پوری کتاب
یعقوب آسی
میں کیا لکھوں جب
خدا نے اس کی ثنا میں پوری کتاب لکھ دی
میں کیا کہوں جب
صفا و مروہ کے سنگ ریزوں میں
آج بھی وہ
شہادتِ اہلِ قریۂ جاں
مچل رہی ہے
میں دیکھتا ہوں
ملائے اعلیٰ کے نور ماتھے پہ
نور کرنوں میں
کلمۂ لا الٰہ الّا
ازل سے اب تک، دمک رہا ہے
میں سن رہا تھا
ابوالبشر نے خدائے ارض و سما سے پوچھا
الٰہِ آخر!یہ کیا لکھا ہے ؟
یہ کون ہستی ہے
جس کا اسمِ مبیں
ترے نام کے تسلسل میں
ضو فشاں ہے
کہا: یہ وہ ہے ، کہ وہ نہ ہوتا، تو تُو نہ ہوتا
یہ تیری عورت
یہ نقرئی جسم حور و غلماں
یہ برگ و بر اور یہ گل یہ خوشبو
یہ نغمۂ عندلیب رنگیں نوا، یہ چشمے
یہ کچھ نہ ہوتا
فلک نہ ہوتے ، ملک نہ ہوتے
یہ چاند تارے
یہ وسعتِ لامکاں نہ ہوتی
کمال یہ ہے کہ وہ نہ ہوتا
تو
تختِ عرشِ بریں نہ ہوتا
کہیں نہ ہوتا!
وہ حرفِ لولاک کا عظیم المقام وارث
نبئ اکرم، رسولِ آخر زماں ، محمد
سلام اس پر
سلام اس پر
وہ ذات ہے
کہ جلو میں جس کے
لکھوکہا بندگانِ عالی
گروہ اندر گروہ پیغمبرانِ عالی
صفیں بنائے
ہدایتوں کے چراغ تھامے
رواں دواں ہیں
ابوالبشر کو
خدا نے عرشِ بریں سے
فرشِ زمیں پہ بھیجا
مسیحِ عالم کو رفعتِ خلد سے نوازا
بلا شبہ اک مقام ذی احتشام ہے یہ
عطائے ربِ کریم ہے یہ
وہ محترم ہیں
وہ محترم ہیں
مرے نبی کا مقام لیکن
کہوں تو کیسے
کہ شہرِ افلاک
اس کے قدموں کی سیر گہ ہے
یہ واقعہ ہے !!
میں لکھ رہا ہوں
میں سوچتا ہوں
مگر وہ ہستی!
ورائے ادرک دیکھتا ہوں
تو کیا لکھوں جب
خدا نے اس کی ثنا میں
پوری کتاب
لکھ دی
***