ید بیضا ۔۔۔ حمایت علی شاعر

مری ہتھیلی کے سانپ کب تک ڈسیں گے مجھ کو

مری ہتھیلی کے سانپ جو اب

مری رگوں میں اتر چکے ہیں

بدن کو زنجیر کر چکے ہیں

میں خواب دیکھوں تو کوئی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ دے

قدم اٹھاؤں تو کوئی میرے قدم پکڑے

پلٹ کے دیکھوں تو کوئی پیچھے نہ کوئی آگے

بس ایک سایہ

مری حقیقت کا اک کنایہ

مری حقیقت کہ میں اندھیرے کی رہنمائی میں چل رہا ہوں

ازل سے اک سامری کے سانپوں میں پل رہا ہوں

مری ہتھیلی کہ جس میں روشن

وہ آگ بھی ہے وہ نور بھی ہے

جو دست موسیٰ ہے طور بھی ہے

جو اس عصا کی تلاش میں ہے

جو ہر تہی دست کی متاع گراں بہا ہے

جو کشتگان طلسم زر کی حیات تازہ کا معجزہ ہے

جو عہد حاضر کے ساحروں

اور ان کے پانیوں کے واسطے

ضربت قضا ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے