منتخب غزلیں ۔۔۔ نثار ناسک

اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے

میرے ہونٹوں پہ مرے نام کا بوسہ رکھ دے

 

حلق سے اب تو اترتا نہیں اشکوں کا نمک

اب کسی اور کی گردن پہ یہ دنیا رکھ دے

 

روشنی اپنی شباہت ہی بھلا دے نہ کہیں

اپنے سورج کے سرہانے مرا سایہ رکھ دے

 

تو کہاں لے کے پھرے گی مری تقدیر کا بوجھ

میری پلکوں پہ شب ہجر یہ تارا رکھ دے

 

مجھ سے لے لے مرے قسطوں پہ خریدے ہوئے دن

میرے لمحے میں مرا سارا زمانہ رکھ دے

 

ہم جو چلتے ہیں تو خود بنتا چلا جاتا ہے

لاکھ مٹی میں چھپا کر کوئی رستہ رکھ دے

 

ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکؔ

جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے

٭٭٭

 

 

کس بھروسے پہ نکلتا گھر سے باہر میں اکیلا

چار سو اٹھے ہوئے ہاتھوں میں پتھر میں اکیلا

 

مصلحت زادوں کی ناؤ ساحلوں پر جا لگی ہے

رہ گیا سیلاب میں پسر پیمبر میں اکیلا

 

میرے پرچم پر مری رسوائی کی تحریر ہے

دشمنوں سے جا ملا ہے میرا لشکر میں اکیلا

 

میں یہ کس کوئے ہراساں میں ہوں تصویر سوال

سب کھڑے ہیں اپنے ہی سایوں سے لگ کر میں اکیلا

 

صحن میں آہٹ ہے کوئی اور نہ چھت پر چاپ ہے

شام ہے اور بے دلی کی سیڑھیوں پر میں اکیلا

 

مجھ سے باہر زندگی آزادیاں آبادیاں

اور اس تاریک سے کمرے کے اندر میں اکیلا

 

سب کے اعمالوں کی ناسکؔ لگ چکی ہیں قیمتیں

رہ گیا ہوں اب سر بازار‌ محشر میں اکیلا

٭٭٭

 

 

بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر

کہر کے کیچڑ میں تڑپے ہیں پرندے رات بھر

 

جانے پھر کن دلدلوں سے آخری آواز دیں

اپنی بے منشور عمریں اپنے بے منزل سفر

 

میرے باہر چار سو مرتی صداؤں کا سراب

تو بکھرنا چاہتا ہے تو مرے اندر بکھر

 

تو کنول کی شکل میں پھوٹے گا اپنی ذات سے

جسم کی خواہش کے گہرے پانیوں میں بھی اتر

 

پھر مری مٹی میں اپنی چاہتوں کی سونگھنا

پہلے میری سانس کے سنسان جنگل سے گزر

 

دل میں ناسکؔ رہ گئی ہیں آرزو کی دو لویں

ایک خوش عادت سی لڑکی اور اک چھوٹا سا گھر

٭٭٭

 

 

پرائے لوگوں نے طے کر لیا سفر میرا

کہ میرے پاؤں سے لپٹا رہا ہے گھر میرا

 

میں عمر بھر کا سکوں دے کے بھی رہا مقروض

وہ سود خور محبت ہے بار سر میرا

 

میں تیری عمر کے ہر روپ کی امانت ہوں

کہ پل رہا ہے تری سیپ میں گہر میرا

 

وہ بے ستوں بھی مری ذات جوئے شیر بھی میں

مجھے اجاڑ گیا تیشۂ ہنر میرا

 

وہ میرا ہو کے بھی ظاہر نہیں ہوا مجھ پر

یہ اختلاف رہا اس سے عمر بھر میرا

٭٭٭

 

 

شاعری میری تپسیا لفظ ہے برگد مرا

یہ زمیں ساری زمیں مشفق زمیں معبد مرا

 

میں گیا کی روشنی ہوں میں حرا کا نور ہوں

تو فنا کے ہاتھ سے کیوں ناپتا ہے قد مرا

 

دھیان کے گونگے سفر سے بھی نکل جاؤں مگر

راستہ روکے کھڑی ہے سانس کی سرحد مرا

 

عمر بھر سورج تھا سر پر دھوپ تھی میرا لباس

اب یہ خواہش ہے گھنی چھاؤں میں ہو مرقد مرا

 

کہہ دیا تھا میں پرانی سوچ کا شجرہ نہیں

آج تک منہ دیکھتے ہیں میرے خال و خد مرا

٭٭٭

 

 

یہ غم بھی ہے کہ تیرے پیار کا دعویٰ نہیں کرتا

خوشی بھی ہے کہ اپنے آپ سے دھوکا نہیں کرتا

 

اگر میں نے تجھے دنیا پہ قرباں کر دیا تو کیا

یہاں انسان جینے کے لیے کیا کیا نہیں کرتا

 

جو ان سونے کی دہلیزوں پہ جا کر ختم ہوتی ہیں

میں ان گلیوں سے اب تیرا پتہ پوچھا نہیں کرتا

 

وہ جس پر تو نے دو دل ایک ناوک سے گزارے تھے

میں اب اس پیڑ کے سائے میں بھی بیٹھا نہیں کرتا

 

میں اپنے آپ کو ڈھونڈوں گا اپنی شکل کے اندر

میں اپنی بے دلی کا آئنہ میلا نہیں کرتا

 

میں اپنے جسم کے ساحل پہ تیری آرزو لکھوں

یقیں ہو گر کہ پانی ریت سے گزرا نہیں کرتا

٭٭٭

 

 

سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا

خبر نہیں ہے کہ میرے اندر وہ اک دھماکہ سا کیا ہوا تھا

 

وہ کھو گیا تھا تو یوں لگا تھا کہ عزت نفس لٹ گئی ہے

میں روز کے ملنے والے لوگوں میں اک کھلونا بنا ہوا تھا

 

خزاں کی وہ سرد رات بھی میں نے گھر سے باہر گزار دی تھی

کہ میرے بستر پہ لاش بن کر مرا ہی سایہ پڑا ہوا تھا

 

سب اپنی اپنی صدا کے پرچم سپرد شب کر کے سو چکے تھے

بس ایک میں ہی مہیب لمحوں کے لشکروں میں گھرا ہوا تھا

 

جسے وہ سانسوں کی لوریوں سے مرے بدن میں سلا گئی تھی

پلٹ کے آئی تو وہ چہکتا شریر بچہ مرا ہوا تھا

 

یہ ایک پرچھائیں سی جو صدیوں سے میرے ہم راہ چل رہی ہے

یہی مرا حرف ابتدا ہے میں جس سے اک دن جدا ہوا تھا

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے