عرفان ستار کی سب سے بڑی اور اہم شناخت ان کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری غزل کی روایت کے دھارے کو جدیدیت کی ندی میں لائی ہے۔ ان کے خیالات بھی اس معاملے میں بے حد صاف و شفاف ہیں۔ یہ بات واقعی بے حد عجیب و غریب ہے کہ بے حد منفرد شاعروں کو ہمارے یہاں کس قدر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور اچھل کود مچانے والے مچھندر بھی جدید طرز اظہار کا نعرہ لگا کر خود پر تنقیدی مضامین کے انبار لگا لیتے ہیں۔ خیر، ادب اسی طرح کی بے نیازی کا متقاضی ہے۔ اب بات ہوئی ہے، تو امید ہے کہ بات یہاں رکے گی نہیں اور عرفان ستار، آفتاب حسین، فرحت احساس اور ایسے دوسرے اہم شاعروں پر گفتگو کے بھی دروازے کھلیں گے۔ امید ہے کہ یہ مکالمہ بھی اپنے اتفاق و اختلاف سمیت آپ کو کچھ معاملات میں سوچنے یا بولنے پر مجبور کر دے گا۔
تصنیف حیدر:آپ کی غزلیں بہت طویل بحر میں ہوتی ہیں، پھر بھی آپ اُن میں بہت اچھے شعر نکال لیتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوتا ہے ؟
جواب:اِس کی وجہ ایک تو غالباً یہ ہے کہ میں بغیر تحریک کے از خود طویل بحر کا انتخاب نہیں کرتا۔ کوئی مصرع کوئی شعر جب ہو جاتا ہے تو پھر غزل کہتا ہوں۔ فطری طور پر مجھے طویل بحریں مرغوب ہیں اور اس کی ایک وجہ غالباً میری موسیقی سے بہت گہری دلچسپی ہے اور طویل بحروں میں غنائیت زیادہ ہوتی ہے۔ مجھے کبھی اس مشکل کا سامنا نہیں کرتا پڑتا ہے طویل بحر میں حشو و زوائد سے کیسے بچوں ؟ مصرعے موزوں ہوتے جاتے ہیں اور زیادہ تر ان کی بھرتی کے الفاظ نہیں ہوتے۔ میں اسے خداداد صلاحیت اور طویل بحروں کے ساتھ ایک مزاجی نسبت کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔
تصنیف حیدر:کیا شعر میں کوئی گہری بات ہونی ضروری ہے ؟ کیوں ؟
عرفان ستار:یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں موجودہ دور کی بیشتر شاعری میں پائی جانی والی غیر شعریت کی وجہ پوشیدہ ہے۔ شاعری میں \” بات کیا کہی گئی ہے \”سے زیادہ \”بات کیسے کہی گئی ہے \” کی اہمیت ہے۔ مصرع کی بنت اور الفاظ کی نشست و برخاست سے جو امیج تخلیق ہوتا ہے وہ کتنا دل خوش کن ہے اور جو آہنگ مرتب ہو رہا ہے وہ کتنا رچا ہوا ہے۔ گہری بات یا بڑا مضمون شعر کی اضافی خوبی تو ہے، مگر شعر کی بنیادی اساس نہیں ہے۔ ہم نے آج شعر کو "بات”موزوں کرنے کا وسیلہ تصور کر لیا ہے، اس لیے ہر طرف ایک پرت کی بیانیہ شاعری کا انبار دکھائی دیتا ہے۔ ہم یہ بات بھول چکے ہیں کہ شاعری اچھی شعریت کی بنیاد پر ہوتی ہے نہ کہ مضمون کی بنیاد پر۔ شعر پڑھتے یا سنتے وقت آپ کے وجدان میں ایک ارتعاش خیال سے پہلے کوئی اور چیز پیدا کرتی ہے اور آپ کو یہ باور کرا دیتی ہے کہ آپ تک ایک شعر پہنچا ہے۔ بقول رابرٹ فراسٹ \”Poertry is what is lost during translation\”. ظاہر ہے جو چیز ترجمہ یا تشریح کے دوران کھو جاتی ہے وہ خیال یا مضمون تو نہیں ہوتا۔ وہ کیفیت ہوتی ہے جو شعر میں خیال کے متوازی اپنا ایک علیحٰدہ وجود رکھتی ہے اور شعر کو کلامِ موزوں سے الگ کر کے شعر بناتی ہے۔ آج کے قاری کی یہ تربیت ہی نہیں ہوئی ہے کہ شاعری سے لطف کیسے لیا جاتا ہے اور شعری محاسن کیا ہوتے ہیں ؟ وہ تو سیدھا شعر کا ترجمہ کرتا ہے اور مضمون سمجھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ شاعری کی بنیاد کرافٹ پر ہے۔ مصرع کیسے بنا گیا ہے اور لفظوں کے باہمی ربط سے کیفیت کیسے ظہور پذیر ہوئی ہے ؟ \”دلِ ناداں تجھے ہُوا کیا ہے \” میں ایسی کیا بات ہے جو \”کیا ہوا ہے تجھے دلِ ناداں \”میں وہی الفاظ اور وہی بحر ہونے کے باوجود نہیں ہے ؟قاری تو قاری آج کا شاعر بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے اور بات کو موزوں مصرعوں میں کہہ کر اسے شاعری سمجھتا ہے۔ شعر میں کہنے سے زیادہ نہ کہنے کی اہمیت ہے۔ قاری کے سوچنے اور اسے اپنی کیفیت سے ریلیٹ کرنے کے کیا کیا گنجائش چھوڑی گئی ہے ؟ بڑا شعر اس بنیاد پر بڑا ہوتا ہے کہ پچاس، سو، دوسو سال بعد کا قاری بھی جب اسے پڑھتا ہے اور اس کیفیت سے خود کو ہم آہنگ پاتا ہے۔ یہ اسی لیے ہوتا ہے کہ شعر میں ایک کیفیت ہوتی ہے جو لافانی ہے۔ مضمون تو ماحول، وقت، اور سماجی اقدار کا تابع بھی ہوسکتا ہے اور زمان و مکاں کی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی قدر کھو دیتا ہے۔ اسی طرح شعر میں جواب دینے سے زیادہ سوال اٹھانے کی اہمیت ہے۔ بات مکمل کرنے سے زیادہ اس کی جانب اشارہ کر کے قاری کے سپرد کر دینا اہم ہے۔ لفظ کی حرمت اور تکریم بے پردگی میں نہیں ہے۔ ایمائیت اور رمزیت میں ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر سرِ دست غالباً اتنا ہی کافی ہے۔
تصنیف حیدر:اسی کے بعد کی نسل کا حوالہ ایک غیر منطقی بات ہے، کیونکہ یہ نسل باقاعدہ کسی تحریک سے وابستہ نہیں۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں ؟
عرفان ستار: میں اس بات سے تو اتفاق کرتا ہوں کہ چونکہ یہ نسل کسی تحریک سے وابستہ نہیں اس لیے اس نسل کے تخلیق کاروں کو ہم اس طرح الگ سے نہیں categorize کرسکتے جیسے ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ترقی پسندوں کو کیا جا سکتا تھا۔ مگر یہ بات بہت اہم ہے کہ اس نسل نے زندگی اور دنیا کو جس تیزی سے تبدیل ہوتے دیکھا ہے اس کی مثال تاریخ میں کسی اور نسل سے نہیں دی جا سکتی۔ نئے میڈیا اور نئے آلاتِ ترسیل نے ایک نیا منظرنامہ ترتیب دیا ہے جس نے نئے تخلیق کاروں کے سامنے ایک بہت بڑا چیلینج رکھ دیا ہے۔ اس چیلینج کی وجہ سے بیشتر تخلیق کار بوکھلاہٹ میں یہ بات بھول گئے کہ یہ تبدیلیاں مادی سطح پر روز مرہ زندگی سے متعلق ہیں۔ بڑی انسانی اور آفاقی حقیقتیں نہیں تبدیل ہوئیں۔ وہ نئے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں بڑی حقیقتوں سے صرفِ نظر کر کے روزمرہ کو شاعری بنانے میں لگ گیا ہے۔ انسان، خدا، کائنات، مابعد الطبیعاتی حقائق آج بھی وہی ہیں جو میر کے یا غالب کے دور میں تھے۔ ایسی شاعری جو ان زمان و مکاں کی قید سے ماورا معاملات سے متعلق ہو، آج بھی اہم ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ جدید حسیت نامی چیز نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔ ہم شعر میں بلب، ای میل، فون، اور کار لکھنے کو جدید حسیت سمجھ بیٹھے ہیں۔ جدید حسیت وہ ہے جو شعر کی کیفیت کو جدید یعنی آج کے انسان کی کیفیت سے مطابق رکھے۔
کیسا ہنگامہ برابر کے مکاں میں ہے مقیم
میں تو خود شور میں رہتا ہوں، مجھے کیا معلوم؟
(خواجہ رضی حیدر)
یہ ہے جدید حسیت۔ اب اس بات سے ناواقف شخص جب میری شاعری پڑھے گا اور اس میں وہی اردو اور فارسی کے الفاظ دیکھے گا جو\” غیر جدید\” ہیں، تو وہ لازمی طور پر یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ عرفان ستار کے یہاں جدید حسیت کا فقدان ہے۔ ہماری شاعری کو پڑھا ہی غلط premiseکے ساتھ جا رہا ہے۔ ہمیں قارئین اور ناقدین کی ایک ایسی نسل میسر ہے جو ضروری intellectual tools and preparation کے بغیر ہمیں پڑھ رہے ہیں۔ اس اعتبار سے اسی اور اس کے بعد کے تخلیق کاروں کی نسل کو ایک الگ شناخت کے ساتھ پہچاننے میں کوئی قباحت نہیں۔
تصنیف حیدر:کسی بہت اہم ناقد کا کوئی مضمون میں نے آپ کی شاعری پر نہیں پڑھا۔ یہ میری کم علمی ہے یا واقعی ناقدین نے آپ کو نظرانداز کیا ہے ؟
عرفان ستار:اس میں آپ کی کم علمی کا کوئی دخل نہیں۔ مجھ پر کسی ناقد نے کچھ نہیں لکھا۔ میری کتاب تکرارِ ساعت میں خواجہ رضی حیدر کا ایک مضمون، اور احمد جاوید، آصف فرخی اور جناب رسا چغتائی کی آرا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ابرار احمد نے کہیں کہیں ذکر کیا ہے اور چند مضامین دوستوں نے سوشل میڈیا پر لکھے ہیں جنہیں باقاعدہ تنقیدی مضامین نہیں کہا جا سکتا بلکہ تاثراتی مضامین سمجھا جا سکتا ہے۔ میری کتاب ۲۰۰۵ میں شائع ہوئی تھی جسے اب نو سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس کتاب کو مجموعی طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ شاید اس میں لائقِ اعتنا کچھ تھا ہی نہیں ؟ مجھے نہیں معلوم۔
تصنیف حیدر:تخلیقی حسیت کو بیدار رکھنے کے لیے کس جگہ کے حالات زیادہ سازگار ہیں۔ پاکستان کے یا کینیڈا کے؟
عرفان ستار:یقیناً پاکستان کے۔ مجھے بہت نقصان ہوا ان صحبتوں سے دور ہو کر جو پاکستان میں میسر تھیں۔ رسا چغتائی، انور شعور، خواجہ رضی حیدر، خالد احمد، نجیب احمد، احمد جاوید، عزم بہزاد، لیاقت علی عاصم جیسے سینئیرز کی مشفقانہ رہنمائی اور ہم عصروں اور بعد میں آنے والوں میں اجمل سراج، کاشف غائر وغیرہ جیسے دوستوں کے ساتھ شعری معاملات پر گفتگو اور شاعری میں شرکت سے جو تحریک ملتی تھی اس کا کوئی بدل نہیں۔ کینیڈا میں نہ اس معیار کی گفتگو کے مواقع ہیں نہ ہی محفلوں میں اس معیار کی شاعری ہوتی ہے جس سے انسان کو تخلیقی تحریک حاصل ہو۔ کتابوں کا میسر نہ ہونا اور رسائل و جرائد کا نہ پہنچنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہ تو کہئیے کہ میں اپنی تربیت کی عمر پاکستان میں گزار آیا تو ان بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کی برکت سے کچھ نہ کچھ کہہ لیتا ہوں، ورنہ جن لوگوں کی تخلیقی عمر زیادہ یہاں بسر ہوئی ہے ان کا مطالعہ، تربیت، اور شعریات پر نگاہ بہت معمولی، اور زعم حد سے زیادہ ہے اور یہ تمام باتیں تخلیقی سفر میں رکاوٹیں ہیں۔
تصنیف حیدر:کیا آپ تنقید پڑھتے ہیں ؟ ناقد کو اہمیت دیتے ہیں ؟ کیوں ؟
عرفان ستار:تنقید ایک زمانے میں بہت پڑھی اور اس سے سیکھا بھی۔ اب بھی پڑھنا چاہتا ہوں اگر اچھی تنقید پڑھنے میں آئے۔ تنقید اور ناقد کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں۔ مگر آج تنقید نہیں لکھی جا رہی۔ تنقید کے نام پر یا تو تحسینِ باہمی کا سلسلہ ہے یا دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش۔ تنقید قاری کی تربیت کرتی تھی۔ اسے شعر اور غیر شعر کا، اور اچھے برے کا فرق بتاتی تھی۔ شعری محاسن، الفاظ کی مخفی پرتیں، شعر میں صنعتوں کا استعمال، اور شعریت کا لطف اٹھانے کے لیے قاری کے لیے ضروری سمجھ بوجھ سب ناقد کے ذمے تھی۔ یہ سلسلہ اب عرصہ ہوا مفقود ہے۔ اب مضمون شاعری پر نہیں، شاعر پر لکھا جاتا ہے اور ان معاملات پر مرکوز رہتا ہے جو بہت سطحی اور تخلیقی اعتبار سے غیر اہم ہیں۔
تصنیف حیدر:کیا جدیدیت نے واقعی غزل کی بنت اور اندرون کو تجربے کی بنیاد پر بدل کر رکھ دیا ہے ؟ کیوں ؟
عرفان ستار:جدیدیت ایک حد درجہ misunderstoodاور over-ratedمسئلہ ہے۔ میر کے ڈھیروں اشعار اور غالب کا بہت سارا کلام بے حد جدید ہے اور آج کے قاری کو حسی سطح پر اسی طرح سے متاثر کرتا ہے جیسے اپنے عہد میں کیا کرتا تھا۔ ہُوا صرف اتنا ہے کہ آج کا شاعر بے چارہ جدید بننے کے چکر میں مارا گیا ہے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ پا رہا کہ جدید ہونا احساس کی اور کیفیات کی سطح پر اہم ہے۔ وہ جدید زبان اور طرزِ اظہار کی بنیاد پر ہونا چاہتا ہے جس سے ایک مضحکہ خیز کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ فیض، ناصر، مدنی، جون، احمد مشتاق، حتٰی کہ فراز تک کسی بھی اہم شاعر نے اس معاملہ میں ایسا غچہ نہیں کھایا اور ایسی شاعری تخلیق کی جو آج کے قاری کے لطف و انبساط کا سبب بنتی رہی۔ یہ تباہی گزشتہ بیس پچیس سالوں کے دوران برپا ہوئی ہے۔ ہم یہ سمجھنے لگے کہ قاری ہم سے دور اس لیے ہو گیا ہے کہ ہم غیر جدید ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ قاری اس لیے آپ سے دور چلا گیا ہے کہ آپ اس تک رسائی اس کی ترجیح کے مطابق حاصل نہیں کر رہے۔ وہ انٹرنیٹ اور آڈیو بکس کا بندہ ہے اور آپ اسے کتاب پڑھوانے پر مصر ہیں۔ وہ یو ٹیوب پر لیکچر دیکھتا ہے اور آپ اسے ادبی رسالے میں تنقید پڑھوانا چاہتے ہیں۔ اس کو اسکول اور کالج میں اردو ویسے نہیں پڑھائی جاتی جیسے اس سے پچھلی نسل کو پڑھائی جاتی تھی اور جس سے ان کی بنیادی تربیت کسی نہ کسی حد تک ہو جاتی تھی۔ آپ کو شاعری نصف پیغمبری کے زعم سے نکلنا ہو گا۔ آج مجھ سمیت سوشل میڈیا پر شاعروں کو ہزاروں قارئین میسر ہیں جو ہماری غیر جدید شاعری سے اتنا ہی لطف اٹھا رہے ہیں جتنا کہ شاعری کا حق ہے۔ پھر خدا جانے کس جدیدیت کی تلاش میں ہم اپنی صلاحیتوں کو برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ شاعری اتنی ہی تبدیل ہو گی جتنی ہونی چاہئیے اور ہو رہی ہے۔ یہ organic evolution کی طرح آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی ہے جو جاری و ساری ہے۔ اس کو rurbo mode میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اردو غزل کی بنیادی شعریات اور حسنِ اظہار و لطافت کی آج کے انسان کو بہت ضرورت ہے۔ بات سمجھنے اور نئے مضامین تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس ایسے ذرائع ہیں جو بیک جنبشِ انگشت میسر ہیں۔ اسے لطف پہنچائیے۔ غنائیت سے سرشار کیجئیے، کیفیت میں شریک کیجئیے۔ بس یہ اصل بات ہے۔
تصنیف حیدر:مغربی ممالک میں اس وقت جتنے لوگ بطور شاعر جانے جاتے ہیں ان میں آپ سب سے اچھے شاعر ہیں۔ یہ سن کرکیسا محسوس ہوتا ہے ؟
عرفان ستار:آپ اسے کسرِ نفسی نہ سمجہئے گا مگر میں آج پہلی بار یہ بات سن رہا ہوں۔ اگرچہ اس وقت مغربی ممالک میں مجھ سے کہیں زیادہ اہم اور سینئیر شعرا مقیم ہیں اور اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں مگر اگر ان کی فہرست میں کہیں میں بھی ہوں تو یہ بات یقینی طور پر میرے لیے طمانیت کا باعث ہے۔
تصنیف حیدر:اردو ادب کی حالت دگرگوں ہے۔ اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ایسے جملے آپ کو سنجیدہ کرتے ہیں یا ہنساتے ہیں ؟
عرفان ستار:کسی بھی زبان کے ادب کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ تخلیق کار، قاری، اور نقاد۔ تخلیق کار موجود ہے اور میں تو یہ کہوں گا کہ اس وقت پاکستان اور ہندوستان میں جتنی اچھی شاعری کی جا رہی وہ بہت خوش آئند ہے۔ مسئلہ صرف قاری کے ساتھ سلیقے سے جڑنے کا ہے اور وہ مسئلہ بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر میسر دیگر وسائل سے آسان ہوتا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ نئی نسل کی ادب کو پڑھنے اور پرکھنے کی تربیت کا فقدان ہے جس میں نقاد کا کردار اہم ہے اور وہ اچھے نقادوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ادا نہیں ہو رہا۔ جب قاری یہ سمجھنے لگے کہ شعر میں مضمون اچھا ہو تو شعر اچھا ہوتا ہے تو یہ شعریت کی موت ہے۔ مگر یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شعریت اور آہنگ کا ایک تعلق وجدان سے بھی ہے اور وہ قاری بھی جس کی مناسب تربیت نہیں ہوئی جب ایک اچھا شعر سنتا ہے تو اسے یہ احسا س ہو جاتا ہے کہ اس میں کچھ ایسا ہے جو اس کے دل میں اتر رہا ہے اور اس کی روح کو سرشار کر رہا ہے۔ اچھی موسیقی کی طرح اچھی شاعری بھی ایک ذوقی معاملہ ہے جس کی بنیاد وجدانی بھی ہے اور اکتسابی بھی۔ تربیت کا ایک موقع اچھی شاعری کی ترسیل اور ترویج بھی فراہم کرتی ہے اور یہ کام بہرحال آج بھی ہو رہا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کتاب کی اہمیت ختم نہیں ہوئی مگر اس کی ترسیل کے طریقے بدل گئے ہیں۔ کیا مجھے میر، غالب، انیس، یا بڑے نثرنگاروں کا کام آڈیو بکس کی صورت میں دست یاب ہے ؟ ہمیں اس پر توجہ دینی ہے۔ Interactive CDs, websites, audio books ادب کا مستقبل ہیں۔ یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ اس میں اضافے کی ضرورت ہے اور اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ احتشام حسین، ممتاز حسین، حسن عسکری، سلیم احمد، ڈاکٹر سلیم اختر، محمد علی صدیقی، محمد علوی، وارث علوی، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، اور دیگر اہم نقادوں کا کام بھی ان جدید ذرائع سے قاری تک پہنچایا جائے۔ ایسے لیکچرز مرتب کر کے وڈیوز کی صورت میں اپ لوڈ کیے جائیں جس سے قاری یہ سمجھ سکے کہ شاعری کیا ہے اور شعریت کسے کہتے ہیں۔ شعر سے لطف کیسے اٹھایا جاتا ہے ؟ اچھی اور بری شاعری میں تمیز کیسے کی جاتی ہے ؟
تصنیف حیدر:کیا لکھنے والے کو تخلیقی حس کے ختم ہو جانے کا احساس ہوتے ہی قلم توڑ دینا چاہئیے یا مرتے دم تک لکھتے رہنا چاہئیے ؟
عرفان ستار:میں نہیں سمجھتا کہ تخلیقی حس کبھی بھی ختم ہوتی ہے۔ ہاں طویل عرصے کے لیے غیر متحرک ضرور ہوسکتی ہے اور پھر کوئی بھی تجربہ خواہ وہ ذاتی اور اندرونی ہو یا خارجی، اس حس کو بیدار کرسکتا ہے۔ تخلیق کار کو زبردستی تخلیق کرنے کی کوشش تو نہیں کرنی چاہئیے مگر تخلیق کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہنا چاہئیے۔ کسے معلوم کہ آخری سانس سے پہلے وہ ایک تحریر، ایک شعر، ایک افسانہ، ایک نظر ایسی ہو جائے جو اس تخلیق کار کی ابدی زندگی کا ضامن ہو جائے ؟ لکھتے رہنا ضروری نہیں۔ لکھنے سے شعوری طور پر گریز کرنے سے بچنا ضروری ہے۔
٭٭٭