کایستھ خاندان کی داستان ۔۔۔ ڈاکٹر نارائن راج/ محمد اسلم فارقی

نام کتاب           :           SAGA OF KAYASTH FAMILY {کائستھ خاندان کی داستان}

مصنف              :            ڈاکٹر نارائن راج

مبصر                 :           ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

ٍ            ہندوستان کے تکثیری سماج میں لوگوں کو ایک تہذیبی دھارے میں جوڑنے میں اردو زبان نے ہمیشہ سے اہم کردار ادا کیا ہے۔  اس زبان کے ذریعے اپنی گراں قدر خدمات انجام دینے والوں میں ابنائے وطن کے دیگر طبقات کے ساتھ ساتھ کائستھ طبقہ بھی پیش پیش رہا ہے۔ اور اس طبقے کے افراد نے نسل در نسل اہل ہند کی زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمت کی ہے۔  کائستھ طبقے کے لوگ یوپی بہار اور مدھیہ پردیش میں مقیم تھے۔  یہ لوگ بہ یک وقت مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور ہر دور میں حکومت کے قریب رہے۔  اس خاندان کی نامور شخصیات میں ڈاکٹر راجندر پرشاد‘لال بہادر شاستری‘نیتاجی سبھاش چندر بوس‘سوامی وویکانند‘اروبندو گھوش، شانتی سوروپ بھٹناگر، جادوناتھ سرکار،  پریم چند،  رام بابو سکسینہ ، راجہ گردھاری پرشاد باقیؔ وغیرہ شامل ہیں۔ حیدرآباد کی سماجی و تہذیبی تاریخ بھی کائستھوں کی خدمات سے بھری پڑی ہے۔  وقت کے گزرنے کے ساتھ ہم اپنی تاریخ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو قوم اپنے ماضی کے سرمایے سے واقف نہ ہو اور اس کے تجربات سے استفادہ نہ کرے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔  چنانچہ ہندوستان اور خاص طور سے دور آصفی میں حیدرآباد میں کائستھوں کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے یہاں سات پیڑھیوں سے موجود کائستھ خاندان کے ایک چشم و چراغ ڈاکٹر نارائن راج نے اپنی تصنیف ’’Saga of Kayasth Family کائستھ خاندان کی داستان‘‘  میں اپنے اسلاف کے کارناموں کو حیدرآباد کی تاریخ کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ اپنے خاندان کی سات پشتوں کے نامور افراد کے کارناموں کو اجاگر کرتی یہ انگریزی تصنیف گیان پبلشنگ ہاؤز نئی دہلی نے شائع کی ہے۔  کتاب کے مصنف ڈاکٹر نارائن راج نرہری پرشاد چاریٹیبل ٹرسٹ کے مینیجنگ ٹرسٹی اور ڈاکٹر زور فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ٹرسٹی ہیں۔ انہوں نے اردو اور فارسی میں کتابیں تالیف کی ہیں۔  اور ’’دی مغلس‘‘ نامی انگریزی کتاب کے شریک مصنف بھی ہیں۔ اپنی تازہ تصنیف میں انہوں نے گیارہ ابو اب میں اپنے اسلاف دولت رائے۔ راجہ رام۔ سوامی پرساد۔ راجہ نرہری پرشاد۔ بنسی راجہ گردھاری پرشاد باقیؔ۔ راجہ نرسنگ راج عالیؔ۔  رائے نرہر راج ساقی۔ ڈاکٹر بھاسکر راج۔  محبوب راج محبوب اور ڈاکٹر شیلا راج کی حیات اور ان کی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔  حیدرآباد میں 1724ء میں نواب قمر الدین خاں کو مغل بادشاہ محمد شاہ نے دکن کا صوبہ دار مقرر کیا تھا جو بعد میں نظام الملک آصف جاہ اول کہلائے۔ انہوں نے جب دہلی سے اورنگ آباد کے لئے کوچ کیاتو بہت سے تجربہ کار اور قابل اعتماد عہدہ داروں کو اپنے ساتھ دکن لیتے آئے۔  دولت رائے کا شمار بھی ان چند اہم شخصیتوں میں سے تھاجو دہلی کے کائستھ گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔  اور اسی خاندان کی سات پشتوں نے دور آصفی میں اہم خدمات انجام دیتے ہوئے حیدرآباد کی تاریخ میں اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔  جس کی تاریخ زیر نظر کتاب ’’ کائستھ خاندان کی داستان ‘‘  میں پیش ہوئی ہے۔ اس کتاب میں آصف جاہی دور کی ادبی تاریخ بھی پیش کی گئی ہے۔ اس کتاب سے کائستھ خاندان کی ریاست حیدرآباد کے لیے مجموعی خدمات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح اس خاندان کے افراد نے اپنی بے مثال خدمات سے آصف جاہی سلاطین کا دل جیتا تھا اور وہ حکومت کے اہم منصبوں پر فائز رہے۔ چونکہ کائستھ خاندان کے لوگ اردو ، فارسی ، سنسکرت اور ہندی پر عبور رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے سلاطین آصفیہ کی خدمات کے ساتھ شعر و ادب میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئے جن کا ذکر اس تصنیف میں کیا گیا ہے۔  ’’کائستھ خاندان کی داستان‘‘  کتاب گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ اور اس میں زمانی ترتیب کے اعتبار سے خاندان کے افراد کی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس خاندان کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ آصف جاہی سلاطین کے دربار میں اہم عہدوں پر تو فائز تھے لیکن یہ فارسی اور اردو زبانوں کے علاوہ برج بھاشا ، سنسکرت اور ہندی پر بھی عبور رکھتے تھے۔

کتاب کا پہلا باب کائستھ خاندان کے تعارف اور ان کی مجموعی خدمات پر مبنی ہے۔  دوسرے باب میں حیدرآباد میں کائستھ خاندان کے بانی دولت رائے اور ان کے فرزند راج رام کی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ دولت رائے کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے رائے راجہ رام کو نواب نظام علی خاں آصف جاہ دوم نے ان کے والد کی خدمت ہی پر مامور کیا۔ اور انہیں ملک کے اہم منصبوں پر فائز کیا وہ حکومت کے 36محکموں بشمول مطبخ شاہی کے نگران بھی تھے۔ انہوں نے بھکتی کال سے متاثر ہو کر چندرا گپت مہاتم کتاب لکھی۔ کتاب کے تیسرے باب میں راجہ رام کے فرزند سوامی پرشاد کی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔  آصف جاہی سلاطین نے انہیں رائے کا خطاب دیا تھا۔  آصف جاہ سوم نے سوامی پرشاد کو قلعہ آصف جاہی کی پیشکاری دی اور انہیں شاہی گھرانے کا منتظم بنایا۔ سوامی پرشاد ہندی فارسی اور اردو کے عالم تھے۔  اور اصغرؔ تخلص اختیار کیا تھا۔  انہوں نے تینوں زبانوں میں شعر کہے تھے۔  اصغرؔ کی اردو فارسی غزلیات اور کلام کے مجموعے مرتب ہوئے تھے جو کتب خانہ آصفیہ میں تھے جس کا ذکر نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب ’’دکنی ہندی اور اردو‘‘ میں کیا ہے۔ کتاب کے چوتھے باب میں ڈاکٹر نارائن راج نے سوامی پرساد اصغر کے بیٹے رائے نرہری پرساد کی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔  1861ء میں نظام نے انہیں رائے کے خطاب سے سرفراز کیا تھا اور پانچ صدی منصب بھی عطا کی تھی۔ سنسکرت کی مشہور گرنتھ (کتاب) ’’یوگ وشٹ‘‘ جو سارے عالم میں شہرت رکھتی ہے اس کا منظوم ترجمہ سن 1858ء میں ہندی میں کیا تھا اور اس کو ’’نرہری پرکاش ‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ ڈاکٹر نارائن راج نے لکھا کہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں شعبہ ہندی کے اسکالر امیش کمار شرما نے نرہری پرشاد کی تخلیقات کا جائزہ پر ایم فل تحقیقی مقالہ لکھا۔ اور نرہری پرشاد کے نام سے شعبہ ہندی میں گولڈ میڈل بھی متعارف کروایا گیا۔

کتاب کا پانچواں باب راجہ گردھاری پرشاد باقیؔ سے متعلق ہے ’’راجہ گردھاری پرشاد باقی سنسکرت، ہندی اور فارسی کے عالم تھے اس خاندان میں فن شاعری اور تصوف کا مذاق وراثتاً چلا آ رہا ہے۔  ان کو نواب میر محبوب علی خاں کے اتالیق بھی ہونے کا شرف حاصل رہا۔ ڈاکٹر نارائن راج نے لکھا کہ آصف سادس کو بنسی راجہ پر بہت بھروسہ تھا اور وہ حکومت کے کام کاج کے سلسلے میں ان سے مشاورت کرتے تھے اور انہیں شاہی خاندان کی تقاریب کی اہم ذمہ داریاں تفویض کرتے تھے۔  بنسی راجہ نے حیدرآباد میں اسلحہ سازی اور دیگر ضروریات کے کئی کارخانے قائم کئے۔  انہوں نے 1850ء تا 1896ء تک ہندوستان کے گوشے گوشے کا دورہ کیا اور تفصیلی طور پر سفر کے حالات بھی قلمبند کئے وہ جہاں بھی جاتے نظام کی طرف سے منادر اور درگاہوں پر چڑھاوا چڑھاتے۔ بنسی راجہ باقیؔ کو ملازمت کی گوناں گوں مصروفیتوں کے باوجود مطالعہ تصنیف و تالیف اور شاعری کا بہت ذوق تھا۔ دیگر زبانوں میں کتابوں کے علاوہ ان کی اردو تصانیف(۱) پتی چرتر(سوانح عمری بھاسکر آنند سرسوتی) (۲) تحقیقات سپاس باقی (۳) بقائے باقی (اردو دیوان) (۴) دردِ باقی و دردِ ساقی۔ ہیں۔ ان کا ایک شعر اس طرح ہے۔

