کلام ۔۔۔ سرفراز شاہد

جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

 

(اختر شیرانی کی رو ح سے معذرت کے ساتھ)

وہ اِس کالج کی شہزادی تھی اَور شاہانہ پڑھتی تھی

وہ بے باکانہ آتی تھی اور بے باکانہ پڑھتی تھی

بڑے مشکل سبق تھے جن کو وہ روزانہ پڑھتی تھی

وہ لڑکی تھی مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

 

جماعت میں ہمیشہ دیر سے وہ آیا کرتی تھی!

کتابوں کے تلے فلمی رسالے لایا کرتی تھی!

وہ جب دورانِ لیکچر بور سی ہو جایا کرتی تھی!

تو چُپکے سے کوئی تازہ ترین افسانہ پڑھتی تھی!

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

 

کتابیں دیکھ کر کُڑھتی تھی محوِ یاس ہوتی تھی

بقول اُس کے کتابوں میں نِری بکواس ہوتی تھی

تعجب ہے کہ وہ ہر سال کیسے پاس ہوتی تھی

جو ’’عِلّم‘‘ عِلم کو ،مولانا کو ’’مُلوانہ‘‘ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

 

بڑی مشہور تھی کالج میں چرچا عام تھا اُس کا

جوانوں کے دِلوں سے کھیلنابس کام تھا اُس کا

یہاں کالج میں پڑھنا تو برائے نام تھا اُس کا

کہ وہ آزاد لڑکی تھی وہ آزادانہ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

 

وہ سُلطانہ مگر پہلے سی سُلطانہ نہیں یارو

سُنا ہے کوئی بھی اَب اُس کا دیوانہ نہیں یارو

کوئی اُس شمع ِ خاکستر کا پروانہ نہیں یارو

خود افسانہ بنی بیٹھی ہے جو افسانہ پڑھتی تھی!

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

٭٭٭

 

 

 

ڈائٹنگ

 

آہ بھرتی ہوئی آئی ہو سلمنگ سینٹر

آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک

ڈائٹنگ کھیل نہیں چند دنوں کا بیگم

اِک صدی چاہیے کمرے کو کمر ہونے تک

 

تھرڈ ورلڈ

 

گِھری رہتی ہے جو افلاس کے بحران میں ساری

صدی اکیسویں اُن پر نہ ہو جائے کہیں بھاری

خدایا تیسری دنیا کی یہ قومیں کِدھر جائیں

جو آدھی ایڈ پر زندہ ہیں ،آدھی ایڈ کی ماری

 

قربتیں اور فاصلے

 

مزا آنے لگا ہے اِک دوسرے سے کٹ کے جینے میں

تعجب ہے کہ یہ جذبہ بھی انسانوں میں دیکھا ہے

بہو بیڈ رُوم میں،مطبخ میں ماں ،اسٹور میں ابا

گھروں میں اہلِ خانہ کو کئی خانوں میں دیکھا ہے

 

اوپر کی کمائی

 

جس کیس میں امکاں ہو اُوپر کی کمائی کا

اُس کام میں یہ بابو کرتے نہیں کوتاہی

اب چھین کے لیتے ہیں سائل سے وہ ’’نذرانہ‘‘

’’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُو باہی‘‘

 

مُنے کا بستہ

 

مُنے پر ہے اِتنا بوجھ کتابوں کا

بے چارے کو چلنے میں دشواری ہے

اُس کا بستہ دیکھ کے ایسا لگتا ہے

پی ایچ ۔ڈی سے آگے کی تیاری ہے

 

اصل میرٹ

 

بی ۔اے میں فرسٹ آیا تھا میرٹ کے زور پر

انٹرویو میں جا کے جو ہارا ہے آدمی

نا اہل ہو گیا مگر ’’سلیکٹ‘‘ اس لیے

اُوپر سے فون آیا ہمارا ہے آدمی

 

غزل

 

 

ہے یوں بشر کے ساتھ مقدر لگا ہوا

کُتے کے پیچھے جیسے ہو پتھر لگا ہوا

 

وہ شخص ہے کوئی بڑا افسر لگا ہوا

مکھن ہے جس کو پورا کنستر لگا ہوا

 

اُس نے مُجھے خدائے مجازی نہیں کہا

روزِ ازل سے جس کا ہوں شوہر لگا ہوا

 

کالج میں لیکچرر ہے تو بے کار شخص ہے

’’چونگی‘‘ میں ہے کلرک تو بہتر لگا ہوا

 

ایٹم کی جنگ چھیڑ نہ دیں سُپر طاقتیں

آدم کو آج کل ہے یہی ڈر لگا ہوا

 

چیزوں کی قیمتیں ہیں برابر چڑھی ہوئی

’’بازار جمعہ‘‘ بھی ہے برابر لگا ہوا

 

سینے سے یوں لگائے ہوئے ہوں کسی کی یاد

جیسے پُرانے کوٹ میں استر لگا ہوا

 

واعظ تری جبیں پہ جو کالا نشان ہے

ویسا نشان ہے مرے دِل پر لگا ہوا

 

یوں صاحبو ہمارے تعاقب میں ہے خزاں

دارا کے پیچھے جیسے سکندر لگا ہوا

 

بنگلہ نہیں ،پلاٹ نہیں کار بھی نہیں

کہنے کو سرفرازؔ ہے افسر لگا ہوا    ٭٭٭

 

غزل

 

منافع مشترک ہے اور خسارے ایک جیسے ہیں

کہ ہم دونوں کی قسمت کے ستارے ایک جیسے ہیں

 

میں اِک چھوٹا سا افسر ہوں ،وہ اِک موٹا سا مِل اونر

مگر دنوں کے ’’اِنکم گوشوارے‘‘ ایک جیسے ہیں

 

اِسے ضعف ِ بصیرت ہے ،اُسے ضعفِ بصارت ہے

ہمارے دیدہ ور سارے کے سارے ایک جیسے ہیں

 

مٹن اور دال کی قیمت برابر ہو گئی جب سے

یقیں آیا کہ دونوں میں حرارے ایک جیسے ہیں

 

جہاں بھر کے سیاسی دنگلوں میں ہم نے دیکھا ہے

’’انوکی‘‘ اِک سے اِک اُونچا ہے ’’جھارے‘‘ ایک جیسے ہیں

 

وہ تھانہ ہو، شفا خانہ یا پھر ڈاک خانہ ہو

رفاہِ عام کے سارے ادارے ایک جیسے ہیں

 

بَلا کا فرق ہے لندن کی گوری اور کالی میں

مگر دونوں کی آنکھوں میں اشارے ایک جیسے ہیں

 

ہر اِک بیگم اگرچہ منفرد ہے اپنی سج دھج میں

مگر جتنے بھی شوہر ہیں بِچارے ایک جیسے ہیں

 

گُماں ہوتا ہے شاہدؔ ریڈیو پر سُن کے موسیقی

کہ پکے راگ اور نمکیں غرارے ایک جیسے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاج محل

 

ڈاج کے نام سے جاناں تجھے الفت ہی سہی

ڈاج ہوٹل سے تجھے خاص عقیدت ہی سہی

اس کی چائے سے چکن سوپ سے رغبت ہی سہی

ڈاج کرنا بھی ازل سے تری عادت ہی سہی

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

 

قیس و لیلیٰ بھی تو کرتے تھے محبت لیکن

عشق بازی کے لئے دشت کو اپناتے تھے

ہم ہی احمق ہیں جو ہوٹل میں چلے آتے ہیں

وہ سمجھ دار تھے جنگل کو نکل جاتے تھے

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

 

کاش اس مرمریں ہوٹل کے بڑے مطبخ میں

تو نے پکتے ہوئے کھانوں کو تو دیکھا ہوتا

وہ جو مردار کے قیمے سے بھرے جاتے ہیں

کاش ان روغنی نانوں کو تو دیکھا ہوتا

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

 

جاناں! روزانہ ترے لنچ کا بل کیسے دوں

میں کوئی سیٹھ نہیں کوئی سمگلر بھی نہیں

مجھ کو ہوتی نہیں اوپر کی کمائی ہرگز

میں کسی دفتر مخصوص کا افسر بھی نہیں

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

 

گھاگ بیرے نے دکھا کر بڑا مہنگا مینو

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

عشق ہے مجھ سے تو ”کافی” ہی کو کافی سمجھو

میں منگا سکتا نہیں مرغ مسلم کا طباق

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے