نظمیں ۔۔۔ عارفہ شہزاد

ساعتیں ادھوری ہیں

________________

ادھورا چہچہا

ہاتھوں کی پوروں نے

لکھا ہے

ادھوری نظم

ہونٹوں نے چنی ہے

ادھورا گیت

رستے میں کھڑا ہے

 

پرندے

راستہ بھولے ہوئے ہیں

گھنے جنگل میں

کوئل کوکتی ہے

کوئی خواہش ہے

اندر ہوکتی ہے!

 

ہوا کے ہاتھ سے

بہتی اداسی

خوشی بس پور بھر

بالکل ذرا سی

ذرا تو ٹھہرتے

جلدی ہی کیا تھی!

٭٭٭

 

گل مہر

___________

 

مرے گل مہر!

تیرے بازوؤں میں

ہے پگھلتی روشنی

جس کی طلب میں

جھومتی گاتی ہوائیں ہیں

یہ باران بہاراں رقص کرتا ہے

ترے رنگوں کے گیتوں سے!

 

مرے گل مہر!

تیرے آتشیں رنگوں کے دامن میں

یہ کیسی خوشبوؤں کی لو سلگتی ہے

دہکتے لب، کھلے عارض

مہکتے ہیں!

 

مرے گل مہر!

تیری چھاؤں میں

پھولوں کے بوسوں سے

عنابی، سرخ، نارنجی بہاریں اوڑھ لیں میں نے

یہ تو بھی جان لے اب سے

ترا ہر رنگ، میرا ہے!

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے