنگن میں ابھرا ,ان کی والدہ کا نام حسن جہاں رضوی تھا، نیر مسعود کا خانوادہ علمی طور پر ایک انتہائی معروف خاندان ہے , ان کی ادبی زندگی کا آغاز لڑکپن ہی سے ہو گیا تھا جب انہوں نے محض 11/12سال کی عمر میں ایک ڈرامہ لکھا جسے انہوں نے علی عباس حسینی، مولوی اختر علی تلہری اور مرزا محمد اصغر  وغیرہم کی موجودگی میں بلا جھجھک پڑھا اور دادتحسین وصول کی لیکن تصنیف و تصنیف کا سلسلہ با ضابطہ 1965میں شروع کیا، نیر مسعود رضوی نے ابتدائی تعلیم گردھاری انٹر کالج سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، 1957میں فارسی میں ایم اے کیا، بعد ازاں الہ آباد یونیورسٹی سے اردو میں۔ رجب علی بیگ سرور پر اور لکھنؤ یونیورسٹی سے فارسی کے مشہور شاعر۔ ملا محمد صوفی مازندرانی۔ پر فارسی میں PHDکی ڈگریاں حاصل کیں، 1966میں لکھنؤ یونورسٹی میں کے شعبہ فارسی میں بحیثیت لیکچرار ان کا تقرر ہوا اور1996 میں وہ اسی شعبے سے بحیثیت صدر سبکدوش ہوئے، 30ستمبر1971میں ان کی شادی صبیحہ خاتون رضوی سے ہوئی ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں دردانہ، صائمہ، ثمرہ اور ایک بیٹا تمثال ہے، تمثال اس وقت امریکہ کی ایک نمائندہ یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں، ان کے چھوٹے بھائی اظہر مسعود ایک معروف ترین مزاح نگار ہیں، نیر مسعود تحقیقی مطالعات کے ساتھ ساتھ تراجم میں بھی دلچسپی رکھتے تھے، وہ ماہر داستان گو بھی تھے لیکن ان کی شہرت کا اصل سبب ان کے افسانے تھے جن میں طلسم، زندگی کی پراسراریت شامل ہوتی، طلسم اور پر اسراریت سے معمور اس جہاں دیگر میں ہم اسی لئے سرگرداں ہوتے ہیں کیونکہ یہ دنیا تخیل کی بلندی کا احساس پیدا کرتی ہے، نیر مسعود ہمیشہ سلیس اردو اور دل موہ لینے والی زبان استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف میں گم ہوئی تہذیب کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے، انتہائی اعلیٰ پائے لے علمی کارناموں کے ساتھ ساتھ تخلیق کی دنیا میں پروفیسر نیر مسعود کو منفرد اسلوب میں لکھے ہوئے افسانوں کی بدولت غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ان کا اسلوب ہی ان کی بڑی پہچان تھا اور وہ اسی اسلوب کے لئے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، انہوں نے بہت دیر سے (1971)میں افسانے کی دنیا میں قدم رکھا اور اپنے پہلے ہی افسانے سے وہ آناً فاناً مشہور ہو گئے، پروفیسر نیر مسعود کے غیر معمولی علمی و ادبی کارناموں کی پوری ادبی دنیا میں شہرت تھی اور ان کارناموں کی وجہ سے انہیں ہر جگہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، انہوں نے اپنی ادبی اور تصنیفی زندگی میں 30سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور ہندو پاک کے با وقار ادبی رسالوں میں مختلف موضوعات پر ان کے 300سے زائد علمی اور تحقیقی مقالات شائع ہوئے، اپنے والد کی طرح لکھنویات اور انیسات ان کے مخصوص میدان تھے، انیس پر ان کی کتاب۔ انیس سوانح۔ حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے، انہوں نے مرثیہ خوانی کے فن پر ایک معرکہ آراء کتاب لکھی، اردو کے کلاسیکی شعراء میں۔ میر۔ کے فارسی دیوان کی تدوین اور۔ غالب۔ کی تعبیرات سے متعلق ان کی کتاب تعبیر غالب غیر معمولی تصنیفات کا درجہ رکھتی ہیں، لکھنؤ کی تاریخ و تہذیب سے متعلق انہوں نے متعدد معلوماتی اور علم افروز کتابیں لکھیں اور واجد علی شاہ کے اردو دیوان۔ سخن اشرف۔ کی بڑی دیدہ ریزی سے تدوین کی، پروفیسر نیر مسعود نے نہ صرف مشہور مغربی اور ایرانی افسانہ نگاروں کی نمائندہ تخلیقات کا اردو میں ترجمہ کیا بلکہ اردو اور فارسی ادب سے متعلق نامور شخصیتوں پر دلچسپ ادبی خاکے لکھے، انہوں نے بچوں کے لئے 12کتابیں تحریر کیں جن میں تحقیقی کتابیں بھی شامل ہیں، رجب علی بیگ سرور کی حیات اور کارنامے، تعبیر غالب، مرثیہ خوانی کا فن، شفاء الدولہ کی سرگذشت، انیس، ادبستان، لکھنؤ کا عروج و زوال، یگانہ احوال، بچوں سے باتیں قصہ سوتے جاگتے، ابو لحسن کا الف لیلہ جو 1985میں اردو اکادمی اتر پردیش سے شائع ہوئے، بچوں کے لئے ایک ڈرامائی مشاعرہ بھی شامل ہیں، پروفیسر نیر مسعودکو ان کی تخلیقی اور ادبی خدمات کے سلسلے میں بہت سے با وقار ادبی اعزازات سے نوازا گیا جن میں صدر جمہوریہ ایوارڈ۔ غالب ایوارڈ، ساتیہ اکادمی ایوارڈ، گراں قدر سر سوتی سماں، ساہنیہ اکادمی کے قومی ایوار اور۔ پدم شری تفویض کیا گیا، محمد عمر میمن نے 1996میں ان کی دس کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کیا جن میں مشہور ان کے افسانوں کے انگریزی تراجم (The Snake Catcher) اور(Essence of Camphor) کے نام سے شامل ہیں، انگریزی کے علاوہ ان کے افسانے فرانسیسی، ہندی، فینسین اور ہسپانوی زبانوں میں بھی کئے گئے، کتنی قابل فخر بات ہے کہ ان کے افسانے کئی مغربی یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل ہیں، وہ گذشتہ دہائی میں سب سے زیادہ پڑھے جانے افسانہ نگار اور انہیں اپنے وقت کا بہترین مختصر اسٹوری رائٹر مانا جاتا تھا، انہوں نے جرمن ناول نگار۔ فرانز کافکا۔ کی مشہور زمانہ تصنیف۔ کاشا کے افسانے کا اردو میں ترجمہ انتہائی عمدگی سے کیا، وہ ایک ایسے اسکالر، قلم کار اور اردو زبان کے معروف افسانہ نگار اور مترجم تھے جنہوں نے دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کی، ان کے افسانوں کا مجموعہ۔ طاؤس چمن کی مینا، گنجفہ، عطر کا کافور اور ابمیا کی اشاعت نے فکشن کی دنیا میں دھوم مچا دی، عجیب اتفاق ہے کہ۔۔ انیس۔ کے شیدائی اور محقق پروفیسر نیر مسعودکا انتقال ہجری تاریخ کے اعتبار سے 29شوال کو ہوا اسی تاریخ کو۔ انیس۔ نے بھی اس دار فانی سے کوچ کیا تھا، ان کی تدفین عشاء کے بعد سوگواروں کے ایک بڑے مجمعے کے ساتھ۔ منشی فضل حسین کربلا۔ میں ہوئی اسی کربلا میں ان کے والدین بھی آسودہ خاک ہیں، ادبی دنیا کے مطابق۔ ان کی موت اردو ادب اور افسانے کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے، اس سانحہ ارتحال کے بعد اردو اور فارسی علوم کا ایک ستون گر گیا، داستانوں پر ان کی دسترس باکمال تھی، اس خلا کا پر ہونا آسان نہیں اور پروفیسر نیر مسعود رضوی کی رحلت اردو ادب کا بہت بڑا خسارہ ہے۔

٭٭

ماخذ:

http: //universalurdupost.com/adbi-column/27-07-2017/50297

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے