معروف ادیب مظفر حسین سید کل شب مارہرہ شریف سے راہی ملک عدم ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مرحوم لا ولد تھے اور والدین و اہلیہ اور بہن کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔ مظفر حسین سید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ۱۹۷۰ کی دہائی میں ایم اے کیا اور یہیں سے شارق ادیب کے قلمی نام سے ادبی زندگی کا آغاز کیا ۔ علی گڑھ میں ستر سے اسی کے درمیان کی ادبی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کیا اور معروف افسانہ نگار پروفیسر طارق چھتاری کے بقول ’’ان سرگرمیوں کے روح رواں رہے‘‘ ستر کی دہائی کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں علی گڑھ سے جو نام لیے جاتے ہیں ان میں سید محمد اشرف طارق چھتاری اور غضنفر کے ساتھ شارق ادیب کا نام بھی شامل ہے۔ وہ مشہور و معروف افسانہ نگار اور ناول نگار قاضی عبد الستار کے خاص ارادت مندوں میں شامل تھے۔
شارق ادیب کے احباب نے ان کا ذکر جب جب کیا ہے بطور خاص ان کے مزاج کا تلون معرض ذکر میں آیا ہے ان کی پوری زندگی اس تلون اور ایک خاص قسم کی بے پروائی سے عبارت رہی۔ ان کے مزاج اور افتاد طبع کی زد میں ان کا قلمی نام بھی آیا اور ان کی افسانہ نگاری بھی۔
نوے کی دہائی میں مظفر حسین سید صحافی مترجم اور تنقید نگار کی حیثیت سے نمودار ہوئے اور دہلی کو قیام کے لیے منتخب کیا۔ گزشتہ برسوں میں مظفر حسین سید کی حیثیت سے وہ ادبی تقریبات میں علی گڑھ دہلی اور دوسرے شہروں میں بھی نظر آئے۔
کرونا سے قبل کئی مرتبہ علی گڑھ بھی آئے اور ادبی و علمی جلسوں میں بہت سرگرمی کے ساتھ شریک ہوئے۔ علمی معاملات میں غیر معمولی انہماک اور نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے مظفر حسین سید کی ذاتی زندگی سے ان کے بہت قریبی چند احباب کے علاوہ کوئی واقف نہیں تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈاکٹر راحت ابرار کا بیان ہے کہ پچھلے دنوں مظفر حسین سید دہلی میں کافی بیمار تھے۔ وہاں سے مارہرہ شریف آ کر رہنے لگے۔ اس کی خبر جب ان کے دوست اور معروف افسانہ نگار سید محمد اشرف کو ملی تو وہ مظفر حسین سید کو بغرض علاج اپنے ساتھ علی گڑھ لائے اور جب ان کی طبیعت بہتر ہوئی تو وہ دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے مارہرہ شریف چلے گئے۔
مارہرہ شریف سے مظفر حسین سید کا تعلق یہ ہے کہ ان کے والد سید اختر حسین زیدی ادیب مراد آبادی ثم مارہروی وہاں اسکول میں استاد تھے اور وہیں انھوں نے سید محمد اشرف کو تعلیم دی۔ مظفر حسین سید اصلاً سید محمد اشرف کے برادر بزرگ پروفیسر سید محمد امین سابق صدر شعبہ اردو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف) کے ہمدرس اور بچپن کے دوست تھے۔ سید محمد اشرف کے بقول مظفر حسین سید کے والد ادیب مارہروی نے ان کے چچا حسین میاں سے لے کر ان کے چھوٹے بھائی سید نجیب حیدر برکاتی (سجادہ نشین) تک دو پشتوں کو اسکول میں تعلیم دی۔
سید محمد اشرف اور مظفر حسین سید کی دوستی علی گڑھ میں ہوئی جس کا سلسلہ مظفر حسین سید مرحوم کی آخری سانس تک اس طرح قائم رہا کہ وہ آج بعد نماز ظہر سید محمد اشرف کے وطن مارہرہ شریف میں آسودۂ خواب عدم ہو گئے۔
میرے بزرگوں ڈاکٹر اجمل اجملی اور اکمل اجملی (سجادہ نشین دائرہ شاہ اجمل الہ آباد) مرحومین سے بھی مظفر حسین سید کا بہت تعلق تھا جس کا ذکر وہ تقریباً ہر ملاقات میں کرتے۔
آج صبح جب میں نے ان کی خبر مختلف چینلز پر دی تو معروف ادیب مکرمی قیصر شمیم صاحب نے مظفر حسین سید کے بارے میں کچھ لکھنے کا حکم دیا سو امتثال امر کے بطور یہ سطریں لکھیں ساتھ ہی قطعہ تاریخ وفات بھی لکھا جو حاضر ہے:
گیے جو ماضی کے شارق ادیب صاحب کل
کہا کئی نے مسائل میں وہ مقید تھے
ہر اک کو ہم میں سے بننا ہے قصۂ ماضی
کسی کسی کو کہے گا زمانہ جید تھے
صدا تمام ادب دوستوں کے *قلب* سے آئی
*کوئی ادیب مظفر حسین سید تھے*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
1890
+
قلب = 132
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
2022ء
٭٭٭