سرد خانے کا ملازم۔۔۔ اقبال خورشید

 

جب غفور نے لاش وصول کی، وہ بری طرح تپ رہی تھی!

وہ چونکا ضرور، لیکن حیران ہونے سے باز رہا۔ اور ایسا کرنا مشکل نہیں تھا، سردخانے کے در و دیوار حیرت چُوس لینے کے عادی تھے۔ اور پھر۔۔۔ مُردے پر چڑھا تپ امکانی تھا کہ آج گرمی کچھ زیادہ تھی!

لیکن جب دائمی قبض میں مبتلا سردخانے کے انچارج کی جانب سے ، مشینی انداز میں ، لاش کا اندراج کیے لگ بھگ تین گھنٹے بیت گئے۔ اور مرے ہوئے نے سُلگنا جاری رکھا، غفور کے حیرت سے دوچار ہونے کا آغاز ہو گیا۔ البتہ اس نے ، مُردوں سے نظر آنے والے سرد خانے کے دیگر ملازمین سے اِس معاملے کے عجیب ہونے کا ذکر کرنے سے اجتناب برتا۔ وہ یقیناً اِسے عجیب نہیں پاتے۔ اوپر تلے بنے ریک میں رکھی، اسٹریچرز پر سجی، پوٹلیوں میں بندھی، بے کفن اور کفنائی ہوئی لاشوں کے درمیان کچھ عجیب ہونا تقریباً غیر امکانی تھا۔ سو وہ اپنے ذہن کے ساتھ، جو لاش میں اٹکا تھا، لاشوں کے درمیان حرکت کرتا رہا۔

مرنے والا لباس سے متوسط طبقے کا ملازمت پیشہ آدمی معلوم ہوتا تھا، عمر لگ بھگ پینتیس سال۔ موت نزدیک سے چلائی جانے والی گولی کے سبب ہوئی تھی۔ اور وہ جانتا تھا کہ سرکاری اسپتال کے مردہ خانے پہنچنے سے قبل، فلاحی تنظیم کی ایمبولینس میں ٹھونسے جانے سے پہلے — لگ بھگ گیارہ بجے کے قریب — لاش ایک شاپنگ مال کے سامنے بچھی سڑک پر پڑی تھی۔ اور وہاں ، اُس کے گرد تاسف کرنے والے ، تماشا دیکھنے والے ضرور تھے ، پر اپنا کوئی نہیں تھا۔ یقیناً۔ ورنہ اُس کا اندراج لا وارث لاش کے طور پر نہیں ہوتا۔

مُردے کی جیبیں خالی تھیں۔ غالباً لوٹ مار کی واردات تھی، جس کے دوران ٹریگر دب گیا۔ یہی ہوا ہو گا!

غفور پُر یقین تھا کہ جلد کوئی نہ کوئی اِسے کھوجتا پہنچ جائے گا کہ ایسا ہی ہوتا تھا، یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ مسئلہ تو لاش پر چڑھا تپ تھا، جس نے اسے اچنبھے میں ڈال رکھا تھا۔

جس سمے تلاش کی تھکن اوڑھے ایک انتہائی خاموش، گداز جسم والی عورت لاش شناخت کرنے آئی، موذن عصر کی اذان دے چکا تھا، اور لاش کے اندر ہی اندر جھُلسنے کا دورانیہ لگ بھگ ساڑھے چھے گھنٹے کھنچ چکا تھا۔

عورت نے — جو اپنے دیور کے ساتھ تھی، جس کی آنکھیں ٹھیک عورت کی آنکھوں کے مانند نچڑی ہوئی تھیں — پہلی نظر میں لاش کو شناخت کر لیا۔ وہ اُس کا شوہر تھا۔

شناخت کے بعد عورت کی آنکھوں میں سکون اتر آیا، جو غفور کو حیران کُن معلوم نہیں ہوا۔ واضح تھا، وہ گذشتہ چند گھنٹوں سے اندیشوں کا من پسند کھاجا بنی ہوئی تھی، جو بیتتے پلوں کی منحوسیت کو بڑھاوا دیتے تھے کہ کسی اپنے کے لاپتا ہونے کا عمل، اس کے اپنوں کے لیے مسلسل اذیت ہے ، جو کسی اپنے کو کھو دینے سے زیادہ اذیت ناک ہے۔

لاش حوالے کرنے کے اکتائے ہوئے عمل کے دوران غفور خود کو لاتعلق ظاہر کرتے ہوئے عورت کے — جس کا پریشانی سے سُلگتا جسم اب سکون کی حالت میں آنے کو تھا، یا آ گیا تھا — قریب ہی رہا۔ اُس حیرت کے باعث، جس سے سوال پھُوٹتے تھے :

’’کیوں ؟ آخر مُردہ کیوں سُلگ رہا ہے ؟ سرد خانہ اُسے سرد کرنے میں کیوں ناکام رہا؟‘‘

سوالات اُس کے سوار تھے ، اور وہ اُن کی سواری۔ اور اُن کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے وہ یہ بھول چکا تھا کہ چندگھنٹے قبل وہ اپنے بے روزگار بیٹے کی بری صحبت میں پڑنے کے مسئلے کے باعث، بیمار بیوی کے باعث اور بڑھتے خرچوں کے باعث کتنا پریشان تھا۔ اب فقط ایک سوال تھا، حواس مختل کر دینے والا:

’’جسم تپ کیوں رہا ہے ؟ ‘‘

عورت اب شانت تھی۔ خدشات سے رہائی کے بعد اُس کے جسم میں رکا اندیشوں کا پانی اب پسینے کی صورت پھوٹ رہا تھا۔ اس کا دیور کاغذی کارروائی میں الجھا تھا۔ اور اُس وقت کی نسبت، جب وہ یہاں آیا تھا، کچھ پُرسکون اور کچھ غم زدہ معلوم ہوتا تھا۔

غفور، دھیرے سے اسٹریچر تک گیا۔ لاش کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، اور فوراً ہٹا لیا۔ وہ اب بھی تپ رہی تھی۔

اور تب اُس نے کسی کی پُراسرار موجودگی محسوس کی۔ وہ مڑا۔ پسینے میں بھیگی عورت، آنکھوں میں اداسی لیے اُسے تک رہی تھی۔

وہ وہاں سے ہٹ گیا، پر ذہن وہیں رہا۔ اور عورت بھی وہیں رہی۔ اور اُس نے دیکھا، عورت کا ستا ہوا چہرہ دھیرے دھیرے تاثرات کے لیے ہم وار ہوتا جا رہا تھا۔ اچانک، اُس نے اپنا ہاتھ مُردہ شوہر کے ماتھے پر رکھ دیا۔

ششدر، کسی سحر کے زیر اثر غفور سانس روکے کھڑا رہا۔ دیکھتا رہا۔ سوچتا رہا،’’کیا یہ بھی حیرت کے زیر اثر ہاتھ کھینچ لے گی؟‘‘

نہیں ، عورت نے ایسا نہیں کیا۔ ہاتھ ماتھے ہی پر رہا۔ پھر وہ جھکی، اور ساڑھے چھے گھنٹے پرانی لاش کے ماتھے پر بوسا دیا۔ ہونٹ چند ساعت وہیں رہے۔ اور پھر۔۔۔ سرد خانے میں ایک سسکی نے جنم لیا۔ عورت دھیرے دھیرے رو رہی تھی۔

غفور یونہی کھڑا رہا۔ وہ واقعہ — جو صدی پر محیط معلوم ہوتا تھا، پر تھا نہیں — اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ عورت سیدھی ہو گئی۔ وہ دُکھی تھی، لیکن پُرسکون معلوم ہوتی تھی۔

سرد خانے کے ملازم نے دیکھا، لاش کے ماتھے پر آنسوؤں کے دو قطرے تھے۔

عورت موجود رہی۔ غفور یونہی کھڑا رہا۔

سردخانے کا انچارج کان کا میل صاف کر رہا تھا۔ مرنے والے کا بھائی کاغذات پر دست خط کر رہا تھا۔ اور حیرت کا سانپ غفور کے ذہن میں کنڈلی مارے بیٹھا تھا، جس کی پھنکار زہریلی تھی، تقاضا کرتی تھی، اِس چیستان کے حل کا۔

’’لاش سلگ رہی ہے ، کیوں ؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔

عورت وہیں تھی۔ غفور کھڑا تھا۔ لاش کے ماتھے پر دو قطرے تھے۔ وہ لاش پر چڑھے تپ کے باوجود بخارات میں تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ اور کاغذی کارروائی آخری مراحل میں تھی۔ اور تب، غفور پر یہ انکشاف اترا کہ اُس کا جسم بھی سُلگ رہا ہے۔

اس موقعے پر مُردوں میں رہنے والا عورت سے سوال کرتا ہے۔

’’بی بی کیا ہوا تھا؟‘‘

وہ خاموش رہتی ہے۔ یوں ، جسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔

’’بی بی کیا ہوا تھا؟‘‘ پھر سوال ہوتا ہے۔ جواب میں خاموشی دہرائی جاتی ہے۔

چند منٹ بعد، جب تپتی ہوئی لاش ایمبولینس کے پیٹ میں اُگل دی جاتی ہے ، جب اُسے وصول کرنے والے ایک نیلی کار میں سوار ہو کر رخصت ہو جاتے ہیں ، غفور — انچارج کو مطلع کیے بغیر، اِس بابت پروا کیے بغیر کہ چھٹی میں ابھی وقت باقی ہے — ایک رکشا پکڑ کر ایمبولینس کا، جو خود سے آگے دوڑتی کار کا تعاقب کر رہی ہوتی ہے ، تعاقب شروع کر دیتا ہے !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات گئے ، جب وہ اپنے خستہ حال مکان کی دہلیز عبور کر رہا تھا، باورچی خانے میں ہونے والی کھٹ پٹ سماعتوں سے ٹکرائی۔ صحن میں پھیلی بلب کی زرد روشنی میں وہ چارپائی پر لیٹی اپنی بیوی کو دیکھتا ہے۔ دونوں کے درمیان کسی لفظ کا تبادلہ نہیں ہوتا۔

باورچی خانے کے نزدیک سے گزرتے سمے اُس نے بیٹی کی جھلک دیکھی۔ ساٹھ گز کے مکان میں بیٹے کی عدم موجودگی کی بابت اندازہ لگانے کی زحمت نہیں کرنی پڑی۔ وہ وہاں نہیں تھا!

وہ سیدھا چارپائی تک گیا، اور اپنا عمررسیدہ وجود بکھیر دیا، اور چھت کو گھورنے لگا۔ گو کہ جسم تھک چکا تھا، لیکن ذہن چوکسی کے ساتھ گذشتہ چند گھنٹوں میں رونما ہونے والے واقعات پر غور کر رہا تھا۔

جب بیٹی کھانے کا پوچھنے آئی، اس نے انکار کر دیا۔ جیب سے بیڑی نکلی، اسے سلگایا، چند کش لیے اور ماضی میں اتر گیا۔

رکشے والے نے کمال مہارت سے ایمبولینس کا تعاقب کیا، جو ایک متمول علاقے کے دو منزلہ بنگلے کے سامنے جا کر رکی۔ غفور کچھ ہی فاصلے پر اتر گیا۔ کرایے کی ادائیگی طبیعت پر گراں نہیں گزری۔ اس سبب نہیں کہ اُس کا مکان متمول علاقے کے پیچھے چھپی غلیظ بستی میں تھا، بلکہ اِس لیے کہ وہ بھی تپ رہا تھا۔

وہ خود کو مکان سے کچھ فاصلے پر، درخت کے نیچے بچھی بینچ کے حوالے کر چکا تھا۔ اور بنگلے کو تک رہا تھا، جس کا بیرونی حصہ، اندرونی حصے میں حرکت کرتے دُکھ کا عکاس تھا۔

جہاں تک بیرونی حصے کا تعلق ہے ، وہاں چھوٹے بڑے واقعات رونما ہو رہے تھے۔ شامیانہ لگ چکا تھا۔ دری بچھ گئی تھی۔ محلے والے اکٹھے ہونے لگے تھے۔ درمیان میں ایک میز رکھی تھی، جس پر پانی کا کولر، اخبارات اور چند سپارے رکھے تھے۔ ایمبولینس رخصت ہو چکی تھی، اور سورج مغرب کی سمت سفر کر رہا تھا۔

کچھ سوچتے ہوئے وہ اپنے وجود میں ٹھہرے اندیشوں کے ساتھ اٹھا، شامیانے میں داخل ہو گیا، اور خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔

اِسی دوران مُردے کا بھائی سامنے سے گزرا۔ اُس نے غفور کو دیکھا، پر توجہ نہیں دی۔ آگے بڑھ گیا۔

وہ شامیانے میں تھا، اور اپنے اردگرد موجود افراد کو — جن میں سے چند کے چہروں پر تاسف تھا، چند کے ہم دردی، اور چند کے بے زاری — کریدنا چاہتا تھا، لیکن خود میں ہمت نہیں پاتا تھا۔ اِسی ادھیڑ بن میں دفعتاً نظر بھورے پر پڑی، جو بنگلے کے اندرونی حصے سے برآمد ہوا تھا۔

وہ کھڑا ہو گیا۔ چند لمحوں بعد وہ دونوں شامیانے سے ذرا فاصلے پر کھڑے تھے۔ غفور اُسے کرید رہا تھا، اور بھورا اس عمل سے لطف اندوز ہونے کے باوجود سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔

شاید اس کا محلے دار پوری کہانی سنا دیتا کہ کسی نے اُسے پکارا، اور وہ غفور کو یوں نظرانداز کرتا ہوا، جسے وہ وہاں ہو ہی نہیں ، بنگلے کے اندر چلا گیا۔

ادھوری کہانی نے ہیجان بڑھا دیا، غفور کو ذہن میں کلبلاتے سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے دیگر کو کریدنا پڑا۔

سورج غروب ہونے تک پوری کہانی اُس کے سامنے آ چکی تھی، جو اُس نے ٹکڑوں میں وصول کی تھی۔

سب سے اہم ٹکڑا وہ تھا، جو رخشندہ نامی عورت کے بیان، چند دیگر بیانات اور تبصروں سے اخذ کردہ تھا، جن کا بنیادی ماخذ، غفور کے لیے ، بھورا تھا۔ اور اُس ٹکڑے کو ترتیب وار بیان کیا جائے ، تو وہ کچھ یوں ہو گا:

آج صبح رخشندہ اپنے شوہر اور سات سالہ بیٹی کے ساتھ شاپنگ کی غرض سے کار میں سوار گھر سے نکلی۔ کار کو اصولاً شاپنگ مال کے سامنے ٹھہرنا تھا۔ اور اگر ایسا ہوتا، تو غالب امکان تھا کہ اُس سمے غفور وہاں نہیں ہوتا، تاہم ایسا نہیں ہوا۔

گاڑی پہلے ایک اے ٹی ایم مشین کے سامنے جا رکی۔ وہ آدمی، جو اب اِس دنیا میں نہیں رہا، گاڑی سے اترا۔ مشین تک گیا، اور مشین کے دہانے سے اُگلے جانے والے چند کڑک نوٹ لیے لوٹا۔ گاڑی اسٹارٹ کرنے کے بعد وہ شخص یک دم اِس احساس میں گِھر گیا کہ دو موٹر سائیکلیں اُس کے گرد پوزیشن لے رہی ہیں۔

آدمی نے — جو خوف زدہ ضرور تھا، لیکن بدحواس نہیں ہوا تھا — تیزی سے کار وہاں سے نکال لی۔ اس دوران کار کے بمپر اور موٹر سائیکل کے درمیان تصادم جیسا کچھ ہوا، اور موٹر سائیکل اپنے سواروں سمیت زمین پر گر گئی۔ اب کار اے ٹی ایم مشین سے دور ہٹ رہی تھی، اور اس کا ڈرائیور مطمئن تھا۔

چند منٹ بعد کار شاپنگ مال کے سامنے جا کر رکی۔ رخشندہ اور اُس کا شوہر اترنے کا ارادہ باندھ رہے تھے کہ انھیں علم ہوا، ان کی سات سالہ بیٹی پچھلی نشست کو آرام دہ پاتے ہوئے نیند کی وادی میں اتر چکی ہے۔ بیوی نے شوہر کو گاڑی میں ٹھہرنے کے لیے کہا، اور خود شاپنگ مال میں چلی گئی۔

وہاں اُسے چالیس منٹ لگے۔ جب وہ لوٹی، تو اُس مقام پر جہاں کار کی موجودگی متوقع تھی، اُسے کار نظر نہیں آئی۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا۔ نہیں ، کار کہیں بھی نہیں تھی۔

ہاں ، اسے ایک بکھرا ہوا ہجوم ضرور نظر آیا۔ کچھ لوگ اونچی آواز میں اور کچھ نیچی آواز میں ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ان کے لہجے کا مجموعی تاثر دُکھ اور بے زاری کا تھا۔

کچھ دیر تک رخشندہ اردگرد کا جائزہ لیتی رہی۔ پھر موبائل فون سے شوہر کا نمبر ملایا۔ نمبر بند تھا۔

یہ وہ لمحہ تھا، جب احساسات میں پریشانی کی آمیزش کا آغاز ہو جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اُس نے ایک بار پھر کوشش کی، پھر نمبر بند ملا۔ پھر کوشش کی۔ مایوسی، نمبر بند تھا۔

کچھ دیر تک وہ یونہی کھڑی رہی۔ پھر آگے بڑھی، دائیں بائیں دیکھتے ہوئے ، سوچتے ہوئے کہ کار کہاں چلی گئی؟ اُس کا شوہر کہاں چلا گیا؟

ذہن پر پر زور ڈالا۔ یاد کرنے کی کوشش کی کہ گاڑی کہاں ہونی چاہیے تھی۔ لاشعور سے جواب آیا،’’وہیں ، جہاں اس سمے ہجوم ہے !‘‘

وہ ہجوم کے قریب پہنچ گئی۔ ان میں سے ایک سے ، جھجکتے ہوئے سوال کیا۔ ’’وہ یہاں ایک سفید کار کھڑی تھی۔۔۔ کیا آپ نے دیکھی؟‘‘

ہجوم میں موجود چند الجھے ہوئے چہرے اس کی جانب اٹھے ، پھر گر گئے۔ اس نے سوال دہرایا، بہ آواز بلند، تاکہ اس شخص کے کانوں تک بات پہنچ سکے ، جو جواب جانتا ہو۔ ’’وہ یہاں ایک سفید گاڑی تھی۔۔۔؟‘‘

کسی نے جواب نہیں دیا۔ ہاں ، چند کے بے زار چہروں پر تاسف اور اندیشے کی چمک سے اندھیرا ضرور پھوٹا، لیکن سب خاموش رہے۔

وہ اکتانے لگی۔ سوچا، دیور کو فون کرے۔ اور ایسا ہی کیا۔ نمبر ڈائل کیا، دھیرے دھیرے ہجوم سے دور ہونے لگی۔ اور تب اُس نے بکھرے ہوئے ہجوم سے سوال کیا۔ ’’خیریت۔۔۔ یہاں کیا ہوا ہے ؟‘‘

’’یہاں ڈاکوؤں نے ایک شخص کو قتل ل ل۔۔۔‘‘ کسی نے کہا، لیکن وہ نہیں سن سکی کہ لائن مل گئی، اور دیور کی آواز ’’ قت ل ل ل۔۔۔‘‘ کے بعد ہوا میں بکھرنے والے الفاظ پر غالب آ گئی۔

اُس نے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ دیور نے فوراً رکشا کر کے گھر پہنچنے کا مشورہ دیا۔ کچھ دیر بعد وہ گھر میں تھی، اہل خانہ میں گھری ہوئی، جو اُس سے زیادہ پریشان تھے۔

’’نہ صرف گاڑی، بلکہ ناصر اور سات سالہ امبر بھی غائب ہے۔‘‘

یہ جملہ کئی بار دہرایا گیا۔ اور رخشندہ کو محسوس ہونے لگا کہ ذہن کی دیواریں خدشات کے جھٹکوں سے چٹخ رہی ہیں۔

لا پتا ناصر کا فون نمبر متعدد بار ڈائل کیا گیا۔ یہ کوشش ناکام گئی۔ پھر اس کے دوستوں سے رابطہ کیا گیا، جو لاحاصل ثابت ہوا۔ پھر۔۔۔ پولیس سے رجوع کرنے کے لیے ذہن سازی کا عمل شروع ہوا۔ اور تب۔۔۔ رخشندہ کے لاشعور میں محفوظ ایک جملہ برآمد ہوا۔

’’یہاں ڈاکوؤں نے ایک شخص کو قتل ل ل ل۔۔۔‘‘

چند منٹوں بعد وہ اپنے دیور کی نیلی کار میں شاپنگ مال کی جانب بڑھ رہی تھی۔

یہاں تک کی کہانی تو بھورے کے توسط سے غفور تک پہنچی۔ آگے کا قصّہ شامیانے میں موجود ایک پھٹے حال شخص نے بیان کیا، جو ٹھیک غفور کے مانند وہاں غیر ضروری اور مشکوک معلوم ہوتا تھا۔

’’بھائی، ہر ایرے غیرے سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ، میں ہوں ناں !‘‘ یہ پھٹے حال کے الفاظ تھے ، جو خود کسی سامع کی تلاش میں تھا، وہ کہانی سنانے کے لیے ، جسے سنانے کی خواہش اُسے اپنے مکان سے میلوں دور اِس شامیانے میں کھینچ لائی تھی۔

یہ بتانے کے بعد کہ وہ کون ہے ، کہاں رہتا ہے ، کب سے بے روزگار ہے ، اُس نے بتایا کہ شاپنگ مال کے نزدیک کھڑا ایک پان کا کھوکھا اُس کا ٹھکانا ہے۔ اور آج دوپہر جب اُس نے ایک حسین، پر وحشت میں مبتلا عورت کو، ایک دراز قد پریشان حال آدمی کی معیت میں ، شاپنگ مال کے نزدیک پوچھ گچھ کرتے دیکھا، تو ان کی جانب کھنچا چلا گیا کہ وہ دونوں بوکھلائے ہوئے تھے ، اور اردگرد موجود لوگوں کی لاعلمی کو اپنی بوکھلاہٹ میں اضافے کا باعث پاتے تھے۔

فوراً ہی اُسے یہ احساس ہو گیا کہ وہ ایک ایسے شخص کو کھوجتے ہیں ، جو ایک گاڑی میں سوار تھا، اور اچانک، گاڑی سمیت، غائب ہو گیا۔

’’میں نے پٹ سے کہا، بھائی اُس بے چارے کا تو قتل ہو گیا!‘‘ داستان گو کا روپ دھارے ، شامیانے میں موجود پھٹے حال غفور کو بتاتا ہے۔

اُس کے بہ قول، یہ سنتے ہی آدمی اور عورت کے چہرے سیاہ پڑ گئے۔ اور اردگرد موجود افراد میں سراسیمگی پھیل گئی۔

جو اُس نے غفور کو نہیں بتایا، وہ یہ تھا کہ وہ اس کیفیت سے لطف اندوز ہوا۔

خیر، پھٹے حال نے جلدی جلدی مرد اور عورت کو واردات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ یہی تفصیلات اُس نے غفور کے سامنے بھی بیان کیں ، ذرا چسکے لیتے ہوئے۔

اُس کے بیان کے مطابق وہ اُس وقت موجود تھا، جب کھوکھے کے سامنے کھڑی سفید کار کے گرد گھیرا ڈالا گیا۔ اُن کے پاس پستول تھی، جس کی سرعام نمایش کرنے میں وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ پستول کی نوک پر انھوں نے اُس شخص کو، جو اب مر چکا ہے ، گاڑی سے باہر آنے کی ہدایت کی۔

داستان گو کے بہ قول، گاڑی سے باہر آنے والا بڑبڑا رہا تھا، جب کہ وہ، جن کے ہاتھ میں پستول تھی، کف اڑا رہے تھے۔

اسی سنسناہٹ میں گولی چل گئی۔ وہ شخص زمین پر گرا۔ اس کا ہاتھ سینے پر تھا، وہ تڑپ رہا تھا۔ ڈاکوؤں میں سے ’’ایک‘‘ نے ، جو نسبتاً شریف اور غریب معلوم ہوتا تھا، اُس کی جیبیں خالی کیں۔ پھر وہی ’’ایک‘‘ گاڑی میں بیٹھا۔ گاڑی اسٹارٹ کی۔۔۔ اس دوران زخمی تڑپتا رہا، ڈاکو اُسے تڑپتا ہوا دیکھتے رہے۔

’’اُن کی آنکھوں میں حقارت اور افسوس دنوں ہی تھے۔‘‘ پھٹے حال کی آنکھوں میں یہ دونوں کیفیات سمٹ آتی ہیں۔

جُوں ہی اُن کے ساتھی نے گاڑی ریورس کر کے سڑک پر ڈالی، باقیوں نے لات لگا کر اپنی سواری کو چالو کیا۔

’’اُن کے جانے کے بعد سب سے پہلے میں مرتے ہوئے آدمی کے قریب گیا۔۔۔‘‘ غفور کو بتانے سے پہلے پھٹے حال نے یہ بات لرزتی عورت اور سُکڑتے آدمی کو بتائی تھی۔

’’۔۔۔دم توڑنے سے قبل اس نے کہا تھا، میری بیٹی! بس اس کے بعد وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ایک ایمبولینس آئی، اور لاش اٹھا کر لے گئی۔‘‘

شامیانے میں موجود پھٹے حال کے مطابق، اس کی قصّہ گوئی پر گرفت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ شاپنگ مال کی سیڑھیوں پر کھڑا بول رہا تھا، اُس کے گرد ایک ہجوم تھا۔ وہاں کئی تھے ، جو ششدر، تحیر زدہ اسے سن رہے تھے۔

’’مرنے والے کے بھائی نے میرے سامنے ہی پولیس کو فون کیا۔ پھر سرکاری اسپتالوں سے رابطہ کیا۔ وہاں سے پتا چلا کہ اُس شخص کی لاش کو سردخانہ میں رکھوایا گیا ہے۔‘‘ پھٹے حال مسکراتا ہے۔

جب اُس مقام کا تعین ہو گیا، جہاں لاش کی موجودگی کے امکانات تھے ، مرد و عورت کار کی جانب دوڑے۔ پھٹے حال مدد کرنا چاہتا تھا۔ ’’میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں !‘‘ یہ کہتا ہوا وہ ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا۔ جس پر، غفور کے خیال میں ، مرد نے ضرور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہو گا۔

’’اور اُس سردخانہ کا راستہ بھی تیرے بھائی ہی نے بتایا!‘‘ داستان گو کے چہرے سے احساس تفاخر ٹپکتا تھا۔

یہاں تک پہنچ کر وہ اطمینان کے ساتھ خاموش ہو گیا۔

معمے میں الجھے غفور نے اُس کی مطمئن خاموشی سے پریشان ہو کر سوال کیا۔ ’’اور۔۔۔ اور اس کی بیٹی کا۔۔۔ کیا ہوا؟ وہ ملی؟‘‘

’’اوہ بچی۔۔۔‘‘ پھٹے حال نے مسکراہٹ قائم رکھی۔ اس اثناء میں اس نے شامیانے میں موجود دیگر کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کروا لی تھی۔

’’۔۔۔ ہاں ، وہ گاڑی تھوڑی دور، مشاہد چرسی کا تھڑا ہے ناں ، اُس کے سامنے سے مل گئی تھی۔ بچی پچھلی سیٹ ہی پر تھی۔ اور بابا، تم لوگ یقین نہیں کرو گے ، بچی مزے سے سوئی ہوئی تھی۔ اس کی نیند نہیں ٹوٹی۔ ہی ہی ہی۔۔۔‘‘

’’بیٹی!!‘‘ غفور بڑبڑایا۔

’’ہی ہی ہی۔۔۔‘‘

 

لاش کو غسل دے دیا گیا تھا، میت گاڑی پہنچ چکی تھی۔ اور اب مُردہ سامنے تھا۔ گہوارے کے سرہانے اس کا بھائی کھڑا تھا۔ شامیانے میں موجود افراد آخری دیدار کی غرض سے ایک مطمئن ہجوم کی صورت اختیار کر گئے تھے۔

’’کیا مُردہ اب بھی سلگ رہا ہوا؟‘‘ یہی سوچتے ہوئے غفور گہوارے تک پہنچا۔ خود کو روک نہیں سکا۔ جھُکا۔ لاش کے ماتھے کو چھوا۔ تڑپ کر پیچھے ہٹا۔ ماتھا تپ رہا تھا، بری طرح!

لاش کے بھائی کے چہرے پر ناگواری آئی۔ اُس نے نظر اٹھا کر عمررسیدہ شخص کو دیکھا، اور اس بار پہچان لیا۔

’’آپ یہاں۔۔۔ آپ تو مُردہ خانے میں تھے !‘‘ سوال سخت لہجے میں کیا گیا۔

’’جی وہ۔۔۔جی وہ۔۔۔‘‘ غفور ہڑبڑا گیا۔ چند ساعت خاموش رہا۔ اندر کے جوالا مکھی کو شانت کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن ناکام گیا۔ پھٹ پڑا۔ ’’وہ لاش ش ش۔۔۔ لاش تپ رہی ہے۔۔۔‘‘

’’کیا؟‘‘ ناپسندیدہ حیرت کا اظہار کیا گیا۔ ’’کیا بکواس ہے !‘‘

’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔ آپ دیکھ لیں۔‘‘ غفور نے لاش کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

’’ہٹاؤ ہاتھ۔‘‘ لاش کے بھائی نے غفور کا ہاتھ پکڑ کر جھٹک دیا۔ ’’کیا بے ہودگی ہے۔‘‘

’’لاش۔۔۔ تپ رہی ہے۔‘‘ وہ منمنایا۔

اِس انکشاف نے شامیانے میں سنسنی پھیلا دی۔ بے زار چہروں پر اشتیاق سمٹ آیا، سرگوشیاں ہونے لگیں۔

’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘ غفور کی آنکھوں میں نمی تھی۔

’’بکواس بند کرو!‘‘ گہوارے کے سرہانے کھڑا شخص دہاڑا۔ لاش کے چہرے پر کپڑا کھینچنے کو جھُکا، اور ٹھٹک گیا کہ لاش نے۔۔۔ اچانک۔۔۔ بالکل اچانک۔۔۔ جھرجھری لی تھی۔

حیرت کے زیر اثر زندہ بھائی نے مُردہ بھائی کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، اور ہیبت آنکھوں میں سمٹ آئی۔ لاش واقعی تپ رہی تھی۔

اور پھر وہاں موجود کئی افراد نے لاش کو باری باری چھوا۔ اور حیرت کا ذائقہ چکھا۔

عشاء کی نماز کا وقت قریب آتا گیا۔ حیرت بھڑکتی رہی۔ تحیر قوی ہوتا گیا کہ اب لاش نے وقفے وقفے سے ، حقیقتاً، لرزنا شروع کر دیا تھا۔

یہ محیر العقول خبر بنگلے کے اندر بھی پہنچ گئی، جہاں سے دو بوڑھی خواتین برآمد ہوئیں ، جو بہ یک وقت حیرت اور دُکھ کا شکار تھیں۔ اور پھر وہ عورت باہر آ گئی، جس کا نام رخشندہ بتایا گیا تھا۔ پھٹے حال نے اُس کے نزدیک ہونے کی کوشش کی، جسے وہاں ، حیرت کے شکنجے میں کَسے افراد نے نظرانداز کر دیا۔

وہ قریب آئی۔ لاش کو چھوا، اور حیرت سے ، ٹھیک لاش کے مانند، خفیف سی جھرجھری لی۔

وقت گزر رہا تھا۔۔۔ لرزتی، سلگتی لاش کے گرد خاموشی تھی، تذبذب تھا، تحیر تھا۔ اِس اذیت ناک، پریشان کن خاموشی میں کسی نے رائے دی۔

’’مرحوم کے لیے دعا کی جائے !‘‘ خاموشی ٹوٹی، لیکن قائم رہی۔ رائے دینے والے نے اپنی شناخت چھپا لی۔

پھر کسی نے کہا۔ ’’عورتوں کو تو یہاں سے ہٹاؤ!‘‘

کسی نے توجہ نہیں دی۔

’’کسی ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے !‘‘ کسی نے کہا۔ سب نے ’’ہوں ‘‘ کیا، اور خاموش رہے۔

’’مرنے والا غصہ میں ہے !‘‘ یہ پھٹے حال کے الفاظ تھے۔ اور تب وہاں موجود غیر متعلقہ افراد نے اپنے اندرون میں تجسس پھنکارتا محسوس کیا۔

’’روح تڑپ رہی ہے۔‘‘ ایک آواز آئی۔

’’مُردہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔‘‘ دوسری آواز۔

’’یہ اﷲ کا عذاب ہے۔‘‘ تیسری آواز۔

غفور آگے بڑھا۔ گھر والوں کے نزدیک پہنچا، جنھوں نے حالات کے جبر کے پیش نظر اس قربت کو برداشت کیا۔

چند ساعت متذبذب کھڑے رہنے کے بعد، رُندھی ہوئی آواز میں اُس نے کہا۔ ’’وہ۔۔۔ بیٹی۔۔۔ وہ بیٹی کی وجہ سے شاید۔۔۔ مرتے وقت بھی بیٹی کو پکارا۔۔۔ شاید اس وجہ سے۔۔۔ اسی پریشانی میں۔۔۔‘‘ اُس نے جو کہنے کی کوشش کی، گوکہ کہہ نہیں پایا، لیکن سب نے سمجھ لیا۔

چند لمحات خاموشی قائم رہی۔ پھر ٹوٹی۔ ’’ہاں۔۔ ہاں۔۔ لاش پریشان ہے !‘‘ یقینی طور پر، پھٹے حال۔

’’تم تو اپنی بکواس بند کرو!‘‘ گھر کے کسی بڑے نے کہا۔

کچھ دیر بعد ایک بوکھلائی ہوئی، پریشان، مُردے کے چہرے سے انتہائی حد تک مشابہ سات سالہ بچی ماں سے لگی، کافور میں ڈوبی لاش کے نزدیک آئی، جس پر جھرجھری طاری تھی۔

عورت، روتی ہوئی بچی کو سمجھانے ، منانے کی کوشش کر رہی تھی، جس کے طفیل ایک عجیب، پُراسرار صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔

کوشش رنگ لائیں۔ بالآخر بچی نے ، جھک کر، سسکیوں کے درمیان، باپ کو، جو مر چکا تھا، مخاطب کیا۔

’’پاپا۔۔۔ میں آ گئی ہوں۔۔۔ پاپا۔۔۔ میں ٹھیک ہوں !‘‘ یہ کہنے کے بعد وہ رونے لگی۔

ان جملوں کی ادائیگی کے بعد تھوڑوں نے تیرگی سمٹتی محسوس کی، تھوڑوں نے لطافت کی آمد کا احساس کیا۔

لاش کے لرزنے کا پُراسرار عمل اگلے چند پلوں میں ، پُراسرار طور پر معطل ہو گیا۔ دھیرے دھیرے تپ بھی اتر گیا۔ گھر والوں نے ، غفور نے لاش کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ ہاں ، اُس نے سلگنا ترک کر دیا تھا۔

گہوارہ میت گاڑی میں رکھا گیا۔ مرنے والے کے بھائی نے ایک گوناگوں عقیدت کے ساتھ غفور کو بس میں سوار ہونے کی ہدایت کی۔ دیگر بھی بس میں سوار ہوئے ، البتہ کنڈکٹر کے ڈھب پر، پائیدان پر کھڑے ہو کر دروازہ بجانے والے پھٹے حال کو گھر کے کسی بڑے نے گردن سے پکڑ کر نیچے اتار لیا۔

باقی معاملات ٹھیک اُس طرز پر انجام دیے گئے ، جیسے انجام دیے جاتے ہیں۔ سب معمول کے مطابق تھا۔ اب کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا، لاش ٹھنڈی ہو چکی تھی۔

واپسی میں مرنے والے کے بھائی نے غفور کو اپنی گاڑی میں بٹھا لیا۔ یوں وہ اُس متمول علاقے تک پہنچانا، جس کے عقب وہ بستی تھی، جہاں اُس کا مکان تھا، جس سے کچھ پرے وہ علاقہ تھا، جہاں بھونکتے کتے جشن مناتے تھے۔

اور اب وہ اپنے مکان میں تھا، واقعات پر غور کر رہا تھا، اپنی بیوی کی بیماری سے بے پروا، اپنے بے روزگار بیٹے کی مسئلے سے لاتعلق، گہری سوچ میں مستغرق!

اور تب ایک کھٹکا ہوا۔ یہ مکان کا دروازہ کھلنے کی آواز تھی۔ بیٹا گھر آ گیا تھا۔

بیٹا سامنے سے گزرا۔ باپ یونہی لیٹا رہا۔ نہ اُس نے سلام کیا، نہ اِس نے سوال کیا۔ وہ جانتا تھا، بیٹا بری صحبت میں پڑ گیا، اوباشوں میں بیٹھنے لگے ہے ، ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ، لیکن اس لمحے۔۔۔ وہ لیٹا رہا۔

بیٹے نے سنگھار دان کے نزدیک پہنچ کر ایک نظر آئینہ دیکھا۔ سیٹی بجائی، اور اپنی جیبیں خالی کیں ، اور غسل خانے کی جانب چل دیا۔ چند پلوں بعد غسل خانے سے پانی گرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔

غفور یونہی لیٹا، چھت کو تکتا رہا۔ دفعتاً اسے بے چینی محسوس ہونے لگی۔ لاشعوری طور پر ہاتھ جیب تک گیا، اور مایوسی کے عالم میں باہر آ گیا۔ وہاں بیڑی نہیں تھی۔ گو کہ وہ لیٹے رہنا چاہتا تھا، لیکن بے چینی پختہ ارادہ کیے بیٹھی تھی۔ اُسے اٹھنا پڑا۔ گھر کی دہلیز عبور کرنے سے قبل وہ سنگھار دان تک آیا، تاکہ دھبوں سے اٹے آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بال سدھار لے۔

آئینے کے روبرو اُسے ایک تھکا ہوا چہرہ نظر آیا، جو اُسے اجنبی لگا۔ کنگھا اٹھا کر اس نے روکھے بال بے دلی سے کریدے۔ باہر جانے کے مڑا۔ ٹھٹکا۔ پلٹا۔

سنگھار دان پر اس کے بیٹے کی جیب سے برآمد ہونے والا سامان دھرا تھا۔ موٹرسائیکل کی چابی تھی، ایک بٹوا تھا، چند موڑے تڑے نوٹ تھے ، ایک سستا، گھسا ہوا موبائل فون تھا اور۔۔۔ وہاں ، سنگھار دان پر ایک نیا، چمکتا، پھسلتا، قیمتی معلوم ہونے والا موبائل فون پڑا تھا، جو اپنے گرد بکھری اشیاء، اس کمرے ، اس مکان سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ وہ، وہاں کا نہیں تھا۔

تجسس کے زیر اثر غفور نے موبائل فون اٹھا لیا، جس کی اسکرین تاریکی کے گھیرے میں تھی۔ اُسے غور سے ، اور حیرت سے دیکھنے کی کوشش میں اُس کا انگوٹھا کسی بٹن پر پڑ گیا۔ چھم سے اسکرین روشن ہو گئی۔ اب وہاں ایک تصویر تھی۔

زرد بلب سے پھیلتی زردی میں غفور نے آنکھیں چندھیا کر تصویر غور سے دیکھی۔

یک دم اُس کا شعور تاریکی میں اتر گیا۔

اسکرین پر ایک بچی کی تصویر دمک رہی تھی، جس کی صورت اُس شخص سے انتہائی حد تک مشابہ تھی، جسے قبر کے حوالے کیے ابھی چند ہی گھنٹے گزرے تھے۔

سردخانے کے ملازم کا جسم تپ رہا تھا۔ اور غسل خانے سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے