کیا تم نے کبھی دیکھا ہے؟
کیا تم نے کبھی دیکھا ہے!
پولی تھین کے تھیلے میں
کوڑا کرکٹ کی بجائے
جیتا جاگتا انسان پڑا ہو
کیڑے مکوڑے کی طرح
میں نے دیکھا ہے
بلکہ روز دیکھتی ہوں
اس دوران
میرے اندر کا سناٹا اور باہر کا شور
آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں اور
میں اس ادھیڑ بن میں
چپ چاپ آگے بڑھ جاتی ہوں
اپنے ذہن میں
ایک نئی نظم کا گوشوارہ بناتے ہوئے!!
٭٭٭
چوگا چنتی چڑیا کے دُکھ
چوگا چنتی چڑیا تیری پلکوں پر اُگنے والے
خوابوں کے انکھوے
کون چُن سکتا ہے!
تو تو یہ بھی نہیں جانتی
جانے کب کوئی میلی نظروں کا جال تجھ پر پھینکے
اور تو بے نور آنکھوں کے پنجرے میں قید ہوکر
تمام عمر کے لیے
چہکنا بھول جائے
چڑیا تو تو پگلی ہے
چوگا چنتی خواب دیکھتی ہے
تجھے کیا معلوم ہے؟
کبھی کبھی خوابوں کی مانگ بھرنے کے لیے
آنکھوں کی ویران کھڑکیوں سے
ٹھٹھرے ہوئے رت جگے
بوند بوند دل کی زمین پر ٹپکتے ہیں تو
وہاں دور دور تک اُداسی بھرا جنگل
اُگ آتا ہے
جس پر سوائے دُکھ درد کے کوئی پھل نہیں لگتا
مگر بھولی چڑیا
تُو یہ سب نہیں جانتی
شاید کبھی جان بھی نہیں سکتی!!
٭٭٭
بھوک کی نظم اور بے بسی کا نوحہ
یہ مظلوم، بے چارے،فاقہ زدہ
ایک دو نہیں
پورے بائیس کروڑ ہیں
اس سے زیادہ ہو سکتے ہیں کم نہیں
روز مرتے ہیں
بھوک سے خود کشیاں کرتے ہیں
بم دھماکوں میں درد کا ایندھن بنتے ہیں
یہ بائیس کروڑ انسان نہیں ڈھانچے ہیں
خود کو اپنے اپنے پنجر میں ڈھونڈھتے ہیں
جہاں بھوک روحانیت کا لبادہ اوڑھے
پیٹ کے دوزخ میں
منٹو کا دوزخ نامہ پڑھتی ہے
ایک لمحے کے لیے ذرا سوچو
گنے اور دھان کے کھیتوں سے
ملوں تک پہنچتے پہنچتے
رسیلے خواب رستے میں
چوری ہو جائیں تو
ہری بھری پگڈنڈیوں، کچے خوشوں اور لہلہاتی ڈالیوں کا
زخمی احتجاج تو بنتا ہے مگر
سوکھے ہوئے ٹنڈ منڈ پیڑوں کی طرح
بائیس کروڑ چہرے خاموش ہیں
بھوک کی گٹھڑیاں پیٹ پر باندھے ہوئے
اک دوجے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں
کیا ہم مر جائیں گے؟
کیا ہم سب بھوک کی گٹھڑیاں بن جائیں گے؟
اب۔۔۔۔۔۔۔
بائیس کروڑ گٹھڑیاں میری جانب دیکھ رہی ہیں
اور میں!
میں اپنی یادداشت گم کر بیٹھی ہوں
اور میری نظم کا اختتامیہ
دیوار کے ساتھ لگ کر رو رہا ہے۔
٭٭٭