نظمیں ۔۔۔کنور نارائن

 

                   موت نے کہا

 

فون کی گھنٹی بجی

میں نے کہا — میں نہیں ہوں

اور کروٹ بدل کر سو گیا۔

 

دروازے کی گھنٹی بجی

میں نے کہا — میں نہیں ہوں

اور کروٹ بدل کر سو گیا۔

 

الارم کی گھنٹی بجی

میں نے کہا — میں نہیں ہوں

اور کروٹ بدل کر سو گیا۔

 

ایک دن

موت کی گھنٹی بجی ۔۔۔

ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا —

میں ہوں ۔۔۔  میں ہوں ۔۔۔  میں ہوں۔۔

موت نے کہا —

کروٹ بدل کر سو جاؤ۔

٭٭٭

 

 

                   کمرے میں دھوپ

 

ہوا اور دروازوں میں بحث ہوتی رہی،

دیواریں سنتی رہیں۔

دھوپ چپ چاپ ایک کرسی پر بیٹھی

کرنوں کے لئے اون کا سویٹر بنتی رہی۔

اچانک کسی بات پر بگڑ کر

ہوا نے دروازے کو تڑ سے

ایک تھپڑ جڑ دیا !

کھڑکیاں گرج اٹھیں،

اخبار اٹھ کر کھڑا ہو گیا،

کتابیں منھ اٹھائے دیکھتی رہیں،

پانی سے بھری صراحی فرش پر ٹوٹ پڑی،

میز کے ہاتھ سے قلم چھوٹ پڑی۔

دھوپ اٹھی اور بنا کچھ کہے

کمرے سے باہر چلی گئی۔

شام کو لوٹی تو دیکھا

ایک کہرام کے بعد گھر میں خاموشی تھی۔

انگڑائی لے کر پلنگ پر پڑ گئی،

پڑے پڑے کچھ سوچتی رہی،

سوچتے سوچتے نہ جانے کب سو گئی،

آنکھ کھلی تو دیکھا صبح ہو گئی۔

٭٭٭

 

 

 

                   اتنا کچھ تھا

 

اتنا کچھ تھا دنیا میں

لڑنے جھگڑنے کو

پر ایسا من ملا

کہ ذرا سے پیار میں ڈوبا رہا

اور جیون بیت گیا

٭٭٭

 

 

                   اچھا لگا

 

پارک میں بیٹھا رہا کچھ دیر تک

اچھا لگا،

پیڑ کی چھایا کا سکھ

اچھا لگا،

ڈال سے پتّہ گرا پتے کا من،

"اب چلوں” سوچا،

تو یہ اچھا لگا ۔۔۔

٭٭٭

 

 

                   دیواریں

 

اب میں ایک چھوٹے سے گھر

اور بہت بڑی دنیا میں رہتا ہوں

کبھی میں ایک بہت بڑے گھر

اور چھوٹی سی دنیا میں رہتا تھا

کم دیواروں سے

بڑا فرق پڑتا ہے

دیواریں نہ ہوں

تو دنیا سے بھی بڑا ہو جاتا ہے گھر۔

٭٭٭

 

                   گھبرا کر

 

وہ کسی امید سے میری سمت مڑا تھا

لیکن گھبرا کر وہ نہیں میں اس پر بھونک پڑا تھا۔

زیادہ تر کتے

پاگل نہیں ہوتے

نہ زیادہ تر جانور

حملہ آور

زیادہ تر آدمی

ڈاکو نہیں ہوتے

نہ زیادہ تر جیبوں میں چاقو

خطرناک تو دو چار ہی ہوتے لاکھوں میں

لیکن ان کی دہشت چوکنی  رہتی ہے ہماری آنکھوں میں۔

میں نے جسے پاگل سمجھ کر

دھتکار دیا تھا

وہ میرے بچے کو ڈھونڈ رہا تھا

جس نے اسے پیار دیا تھا۔

٭٭٭

 

 

                   ایک سفر کے دوران۔ ۶

 

کچھ آوازیں۔

کوئی کسی کو لینے آیا ہے۔

کچھ اور آوازیں۔

کوئی کسی کو چھوڑنے آیا ہے۔

کسی کا کچھ چھوٹ گیا ہے۔

چھوٹتے اسٹیشن پر

چھوٹے وقت کی ہڑبڑی میں۔

اب ایک بج رہا اسٹیشن کی گھڑی میں۔

٭٭٭

 

                   ایک سفر کے دوران۔ ۹

 

شائد اسی وقت میں نے

گرتے دیکھا تھا ٹرین سے دو پاؤوں کو

اور چونک کر اٹھ بیٹھا تھا۔

پائتانے دو پاؤں

کیوں ہیں یہاں ؟ کیا کروں ان کا ؟

سوچا،  رات ہے ابھی،

صبح اتار لوں گا انھیں

اپنے سامان کے ساتھ۔

صبح ہوئی تو دیکھا

کندھوں پر ڈھو رہے تھے مجھے

کسی اور کے پاؤں۔

ہفتے ۔۔۔ ۔۔

بیت گئے پل بھر میں،

’’ابّا! تم ؟ یہاں ؟‘‘

’’مجھے چاہئیے میرے پاؤں، ۔۔۔ ۔ واپس کرو انہیں۔ ‘‘

’’نہیں، وہ میرے ہیں : میں

ان کے سہارے پر ہوں۔

اور میرا خاندان :

میں انہیں نہیں دے سکتا تمہیں !‘‘

وہ ہنسنے لگے، ایک بے جان عجیب سی  ہنسی۔

کبھی کبھی کسی سخت  گھڑی میں ہم

جی ڈالتے ہیں ایک پوری زندگی – ایک پوری موت–

ایک پورا گمان کہ کون چل رہا ہے

کس کے پاؤوں پر ؟

٭٭٭

 

 

                   ایک سفر کے دوران۔ ۱۰

 

نیند کھل گئی تھی

شاید کسی بچے کے رونے سے

یا کسی ماں کے پریشان ہونے سے

یا کسی کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے

یا ٹرین کی رفتار کے دھیمی پڑنے سے

یا شاید اس گڑبڑ سے جو

اسٹیشن پاس آنے پر مچتی ہے ۔۔۔ ۔۔

باہر اندھیرا۔

اندر اتنا سب

ایک معمولی سی روشنی میں بھی جگ مگ

جاگتا اور جگاتا ہوا۔

ایک چھوٹا–سا پلیٹ فارم سرک کر پاس آتا

صبح کی روشنی میں،

ڈبے میں چڑھتے اترتے لوگوں کا تانتا

کوئی جگہ خالی کرتا

کوئی جگہ بناتا۔

٭٭٭

 

 

                   ایک سفر کے دوران۔ ۱۴

 

کچھ لوگ مجھے لینے آئے ہیں۔

میں انہیں نہیں جانتا

جیسے کچھ لوگ مجھے چھوڑنے آئے تھے

جنہیں میں جانتا تھا۔

ٹرین جا چکی ہے

ایک عارضی بھاگ دوڑ اور گڑبڑ کے بعد

پلیٹ فارم پھر ایک سناٹے میں جم گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

                   آدمی کا چہرہ

 

’قلی !‘ پکارتے ہی

کوئی میرے اندر چونکا۔

ایک آدمی آ کر کھڑا ہو گیا میرے پاس

سامان سر پر لادے

میری خودی سے دس قدم آگے

بڑھنے لگا وہ

جو کتنے ہی سفروں میں

ڈھو چکا تھا میرا سامان

میں نے اس کے چہرے سے اسے

کبھی نہیں پہچانا

صرف اس نمبر سے جانا

جو اسکی لال قمیض پر ٹنکا ہوتا

آج جب اپنا سامان خود اٹھایا

ایک آدمی کا چہرہ یاد آیا

٭٭٭

 

                   معمولی زندگی جیتے ہوئے

 

جانتا ہوں کہ میں

دنیا کو بدل نہیں سکتا،

نہ لڑ کر

اس سے جیت ہی سکتا ہوں

ہاں لڑتے لڑتے شہید ہو سکتا ہوں

اور اس سے آگے

ایک شہید کا مقبرہ

یا ایک اداکار کی طرح مشہور ۔۔۔

لیکن شہید ہونا

ایک بالکل مختلف طرح کا معاملہ ہے

بالکل معمولی زندگی جیتے ہوئے بھی

لوگ چپ چاپ شہید ہوتے دیکھے گئے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے