ڈاڑھ کا درد ۔۔۔ نصرت ظہیر

 

ڈاڑھ کا درد وہ درد ہے، جسے انسان کا پورا جسم محسوس کرتا ہے، سوائے داڑھ کے! جب یہ ہوتا ہے تو انسان انسان نہیں رہتا۔ سمٹ کر ایک داڑھ بن جاتا ہے، جو یہاں سے وہاں لڑھکتی پھرتی ہے۔ اس مشاہدے کا بیان میں نے میاں عبد القدوس سے کیا تو کہنے لگے کہ بات تم نے اچھی کہی ہے، لیکن یوں کہتے تو زیادہ اچھا رہتا کہ جب داڑھ میں درد جاگتا ہے تو وہ پھیل کر انسان بن جاتی ہے اور اس کے ساتھ وہی سلوک کرنے لگتی ہے جو وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی خود تو پتہ نہیں کس غرور میں پھولا رہتا ہے اور باقی سب کو دکھ پہنچائے جاتا ہے۔ چنانچہ داڑھ اور اس کے درد کے لئے ہی علامتاً کہا گیا ہے کہ: سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے!

مجھے ایک بار پھر ان کے حسنِ تحریف و تحذیف کی داد دینا پڑی کہ ذرا سے لفظی ہیر پھیر سے انہوں نے شاعر کے مصرعے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ ایک روز پھر اُن کی رگِ فلسفہ پھڑکی تو فرمایا: انسان کی شخصیت میں دو چیزیں ایسی ہیں، جو اس کے کردار اور مستقبل پر دور تک اور دیر تک اثر ڈالتی ہیں۔ داڑھ اور داڑھی! مگر موخر الذکر صرف آدھی انسانیت پر اپنے نیک و بد اثرات مرتب کر سکتی ہے۔‘‘

’’آدھی انسانیت! یعنی؟‘‘مجھے پوچھنا پڑا۔

’’بھئی عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی نا، اس لئے نصف انسانیت کہا ہے۔ خواتین کو نیک و بد اثرات مرتب کرانے کے لئے داڑھی کا نہیں داڑھی والوں کا احسان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘

خاں صاحب کچھ بھی کہیں میرا بہر حال یہ عقیدہ ہے کہ داڑھ کے درد سے انسان کی شخصیت آدھی کیا چوتھائی بھی نہیں رہ جاتی۔ البتہ خود میرا جب اس درد سے پہلی بار واسطہ پڑا تو بے اختیار مجتبیٰ حسین کی داڑھ کا درد یاد آ گیا، جس کا بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ داڑھ دُکھتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے منھ میں درد کی قوسِ قزح کھل اٹھی ہے! درد کی ایسی جمالیات دنیا کی کسی داڑھ کو نصیب نہ ہوئی ہو گی۔ مجتبیٰ صاحب داڑھ کے درد پر پورا مضمون لکھنے کی بجائے بس یہ ایک جملہ لکھ دیتے تب بھی مضمون کی مقبولیت میں کمی نہ آتی۔ یقین کیجئے مجتبیٰ صاحب کا جملہ یاد کر کے اس کی لذت سے کچھ دیر کے لئے میں اپنی داڑھ کا درد بھی بھول گیا کہ ان کی داڑھ بہر حال اردو کے مزاحیہ ادب میں میری داڑھ سے کہیں زیادہ بڑی اور سینئر ہے۔ آخر جب ڈاکٹر کی دی ہوئی دافع درد Pain Killer گولی منھ میں ڈالی، تب جا کر درد کو ہوش آیا اور گھر والوں کو ہی نہیں بلکہ کچھ دیر بعد پڑوسیوں کو بھی معلوم ہو گیا کہ ان کے آس پاس کوئی داڑھ درد میں مبتلا ہو چکی ہے اور یہ کوئی بھوکی بلی نہیں، بلکہ ایک انسانی داڑھ شور مچا رہی ہے۔

یوں تو دنیا میں طرح طرح کے درد پائے جاتے ہیں۔ پیٹ کا درد، گردے کا درد، گھٹنے کا درد، گردن کا درد، سر کا درد، دل کا درد جیسے انفرادی دردوں کے علاوہ ایک اجتماعی درد موسوم بہ ’ملت کا درد‘ بھی ہے جو عام طور سے مسلم قائدین میں پایا جاتا ہے اور جسے قائدِ ملت کے ساتھ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن درد کی نوعیت کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ تمام درد، داڑھ کے درد کے آگے دودھ پیتے بچے ہیں، یعنی داڑھ کے درد کو آپ بابائے درد یا دردِ اعظم بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہ لگے تو دردوں کا مغل اعظم کہہ لیجئے۔

یوں تو درد کی طرح داڑھوں کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ پہلی داڑھ، دوسری داڑھ اور تیسری داڑھ تو نام سے ظاہر ہے کہ کن داڑھوں کو کہتے ہیں۔ ایک عقل داڑھ ہوتی ہے جو بالعموم جوانی میں نکلتی ہے۔ عقل داڑھ کے نکلتے ہی آدمی بے وقوفیاں شروع کر دیتا ہے۔ وہ بے وقوفیاں جنہیں وہ تمام عمر جھیلتا اور ڈھوتا ہے۔ شادی بالعموم عقل داڑھ نکلنے کے بعد انسان کی پہلی ایسی حماقت ہوتی ہے، جس کا وہ بڑی شان، بڑی آرزو اور بڑی دھوم دھام سے ارتکاب کرتا ہے اور مسلمانوں میں تو یہ حماقت، صاحبِ داڑھ و داڑھی کے باقاعدہ ایجاب و قبول اور گواہان کی موجودگی میں کرائی جاتی ہے تاکہ بعد میں وہ حماقت سے منحرف نہ ہو سکے۔ داڑھ کے باقی درد تو اپنی اپنی طے شدہ مدت پوری کر کے رفع دفع ہو جاتے ہیں، لیکن عقل داڑھ کا یہ منکوحہ درد انسان کا تب تک پیچھا نہیں چھوڑتا، جب تک وہ نوبت نہ آ جائے جس کی آرزو مرزا غالب نے اپنے ایک خط میں حبسِ دم کے اور ایک شعر میں قیدِ حیات و بندِ غم کے حوالوں سے کی تھی۔ یا پھر وہ صورت نہ پیدا ہو جائے، جس کا جشن مناتے ہوئے مزاح کے ایک شاعر نے مرزا کے شعر پر اپنا مصرعہ چپکا کرکہا تھا کہ:

بیویاں مرتی گئیں میں شادیاں کرتا گیا

مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں

داڑھ کے درد میں مختلف لوگوں کے مختلف ردِّ عمل ہوا کرتے ہیں۔ تاہم ایک مشترک ردِّ عمل یہ ہے کہ لوگ کان اور گال پر ہاتھ یا رو مال رکھ کر علامہ اقبال کی تصویر بنے دنیا کی بے ثباتی پر غور کرتے رہتے ہیں۔ کئی بار موبائل فون پر دیر تک باتیں سننے والی لڑکیوں کو دیکھ کر بھی یہ شبہ ہو جاتا ہے۔

ایک مرتبہ دفتر کے ایک ساتھی اسی طرح بڑی دیر سے ایک کان کو رو مال سے دبائے بیٹھے تھے۔ موصوف کرکٹ کے کم اور اس کی کمنٹری کے زیادہ شوقین تھے، اس لئے فوراً سمجھ میں آ گیا کہ پاکٹ ٹرانزسٹر کان سے لگائے کرکٹ کمنٹری سن رہے ہیں اور ٹرانزسٹر کو رو مال سے اس لئے چھپا رکھا ہے تاکہ ہر آنے جانے والا بار بار اسکور پوچھ کر مزہ خراب نہ کر سکے۔ چہرے پر درد اور تکلیف کے جو آثار تھے، ان سے تازہ اسکور صاف پڑھا جا رہا تھا کہ یقیناً ان کی محبوب ٹیم اس وقت خطرے میں تھی۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں پورا اسکور جاننے کی ایسی تڑپ اٹھی کہ ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔

’’مجھے افسوس ہے‘‘ میں نے کہا۔

’’شکریہ!‘‘ وہ بولے۔

’’غم نہ کیجئے یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے۔‘‘ میں نے تسلی دی۔

’’جی ہاں ! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا۔

جی تو چاہتا تھا کہ اب فوراً ان سے اسکور پوچھ لوں، مگروہ اتنے غمزدہ لگ رہے تھے کہ ہمت نہ ہوئی، اس لئے سوچا کہ انھیں باتوں میں لگا کر دھیرے دھیرے مطلب کی بات پر آنا چاہیے۔ ’’ویسے شروع کب ہوا تھا؟‘‘ میں نے میچ کے بارے میں پوچھا۔

’’آج صبح ہی، جب دفتر آ رہا تھا تو راستے میں اچانک شروع ہو گیا۔‘‘ وہ باقاعدہ کراہ کر بولے۔

’’اوہ! اب تو لنچ ہونے والا ہو گا۔‘‘

’’جی ہاں! دس منٹ اور ہیں۔‘‘ انھوں نے دفتر کی گھڑی دیکھ کر کہا۔

’’کون سا اوور چل رہا ہے‘‘ میں نے دھیرے سے پوچھا۔

وہ عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے، پھر آپ ہی بولے۔ ’’مگر اوور ٹائم تو میں کرتا ہی نہیں۔‘‘

’’میں اوور ٹائم کی نہیں، اوور کی بات کر رہا ہوں۔ اب تک تو پینتالیس اوور ہو گئے ہوں گے۔‘‘

’’کیا مطلب!؟‘‘ ان کی آنکھوں سے غصہ جھلکنے لگا۔

’’مم… میرا مطلب ہے کہ …اس وقت کیا اسکور ہوا ہے۔‘‘

’’اسکور!‘‘ وہ دہاڑے۔ ’’ آپ کو کرکٹ سوجھ رہا ہے؟ اور میں داڑھ کے درد سے مرا جا رہا ہوں، یہ دیکھئے پوری داڑھ پھولی ہوئی ہے۔‘‘ انھوں نے منہ کھول دیا اور تب سمجھ میں آیا کہ انھوں نے رو مال سے دایاں کان اور گال کیوں دبا رکھا تھا۔

اتفاق دیکھئے کہ ایک ہفتے بعد وہ پھر حکیم الامت کے پوز میں دکھائی دئیے۔ دیر سے دائیں کان اور گال پر رو مال رکھے افسردہ بیٹھے تھے۔ میں نے سوچا عیادت ہی کر لی جائے۔ ’’مجھے افسوس ہے‘‘ میں نے کہا۔

’’شکریہ!‘‘ وہ گھور کر بولے۔

’’داڑھ تو آپ نے نکلوادی تھی نا۔‘‘

’’جی ہاں نکلوادی تھی۔‘‘

’’چلیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کبھی کبھی داڑھ نکلوانے کے بعد بھی درد ہو جاتا ہے۔‘‘

’’کیا مطلب!؟‘‘

’’مطلب یہ کہ ہمارے خالو نے بھی ایک مرتبہ داڑھ نکلوائی تھی، مگر بعد میں اس میں مواد پڑ گیا اور سپٹک ہو گیا۔ خدا مغفرت کرے!‘‘

یہ سنتے ہی ان کی آنکھوں سے خوف جھلکنے لگا۔ بار بار گال دبا کرداڑھ والی جگہ کو ٹٹولنے لگے، بلکہ بعد میں تو منہ میں انگلی ڈال کر بھی مرحومہ کی جڑ کو زور سے دبایا۔ ’’مگر مجھے تو کوئی درد نہیں ہو رہا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا ’’ آپ مجھے خواہ مخواہ ڈرا رہے ہیں۔‘‘

’’درد نہیں ہو رہا ہے تو گال کو رو مال سے دبائے کیوں بیٹھے ہیں۔‘‘

’’گال… رومال۔ لاحول ولاقوۃ۔ یہ تو ٹرانزسٹر ہے جناب، کمنٹری سن رہا ہوں۔ ہماری ٹیم کی حالت بہت خراب ہے۔‘‘ انھوں نے رو مال سے ٹرانزسٹر نکال کر آنکھوں کے آگے لہرا دیا اور میں خفیف ہو کر رہ گیا۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے