افسانہ نویسی اور فلم نویسی سعادت حسن منٹو کی زندگی میں پہلو بہ پہلو چلتی رہی۔ منٹو نے لگ بھگ گیارہ سال، فلم انڈسٹری کے چمکتے دمکتے ایوانوں میں گزارے اور وہاں کے اندرون کو خوب دیکھا اور سمجھا۔ ادب اور فلم منٹو کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ قیامِ بمبئی کے دوران چار پانچ سال تک نیم فلمی و ادبی رسالے’’مصور ویکلی‘‘ سے بطور مدیر منسلک رہے جہاں وہ تنقیدی مضامین اور فلموں پر ریویو وغیرہ لکھتے رہے۔ اِس طرح منٹو ادب کے ساتھ ساتھ ایک افسانہ نگار کے ہُنر کو فن کی حدود کے باہر بھی استعمال کرتے رہے۔ بمبئی کی فلم انڈسٹری کے لیے انہوں نے کئی فلموں کی کہانیاں، مکالمے اورScenario لکھے۔۔ ۔’’مرزا غالب‘‘ اس فلمی کہانی پر منٹو نے اکتوبر ۱۹۴۱ میں اپنے قیامِ آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن دِلّی کے دوران کام شروع کیا تھا۔ یہ کہانی انہوں نے بہت تحقیق اور کاوش کے بعد لکھی۔ اِس کی تشکیل پر انہوں نے بہت عرق ریزی کی تاکہ اُس زمانے کی تہذیب و معاشرت میں حقیقی عنصر نظر آئے۔ تخلیقی حوالے سے فلم کے میڈیم میں منٹو کا یہ سب سے اعلیٰ اور اہم کام ہے۔ منٹو کو غالب سے بے حد عقیدت تھی۔ بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، عظیم شاعر غالب کی شخصیت میں ایک ایسا Down to earthمزاج ہے جو ہرانسان کو غالب کے ساتھIdentify کرا دیتا ہے۔ گو شعر و شاعری سے منٹو کو کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا مگر غالب کے وہ عاشق تھے۔
غالب، اُردو ادب کی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے، جس نے ہر موضوع پر اپنی ہنر مندی، تخلیق اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ہمارے اُردو ادب کی تاریخ ہمیشہ غالب جیسی عظیم شخصیت پر فخر کرتی رہے گی۔ پروفیسر جی ایم اثر، جو منٹو کے دوست بھی تھے، اُن کا قیاس ہے کہ منٹو غالب کے خطوط کے ذریعے غالب تک پہنچا۔ کیونکہ منٹو کو شاعری سے اتنی دلچسپی نہیں تھی اور پھر کلامِ غالب میں فارسی تراکیب نے بھی مشکل پیدا کی ہو گی۔ لہٰذا خطوطِ غالب کے مطالعہ نے ہی’’منٹو کو غالب کے کلام میں دلچسپی کی ترغیب دی ہو گی۔‘‘ بے شک دونوں کی ادبی سمتیں الگ الگ تھیں لیکن مرزا غالب کی شخصیت منٹو کے لیے ہمیشہ جاذب رہی۔ غالب کی نثر میں جو پہلو داری، نکتہ رسی اور مزاج کی رنگا رنگی ہے، اِس سے منٹو نے بہت استفادہ کیا۔
منٹو جیسے ذہنی سطح کے ادیب کے لیے تاریخ کے ورق کی کوئی ایک لائن، ایک فلیش کی مانند اُن کے ذہن کے کچھ حصے روشن کر دیتی ہے۔ ان پر پھر وہ پوری عمارت تعمیر کر سکتے ہیں۔ خطوطِ غالب کے مطالعہ سے ذرّہ سا فقرہ اخذ کر کے منٹو اپنے تحریر کردہ ایک مضمون ’’غالب اور چودھویں‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’افسانہ نگار کے لیے یہ چند اشارے مرزا غالب کی رومانی زندگی کا نقشہ تیار کرنے میں کافی مدد دے سکتے ہیں۔ رومان کی ازلی تکون تو’’ستم پیشہ ڈومنی‘‘ اور ’’کوتوال دشمن تھا‘‘ کے مختصر الفاظ ہی مکمل کر دیتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر برج پریمی اس اقتباس کو فلمی کہانی ’’مرزا غالب‘‘ لکھنے کا محرک و مرکز قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان ہی اشاروں پر منٹو نے اپنا ایک مضمون تیار کر لیا ہے۔ یہی مضمون در اصل فلم مرزا غالب کی بھی بنیاد ہے۔ (’’منٹو کتھا‘‘، دیپ پبلی کیشنز، جموں، ۱۹۹۴ء،ص ۹۹)
منٹو ایک ہنر مند حقیقی فنکار تھے۔ انہوں نے تاریخ میں گم گشتہ مرزا غالب کی زندگی کے اِس قصّے’’ستم پیشہ ڈومنی‘‘ اور ’’کوتوال دشمن تھا‘‘ کو بہت چابک دستی اور انتہائی خوبصورتی سے رقم کیا ہے۔ اصل میں فلمی کہانی کار اور تاریخ دان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ تاریخ کا بنیادی مقصد معلومات مہیا کرنا ہے جبکہ فلم کا بنیادی مقصد حظ ہے۔ ایسی صورت میں دونوں کے طریقہ ہائے کار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تاریخ کی ضخیم سے ضخیم کتاب بھی وہ معلومات مہیا نہیں کرتی جو ایک فلم کرتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جہاں تاریخ نگار واقعات کے اہم موڑ اور اہم پہلوؤں تک محدود رہتا ہے وہاں فلمی کہانی نگار کسی تاریخی موضوع پر لکھتے ہوئے اِن سارے واقعات سے ایک واقعے کو منتخب کر لیتا ہے اور اسے محدّب عدسے سے دیکھ کر بیان کرتا ہے۔ فلمی کہانی کار ان واقعات کو پیش کرنے کے سلسلے میں تاریخ دان کی طرح مقید نہیں کہ وہ منطقی اعتبار سے ان واقعات کو بیان کرے۔ مثلاً فلمی کہانی کار ایک ریلوے قلی کو منتخب کر سکتا ہے کہ اُس کی ذات کے حوالے سے پوری عالمی جنگ کو بیان کر دے۔ تاریخی سلسلوں میں تخیّل کو بے لگام چھوڑا جا سکتا ہے۔ فلمی تاریخ نگار کی اپروچ عمومی تاریخ نگار کی نسبت زیادہ جذباتی ہوتی ہے اور پھر فلمی تاریخی کہانی کار ایک عام روایتی تاریخ دان کی نسبت وسیع تر کینوس اور مخصوص آزادیوں کا مالک ہوتا ہے جن کی بدولت وہ کسی دَور کی تاریخ کوا پنے جذباتی حوالوں سے دیکھ کر تاریخ دان کی نسبت ایک بہتر امپکٹ بنا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فلمی کہانی کار کے پاس بڑا وسیع میدان ہوتا ہے اور یقیناًاس کے ہاتھ تاریخ دان سے زیادہ کھلے ہیں۔
ہندوستانی ادب پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالیں تو کالی داس، رابندر ناتھ ٹیگور، سبرا منیم بھارتی، وارث شاہ جیسے شاعر ملتے ہیں جن کے فن اور شخصیت نے واقعی ہندوستانی فنونِ لطیفہ کو متاثر کیا لیکن غالب ان میں سب سے قد آور شخصیت کی حیثیت سے اُبھرے۔ غالب جیسے بلند مرتبہ لوگ اپنی ذہنی اپروچ کے اعتبار سے اپنے معاشرے سے آگے ہوتے ہیں اور اِس طرح اُن کے اور معاشرے کے درمیان مخصوص قسم کے اختلافات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ فلم کے مواد کے اعتبار سے یہ اختلافات بڑے موزوں ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں وہ تمام عناصر موجود ہوتے ہیں جو کسی فلم کی کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔ ایسی صورت میں تمام نابغہ لوگوں کی زندگیاں، خواہ وہ عظیم شاعر ہوں یا ادیب ہوں یا سیاسی لیڈر، فلم کے لیے بڑی دلچسپیاں رکھتے ہیں۔ منٹو کی تخلیقی اور تخیّلی قوت بے پناہ تھی۔ بقول علی سردار جعفری’’وہ ایک دو جملوں میں کردار بنا کر کھڑا کر سکتے تھے۔ منٹو کو کردار نگاری کے فن میں کمال مہارت حاصل تھی۔‘‘وہ قصّے کو مناسب موڑ دینے کے ماہر تھے۔ انسانی فطرت سے اچھی طرح واقف تھے اور کردار نگاری کا بڑا سلیقہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر برج پریمی کی اس بات سے اتفاق کرنے میں کوئی تعامل نہیں کہ اُن چند اشاروں پر منٹو نے غالب کے مضمون کی یہ کہانی بُنی۔ ظاہر ہے منٹو نے یہ فلمی افسانہ غالب کی محبت میں لکھا۔ منٹو اپنے قیامِ دہلی کے دوران اکتوبر ۱۹۴۱ء میں احمد ندیم قاسمی کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’میں ’’غالب‘‘ کے نام سے ایک فلمی کہانی لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ آپ شاعر ہیں، اگر آپ یہاں ہوتے تو مجھے کتنی مدد ملتی۔ میں نے غالب کے متعلق بہت سی کتابیں جمع کر لی ہیں، اور کتابیں بھی جمع کر رہا ہوں۔ اگر آپ کے پاس ایسا رسالہ ہو جس میں غالب کی زندگی کے متعلق کوئی مضمون چھپا ہو تو فوراً بھیج دیں۔‘‘
منٹو ایک اور خط لکھتے ہیں:
’’اس سے پہلے بھی آپ کو خط لکھ چکا ہوں۔ میں آجکل’’غالب‘‘پر فلمی افسانہ لکھنے کے سلسلے میں بہت مصروف ہوں۔ خدا جانے کیا کیا خرافات پڑھ رہا ہوں۔ سب کتابیں منگوا لی ہیں۔ کام کی ایک بھی نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے سوانح نگار سوانح لکھتے ہیں یا لطیفے۔۔ ۔ کچھ مواد میں نے جمع کر لیا ہے اور کچھ ابھی جمع کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ افسانہ دلچسپ ہو جائے گا۔ یہ بات اپنے تک ہی رکھئیے گا۔۔ ۔ دس مناظر لکھ چکا ہوں۔ جب نصف مکمل ہو جائے گا تو آپ کو مسودہ بھیج دوں گا۔ یہ کام مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں۔۔ ۔ (’’منٹو کے خطوط‘‘ ص ۱۷۶، ۱۷۹، ۱۸۲)
ظاہر ہے منٹو نے اِس کہانی کے لیے سب ذرائع سے مواد فراہم کیا اور حقائق کی جستجو میں کوئی کسر اُٹھا نہ چھوڑی۔ منٹو نے غالب سے اپنی عقیدت اور احترام کے با وصف کہانی لکھتے ہوئے حقیقت نگاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ غالب کے محاسن اور معائب دونوں کا احاطہ کیا اور روشن اور تاریک پہلوؤں کو جوں کا توں کہانی میں سمو دیا۔
منٹو نے مرزا غالب کے حوالے سے دلّی کی ایک حسین طوائف موتی عرف ’’چودھویں بیگم‘‘ کا انتخاب جو کیا۔ حسن اور اسرار کسی بھی ادیب کے موضوع کے لیے بڑی دولت ہوتے ہیں اور طوائف کی ذات میں حُسن بھی ہے اور اسرار بھی۔ طوائف ہمارے کلاسیکی ادب کی ہیروئن تھی بلکہ برصغیر کی تہذیبی زنجیر میں طوائف کو ایک اہم کڑی کی حیثیت حاصل ہے اور پچھلی صدی کے ادب کا معاشرہ محض طوائف کی ذات سے متحرک نظر آتا ہے۔ طوائف کہیں علامت ہے کہیں حوالہ۔ ہماری اُردو شاعری کی طوائف جوش قدح سے بزم چراغاں کرتی رہی ہے۔ جیسے میر تقی میرؔ دِلّی کی سولہ سالہ باقی نامی خوبرو طوائف کے ہاں، شب بسری کے دوران اپنی جیب کٹوا آئے تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد غبار خاطر میں اپنی آشفتہ سری کا اقرار کر چکے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر سیاسی سفر میں بھی فیض آباد کی آواز سن آیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی ایک امیر بائی تھی اور جوش ملیح آبادی تو کئی گل رخوں کے غلام تھے جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ آغا حشر کاشمیری مختار بائی امر تسر والی کی زلف کے اسیر تھے۔ داغ دہلوی کے ہاں بھی ایک طوائف تھی۔’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ میں قاضی عبد الغفار کا نام بھی آتا ہے کہ منی جان اُن کے حرم میں تھی اور اکبر الٰہ آبادی نے بوٹا بیگم سے نکاح پڑھوایا تھا۔ الغرض:
ع ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
غالب کی موتی بیگم عرف چودھویں، اور منٹو کی۔۔ ۔ سوگندھی، سلطانہ، سرتیا، زینت، نواب، شانتی، کنوند کور، سنڈریلا وغیرہ، منٹو کی تو کئی طوائفیں تھیں۔ جہاں تک منٹو کی طوائفوں کا معاملہ ہے تو یہ مضمون اُردو میں پہلے سے چلا آ رہا تھا۔ بقول انتظار حسین’’اُردو ادب نے اِس حوالے سے اب تک دو بڑے کردار پیدا کیے ہیں۔ امراؤ جان ادا اور سوگندھی۔ یہ کردار بھی ہیں اور اپنی جگہ دو تہذیبیں بھی۔‘‘منٹو نے غالب کی’’ستم پیشہ ڈومنی‘‘ کے رومانی قصے کو بھی بڑی محنت سے اور ہنر مندی سے ترتیب دیا۔ غالب، چودھویں اور حشمت خان…محبت کی تثلیث تین کردار۔ کوتوال حشمت خاں جو در اصل غالب کی چاہتوں کا دشمن ہے اور ایک طرح سے غالب پر لکھے جانے والے منٹو کے اسکرپٹ کا ایک طاقتور وِلن ہے۔ غالب کی زندگی کے مطالعے کے دوران یہی تینوں کردار اسکرپٹ کے لیے اینٹ گارے کا کام کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں خود غالب نے بھی اسکرپٹ رائٹر منٹو کی مشکل اس طرح آسان کر دی کہ غالب نے اپنے خطوط کے حوالے سے اپنی اچھی بُری ساری زندگی کا مکالموں کے ساتھ ایک نہایت جاندار اور مستند اسکرپٹ لکھ دیا تھا۔ یوں غالب کے خطوط نے غالب پر کسی نوعیت کا اسکرپٹ لکھنے والوں کی راہ آسان کر دی ہے۔ عصمت چغتائی منٹو کے خاکے ’’منٹو میرا دوست میرا دشمن‘‘ میں الگ نقطہ نگاہ سے لکھتی ہیں:
’’مرزا غالب (فلم) میں چودھویں بیگم مرزا غالب کی محبوبہ ہو یا نہ ہو، اس کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا مگر منٹو کے خیالوں کی لڑکی ضرور تھی۔‘‘
اس ضمن میں افسانہ نگار آغا بابر رقم طراز ہیں:
’’منٹو کو طوائف (کے موضوع) پر صرف فنّی اعتماد ہی نہ تھا بلکہ وہ طوائف کو ایک مذہب کی طرح مانتا تھا۔ مثلاً مرزا غالب پر فلمی کہانی لکھنے کے لیے جس چیز نے منٹو کو سب سے زیادہ اپیل کیا تھا، وہ طوائف کا کردار تھا جسے وہ مسکرا کر ’’نٹنی‘‘ کہتا تھا۔۔ ۔ اُس کا جوہرِ قابل طوائف جیسی بنجر شخصیت میں بھی پھل پھول ڈھونڈ نکالتا ہے۔ کرشن چندر، دیوندر ستیارتھی اور راجندر سنگھ بیدی جیسوں نے طوائف کے موضوع کی طرف رجوع کیا مگر منٹو کی خیال انگیزیوں اور ندرتوں کی بلندی کسے نصیب ہو سکی۔‘‘
(مضمون:’’منٹو اور طوائف‘‘، فنون، لاہور، مئی جون ۱۹۶۷ء، ص ۳۲۰۔ ۳۲۱)
منٹو کے ادب کی طوائف حقیقی ہے۔ غالب کی ’’ستم پیشہ ڈومنی‘‘ کے رومانی قصّے کو منٹو نے حقیقی رنگ دینے کے لیے دلّی اور لکھنؤ کی تہذیب اور معاشرت کا مشاہدہ و مطالعہ کیا۔ غالب کے دَور کے لب و لہجہ کو خاص اُسی پس منظر میں رکھنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے منٹو کی بیگم صفیہ ایک انٹرویو میں کہتی ہیں:
’’منٹو نے فلمی دنیا میں رہتے ہوئے جو سب سے بڑا کام کیا وہ فلم ’’مرزا غالب‘‘ کی کہانی تھی۔ اِس کہانی کی تکمیل کی خاطر منٹو صاحب نے بے شمار کتابیں خریدیں اور اُن کا شب و روز مطالعہ کیا۔ ایک ہندوستانی (اہلِ زبان) بوڑھے شخص سے، جو اُن کے ایک دوست تھے، دلّی اور لکھنؤ کا لب و لہجہ اور وہاں کا رہن سہن ہر طرح سے سمجھا، تاکہ کہانی میں حقیقت نگاری کا عنصر غالب ہو اور تماشائی فلم دیکھتے وقت اپنے آپ کو اس کا ایک کردار سمجھتے ہوئے محسوس کریں کہ وہ مرزا غالب کے زمانے میں سانس لے رہے ہیں۔‘‘
(’’روبرو۔۔ ۔ صفیہ بیگم‘‘ انٹرویو شاہد شیدائی، روزنامہ امروز، لاہور، ۱۶؍ جنوری ۱۹۷۷ء)
اس سٹوری کے حوالے سے منٹو کے لڑکپن کے دوست، ابو سعید قریشی کے بھائی احمد سعید رقم طراز ہیں:
’’دونوں دوست (ابو سعید قریشی اور منٹو) ایک ہی بلڈنگ کشمیری گیٹ (حسن بلڈنگ) کی بالائی اور نچلی منزل پر اوپر تلے کے فلیٹوں میں پڑوسی بن گئے تھے۔ اس طرح کہ ہم اپنی دیوار پر سے جھک کر منٹو سے باتیں کرتے تھے۔۔ ۔ وہ اکثر اپنے دو غیر فلمائے فلمی اسکرپٹ پڑھ کر سناتا۔’’خولدد‘‘ اور ’’مرزا غالب‘‘ جو اس نے بقول اُس کے، علی الترتیب پروڈیوسر ڈائریکٹر محبوب خان اور سہراب مودی کے لیے لکھے تھے۔ گو مرزا غالب نا مکمل تھا۔ اُس نے اِس پر خاصی تحقیق کی تھی۔‘‘
(مضمون:’’سعادت حسن سے منٹو تک‘‘ ماہنامہ ’’شان ہند‘‘ دہلی)
منٹو اپنی خیال آفرینی میں حسن بلڈنگ نکلسن روڈ دہلی میں بیٹھے مرزا غالب کی زندگی کے کسی بھاگتے ہوئے لمحے کو گرفت میں لے کر حرارت اور روشنی بخش رہے تھے کہ اس اثناء میں ایک سانحہ ہوا۔ وہاں منٹو کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا عارف بیمار ہوا اور صرف دو دِن کی بیماری کے بعد اپنی پہلی سالگرہ سے دو روز قبل فوت ہو گیا۔ اس اَلمیے نے منٹو کو اندر سے بُری طرح گھائل کر دیا۔ وہ اعصابی مرض میں مبتلا ہو گئے۔ ایک اور واقعہ بھی ہوا۔ آل انڈیا ریڈیو کے لیے منٹو نے سوا سو کے قریب چھوٹے بڑے فیچر اور ڈرامے لکھے تھے۔ جب اُن کا سواں مسودہ براڈ کاسٹ ہوا تو ان کی وہی کیفیت تھی جیسے کرکٹ میچ میں کسی کھلاڑی کی سینچری مکمل ہو جائے تو وہ اپنی سینچری کو سکور بورڈ پر دیکھنا چاہتا ہے۔ منٹو نے بھی کہا کہ اس حوالے سے میری تصویر آل انڈیا ریڈیو کے رسالوں کے سرورق پر چھپنی چاہیے لیکن تصویر کو ’’آواز‘‘ رسالے کے اندر کے صفحات میں صرف چار مربع انچ جگہ ملی۔ اس کے ساتھ چوکھٹے میں لکھا تھا۔ ’’سعادت حسن منٹو جن کے سو فیچر اور ڈرامے آل انڈیا ریڈیو سے براڈکاسٹ ہو چکے ہیں‘‘۔۔ ۔ منٹو کا اس معمولی قسم کی کوریج پر جی کھٹا ہو گیا۔ بچہ پہلے ہی فوت ہو چکا تھا اور ریڈیو والوں کی محکمانہ مصلحتوں نے اُس بچے کو، جو ایک فنکار کے سینے میں سورہا تھا، ایک اور کھلونے سے محروم کر دیا۔ منٹو بددلی اور مایوسی کا شکار ہو گئے۔ پھر اوپندر ناتھ اشک سے بھی ریڈیو اسٹیشن میں چشمک، جس کا اظہار افسانہ نگار اوپندر ناتھ اشک نے منٹو پر لکھے خاکے ’’منٹو میرا دشمن‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔
ان حالات سے منٹو کا دل دہلی سے اُچاٹ ہو گیا۔ اسی اثناء میں ’’مصور‘‘ ویکلی بمبئی کے مالک نذیر لدھیانوی کا ایک خط موصول ہوا کہ یہاں سید شوکت حسین رضوی آپ سے ایک فلمی کہانی لکھوانا چاہتے ہیں لہٰذا ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر منٹو بمبئی چلے گئے اور شوکت حسین رضوی کی فلم ’’نوکر‘‘ کی کہانی لکھی۔ اس کے بعد وہ ’’فلمستان‘‘ سے بطور سٹوری رائٹر وابستہ ہو گئے۔ اس فلمساز ادارے کے لیے انہوں نے کئی فلمیں ’چل چل رے نوجوان‘، ’بیگم‘، ’شکاری‘، ’آٹھ دن‘ وغیرہ لکھیں۔ اِس عرصہ میں انہوں نے کچھ اور اداروں کے لیے بھی کہانیاں اور مکالمے لکھے اور ساتھ ساتھ نا مکمل ’’مرزا غالب‘‘ کے اسکرپٹ کو بھی تشکیل دیتے رہتے۔ منٹو نے بہت توجہ اور وقت صرف کیا تا کہ وہ معتبر اور مستند حقائق پر مبنی ہو اور تاریخی پہلو سے اس پر انگشت نمائی نہ کی جا سکے۔ ماس دوران ملکی حالات تیزی سے بگڑتے گئے یہاں تک کہ فسادات کی آگ میں ہندوستان کا بٹوارہ ہو گیا۔ تقسیمِ ملک کے چند ماہ بعد منٹو پاکستان چلے آئے۔
یہ کہانی منٹو نے غالب سے عقیدت اور محبت میں لکھی تھی ستم ظریفی کہ اتنی شب و روز کی محنت اور عرق ریزی سے لکھی ہوئی کہانی کو بمبئی میں کوئی بھی فلمانے کو تیار نہ تھا۔ بمبئی میں منٹو نے جس پروڈیوسر کو بھی اس کا اسکرپٹ دکھایا، اُس نے انکار کر دیا۔ چونکہ فلم میکر زیادہ تر پارسی، مارواڑی اور جنوبی ہندوستان کے لوگ تھے، منٹو کو اس قسم کی باتوں سے بھی واسطہ پڑا کہ ’’غالب کون ہے ؟۔۔ ۔ ہم تو صرف ٹیگور کو جانتے ہیں۔‘‘اِن باتوں سے غالب کی ناقدری کا اندازہ ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں ہندوستان میں، خصوصاً ساؤتھ کے علاقوں میں لوگ غالب کی شاعری سے اتنا روشناس نہ تھے۔ سہراب مودی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے منٹو کے اس کام کو کارنامہ قرار دیتے ہوئے فلمانے کا عزم کیا۔ مرزا غالب ایک مشکل پسند اور فلسفی شاعر اور پھر کلام میں فارسی تراکیب کی آمیزش تھی۔۔ ۔ دلچسپ بات یہ کہ فلمساز سہراب مودی کی اپنی زبان گجراتی تھی۔ وہ اگرچہ اُردو لکھ پڑھ نہ سکتے تھے مگر ادبی ذوق کے مالک تھے اور اچھی نثر اور اچھی شاعری کا اِدراک رکھتے تھے۔ لوگوں نے بہت سمجھایا کہ یہ فلم بنانے سے باز رہیں۔ جو لوگ اُردو نہیں جانتے، ظاہر ہے وہ غالب کو بھی نہیں جانتے۔ فلم میں کیا دلچسپی رہے گی اور پھر مدراس، بنگال اور مہاراشٹر جیسے علاقوں میں کون یہ فلم دیکھے گا۔ مگر سہراب مودی اسے فلمانے کا مصمّم ارادہ کر چکے تھے۔ جب سہراب مودی نے دھول چاٹ رہے منٹو کے اسکرپٹ کی گرد جھاڑی اور اس پر فلم بنانے کا ارادہ کیا تو یہ اندازہ اُس پختہ کار فلم ساز کو بھی نہ تھا کہ یہ کس قدر اہم اور شہرت یافتہ تخلیق ہو گی۔ اس سے پہلے منروا مووی ٹون کے بینر تلے بڑے طمطراق کے ساتھ بننے والی ہندوستان کی پہلی کلر بائی ٹیکنی کلر فلم ’’جھانسی کی رانی‘‘ جس پر سہراب مودی نے پانی کی طرح پیسہ بہایا تھا وہ بدقسمتی سے ایک بلبلے کی طرح بیٹھ گئی تھی۔ منروا مووی ٹون کی حالت نا گفتہ بہ تھی اور سہراب مودی کی کمر ٹوٹ چکی تھی لیکن وہ ایک با ہمت آدمی تھے اگلا قدم سوچ سمجھ کر اُٹھانا تھا۔
جے کے نندہ نے سکرین پلے کی نوک پلک سنواری۔ اس کے بعد ۱۹۵۴ء میں سہراب مودی نے یہ کہانی فلم بند کرنا شروع کی جس میں غالب کی حیات، شخصیت اور عہد کو انتہائی عمدہ انداز میں پیش کیا گیا۔ اُن دنوں ساغر نظامی بھی منروا مووی ٹون سے وابستہ تھے۔ اِس کی تیاری میں وہ بھی شامل تھے۔ فلم کی تشکیل کے حوالے سے یہ تفصیل بھارتی ادیب و ہدایتکار محافظ حیدر بیان کرتے ہیں:
’’سہراب مودی نے جھانسی کی رانی کے بعد دو فلموں کا پلان بنایا تھا۔ ایک تو تھی وکٹر ہیوگو کے ناول Les miserable کو ماخذ بنا کر ’’کندن‘(بقول مصنف سید قاسم محمود، اِس عالمی شہرت یافتہ ناول کی تلخیص بھی سعادت حسن منٹو نے کی تھی (بحوالہ:’’افسانہ ڈائجسٹ‘‘ اپریل ۱۹۸۹ء، ص۷۳(جس میں انہوں نے خود گٹ اپ بدل بدل کر کئی رول بھی کیے تھے اور دوسری کے لیے اپنے دفتر سے کاغذات کے اس پلندے کو جھاڑ پونچھ کر نکالا جو برسوں پہلے اُردو کے صاحبِ طرز اور منفرد افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے انہیں فروخت کیا تھا۔ یہ کہانی مرزا غالب کے ایک فرضی معاشقے پر مبنی ایک فلم کے لیے لکھی گئی تھی۔ سہراب مودی غالب کے بھی رسیّا تھے اور منٹو کے بھی۔ تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کی افراتفری میں اور فرقہ وارانہ تناؤ کے ماحول میں غالب پر فلم بنانا کسی طرح مناسب نہیں تھا۔ پھر ’’جھانسی کی رانی‘‘ نے سہراب مودی اور منروا کا بہت وقت لے لیا تھا۔ اب ہر طرح سے صحیح موقع تھا۔ اتنے بڑے ادیب کی لکھی ہوئی کہانی کے لیے مکالمے لکھوانے کی غرض سے سہراب مودی کی نظرِ انتخاب ایک اتنے ہی بڑے ادیب پر گئی۔ یہ تھے راجندر سنگھ بیدی۔ کاسٹنگ میں بھی سہراب مودی صحیح راستے پر چل پڑے۔ کافی عرصہ پہلے اور وہ بھی اُس زمانے میں جب کہ بمبئی کی فلم انڈسٹری میں کاسٹنگ کے فن سے شاید ہی کوئی واقف تھا۔ سہراب مودی نے فلم ’’پکار‘‘ کے لیے چندر موہن کو شہنشاہ جہانگیر، نسیم کو نور جہاں، اور فلم ’’سکندرِ اعظم‘‘ میں پرتھوی راج کپور کو سکندر اور ونمالا کو رخسانہ کے رول میں منتخب کر کے اپنی پرکھ کا معیار قائم کر دیا تھا اور دھاک بٹھا دی تھی۔ اس بار غالب کے رول میں انہوں نے ایک ایسے اداکار کو چُن لیا جس پر Type-castingکی چھاپ لگی تھی اور جو Legendaryکرداروں کے رول میں خوب جچتا بھی تھا اور پسند کیا جاتا تھا۔ 1944 میں کلکتے میں بنی فلم ’’بھگت کبیر‘‘ میں کبیر کا رول کر کے وہ معروف ہو چکا تھا اور بمبئی آنے کے بعد ’’بیجو باورا‘‘ اور ’’چیتنیہ مہا پربھو‘‘ سے مشہور ہو گیا تھا۔ یہ تھا بھارت بھوشن۔ اس کی معشوقہ کے روپ میں ثریا کو لیا گیا جو اُس دَور میں ایک ایسی ہیروئن تھی جو اپنے گانے خود ہی گاتی تھی اور وہ اور اُس کے گانے عوام میں بے حد مقبول ہو چکے تھے۔۔ ۔ غالب کی شریکِ حیات امراؤ بیگم کے لیے نگار سلطانہ لی گئی جو خوبصورت ہونے کے ساتھ اداکارہ بھی اچھی تھی۔ اس فلم کی موسیقی کے لیے غلام محمد لیے گئے جو صفِ اول کے میوزک ڈائرکٹر نوشاد علی کے کئی سال تک چیف اسسٹنٹ تھے اور میوزک ڈائریکٹر کی حیثیت سے پروڈیوسر ایم صادق اور ہیروئین ثریا کی کئی ہٹ فلموں سے بھی وابستہ رہ چکے تھے۔ راگ راگنیوں کے بھی ماہر تھے اور لَے تال کے بھی۔ اور انہیں سینما ٹک میوزک کی بڑی سمجھ تھی۔ (ان کی آخری فلم تھی ’’پاکیزہ‘‘ جس کے ریلیز ہونے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا) غرض ان سب کا انتخاب کر کے سہراب مودی نے آدھی مہم فتح کر لی۔ ظاہر ہے کہ ڈھائی تین گھنٹے کی ایک فلم میں غالب کی پوری زندگی سما نہیں سکتی تھی۔ اس مقصد کے لیے ایک ٹی وی سیریل ہی کی طوالت موزوں اور مناسب ہو سکتی ہے۔ …اس فلم میں غالب کا ایک فرضی معاشقہ فلم کے میڈیم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گڑھ لیا گیا۔ چنانچہ سعادت حسن منٹو کے زرخیز تخیل نے غالب کو ایک طوائف سے Involveکر کے ایک دلچسپ کہانی گڑھ لی تھی۔ غالب نے اپنے ایک خط میں کسی ڈومنی سے اپنے مختصر معاشقے کا ذکر تو کیا ہے لیکن کسی طوائف سے بھی وہ عشق میں مبتلا ہوئے ہوں اس کا ذکر کہیں نہیں کیا۔ لیکن بھلا ہو ہماری فلمی روایت کا۔ منٹو کے لیے میرے دل میں بے حد احترام ہے مگر صرف منٹو ہی کیا، غالب سے متعلق ٹی وی سیریل اور دور درشن سے پیش کیے گئے وہ تمام ٹی وی سیریل جو اُردو شاعروں کے موضوع پر بنائے گئے تھے ان کے رائٹروں نے بھی، بہ استثنائے چند، ایپی سوڈز کو دلچسپ بنانے کے لیے اور گانوں کی سچویشن نکالنے کے لیے طوائفوں کا سہارا لیا۔ اس کا ایک ناخوشگوار اور لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ غیر اُردو داں ناظرین میں ان اُردو شاعروں کی خانگی زندگی کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں ہوئی۔ بہر کیف یہ واقعہ صحیح ہو یا نہ ہو، ایک شادی شدہ کردار کی زندگی میں طوائف کے قدم رکھنے سے ایک تثلیث بن جاتی ہے جس کے ہر زاویے میں نزاع (Conflict) پوشیدہ ہوتا ہے جو ڈرامے کو جنم دیتا ہے۔ غالب کی شادی شدہ زندگی خوش گوار نہیں تھی۔ ان کو اپنی بیگم سے اپنی شاعری کے لیے کوئی Inspiration نہیں ملتا تھا۔ اس لیے جب ایک طوائف سے، جو نہ صرف ان کے کلام کی زبردست مداح تھی اور اسے اپنے انداز سے سُروں میں سجا دیتی تھی۔ ان سے دل ہی دل میں محبت بھی کرتی تھی، غالب کو عشق ہو جاتا ہے اور انہیں ایک Source of inspiration نصیب ہو جاتا ہے اور وہ ایسی شاعری کرنے لگتے ہیں جسے بقائے دوام مل جاتی ہے۔ یہ نہایت ہی عام قسم کی تثلیث ہے جسے ہم مختصر طور پر ’’پتی پتنی اور وہ‘‘ کہہ سکتے ہیں اور جو فلموں میں اکثر و بیشتر نظر آتی ہے لیکن ہمیشہ دلچسپ لگتی ہے کیوں کہ فطری طور پر چاہے بیوی کے علاوہ شوہر کی کسی اور سے محبت صحیح ہو مگر سماجی طور پر غیر اخلاقی سمجھی جاتی ہے اور نفسیاتی نقطہ نظر سے غیر اخلاقی حرکتیں بھی قاری یا ناظر کے لیے ڈرامہ پیدا کرتی ہیں۔ فلم ’’مرزا غالب‘‘ کی کہانی میں تنوع نہ ہونے اور غالب کی زندگی سے متعلق کسی صداقت کے نہ ہونے پر بھی منٹو کی کہانی کو بیدی کے منظر نامے اور سہراب (مودی) کے Treatment نے اس طرح ابھار دیا کہ فلم میں جان پڑ گئی۔‘‘
(مضمون: غالب اور سینما’’غالب اور فنون لطیفہ’’از زبیر رضوی، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی۲۰۰۴ء ص۹۸)
سہراب مودی ایک پختہ کار اور روشن خیال ہدایت کار تھے۔ انہوں نے بڑی تحقیق اور سوجھ بوجھ سے’’مرزا غالب‘‘ بنائی۔ اِس میں دہلی کا اصل ماحول پیش کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ منٹو پاکستان آ چکے تھے، اس لیے فلم کے مکالمے نامور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی سے لکھوائے گئے۔ گنگا جمنی کی زبان میں لکھے ہوئے راجندر سنگھ بیدی کے مکالمے اور پرانی دلّی کا رہن سہن دیکھنے والوں کے لیے بڑی دلچسپ تفریح تھی۔ اس میں راجندر سنگھ بیدی کے چست اور ادبی رنگ مکالموں نے نئی روح پھونک دی تھی۔ یہ فلم بیدی کے فلمی کریئر کے لیے بھی پیش رو ثابت ہوئی۔ جیسا کہ ذکر ہوا اس فلم میں مرزا غالب کا کردار اداکار بھارت بھوشن نے ادا کیا تھا۔ اداکارہ ثریا نے اس میں طوائف چودھویں کا رول کیا اور نگار سلطانہ نے بیوی کا۔ اِن کے علاوہ فلم کی دیگر کاسٹ میں دُرگا کھوٹے، الہاس، افتخار، مراد، مکری اور جگدیش سیٹھی تھے۔ یہ سہراب مودی کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔
’’مرزا غالب‘‘ ریلیز ہونے سے پیشتر اِس فلم کو مرکزی سنسر بورڈ نے ممنوع قرار دے دیا تھا اور اس پر یہ اعتراض لگا کر سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کر دیا کہ فلم کی ہیروئن ثریا کے جسمانی خطوط فلم میں بہت نمایاں انداز میں دکھائے گئے ہیں اور یہ بات فحاشی میں آتی ہے۔ شومیِ قسمت، منٹو کی یہ کہانی بھی معتوب ٹھہری۔ منٹو کی طوائف ایک بار پھر حکومتی تختہ دار پر آ گئی۔ حالانکہ ثریا نے فلم کے لیے مکمل لباس استعمال کیے تھے، یعنی بند گلے اور پوری آستین کے کُرتے، پشوازیں اور غرارے یا چُست پاجامے پہنے تھے۔ اس لیے عریانی یا فحاشی کا کوئی سوال نہیں بنتا تھا۔ سہراب مودی نے مرکزی سنسر بورڈ میں اپیل کی۔ سنسر بورڈ کو اعتراض تھا کہ ہیروئن کی حرکات و سکنات تماشائیوں کے لیے باعثِ لذت ہیں۔ جب وہ حرکت کرتی ہے تو فلم دیکھنے والوں کی نگاہیں جسمانی اعضاء پر جم کر رہ جاتی ہیں جو قابلِ اعتراض بات ہے۔ بہت زیادہ شور مچا تو مرکزی وزیرِ اطلاعات نے فلم دیکھی اور جن مناظر میں ثریا کے جوبن کو نمایاں سمجھا گیا اُن پر قینچی چلانے کا حکم صادر فرما دیا۔ جب ساری محنت اکارت جاتی نظر آئی تو مجبوراً سہراب مودی نے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات کرنے کی ٹھانی اور ان سے وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس ملاقات میں ثریا اور گلوکار محمد رفیع بھی ساتھ گئے۔ اس وقت ثریا نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو فلم کے اکثر متنازعہ سین میں پہنا تھا۔
پنڈت جواہر لال نہرو الٰہ آباد کے رہنے والے تھے۔ بڑی شستہ اُردو بولتے تھے۔ اُردو ادب اور شاعری سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ جوش ملیح آبادی اور ساغر نظامی کے ساتھ تو خصوصی ارادت تھی۔ فلم انڈسٹری وغیرہ کی تقاریب وغیرہ میں بھی شریک ہوتے تھے۔ بلکہ فلم سے متعلقہ افراد سے ان کے ذاتی مراسم بھی تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے سہراب مودی اور ثریا سے بہت عزت و احترام سے ملاقات کی اور مسئلہ دریافت کیا۔ سہراب مودی نے فلم پر سنسر بورڈ کا اعتراض بیان کیا۔ اس بات چیت کے دوران ثریا نے کہا، ’’پنڈت جی! آپ میرے لباس کو ایک نظر دیکھئے، پرانے زمانے میں دلّی میں ایسا لباس پہنا جاتا تھا۔ آپ کے سنسر بورڈ اور اطلاعات کے وزیر صاحب نے میرے اِس لباس کو بے ہودہ قرار دیا ہے۔ اِس میں عریانی کی کون سی بات نظر آتی ہے؟‘‘ وزیر اطلاعات صاحب بھی اُس ملاقات میں شریک تھے۔ وہ اپنے اعتراض پر مُصر رہے کہ اس لباس میں ہیروئن کا جسم نمایاں نظر آتا ہے، جو فلم دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ ثریا نے جواباً کہا، ’’میں نے لاتعداد فلموں میں کام کیا ہے اور مجھ پر کبھی عریانی کا الزام نہیں لگا۔ اس فلم میں پہلی بار ایسا ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم میں مَیں نے وہی لباس پہنا ہے جو اُس دَور کی خواتین کا من پسند لباس تھا۔ اب اگر میرے جسم کے بارے میں کوئی اعتراض ہے تو اس سلسلے میں مَیں کیا کہہ سکتی ہوں؟‘
سہراب مودی کی دعوت پر پنڈت جواہر لال نہرو کے لیے فلم ’’مرزا غالب‘‘ کے خصوصی شو کا انتظام کیا گیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اُن اعتراضات کو نامناسب قرار دیتے ہوئے وزیرِ اطلاعات کو سنسر سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے فلم بہت پسند کی اور مبارک باد دیتے ہوئے سہراب مودی سے کہا، ’’غالب کو ہندوستان کے عام لوگوں میں متعارف کرانا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ گو غالب کا کلام کسی آواز کا محتاج نہیں مگر سچ ہے، آپ نے اس کے ساتھ پورا انصاف کیا۔‘‘
منٹو کی لکھی کہانی پر منروا مووی ٹون کے بینر تلے بننے والی یہ فلم حکومتی غلام گردشوں سے نکل کر جب پردۂ سکرین پر جلوہ گر ہوئی تو بہت مقبول ہوئی۔ بھارت بھوشن کو چو گوشہ ٹوپی اور انگرکھا پہنے غالب کے روپ میں لوگوں نے بہت سراہا۔ منٹو کے تخئیلی کردار ’’چودھویں‘‘ میں قدیم مشرقی ملبوسات میں ثریا کا ہوش رُبا پیکر کچھ اور نمایاں ہو گیا تھا۔ اِس فلم نے ثریا کی عظمت میں بھی چار چاند لگا دیے تھے۔ یہ اُردو زبان کی بھی بڑی کامیابی تھی۔ خصوصاً بنگال، مدراس اور مہاراشٹر کے علاقوں میں، جہاں لوگ مرزا غالب کو ’’گالب‘‘ کہتے تھے۔
تاریخی فلم محض تذکرہ ہوتا ہے۔ کہانی تو ایک بہانہ ہوتی ہے جس کی مدد سے اُس عہد کی پرچھائیاں فلم بند کی جاتی ہیں۔ ’’مرزا غالب‘‘ میں بھارت بھوشن نے غالب کا کردار ادا کر کے زوال پذیر مغلیہ عہد اور معاشرے کی بھرپور کیفیت کی عکاسی کی تھی۔ اِس میں مرزا غالب جب جیل سے رہا ہو کر اپنی محبوبہ کے یہاں آتے ہیں اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ اُس وقت وہ ایک سادہ مگر دُکھ بھرے جملے میں اُس عہد کا پورا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔ ’’ارے کہاں ہو دِلّی والو!۔۔ ۔ دن دہاڑے ہی سو گئے؟‘‘ دیکھئے اب کس طرح وہ سارا عہد اِس میں پرو دیا گیا ہے۔ مرزا غالب فلم نے غالب کی شخصیت، اُن کے دور کے کرب، ہندوستان کی تڑپتی آتما!۔۔ ۔۔ اور مشترکہ میراث کے لٹنے کے غم کو عام فلم بین تک پہنچایا جو کوئی ماہر نفسیات بھی نہ کر سکا۔ منٹو کی اس تحریر کو سہراب مودی نے اتنی عمدگی سے پیش کیا کہ غالب کی بے لوث و بے ریا شخصیت کا ’’کرشمہ‘‘ چلتا ہوا جادو بن گیا۔
اِس فلم کے لیے غالب کی عام فہم غزلوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ موسیقی کے لیے پہلے خواجہ خورشید انور کو منتخب کیا گیا۔ خواجہ صاحب رضا مند بھی ہو گئے تھے مگر بعض وجوہات کے سبب وقت نہ دے سکے۔ پھر اس کی موسیقی غلام محمد نے دی اور واقعہ یہ ہے کہ منٹو کی خیال آفرینی، سہراب مودی کی منجھی ہوئی ہدایت کاری سے بڑھ کر اس فلم کی کامیابی اور مقبولیت کا اولین سبب غلام محمد کا جادو بھرا سنگیت بھی تھا جسے یقیناً غالب کی شاعری ہی نے Inpireکیا اور اتنا عرصہ گزرنے پر بھی سننے والوں کو ہمیشہ کی طرح مدہوش کر دیتا ہے۔ موسیقار غلام محمد نے ثریا، طلعت محمود اور محمد رفیع کی آوازوں میں غالب کی آسان بندشوں میں دلنواز طرزیں بنائیں جو کہ غزلوں کے مزاج کے مطابق تھیں۔
’’دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے‘‘،’’آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک‘‘،’’رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو‘‘،’’نکتہ چیں ہے غم دل جس کو سنائے نہ بنے‘‘،’’یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا‘‘،’’عشق مجھ کو نہ سہی وحشت ہی سہی‘‘،’’پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‘‘ اور پھر محمد رفیع کی آواز میں ’’کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور‘‘۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ثریا، محمد رفیع اور طلعت محمود نے ایسی دلنشین گائیکی میں ان غزلوں کو سمویا تھا کہ اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی جیسے ان کے گلوں میں راگ راگنیوں کے خزانے بھرے تھے۔ تمام نغمے اپنی اپنی سچوایشن میں، احساسات و جذبات سے مرصّع ہیروں کی طرح جڑے ہوئے تھے۔
فلم کے سلسلے میں غالب کی سی ارسٹو کریسی ذرا مشکل امر ہے، کیونکہ اس میں کسی خاص مقام تک جانے کے لیے پبلک کو ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے۔ ثریا بہ یک وقت اداکارہ اور گلوکارہ تھی۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو محض گنے چنے فنکاروں ہی کو نصیب ہوئی ہے۔ غالب کی غزلوں کو ثریا نے نکھار کر ایک نیا روپ دے دیا۔ گو غالب کی شاعری ثریا کی آواز کی محتاج نہ تھی لیکن ثریا اپنی عظمت کو چھونے کے لیے غالب کی شاعری کی محتاج تھی۔ موسیقاروں اور سامعین کی رائے ہے کہ ثریا کی آواز منفرد تھی۔ اِس کی نغمگی میں سوز اور تاثر کا جو عنصر ہے اِس میں ایک ایسی کیفیت تھی جو ہر عمر کے لوگوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ اس نے غالب کی غزلیں گا کر خود کو ایک منفرد اور ناقابلِ فراموش گلو کارہ ثابت کر دیا تھا۔ خواجہ خورشید انور نے ایک بار ثریا کے بارے میں کہا تھا،’’اس کی آواز ایک بلاٹنگ پیپر (جاذب) کی طرح ہے جو میرے گیت کی دھُن اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کو بھی اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور پھر گاتے ہوئے ان سب کو بنا سنوار کر گائیکی میں پیش کر دیتی ہے۔‘‘
دیوانِ غالب کی غزلوں کے علاوہ، شکیل بدایونی کے کچھ گیت بھی اس میں شامل کیے گئے تھے۔’’مورے بانکے بلم کوتوال‘‘،’’سیّاں تیری خیر ہو جی بلما تیری خیر ہو‘‘ اور ’’دیوانے یہاں تک آ پہنچے‘‘ (قوالی)۔
اِس فلم کے نغمات کا ایک خوشگوار اثر یہ ہوا کہ غیر اُردو داں طبقے کے وہ لوگ جنہوں نے غالب کا نام ہی نہ سنا تھا۔ وہ غالب سے واقف ہوئے اور جنہوں نے غالب کا کلام پڑھا تھا اور نہ سنا تھا، اس سے محظوظ ہوئے اور اپنی اپنی زبان میں انہوں نے غالب کا کلام تلاش کیا یا اپنے اردو داں احباب سے غالب کی شاعری کے متعلق معلومات حاصل کیں اور سب سے بڑھ کر اُردو داں اُس طبقے نے اِسے بہت سراہا، جو کبھی فلم دیکھتے ہی نہ تھے۔
اُس زمانے میں بھارتی فلمیں پاکستان میں آزادانہ نہیں آتی تھیں لیکن ’’مرزا غالب‘‘ کے گیت ریڈیو اور ریکارڈوں کے ذریعے پاکستان میں بھی شوق سے سنے جاتے تھے۔ سہراب مودی کی اِس فلم میں ثریا، محمد رفیع اور غلام محمد کی طرف سے غالب کو یہ بہت خوبصورت خراجِ عقیدت تھا اور غالب کی غزلوں اور نام کو برصغیر کے گھر گھر پہچانے کی یہ سعادت ہندوستان کے ایک پارسی۔۔ ۔ سہراب مودی کے حصے میں آئی تھی۔
فلم مرزا غالب کی مکالمہ نگاری کی کامیابی سے افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کی بلند قامتی میں بھی اضافہ ہوا۔ راجندر سنگھ بیدی، فلم اور ادب کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’’فلم یوں تو کھیل ہے لیکن فلم بنانا کھیل نہیں ہے۔ فلم بناتے وقت ہم ہر قدم پر ایسے بیسیوں خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب مَیں نے ’’مرزا غالب‘‘ کے مکالمے لکھے تو اول اور آخر ہمارے سامنے مقصد یہ تھا کہ دیش کے کونے کونے میں مرزا غالب کا کلام گونجے۔ لوگ اُن کے خیالات اور اُن کی شاعری کی عظمت سے رُوشناس ہوں …) لیکن (’’مرزا غالب‘‘ پر بھی کچھ لوگوں کو سوجھی کہ مرزا غالب کی عشقیہ زندگی کیوں پیش کی گئی؟ جیسے وہ انسان نہیں تھے۔ اُن کے دل نہیں تھا۔ مَیں پوچھتا ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف لوگ ’’مرزا غالب‘‘ جیسی فلموں کے خلاف ہیں اور دوسری طرف بھارت سرکار انہیں سال کی بہترین فلم قرار دیتی ہے۔‘‘
)’’فلم بنانا کھیل نہیں‘‘ کلیاتِ بیدی، مرتب آصف نواز، مکتبہ شعر و ادب لاہور جولائی ۱۹۸۸،ص ۱۰۵۷(
راجندر سنگھ بیدی مزید لکھتے ہیں:
’’میرا عقیدہ ہے کہ فلم ادبی شہ پارہ نہ ہوتے ہوئے بھی ادب سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ہر فلم ساز کو ادب کی ضرورت ہے اور ہونی چاہیے۔ ادب فلم سے بے نیاز ہے اور رہ سکتا ہے، لیکن فلم ادب سے نہیں۔۔ ۔ فلمی صنعت کے پیشروؤں کا نظریہ آج کے فلم سازوں سے قطعی جداگانہ تھا۔ انہوں نے کہانی کے مقصدی ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا، جس کے ثبوت میں آج بھی اُن فلموں کی طویل فہرست پیش کی جا سکتی ہے جو ادبی شہ پاروں پر بنائی گئی تھیں اور جنہیں باکس آفس پر اچھی خاصی کامیابی حاصل ہوئی۔ بہرحال پرینتا، بیراج بہو، مرزا غالب اور کندن جیسی کامیاب فلموں کے بننے کے بعد یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ ادب کے متعلق فلم سازوں کے خیالات ہمیشہ اتنے معاندانہ نہیں رہیں گے۔‘‘
(مضمون:’’ادب سے فلم تک‘‘، ماہنامہ ’’افکار‘‘، کراچی، اپریل ۱۹۵۷ء،ص ۱۰۰۔ ۱۰۱)
سہراب مودی نے غالب کو فلم بند کر کے ایسا ہر دلعزیز بنا دیا کہ باید و شاید۔ کہتے ہیں اس فلم کے کامیاب بزنس سے سہراب مودی نے شکستہ حال مزارِ غالب کی تعمیر بھی کرائی تھی۔ مگر غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی شائع کردہ کتاب ’’نوادرِ غالبؔ‘‘، جس میں غالبؔ اور ذوقؔ کی قبروں کا تفصیلاً تذکرہ ہے، اُس میں اِس بات کا ذکر نہیں ملتا۔ اس تناظر میں راقم الحروف نے غالب انسٹیٹیوٹ دہلی کے اُس وقت کے ڈائریکٹر جناب شاہد ماہلی صاحب سے اپریل ۲۰۰۰ء میں دہلی میں ملاقات کی تھی تو انہوں نے وضاحت فرماتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارے علم میں ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے سہراب مودی نے کسی کو کوئی رقم دی ہو یا پھر اس طرح کی کوئی اور موومنٹ کی ہو، مگر مزارِ غالب کی باقاعدہ تعمیر کے ضمن میں ایسی کوئی واضح بات ہمارے علم میں نہیں ہے۔‘‘
فلم ’’مرزا غالب‘‘ کی مقبولیت کو دیکھ کر ۱۹۶۱ء میں فلمساز سیّد عطا اللہ شاہ ہاشمی نے پاکستان میں بھی ’’غالب‘‘ نام سے چربہ فلم بنائی تھی جس میں غالب کا کردار اداکار سدھیر نے کیا تھا اور نور جہاں چودھویں کے روپ میں پیش ہوئیں اور یہ بحیثیت اداکارہ نورجہاں کی آخری فلم تھی۔ غالباً حبیب جالب نے بھی اس میں حکیم مومن خاں مومن کا ایک مختصر رول کیا تھا مگر سدھیر کو مرزا غالب کے روپ میں پسند نہیں کیا گیا۔ یہ بہت ناقص اور غیر معیاری تھی، سہراب مودی کی مرزا غالب ہر اعتبار سے بہت ارفع و اعلیٰ تھی۔ ثریا کی گائی ہوئی غزلیں پاکستانی مرزا غالب میں میڈم نورجہاں نے گائیں اور اُن میں مُرکیوں اور تانوں کا اضافہ بھی کیا۔ مگر سچ ہے کہ ثریا کی آواز اور سادہ گائیکی نے سننے والوں کو زیادہ متاثر کیا تھا اور ثریا کی غزلوں کو سارا ہندوستان گانے لگا تھا۔
تاہم ’’مرزا غالب‘‘ سہراب مودی کی بہترین فلموں میں سے ایک تھی اور اِس کی ریلیز نے غالب کو سارے ہندوستان میں روشناس کرا دیا۔ خصوصاً ساؤتھ کے علاقوں میں، جہاں لوگ ٹیگور کو جانتے تھے غالب کو نہیں۔ ’’مرزا غالب‘‘ ہندوستان کے ہر صوبے میں سپر ہٹ ہوئی۔ اس فلم کی کامیابی نے نہ صرف فلم بینوں بلکہ ناقدین سے بھی خراج تحسین وصول کیا۔ یہ اوّلین اُردو فلم تھی جسے بھارت میں قومی اعزاز سے سرفراز کیا گیا اور صدرِ جمہوریہ کے سنہری تمغے سے نوازا گیا۔ اپنے فلمی کیریئر میں، سینما کے حوالے سے منٹو کا سب سے بڑا کارنامہ ’’مرزا غالب‘‘ ہے۔ یہ فلم 1955ء میں ریلیز ہوئی، لیکن افسوس اِس کی شاندار کامیابی کے وقت منٹو اِس دنیا میں موجود نہیں تھے۔
٭٭٭
پرویز انجم کا یہ تحقیقی مضمون بہت عرق ریزی سے لکھا گیا ہے۔ قاری اس مضمون کے ذریعہ منٹو کی ایک اور صلاحیت/کارنامے سے روشناس ہوتا ہے۔ میں نے خود مرزا غالب نامی فلم نہیں دیکھی لیکن یہاں اس طرح تصویر کھینچی گئی ہے کہ اسے دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔
بہت جامع مضمون ہے۔ کسی پہلو سے تشنگی محسوس نہیں ہوتی۔
آخری جملہ دل میں ایک کسک سی پیدا کرتا ہے۔