سنگ ساری
یہ سچ ہے ہاتھ کوئی اب نہیں اٹھتا
کوئی پتھر نہیں چلتا
مگر یہ بھی حقیقت ہے
کہ ہم پر سنگ ساری ہے
ہماری زیست بھاری ہے
مسلسل ضرب سے سر پھٹتا جاتا ہے
لہو کا دم رگوں میں گھٹتا جاتا ہے
رگ؍ جاں کٹتی جاتی ہے
بدن سے زندگانی چھٹتی جاتی ہے
یہ کیسی سنگ ساری ہے
کہ شکوہ بھی نہیں ممکن
کہ جس کی ضرب آنکھوں کو نہیں دکھتی
کہ جس کا زخم بھی خاموش رہتا ہے
لہو بہتا ہے لیکن جسم کے اندر ہی جم جاتا
کسی صورت کسی بھی آنکھ کے آگے نہیں آتا
عجب کاری گری سے
سنگ ساری ہم پہ ہوتی ہے
کہ پتھر جلتے رہتے ہیں
نظر آتے نہیں لیکن
ہماری زیست کا خوں ہوتا رہتا ہے
مگر دکھتا نہیں کچھ بھی
٭٭٭
چاند کے نام ایک پیغام
سنو چاند میرے زمینی !
مرا ایک پیغام بھی لے کے جاؤ
ذرا چاند ماموں سے کہنا کہ ماموں !
کبھی میں نے تجھ سے
کوئی چیز مانگی نہیں ہے
مگر آج جی چاہتا ہے
کہ کچھ تجھ سے مانگوں
کہ کل جو زمیں پر آگے صبح سورج
لیے روشنی کی نئی کچھ شعاعیں
دعا اس کے حق میں ذرا رب سے کرنا
کہ جب وہ زمیں پر شعاعیں لٹائے
تو چاروں طرف روشنی پھیل جائے
اندھیرا کسی سمت بھی رہ نہ پائے
دعا یہ بھی کرنا
کہ بادل کوئی سر پہ چھانے نہ پائے
دھواں کوئی رستے میں آنے نہ پائے
کہیں سے کوئی دھند گولا نہ آئے
مسافر کہیں کوئی ٹھوکر نہ کھائے
جو دکھتا تھا منظر کبھی اس زمیں پر
وہی منظر, خوش نما
چپے چپے میں جلوہ دکھائے
بصارت میں رنگوں کی دنیا بسائے
سماعت کو سر لہریوں سے سجائے
مرے چاند ماموں!
دعا یہ بھی کرنا
کہ رستے کا پتھر بھی ہو جائے پانی
بدل جائے پھر زندگی کی کہانی
٭٭٭