میں کسی کا نہیں ۔۔۔ دیوی ناگرانی

جس قانون کی تعمیل قدرت کرتی ہے، وہ ہم پر بھی لازمی ہوتا ہے۔ سورج روز صبح اگتا ہے، شام کو غروب ہو جاتا ہے، دوسرے دن نکلنے کے لئے۔ انسان جو پیدا ہوا ہے وہ ضرور ہی مرے گا، یہ بھی پتہ ہے۔ اس میں کوئی نئی بات تو ہے نہیں! تو نئی بات کون سی ہے جو کسی کے ساتھ نہ ہوتی ہو، یا جس کی جانکاری کسی کو نہ ہو؟پانچ عناصر کی اپج انسان انہیں بنیادی خصوصیات کی عوض ہر گزرتی فلم کا گواہ ہوتا ہے، جو روز صبح ہم سبھی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔

’اری او اینا مینا ڈیکا، چل اٹھ پونے سات بجے ہیں، ساڑھے سات بجے اگر سکول کی بس چھوٹ گئی تو داداجی کو تمہیں سکول چھوڑ کر آنا پڑے گا‘…

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بھگوان ایسا کیوں ہوتا ہے کہ میرے دن بھر کے معمول کے کاموں میں یہ سب ان چاہے کام شامل ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ بھی تقدیر میں لکھا ہے؟ کیا یہ سب آپ نے طے کیا ہوا ہے یا میری بہو ہی میرا مالکن بن بیٹھی ہے بھگوان؟‘ یہ ہیں گھر کے بزرگ رکن داداجی، جن کے من کی مینا چاہے ان چاہے، بے اختیار ہر وقت بول پڑتی ہے! غنیمت ہے کہ اسے کوئی اور سن نہیں پاتا!

’بہو اسے وقت سے پہلے اٹھا دیا کرو، کبھی نہ کبھی تو اسے خود کفیل ہونا ہی ہو گا۔ ابھی سے ہی یہ عادت ڈالنی ہو گی۔‘

’میں تو آواز دے دے کے تھک جاتی ہوں ڈیڈی، وہ بھی تو سنے۔۔ ۔۔ ۔!‘

یہ ہر دن کا قصہ ۔ہے۔  ایک عظیم منتر میری پوتی کو اٹھانے کا، جسے اٹھانے کی کوشش میں بہو میری نیند اڑا دیتی ہے۔ اسی سوچ سے گھبرا کر میں کچھ پہلے ہی اٹھ جاتا ہوں۔ میرے اٹھ جانے کے پہلے کوئی مجھے بار بار جتا کر، جگا کر سکول جانے کے لئے کہے یہ بات اس عمر میں کہاں پسند آتی ہے؟ اب سنئے، کل ہی کی تو بات ہے، میں صبح کی سیر کے لئے سمندر کنارے چلا گیا۔ وہاں کسی کو تیز رفتار سے پیدل کرتے، کسی کو دوڑتے ہوئے دیکھا۔ سب اپنی اپنی رفتار سے قدم بڑھاتے ہوئے چلے جاتے ہیں، چلتے جاتے ہیں۔ سب کا مقصد بھی یہی ہے، راستے کو منزل بنانا۔ کچھ لوگ سورج کی طرف منھ کر کے نمسکار کر رہے ہیں، تو کچھ لمبی سانسیں اندر لیتے ہوئے باہر چھوڑ رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ کچھ ایک دو کی سانسوں کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی، کچھ کی نہیں! کئی لوگ سیمنٹ کے بنے  بنے چبوترے پر سکھ آسن لگائے بیٹھے تھے جیسے وہ خود سكھانند کی شکل ہوں۔ کچھ تو چٹائیوں پر پلتھی مارے یوگ آسن کر رہے ہیں، کہیں پریانام کی مشق تو کہیں تراٹک کے بدلتے روپ دیکھنے کو مل رہے تھے۔ جوانوں کی ایک الگ ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ جوگنگ، جمپنگ، ہوپنگ، بس اچھل کود کے جدید ترین ایجاد کئے گئے طور طریقے۔ کچھ جوان لڑکیاں سائکلوں پر ایک دوسرے کے پیچھے قطار میں اس طرح ہوا سے باتیں کرتی ہوئی نکلی جا رہی ہیں، جیسے راستہ بھی پچھاڑ کھانے کو مجبور ہوا ہو۔ بچارا راستہ بھی ان کی رفتار سے ریس نہیں کر سکتا، گھس گیا ہے، پھر بھی راستہ ہی رہا ہے، آج تک منزل نہیں بن پایا! میں بھی روز اسی راستے سے گزرتا ہوں۔ اور کرنا بھی کیا ہے؟گزر جانے کے پہلے دور کی ہر راہ سے گزر جانا ہے۔ مایوسی سے گزرنا، خوشی سے گزرنا، رنجش کے ساتھ گزرنا …  مطلب گزر جانے سے ہے۔ دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ ہر دور سے گزرے بنا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ بس کوشش کرتا ہوں خوشی خوشی گزر جاؤں ہر اس راستے سے جو منزل کی طرف جاتا ہے۔ نا برابری کے دور میں ایک مساوات کی بات نے میرا دھیان کھینچا۔ سمندر کی لہروں اور انسان کے من کی اڑانوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں، یہ سچ واقع ہوا! ایک لہر کنارے سے اپنا سر ٹکرا کر لوٹتی، اور اس کے پیچھے دوسری لہر، پھر دوسری جا کر لوٹ آتی ہے، پھر ایک اور لہر اس آنے اور جانے کے سلسلے میں اپنا تعاون دیتی ہے۔ یہ دریا دلی ہر لہر کے سینے میں سمائی ہے، ایک لہر کے پیچھے دوسری اور پھر تیسری، اور یوں انگنت لہریں ازل سے اپنا ان تھک سلسلے وار سفر جاری رکھتی آ رہی ہیں۔ ٹھیک ایسا ہی کچھ دل کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ایک خیال دل کی دیوار سے ٹکرا کر لوٹتا ہی ہے، تو دوسرا پہلے ہی سر اٹھائے کھڑا رہتا ہے۔ اس لئے تو من کی مینا لگاتار کچھ نہ کچھ بولتی ہے، بولتی ہی رہتی ہے، کہاں چپ ہوتی ہے؟ آج کی بات ہی لے لو، سیر سپاٹے سے آٹھ بجے گھر لوٹا۔ آ کر دیکھا تو گھر میں کہرام مچا ہوا ہے۔ شور بھی ایسا، جیسے جنگی میدان ہو۔ بس سننے کی کوشش میں اچھا بھلا آدمی بہرا ہوا جاتا ہے۔ ٹرانسسٹر کی آواز، اس سے جڑے دو سپیکرس دس ہزار باتیں کرتے مونہوں کو چپ کرنے کرانے میں ماہر۔ کیا تو ان پر میوزک چل رہی ہے! میرا پوتا کانوں میں ایئر فون لگائے جھوم رہا ہے، کپڑے برائے نام، فقط کمر کے نیچے ‘برموڈا’ پہنے کمر یوں لچکا رہا ہے جیسے کوئی کھلونا سپرنگ سے جڑا ہوا ہو۔ میں نے جیسے ہی ہال کے دروازے کے اندر پاؤں دھرا، دیکھا بہو بھی کسرت کا ایک اکھاڑہ کھولے بیٹھی ہے۔ وہ سائکل پر سوار، جس کے فیتے تو پھر رہے تھے، پر وہ بھی شاید اس کے بوجھ سے چرمرا رہے تھے۔۔ ۔ …چیں۔۔ چیں ۔۔ جیسے اپنی قسمت کے چکر کو کوس رہے ہوں! سنا ہے کہ اس کسرت کرنے سے مٹاپا گھٹتا ہے، پر بھائی کوئی یہ بھی تو بتائے، آخر یہ مٹاپا آتا کہاں سے ہے؟

’ڈیڈی آپ آ گئے! میں آپ کے لئے چائے بناتی ہوں، تب تک آپ میرا ایک کام کریں پلیز۔ ‘سائیکل سے اترنے کی کٹھن کوشش کرتے ہوئے بہو نے کہا۔

’ہاں ہاں بیٹے کہو کیا کام ہے؟‘ میں نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ (میرے من کی مینا بھی کہاں چپ بیٹھتی ہے، دھیرے سے ہی سب کہہ دیتی ہے: مجھے دیکھتے ہی اسے کوئی نہ کوئی کام یاد آ ہی جاتا ہے۔ فالتو جو ہوں، کوئی کام تو کرتا نہیں ہوں۔ دن بھر گھر میں یا تو یوں پڑا رہتا ہوں، یا صبح شام سیر سپاٹے کے لئے کبھی سمندر کے کنارے، کبھی آس پاس کے باغیچے میں ہی جاتا رہتا ہوں!)

’ڈیڈی، میری سائکل کے فیتوں میں تھوڑا تیل لگا دیجیے، دیکھیئے نہ کیسے چیں …چیں کر رہے ہیں؟‘ (اب آپ ہی بتائیے میں کیا کہوں؟ میرے من میں بسی میری لاڑ لی مینا بہت کچھ کہہ دیتی ہے۔ سن کر بڑا ہی سکون ملتا ہے۔۔ ۔! جو میں نہیں کہتا، وہی کہہ دیتی ہے۔ ابھی بھی وہ کہے بن کہاں چپ بیٹھتی ہے۔ کہہ رہی ہے …۔۔ ۔۔ …چیں۔۔ چیں۔ کرے گی ہی، اس پر اتنا بوجھ جو ڈالتی ہو؟) کون سمجھایے ان عورتوں کو؟ وزن گھٹانے کے لئے وہ گھروں میں اور ہیلتھ کلبوں میں وقت نکال کر گھنٹوں کے گھنٹے برباد کرتی ہیں۔ پر ایسا کچھ کیوں نہیں کرتیں وہ، جس سے وزن بڑھ ہی نہ پائے، اور بہت ساری جانی بہجانی چیزیں برباد ہونے سے بچ جائیں جیسے یہ چرمراتی سائکل، گھر کے بڑوں کا سکھ چین، ان کا ایک جگہ بیٹھ کر اخبار پڑھنے کا سکھ، گھر میں لگی ہوئی بھگوان کی مورتیوں کے سامنے دھوپ دیپ جلا کر آرتی کرنے کا سکھ، اور کبھی زور سے ہنومان چالیسا یا گائتری منتر پڑھنے کا سکھ۔۔ ہاں سوتے وقت جتنا زور سے چاہوں، ہنومان چالیسا پڑھ پاتا ہوں۔ یہ آسانی ہے، کیونکہ اس وقت کوئی کہنے والا یا روک ٹوک کرنے والا گھر میں ہوتا ہی نہیں۔ سبھی یا تو کلب میں ہوتے ہیں یا کسی فیملی فرینڈ کے گھر کی پارٹی میں۔ سب کہنے سے میرا مطلب ہے بیٹا، بہو، پوتا اور پوتی۔ ان چار لوگوں کی ایک چوکڑی ہے (چانڈال چوکڑی نہیں کہوں گا۔۔ اپنوں کو کوئی ایسا کہتا ہے کیا؟ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا؟)

آخر بہو سائکل سے نیچے اتری ‘ابھی تیل لائی’ کہہ کر کڑی محنت سے نکلا پسینہ تولیے سے پونچھتے ہوئے غسل خانے میں گھس گئی۔ (مینا بھی مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔  نہ چائے نہ پانی، فقط پوچھا، یہی غنیمت!) خیر، میں نے خود کچن میں جا کر گیس کے چولہے پر چائے کا پانی چڑھایا ہی تھا کہ پیچھے سے ’ڈیڈ مجھے بھی آدھا کپ چائے دینا‘ کی آواز آئی۔ یہ میرا اکلوتا بیٹا تھا جو غالیچے پر  ڈمبل اٹھائے کبھی ایک ہاتھ اوپر کرتا تو کبھی دوسرا۔ اس سے پوچھیے، یہ سزا وہ اپنے آپ کو کیوں دے رہا ہے؟ کیا رات کو پارٹی میں کسی کے سامنے شیخی بگھارنی ہے کہ میں نے اتنی دیر، اتنا وزن اٹھایا؟ واہ رے زمانے، میں کسی اور کو تو بدل نہیں پایا، خود کو ہی بدل لیا ہے، اچھا کیا!

’چائے تو دیتا ہوں، پر یہ زمین پر پڑا میرا بستر تو ایک طرف کر دو۔ یوں بیچ میں پڑا رہے گا تو دن تمام روندا جائے گا۔ ‘ میں نے کچن سے باہر زمین پر پڑے میرے بستر کی اور اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

‘ڈیڈی آپ چنتا نہ کریں، سب ہو جائے گا۔ ’ یہ میرا بیٹے کا آسان جواب تھا۔

’ٹھیک ہے، رہنے دو۔ سب آپ ہی آپ ہو جائے گا۔۔ ۔۔!‘ میں نے چائے میں شکر ڈالتے ہوئے جیسے اپنے من کی کڑواہٹ کا گھونٹ بھرا۔

’صبح صبح ‘یہ کرو، وہ کرو’سے دن شروع مت کیجیے ڈیڈ۔ گھر میں کچھ شانتی ہو تو اچھا لگتا ہے، آپ بھی آنند لیجیے اوروں کو بھی مزا لینے دیں۔‘

’وہ تو ہے …۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔!‘ میں کیا کہتا، بچاری مینا بھی چپ رہ گئی۔

’ڈیڈ، ددو۔۔ ۔ پلیز تھوڑا آہستہ بات کیجیے، مجھے ڈسٹرب ہو رہا ہے!‘ یہ پوتا تھا۔ باپ سیر تو بیٹا سوا سیر!

من کی مینا بولی … ‘کیوں نہیں میرے لال۔ اب چپ ہی تو رہنا ہے، خاموشی کی دولت سے ہی تو خود کو مالامال کرنا ہے۔’

اور سچ میں میں نے چپی سادھ لی۔ خاموشی میں کتنی شیرینی ہے، کتنا سکون ہے، اس بات سے میرے من کی مینا ابھی تک واقف نہیں ہوئی ہے۔

’تھینکس۔۔ ددو، تھینکس ڈیڈ۔۔ ۔۔!‘ پوتے نے تہذیب کی نمائش کی۔ جانے کیوں میرا یہ پاگل من مانتا ہی نہیں؟ جیسے تن پنجرے میں قید من کہے ‘رام رام’ ویسے ہی میرے من کی مینا بھی کہے ‘رام رام، کیا زمانہ ہے؟ نہ بڑوں کے پیر چھونا، نہ آشیرواد لینا، نہ صلاح، نہ مشورہ، بس ‘پلیز’ اور ‘تھینک یو’ کے دو شبد کہہ دیتے ہیں، اوپر سے پھر ‘ساری’ کا مرہم بھی لگا دیتے ہیں۔ گھاؤ ٹھیک ہوا یا نہیں، یہ دیکھنا کسی کا کام نہیں ہے۔ کتنے گہرے گہرے گھاؤ دیتے ہیں اس پیڑھی کے فرمانبردار بچے! ایک چائے کی فرمائش کرتا ہے، تو دوسرا چپ رہنے کی فرمائش! ارے یہاں کوئی مجھے سننے والا نہیں ہے کیا؟ کیوں نہیں ہے؟ آج کیوں نہیں دکھائی دے رہی ہے میری جانِ جگر، میری روح کا سکون میری پوتی؟ کیا وہ آج ابھی تک اٹھی ہی نہیں ہے؟ ساڑھے سات بج چکے ہیں۔ ارے میں بھی کتنا بھلکڑ ہوں! آج توا توار ہے وہ بارہ بجے کے پہلے کیا اٹھے گی؟ میری پوتی بھی نرالی ہے، اٹھ کر کبھی کسرت کرتی ہے، تو کبھی یوگا۔ وہ بھی آسان آسان۔ ‘مشکل’ والے کہتی ہے کہ بہت مشکل ہیں۔ میرے من کی مینا من ہی من مسکراتی ہے، پر کہتی کچھ نہیں۔ کہتی بھی ہے تو صرف میں ہی سن پاتا ہوں۔ ’مذاق ہے کیا ‘یوگ’ کرنا؟ جو روز روٹی کھاتی ہو، وہ آج تک کبھی خود پکائی نہیں، تو یوگ کیا …۔۔ ۔۔؟ بس کوشش کرتی رہو، سیکھ جاؤ گی۔ وقت سب کو سب کچھ سکھا دیتا ہے!‘یہ میری مینا ہے جو میرے اندر بیٹھی کھسر پھسر کر رہی ہے۔

’بیٹا یہ چائے لے، یہاں رکھی ہے۔ ‘ کہ کر میں اپنی پیالی لے کر ہال کے کونے میں میری مقررہ جگہ پر بیٹھ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ‘تھینکس’ کی آواز آئی۔

’ڈیڈی، تھوڑی چائے زیادہ ہے کیا؟ مجھے دو سپ چاہئیے۔ ‘

یہ میری بہو تھی جو غسل خانے سے ابھی ابھی نکل کر آئی ہے۔ میرا بستر روندتی ہوئی، میرے بغل میں صوفے پر بیٹھ کر اپنے بال برش سے سنوارنے لگی۔

’یہ لو بیٹے۔ ’ کہتے ہوئے میں نے وہ چائے کی پیالی، جو ابھی تک میرے ہونٹوں تک نہ آئی تھی اس کی طرف بڑھا دی۔ وہ چائے پینے لگی اور میں اٹھ کر بیچ میں پڑے ہوئے بستر کو لپیٹنے لگا۔

’ڈیڈی آپ چھوڑئے نہ، کیوں تکلیف کر رہے ہیں؟ میں چائے پی کر سب کر دیتی ہوں۔ ’

میں نے کچھ نہیں کہا۔ کیا کہوں؟ کس سے کہوں؟ کہوں پر کوئی سننے والا بھی تو ہو۔ اس شور کی بستی میں سبھی بہرے ہیں۔ چیخوں چلاؤں بھی، تو کون سنے گا؟ سچ کہتا ہے پوتا ‘آہستہ بات کرو’ پر یہاں بات کرنے کے لئے بچا ہی کیا ہے؟ ‘

سب کچھ بعد میں کرنے والی میری بہو بعد میں بہت کچھ بھول جاتی ہے۔ میں اگر اپنا بستر زمین سے نہ اٹھاؤں، تو دن بھر وہیں پڑا رہے گا، جانے کتنی بار روندا جائے پتہ نہیں! جب تک رات کو پھر اسے جھٹک کر اس پر سو نہ جاؤں۔ میرا ہے، میں اٹھاؤں، کون سی بڑی بات ہے؟’ پر ایک بات اسے یاد رہی ’سائکل کے لئے تیل لانا‘

’یہ لیجیے ڈیڈی!‘ میرے سامنے شیشی رکھتے ہوئے اس نے کہا۔ اور باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے غرور سے اعلان کیا ’میں سب کے لئے ناشتہ بناتی ہوں۔ ’ نا امیدی میں امید کی کرن! ہر اتوار کو تو ‘تاج’ سے لائے گئے ڈوسے، اڈلی، وڑے سانبھر، چٹنی اور گھر کی چائے کے ساتھ ‘برنچ’ ہوتا ہے، آج یہ۔۔ ۔۔، اچھا لگا!

‘ڈیڈی کچھ چاہئیے۔۔ ۔۔ ۔؟‘ حال میں آتے ہی بیٹے نے اپنے پن کے لہجے سے پوچھا۔ لگتا ہے وزن اٹھا کر تھک گیا ہے۔ میرا نہیں، ان ڈمبلس کا۔ میرا تھوڑا بھی بوجھ اگر وہ اٹھاتا، تو میرے من کا بہت سارا بوجھ کم ہو جاتا۔ اور یہ جو میرے من کی مینا بار بار بیچ میں بول پڑتی ہے وہ بھی شاید کچھ پر سکون ہو جائے!

’نہیں بیٹا مجھے کچھ نہیں چاہئیے ’ من کی مینا پھر بول اٹھی پر اس بار کچھ زیادہ دھیمے سے!(مجھے تو کچھ نہیں چاہئیے، تمہیں کیا چاہئیے؟ مجھے جو نہ چاہئیے تھا وہ بھی دے دیا ہے، یہ شور، یہ کروکشیتر جیسا گھر، بیٹھنے کے لئے کونے والا صوفہ، رات کو سونے کے لئے ایک بستر، اور کیا چاہئیے مجھے؟) میں مستقل کوشش کرتا ہوں کہ من کی مینا چپ بیٹھے تو میں بھی کچھ پل آرام کروں۔ پر وہ مانے تب نہ؟ وہ بولتی ہی رہتی ہے، نڈر بے خوف۔ کون اس سے کہے کہ وہ چپ ہو جائے، آہستہ بولے۔۔ ۔۔! میں نے اسے رات کی خاموشی میں بھی کہتے سنا ہے ‘جو لینے کے عادی ہو جائیں، وہ دینے کی پہل کیا کریں گے۔ جو زبان تک آئی چائے چھین لیتے ہیں، وہ مجھے کیا دیں گے؟یہ گھر میرا ہے، بچے میرے ہیں، یہ بستر میرا ہے، چائے میری …۔۔ ۔۔ ہوں …۔۔ ۔.۔۔ ۔۔ میری چائے ان کی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ میں کس کا ہوں؟

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے