شعر ایسے ہیں مرے
جیسے کوئی مصری نان
نوش فرماؤ انہیں تازہ
کہ جب گرم بھی ہوں
پیشتر اس کے کہ اک
گرد کی تہ جم جائے
رات گزری تو اسے کھا نہ سکو گے تم بھی
شعر جو منطق آگاہی کی اک آنچ لئے
سرد مہری سے فنا ہوتے ہیں اس دنیا کی
جیسے اک ماہیِ بے آب نظر کے آگے
آن کی آن میں یک لحظہ فنا ہو جائے
جذب کر لو انہیں دل میں
کہ یہ شاداب رہیں
اور جو رنگ بھرو اپنے کسی منظر میں
رنگ اپنے ہوں کسی شے کے قرض دار نہ ہوں
زنگ آلود کسی اور کی تلوار نہ ہوں
٭٭٭