مجھے میلان کنڈیرا کے یہ دو اقوال بہت اچھے لگتے ہیں:
1۔ خاموشی محبت کی جان نکال دیتی ہے
2۔ ہماری زندگی کی سب سے بڑی مہم جوئی، ہماری زندگی کی مہم جوئی سے تہی ہونا ہے
ابدی بازگشت کا تصور خاصہ پر اسرار ہے اور نیچے نطشے نے فلسفیوں کو اس کے ذریعے اکثر الجھا دیا ہے، یہ سوچنا کہ ہر شے ٹھیک جس طرح ہم نے اس کا تجربہ کیا تھا اس طرح دوبارہ واقع ہوتی ہے اور یہی باز گری خود کو لا متناہی طریقے پر اپنے کو دوہراتی ہے۔ یہ باولی اسطور کس بات پر دلالت کرتی ہے؟
’’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘‘۔ تخلیق: میلان کنڈیرا : ترجمہ : محمد عمر میمن۔’ سمبل، راولپنڈی ،سال نامہ جولائی تا دسمبر 2007 ص 75)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میلان کنڈیرا یکم اپریل 1929 میں، پروکیوا، برنو، چیکوسلواکیہ { اب چیک ری پبلک} میں پیدا ہوئے ان کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا۔ ان کے والد لڈوک کوندرا (1891۔1971) موسیقار تھے ۔وہ موسیقی اور پیانو اکادمی کے ناظم تھے انھیں پیانو بجانے میں مہارت حاصل تھی۔ میلان کنڈیرا نے اپنے والد سے ہی پیانو بجانا سیکھا تھا۔ نوجوانی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران انھوں نے چیکوسلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی جو جنگ دویم میں جرمن نازی استعماریت کا نظریاتی رد عمل تھا۔ میلان کونڈیرا کے پچھلے چند عشروں کے دوران سب سے زیادہ مقبول لکھنے والوں میں سے ایک ہے۔ وہ ایک انتہائی درجے کے حساس ادیب ہیں ۔ اچانک انھوں نے عالم جوانی میں شاعری اور ناول لکھنا ترک کر دیا۔ 1950 میں ان کے نظریاتی اور سیاسی خیالات میں تبدیلی آئی۔ اور ان کے دوست جان ٹریفیکا کو ’جماعت شکن سرگرمیوں‘ کے الزام میں کمیونسٹ پارٹی سے خارج کر دیا گیا۔ میلان کنڈیرا نے پراگ یونیورسٹی میں ادب اور جمالیات کا مطالعہ کیا بھر 1952 میں کلیہ فلم سے متعلق رہے۔ بھر پراگ آرٹ اینڈ پرفارمنگ میں انھوں نے ہدایت کاری اور مکالمہ نگاری بھی کی۔ 1962 میں اپنی ناول Happiness Rained On Them لکھی ۔ جو ان کی 1957 میں لکھی ہوئی ناول ’لطیفہ‘(The Joke ) کے مرکزی خیال/ تھیم کو بنیاد بناتے ہوئے لکھی تھی۔ اس ناول میں چیلوسلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کی کلیت کی فطرت کے جبر کو بیاں کیا تھا۔ 1975 میں انھوں نے جلاوطنی اختیار کی اور فرانس کی شہریت اختیار کی۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ ان کی کتابیں بطور فرانسیسی ادیب کے فروخت ہوتی ہیں۔ ان کی کتاب ’بٹوہ انقلاب‘ (Velvet Revolution ۔1989) کمیونسٹ پارٹی کے زوال کا سبب بنی۔ کنڈیرا کی تحریروں اور فکریات پر رابرٹ مارسل، نطشے، جیوانی بیکاسو، روبیلیں، لورن اسٹیم، ہنری فیلڈنگ، ڈینس ڈرینڈ، ویسٹ اولڈ کومروویج، ہرمن براوئچ، فرانز کافکا، مارٹن ہیڈیگر، جارج سیرن، سال بیلو، کامیو، فلپ روتھ، سلمان رشدی اور کارلوس فینٹن کے واضح اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ کنڈیرا پر موسیقی کے اثرات میں بہت واضح اور بہت سی کتابوں پر تبادلہ خیال اور موسیقی اور پیانو بجانے کے ہنر کو مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے تجزیہ میں ہے ۔میلان کنڈیرا کے ناولز میں نطشے کی داخلی، مراجعت، بحران اور کشمکش نمایاں ہے۔ مگر وہ اس مراجعت کے اصل ’وجود‘ اور اس کو مابعد الطبیعیات تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ ان کے خیال میں معروضیت سے عدم معروضیت بنے کے بعد ہی نفی دانش بنتی ہے جب وہ باطن میں سرایت کر جائے۔ اور میلان کنڈیرا نطشے کی رجائیت کو مسترد کرتا ہے۔ اس نے اپنی ایک کتاب میں سوویت یونین پر تنقید کرتے ہوئے چیکو سلواکیہ میں اپنے تخلیقی اور فکری کاموں پر پابندی کی وجہ سے کمیونسٹ استبدادی نظام کی نوعیتوں کو بیان کیا ہے۔ اس کی ابتدائی نظمیں واضح طور پر اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کمیونسٹ نظام کی وکالت نہ کرتے ہوئے کمیونسٹ نظریاتی/ سکہ بندی سے اغماض برتا ۔ میلان کنڈیرا نے لکھا ہے ’’1968ء میں جو لوگ فوری ترکِ وطن کرنا چاہتے تھے، میں ان میں سے نہیں تھا۔ میں نے فرانس جانے سے پہلے دو ناول لکھے تھے۔ اب میں لکھتا تھا اور کتاب مترجم کے حوالے کر دیتا تھا۔ میں نے اپنے کرداروں کو ہمیشہ باپ کی سی شفقت سے برتا۔ چونکہ میں خود بیوروکریسی کا ہدف رہ چکا تھا، اس لیے مظلومیت کی اتھاہ کو پہچانتا تھا۔ روس کے قبضے کے بعد سات سال تک میں وطن میں رہا۔ چونکہ میری نوکری ختم ہو گئی تھی۔ میری بیوی خفیہ طریقے پر انگریزی پڑھاتی رہی اور کچھ میری بچائی ہوئی رقم کام آئی۔ یوں میں لکھتا رہا۔ پھر میرے پاس نقل مکانی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا۔‘‘
’’مجھے اس سارے تجربے سے گزرنے سے ایک اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم جیسی چھوٹی قومیں اکثر یہی سوچتی رہتی ہیں۔ ہمارا ملک نہیں رہا تو کیا ہو گا۔ کوئی انگریز کوئی جرمن یا کوئی فرانسیسی ایسا فقرہ نہیں لکھے گا۔ جیسا کہ آپ کو میری تحریروں سے اندازہ ہو گا۔ مجھے جنونی لوگ پسند ہیں۔ میں ایسے ہی کردار تخلیق کرتا ہوں۔ جنونیت انسان میں ہوتی ہے۔ فاشزم انسانی ہے۔ کمیونزم انسانی ہے۔ قتل انسانی ہے۔ مگر جنت میں تو کسی نے کسی کو کچھ نہیں کہنا۔ وہ انسانی نہیں ہے۔ یہیں میں نے راوی کی تکنیک سیکھی تھی۔ میں اپنے کرداروں کے بارے میں سب کچھ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ناول کی تاریخ، دراصل انسانی تاریخ کا آئینہ ہے۔ مجھے اپنے طور پر جوائس، پروست اور کافکا کا اندازِ تحریر بہت پسند ہے۔‘‘ {تعارف و ترجمہ: کشور ناہید}
امجد طفیل نے اپنے مضمون ’’میلان کنڈیرا کا ناول ’آہستہ روی (SLOWNESS)‘ میں لکھا ہے، ’’کنڈیرا کے ہاں رفتہ رفتہ فلسفیانہ تفکر گہرا ہوتا گیا ہے۔ اس نے اخلاقی، جنسی اور وجودیاتی مسائل کو ملا کر ایک نیا نظام وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ جسے بعض نقاد کنڈیرا کی مابعد الطبیعات سے موسوم کرتے ہیں۔ کنڈیرا نے اپنے ناولوں میں طاقت کے غلط استعمال، ماضی کو سیاسی حوالے سے دیکھنا، تصوراتی دنیا کے لیے کشش، تاریخ کی نوعیت، انسانی تعلقات اور ان سب کا انسانی وجود پر اثر جیسے فکری مباحث کو سمویا ہے۔ ان ثقیل مباحث کے ساتھ وہ اپنے ناول میں جمالیاتی لطافت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔ وہ نجی زندگی اور اجتماعی زندگی کے ڈانڈے ایک دوسرے سے ملا کر ایک پیچیدہ تصویر بناتا ہے۔ انسان کی عدم تکمیل میں زندگی کے ادھورے پن کو تلاش کرتا ہے۔ IMMORTALITY میں اس نے تخلیقی طور پر اس سطح کو چھو لیا جو کم ناول نگاروں کے حصے میں آئی‘‘۔
کچھ سال پہلے اخبار میں، جان بن وِل نے اس کی اشاعت کے دو دہائیوں کے بعد ناقابل برداشت ہلکے پن کے بارے میں ایک دلچسپ ٹکڑا لکھا تھا۔ اس کے لہجے میں مدح تھی لیکن ہلکا سا شک بھی ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’مجھے حیرت کا سامنا کرنا پڑا کہ مجھے کتنا ہی کم یاد آیا۔ اس کے عنوان کے مطابق، کتاب میرے ذہن سے ایسی نکلی ہے جیسے گرم ہوا کا غبارہ اس کے درجہ حرارت سے بڑھتا ہے۔ ان کرداروں میں سے میں نے کچھ بھی برقرار نہیں رکھا، حتی کہ ان کے نام بھی نہیں۔‘‘ اس بات پر یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ اس ناول نے ابھی بھی اپنی سیاسی مطابقت برقرار رکھی ہے، انہوں نے مزید کہا: ’’بہرحال، احساس زندگی کے احساس سے موازنہ کچھ نہیں ہے جس میں واقعی عظیم ناول نگار بات چیت کرتے ہیں۔‘‘
میلان کنڈیرا عام طور پر فرضی کرداروں اور تیسرے شخص کی زبان سے کہانی سناتے اور بیان کرتے ہیں۔ گفتگو اور عقیدہ ظہور اور شخصیت کی خصوصیات کے جوہر کو واضح کرنے کے لئے بنیادی عنصر تصور کیا گیا ہے لیکن اس سے کہانی کے کردار کو سمجھا نہیں جاتا ہے اور اس کا مصنف یہ خیال کر بیٹھتا ہے کہ قاری خودکار طور پر یقین کر لیتا ہے۔ مصنف کے تخیل کو سمجھ رہا ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔کنڈیرا کے فلسفیانہ کام کی پیچیدہ ساخت کے اکثر کئی زبانوں کے ساتھ یہ ترجمے کے کام کے ساتھ تکلیف زدہ ہے، بہر حال، وہ اپنی تحروں کا ترجمہ وہ خود کرتے ہیں۔
یاسر چھٹہ نے اپنے مضمون ’’میلان کنڈیرا یہ کیا کیا‘‘ میں لکھا ہے: ’’جب کوئی لکھاری، کہانی کار، فکشن نویس، ڈیجیٹل مواد تخلیق کار، اپنے قاری، ناظر، سامع کو دکھاتا نہیں، بَل کہ، بتانے کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ یا تو:
- قاری، ناظر، سامِع کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان کے تخلیق پارے کی تفہیم، تخلیق کار کے تخیل کی صناعی اور پیدا وار کو internalise کر سکے،
- یا، پھر وہ خود ابھی لکھنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن اعتماد کے کسی بلند تر dopamine نے انہیں تخلیقِ مواد، content creation، کے گہرے پانیوں کے اوپر اوپر تیرتے رہنے کو پھینک دیا۔
ایسا کرنا کم از کم دو نتائج پیدا کرنے کے تُخم اپنے اندر رکھتا سمجھا جا سکتا ہے:
- سطحیت، superficiality، کا خود کو نمونہ بنانا
- سطحیت بیانی کو عام کرنے، normalising، کی سستی سیاست میں غیر شعوری طور پر ساجھی دار بنتے جانا‘‘ (میلان کنڈیرا یہ کیا کیا: تخلیقیت اور showing بَہ مقابلہ telling پر شعوری ٹمٹماہٹ کی تصویر کشی ، ایک روزن ،21 دسمبر 2019 (https://www.aikrozan.com/milan-kundera-telling-showing-novel-prose/)
میلان کنڈیرا کا یہ کہنا کہ ’’ایک ناول کا واحد مقصدِ تخلیق انسانی وجود کے کسی نامعلوم گوشے کو منکشف کرنا ہے۔‘‘ انھوں نے ناول نگاری کی ساخت اسلوب اور فکر تخلیقیت اور اس کے قلب میں پوشیدہ بشری وجود کی بہترین تعریف پیش کی ہے۔ 1992 میں ناول کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر عالمی ادبی جریدے wasafiri نے بین الاقوامی ادیبوں کا ایک سروے شائع کیا جس میں سب نے اس حقیقت کو قبول کیا ہے کہ پچھلے پچیس سالوں میں گابرئیل گارسیا مارکیز کے اس عظیم ناول نے ساری دنیا کے ادب کو متاثر کیا اور نئی راہیں دکھائی ہیں۔۔
اردو میں بھی ان پر کچھ کتابیں، ان پر مضامین، ان کی کچھ کہانیاں، ناول کے کچھ حصے، شاعری کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ میلان کنڈیرا کی کتاب ’ناول کا فن‘ کا ترجمہ ارشد وحید نے کیا ہے۔ یہ کتاب اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کی ہے۔ میلان کنڈیرا کی تحریریں ’کائنات، قہقہے اور پریشانیاں‘ تفریح کی کتاب بھی لگتی ہے جن کی شناخت، آہستہ آہستہ سے محبت، ناول، زندگی کا فن اور کچھ جگہوں پر بقا اور جہالت کا نام بھی ہے جو معاشرے کو مصنوعی خول کو توڑنا چاہتی ہے۔
میلان کنڈیرا ان چند مصنفین کی صف میں سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے جو غیر موجودگی، یادداشت، فراموشی، اور مراجعت جیسے تصورات کو لے کر انھیں مہارت کے ساتھ ایک کثیر الکلامی اور متاثر کن کہانی میں تبدیل کرتا ہے۔
ان کی تحریروں کی مختصر تفصیل یہ ہے :
Novels
The Joke (Žert) (1967)
The Farewell Waltz (Valčík na rozloučenou) (Original translation title: The Farewell Party) (1972)
Life Is Elsewhere (Život je jinde) (1973)
The Book of Laughter and Forgetting (Kniha smíchu a zapomnění) (1978)
The Unbearable Lightness of Being (Nesnesitelná lehkost bytí) (1984)
Immortality (Nesmrtelnost) (1990)
Slowness (La Lenteur) (1995)
Identity (L’Identité) (1998)
Ignorance (L’Ignorance) (2000)
The Festival of Insignificance (La fête de l’insignifiance) (2014)
Short fiction[
Collection
Laughable Loves (Směšné lásky) (1969)
٭٭٭