یہ بلا ہے یا فکر انسان کو

خوار کرتی ہے جسم کو جان کو

کتاب کائستھ خاندان کی داستان کا چھٹا باب اس خاندان کے ایک اور چشم چراغ راجا نرسنگ راج عالی سے متعلق ہے۔  جو راجہ گردھاری پرشاد باقیؔ کے چوتھے فرزند تھے۔ راجہ گردھاری پرشاد باقیؔ کے اچانک انتقال پر نواب میر محبوب علی خان بہادر کو بہت صدمہ پہنچا تھا اس لئے انہوں نے راجہ نرسنگ راج عالی کو برچم خسروانہ رسم پرسہ میں سفید دوشالہ سے سرفراز فرمایا تھا نیزاسٹیٹ کورٹ آف وارڈ علاقہ صرف خاص کی نگرانی پر مقرر فرمایا۔۔ راجہ نرسنگ راج عالیؔ کو مہاراجہ کشن پرشاد شاد نہایت عزیز رکھتے تھے۔  نواب میر محبوب علی خان کے چالیسویں یوم پیدائش کے جشن کے موقع پر انہیں ’’ راج بہادر‘‘  کا خطاب دیا گیا۔ بہرحال راجہ نرسنگ راج عالیؔ ایک علم دوست شاعر، ملی جلی تہذیب اور ہندو مسلم اتحاد کے ایک بہترین نمونہ تھے آپ کے کلام میں سادگی اور صوفیانہ زندگی کی جھلک تھی۔ ان کی ایک مشہور نظم ہند نامہ ہے جس کے اشعار اس طرح ہیں:

تیرا جلال اور جمال ہے یہ

تجھ پہ مرتے ہیں سب کمال ہے یہ

دونوں قوموں کی تو ہی مادر ہے

سب پجاری ہیں تو ہی مندر ہے

دل دیتا ہے دعا یہ عالیؔ

اور ہو تیرا مرتبہ عالی

کتاب کا ساتواں باب رائے نرہر راج ساقی کے بارے میں ہے جو راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے بڑے فرزند تھے۔ رائے نرہر راج کو اپنے والد محترم کے ساتھ شادؔ  کی محفلوں اور مشاعروں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔  حضرت شادؔ کے دربار کے علاوہ دیگر امرائے دکن کے شعر و سخن کی محفلوں میں بھی آپ برابر شریک رہتے تھے۔  راجہ صاحب نے فطری طور پر ایک شاعر کا دل پایا تھا۔  آپ نہ صرف علم دوست بلکہ علم پرور بھی تھے۔  آپ عجز و انکسار اور اخلاق کا مجسمہ تھے۔  راجہ صاحب کے کلام میں تصوف اور معرفت کی جھلک پائی جاتی ہے۔  ان کی غزلیات میں بھی بعض جگہ حضرت داغؔ کا رنگ نمایاں ہے۔

راجہ صاحب کے چند منتخبہ اشعار یہ پیش کئے جا رہے ہیں۔

کعبے میں چلے جاؤ یا بت خانے میں جاؤ

جز نام خدا اور کوئی نام نہیں ہے

کتاب کا آٹھواں باب ڈاکٹر بھاسکر راج سے متعلق ہے جو رائے نرہر راج کے فرزند تھے۔ وہ 1934ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی۔  سرکاری ملازمت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے وہ اردو ہندی اور انگریزی کے بہت اچھے مقرر تھے۔ انہوں نے ساٹھ 60 سے زائد مضامین لکھے۔  ان کی یاد میں یونیورسٹی آف حیدرآباد کے شعبہ ہندی میں میڈل دیا جاتا ہے۔ کتاب کے نویں باب میں محبوب راج محبوب کا ذکر ہے۔ ’’راجہ گردھاری پرشاد باقیؔ کے چھوٹے بیٹے راجہ محبوب راج 1312ھ کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ اپنے بچپن کا زمانہ اپنے بھائی راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے ساتھ گذارا ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ و گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہوئی۔  ملازمت اختیار کرنے سے قبل زراعت کی جانب مائل تھے اور اس کے بعد صنعت و حرفت کی طرف رجوع ہوئے اور کارخانہ صنائع دکن قائم کر کے اس کو بے انتہا فروغ دیا۔  ابتداء میں حضرت کشن پرشاد شادؔ کی شاگردی اختیار کی۔  بعد میں نواب فصاحت جنگ بہادر جلیلؔ کے شاگرد ہوئے۔  دیوڑھی عالی جناب سر مہاراجہ بہادر میں جو مشاعرے ہوتے تھے ان میں راجہ صاحب ہمیشہ اپنی غزل سناتے اور ہر شعر پرداد و تحسین حاصل کرتے۔ راجہ محبوب راج کو اپنی خاندانی وجاہت آباء و اجداد اور اپنے والد بزرگوار راجہ گردھاری پرشاد محبوب نواز ونت باقیؔ پر بڑا فخر و ناز تھا اور ہمیشہ اس کا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔

محبوب جس قدر بھی کرو ناز ہے بجا

تم ان کی یادگار ہو جو نام کر گئے

کائستھ خاندان میں خواتین نے بھی اپنی علمی و ادبی خدمات سے اپنا نام روشن کیا۔  چنانچہ کتاب کے دسویں باب میں ڈاکٹر نارائن راج نے ڈاکٹر شیلا راج کی خدمات کا احاطہ کیا جو مصنف کی اہلیہ بھی تھیں۔ شیلا راج نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔  کچھ عرصہ محبوبیہ کالج مین اردو لیکچرر رہیں۔  شادی کے بعد بمبئی منتقل ہو گئیں اور وہاں سے حیدرآباد کی معاشی و تہذیبی تاریخ پر پی ایچ ڈی کیا۔ وہ اچھی مورخ تھیں اور آصف جاہی دور کے بارے میں اتھاریٹی سمجھی جاتی تھیں انہیں حیدرآبادی تہذیب سے پیار تھا چنانچہ انہوں نے اپنی بیشتر تصانیف آصف جاہی دور کے بارے میں لکھیں۔ جن میں ایک اہم کتاب شاہانِ آصفیہ کی رواداری اور ہندو مسلم روایات ہے۔  ڈاکٹر شیلا راج کی علمی و ادبی خدمات پر حیدرآباد کے ابھرتے قلمکار ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل نے حال ہی میں عثمانیہ یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ہے۔  ڈاکٹر نارائن راج نے اپنی تصنیف کے اختتامی باب میں اپنے اسلاف کی خدمات کا مجموعی احاطہ کیا ہے۔  کتاب کے اختتام پر ڈاکٹر نارائن راج لکھتے ہیں:  دولت رائے خاندان کے بارے میں لکھتے ہوئے نہ صرف میں نے اس خاندان کی ادبی خدمات کو اجاگر کیا ہے بلکہ اس خاندان کے افراد کے آصف جاہی سلاطین سے قریبی روابط کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس خاندان نے کس طرح دور آصفی میں سیاسی ، سماجی، تہذیبی و ثقافتی شعبوں میں دوسو سال تک خدمات انجام دیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے ہماری نئی نسل کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح گزشتہ حیدرآباد میں لوگ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اعلیٰ مثال تھے۔  مجموعی طور پر یہ کتاب آصف جاہی دور کے ان گوشوں کو بھی اجاگر کرتی ہے جو تاریخ میں گمشدہ تھے۔  خاص طور سے اس کتاب میں اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ سلاطین آصفیہ کی رواداری مثالی تھی۔ یہ کتاب حیدرآباد کی سماجی ثقافتی و ادبی تاریخ پر گراں قدر اضافہ ہے۔  کتاب میں کائستھ خاندان کے افراد کی تصاویر بھی شامل کی گئیں ہیں اور رومن اردو میں اشعار بھی پیش کئے گئے ہیں۔  کتاب میں سادہ اور بیانیہ انداز میں واقعات اور تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔  تاہم قاری کو اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کو خود بھی حیدرآبادی تہذیب سے پیار تھا اور وہ اپنے اسلاف کے لیے سلاطین آصف جاہی کی جانب سے ملے اعزاز و اکرام پر ایک طرح کا اظہار تشکر کر رہا ہو۔  ایک ایسے دور میں جب کہ کچھ لوگ حیدرآباد کے زرین ماضی کو بھلانے تاریخ کو غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور محسن ریاست حیدرآباد سلاطین آصفیہ کی رواداری پر شک کر رہے ہیں ڈاکٹر نارائن راج کی یہ تصنیف حیدرآباد کے شاندار ماضی کے احیاء کی ایک اچھی کوشش سمجھی جائے گی۔  امید ہے کہ اس کتاب کا اردو میں بھی ترجمہ ہو گا۔  تاکہ کائستھ خاندان کی یہ داستان اہل اردو بھی پڑھ سکیں گے۔  خوبصورت طباعت اور سر ورق سے آراستہ اس کتاب کی قیمت 900 روپئے ہے جو فاضل مصنف سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے