مشاعرہ الف فورم
ترتیب: اسد مصطفیٰ
۵ فروری ۲۰۱۱
طرح: چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
کتاب چہرہ (FaceBook) میں مختلف گروہ آن لائن مشاعرہ بپا کرتے رہتے ہیں۔ پیش ہے اس کی ایک مثال۔
سب سے پہلے وہ غزل جس سے طرحی مصرع دیا گیا ہے۔ اس کے بعد الفابائی ترتیب سے باقی غزلیں
مصرع طرح کی غزل: جمال احسانی
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں حائل تھا
وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا
یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا
ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو
نشانے پر بھی نہ تھا اور کمان میں بھی نہ تھا
جمال پہلی شناسائی کا وہ ایک لمحہ
اسے بھی یاد نہ تھا ، میرے دھیان میں بھی نہ تھا
جمال احسانی
٭٭٭
احمد علی برقی اعظمی
احمد علی برقی اعظمی
ہوا وہ جو مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
دکھا کے ایک جھلک اس طرح ہوا روپوش
نہ تھا زمیں پہ کہیں آسمان میں بھی نہ تھا
وہ خود کو کیسے بچاتا وہاں حریفوں سے
غرورِ تمکنت اب اُس کی شان میں بھی نہ تھا
میں اس کو دیکھ کے ہوش و حواس کھو بیٹھا
وہ طمطراق زبان و بیان مین بھی نہ تھا
کوئی بھی ٹوکتا بڑھ کر اسے سرِ محفل
وہ حوصلہ کسی پیر و جوان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
اسد ضیا
اسد ضیاء
حریف کوئی کہیں درمیان میں بھی نہ تھا
بچھڑ نا ہوگا یہ اپنے گمان میں بھی نہ تھا
خدا جو آپ بلاتا ہے صاف ظاہر ہے
مجھ ایسا شخص کوئی آسمان میں بھی نہ تھا
ہمارے پیار سی تھیں سو کہانیاں پہلے
پر ایسا ہجر کسی داستان میں بھی نہ تھا
تمہارے لطف کے چشمے بھی خشک ہو چلے تھے
مزید ذوق دل ِ نیم جان میں بھی نہ تھا
مشاعرے کے بعد کا شعر
تمہارے لہجے کی نرماہٹیں بھلا دے مجھے
یہ معجزہ، کسی شیریں دہان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
اعجاز عبید
اعجاز عبید
زمین میں بھی نہ تھا، اور زمان میں بھی نہ تھا
میں سوچتا تھا اسے، اپنے دھیان میں بھی نہ تھا
جو میرے نام پہ نکلے، مرے لئے ڈوبے
ستارہ ایسا مگر آسمان میں بھی نہ تھا
سوال حل ہوا جو امتحاں میں آیا نہیں
وہ تیر پار ہوا جو کمان میں بھی نہ تھا
نہ جانے آئینوں نے کیوں لباس اتار دئے
وہ آج اپنی ہمیشہ کی شان میں بھی نہ تھا
یہ اور بات ہمیں نے چھڑا لیا دامن
وہ ہاتھ آئے گا اپنے گمان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
الیاس بابر اعوان
الیاس بابر اعوان
کسی دعا کا اثر ہے کہ آسمان پہ تھا
کہ اتنا حوصلہ میری اڑان میں بھی نہ تھا
ادھر بھی رات کی دیوی کا رقص تھا جاری
"چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا”
عجیب بات ہوئی لفظ سے نکل آیا
جو ایک نقش زمیں آسمان میں بھی نہ تھا
کوئی تو بات تھی لوگوں کا لگ گیا میلہ
کچھ ایسا سوز تو میری اذان میں بھی نہ تھا
نجانے کون تھا دیوار اس کی سوچوں میں
میں اس کے دھیان میں تھا اور دھیان میں بھی نہ تھا
یہ جنگ نعرہ ء تکبیر پر ہی جیتی ہے
وگرنہ کوئی سپاہی مچان میں بھی نہ تھا
وہ اک خیال ، تنفس بحال تھا جس سے
گیا ہے ایسے کہ جیسے گمان میں بھی نہ تھا
تمہی نے مجھ کو تراشا ہے خون کے ہاتھوں
کہ ایسا عکس منور ،چٹان میں بھی نہ تھا
یہ مانتے ہیں کہ کاغذ میں جان ڈالی تھی
پر ایسا پھول ترے گل ، ستان میں بھی نہ تھا
جو لطف گاؤں کی خستہ دکاں میں پایا ہے
ہمارے شہر کی اونچی دکان میں بھی نہ تھا
مجھے بھی دشت میں مرنے سے ڈر نہیں لگتا
سفر کا خوف مرے ساربان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
امجد شہزاد
امجد شہزاد
کسی کہانی ، کسی داستان میں بھی نہ تھا
ترے بغیر تو میں اپنے دھیان میں بھی نہ تھا
مرے مزاج پہ حاوی ، مرے چلن سے جڑا
وہ ایک شخص کبھی میرے دھیان میں بھی نہ تھا
جہاں جہاں بھی گیا، ایک سے مناظر تھے
مرے مزاج کا موسم جہان میں بھی نہ تھا
اسی خیال کے سائے میں رات بھر جاگا
’چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا‘
کسی کے پیار کی ضو نے دکھا دیا ہے مجھے
جو رنگ اور نظارہ گمان میں بھی نہ تھا
یہ مجھ سے کیسا غضب ہو گیا ، میں جینے لگا
یہ سلسلہ تو مرے خاندان میں بھی نہ تھا
مجھے تو ہجر کی حالت عزیز ہے امجدؔ
ترا یہ حال مگر میرے دھیان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
حامد محبوب
حامد محبوب
وصالِ یار تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا
مرا ستارا ترے آسمان میں بھی نہ تھا
وہ جنسِ حسن پہ نازاں تو ہم کو زعم۔ جنوں
بکاؤ مال ہماری دکان میں بھی نہ تھا
زمیں پہ یونہی فلک سے اتر کے آ گئے تھے
یہ ہست و بود کا چکر گمان میں بھی نہ تھا
شبِ سیاہ کے سینے کا زخم بھر گیا تھا
’’چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا’’
میں دل گرفتہ تھا سانسیں اکھڑ رہی تھیں مری
فشانِ آتش و آہن چٹان میں بھی نہ تھا
میں ایسے قریۂ وحشت سے ہو کے آیا ہوں
حضور! قیس جہاں داستان میں بھی نہ تھا
یہی سبب ہے کہ اڑتی نہیں ہے خاک مری
سبک خرام کوئی رفتگان میں بھی نہ تھا
کہاں خمار، کہاں کا نشہ، کہاں کا جنوں
میں وصل بعد کہیں جسم و جان میں بھی نہ تھا
جو سرخ ریت پر کھلنے لگی ہے سبز لکیر
وہ واقعہ تو کسی داستان میں بھی نہ تھا
اڑا رہی تھی ہوا چاک سے میری مٹی
میں خود پرست تو اپنی امان میں بھی نہ تھا
ترے لبوں کے تبسم سے کھلتی روشنی تھی
وہ سرخ پھول کہ جو پھول دان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
رحمان حفیظ
رحمان حفیظ
ترے گماں میں نہ تھا میرے دھیان مین بھی نہ تھا
’’چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا’’
ہم ایک ساتھ اڑے آسمان کی وسعت میں
یہ لطف تو میری پہلی اڑان میں بھی نہ تھا
ہم اپنے اپنے جزیروں میں محوِ فکر رہے
جو میرے دل میں تھا وہ تیرے دھیان میں بھی نہ تھا
مرے خیال کی تجسیم جس پہ ہو سکتی
وہ چاک دہر کے اس خاکدان میں بھی نہ تھا
عجیب کرب و بلاسے گزر کے آیا ہوں
کہ اب کی بار میں اپنی امان بھی نہ تھا
میں اپنے آپ میں لوٹا تو یہ کھلا مجھ پر
کہ ایسا سایہ ترے سایبان مین بھی نہ تھا
ہماری مردہ دلی پر ہی بس نہیں موقوف
کچھ ایسا سِحر تمہاری اذان میں بھی نہ تھا
ڈسا گیا ہوں مگر میں تمہارے لفظوں سے
اگرچہ زہر تمہاری زبان میں بھی نہ تھا
یہ اور بات ، کوئی پوچھنے نہ آیا مگر
کوئی چراغ تمہاری دکان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
رضیہ غفور
رضیہ غفور
وہ ایک شخص جو میرے گمان میں بھی نہ تھا
بنا شریک سفر وہ جو دھیان میں بھی نہ تھا
میں سوچتی ہوں اسے ہی نہ جانے کیوں جو مری
زمین میں بھی نہ تھا،اآسمان میں بھی نہ تھا
گزر گیا ہے یہ جیون اسی کے ساتھ جو یوں
ہمارے ساتھ کسی امتحان میں بھی نہ تھا
اسے تو اپنے ہی فردا کی فکر تھی ہر دم
مرے سفر میں نہ تھا اور تھکان میں بھی نہ تھا
زمانے بھر کی رہی تیرگی کی فکر، مگر
چراغ تو مرے اپنے مکان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
سدرہ سحرؔ عمران
سدرہ سحر عمران
بجا سنا کہ تُو میرے دھیان میں بھی نہ تھا
ثنا تھی جس کی وہ طر زِ بیان میں بھی نہ تھا
تمام عمر جو لکھتا رہا نصابِ دل
جو مر گیا تو کسی داستان میں بھی نہ تھا
فقط مری ہی حویلی کا دیا تو نہ بجھا
’’چرا غ سا منے والے مکا ن میں بھی نہ تھا‘‘
بچھڑ کے عقدہ کھلا، دھوپ کی تمازت میں
سکون اتنا ترے سائبان میں بھی نہ تھا
مجھے جو چھوڑ گیا آج اک تناظر میں
ہنر شناس وہ پورے جہان میں بھی نہ تھا
صلیب ِ عشق مری جاں گڑ ی ،ملال نہ کر
بڑھا ، وہ تیر جو تیری کما ن میں بھی نہ تھا
بچھڑ نے والے تجھے کس طرح بتاؤں میں
یہ حادثہ تو کسی کے گمان میں بھی نہ تھا
نصیب ہی کی کوئی چال تھی جدائی میں
وگرنہ اب تو کوئی درمیان میں بھی نہ تھا
سوال ِ ہجر لبوں پر ٹھہر گیا ہے کیوں
یہ گوشوارہ میرے امتحان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
سید وحید القادری عارف
سید وحید القادری عارفؔ
زبان کہتی رہی جو گمان میں بھی نہ تھا
ہدف پہ تیر جو پہنچا کمان میں بھی نہ تھا
یہ کس کی آہ تھی جو سیدھی عرش پر پہنچی
اثر تو ایسا کسی کی اذان میں بھی نہ تھا
نزولِ آدمِ خاکی گواہ ہے اس پر
علاجِ وحشتِ دل آسمان میں بھی نہ تھا
کسی کے در کے فقیروں کی شان ایسی لگی
جواب جس کا کہ شاہوں کی شان میں بھی نہ تھا
بدلتے وقت نے نام و نشاں مٹا ڈالے
ہمارا ذکر تو نام و نشان میں بھی نہ تھا
بدن جھلستے رہے دھوپ میں مصائب کی
کہ سایہ آج کسی سائبان میں بھی نہ تھا
دیارِ غیر میں وہ لٹ گیا تو کیا شکوہ
جو اپنے شہر میں رہ کر امان میں بھی نہ تھا
نظر نے حالتِ دل سب بیان کر ڈالی
سکوت میں جو بیاں تھا ، بیان میں بھی نہ تھا
جچا نہ کوئی نگاہوں مین اس کے بعد عارف
کہ ویسا دوسرا کوئی جہان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
شوکت جمال
شوکت جمال
’’چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا‘‘
مگر وہ گھر میں تھا تنہا، گمان میں بھی نہ تھا
مرے رقیب نے مارا قدم قدم پہ مجھے
ہنر جو اس میں تھا وہ تو ’’پران‘‘ میں بھی نہ تھا
بچارا شیر شکاری کو ڈھونڈتا ہی رہا
فضا میں تھا نہ زمیں پر، مچان میں بھی نہ تھا
عجیب عمر ہے میری کہ کل سرمحفل
بزرگ میں بھی نہ تھا میں ، جوان میں بھی نہ تھا
نہ تھا رقیب کے گھر تو کہاں تھا وہ شوکت
وہ اپنے گھر میں نہیں تھا ، دکان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
طارق ہاشمی
طارق ہاشمی
۱۔ مزاحیہ
جو لطف آج کراچی کے پان میں ہے جناب
مزہ وہ لکھنؤ والوں کے پان میں بھی نہ تھا
اچار ڈھونڈ رہے ہو کہاں پتیلی میں
میں دیکھ آیا میاں مرتبان میں بھی نہ تھا
دیا جو پھینک کے بیلن تو بلبلا اٹھا
میں اس طرح سے پٹوں گا یہ دھیان میں بھی نہ تھا
وہ طمطراق بڑھاپے میں تھا کہ مت پوچھیں
ہمارے شہر کے کڑیل جوان میں بھی نہ تھا
یہ کھوپڑی میں مری شاعری کہاں سے آئی
یہ شوق گھر میں تو کیا خاندان میں بھی نہ تھا
جو گفتگو کا مزہ ترک لڑکیوں سے ملا
یقین جانئے وہ ہم زبان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
سنجیدہ۔ ۲
یہاں بھی لکھی تھیں تاریکیاں مقدر میں
"چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا”
ہمارے عجز نے پہنچا دیا بلندی پر
مقام وہ جو ہمارے گمان میں بھی نہ تھا
غرور اپنے نشانے پہ ہے تجھے ظالم
پرندہ قتل کیا جو اڑان میں بھی نہ تھا
میں کیسے مان لوں کہ اپ بد گماں ہونگے
حضور یہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
عدیل شاکر
عدیل شاکر
اب ایسا وار تو میرے گمان میں بھی نہ تھا
چلا وہ تیر جو اس کی کمان میں بھی نہ تھا
کچھ اس لیئے بھی میں اس نامراد کو بھایا
کہ بابِ وصل مری داستان میں بھی نہ تھا
مگر میں گم ہوں اسی کا جواب ڈھونڈنے میں
کہ جو سوال کسی امتحان میں بھی نہ تھا
نہ تھا شمار بھلے میرا خوش مزاجوں میں
مگر ہے یوں کہ میں افسردگان میں بھی نہ تھا
ترے بغیر بھی خوش ہوں میں اور اتنا خوش
یہ وقت آئے گا میرے گمان میں بھی نہ تھا
رْلا گیا مجھے مرتا ہوا مسافر وہ
عدیل جس کے میں پسماندگان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
عقیل عباس جعفری
عقیل عباس جعفری
زمین پر بھی نہ تھا آسمان میں بھی نہ تھا
مثیل اس کا کسی کے گمان میں بھی نہ تھا
شجر کٹا تو پرندے ہوئے اداس بہت
جبھی تو لطف کسی کی اڑان میں بھی نہ تھا
اسی سخن پہ ہوا شہر بھر خفا ہم سے
وہ اک سخن جو ہمارے گمان میں بھی نہ تھا
جس اک رواج پہ وہ میرا ساتھ چھوڑ گیا
وہی رواج مرے خاندان میں بھی نہ تھا
جو لوگ خود کو سمجھتے تھے مرکزی کردار
پھر ان کا ذکر کسی داستان میں بھی نہ تھا
پڑا ہوا تھا موذن کا ذہن دنیا میں
اسی لیے تو تاثر اذان میں بھی نہ تھا
اسی سوال پہ اک عمر کاٹ دی ہم نے
جو اک سوال کسی امتحان میں بھی نہ تھا
جو تیرے جوڑے میں سج کر تجھے سجا سکتا
وہ ایک پھول کسی گلستان میں بھی نہ تھا
بچھڑ بھی سکتا ہے اک دن جمال جیسا دوست
"یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا”
٭٭٭
علی اصغر عباس
علی اصغر عباس
سکوں مکان میں کیا لا مکان میں بھی نہ تھا
مزا بہشت کا جنت نشان میں بھی نہ تھا
میں کس کے نام کی تختی لگاتا چہرے پر
مکین کوئی جو دل کے مکان میں بھی نہ تھا
ملا تھا رات کو اک شخص ریت ہوتا ہوا
سراب زار کی وہ آن بان میں بھی نہ تھا
کنارِ شام جو دن نے تھکن اتاری تھی
خیال اس کا تو شب کے دھیان میں بھی نہ تھا
ہمارے ہاتھ پہ اپنی لکیر دیکھتے ہو
وصال تجھ سے تو اپنے گمان میں بھی نہ تھا
اٹھا لیا ہے محبت کا بوجھ پیری میں
یہ حوصلہ تو کسی نوجوان میں بھی نہ تھا
شکار ہونے کے شوقین امڈے آتے ہیں
شکاری دیکھیے کوئی مچان میں بھی نہ تھا
نگاہ ِ ناز بھی محجوب تھی علی اصغر
’’چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا‘‘
مشاعرے کے بعد کہا گیا شعر
وہ خوش نصیب تھے ہم لوگ کہ جنہیں اصغر
قرار دنیا میں کیا اُس جہان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
علی تاصف
علی تاصف
تمام عمر دکانیں تلاش کرتا رہا
طلب تھی جس کی کسی اک دکان میں بھی نہ تھا
ہمارا گھر ہی اندھیرے میں تھوڑی ڈوبا تھا
’’چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا‘‘
جو دل میں آگ لگاتا ہمیں ہلا دیتا
سنو وہ حشر تمہاری اٹھان میں بھی نہ تھا
لڑا ہوں جیسے میں خود سے تمام عمر سنو
یہ حوصلہ تو کسی پہلوان میں بھی نہ تھا
جو وزن دھیان کا ہے تیرے دھیان میں بھی نہ تھا
مجھے یقین ہے تیرے گمان میں بھی نہ تھا
جو درد تم نے دیا ہے خدا گواہ کہ وہ
مرے تو وہم میں چھوڑو گمان میں بھی نہ تھا
جنہیں زمین پہ یارو خدا نہیں ملتا
وہ آسمان گئے آسمان میں بھی نہ تھا
رہے ہیں ہم بھی کبھی کرو فر کے ساتھ مگر
مزہ جو عجز میں ہے آن بان میں بھی نہ تھا
مجھے قبول کہ عجلت پسند تھا میں بھی
ذرا سا صبر مگر بھاگوان میں بھی نہ تھا
میں مانتا ہوں کہ لہجہ مرا کرخت رہا
سنو کہ شہد تمہاری زبان میں بھی نہ تھا
میں جس کی کھوج میں واں سے یہاں تلک آیا
بہت تلاشا اْسے اس جہان میں بھی نہ تھا
شکار کیسے ہوئے اب کے تم علی تاصف
کوئی شکاری تو اب کے مچان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
عمران سیفی
عمران سیفی
وہ چھوڑ جائے گا ایسے گمان میں بھی نہ تھا
کہ جس کا ذکر مری کسرِ شان میں بھی نہ تھا
میں اس کی دید کے قابل نہیں رہا سیفی
جسے کمال نظر کی اٹھان میں بھی نہ تھا
چرا رہا تھا کوئی چاندنی کی بوندوں کو
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
تو کیوں بنا رہا ہے میرے نام کا کتبہ
مرا تو نام ابھی کشتگان میں بھی نہ تھا
میں تیرے شہر میں کیونکر قیام کر جاتا
مرا قیام تو اپنے مکان میں بھی نہ تھا
نظر نظر میں تجھے کس طرح میں سمجھاتا
تجھے یقین تو میری زبان میں بھی نہ تھا
میں کس طرح سے ہواؤں کو چیرتا جاتا
مرا وجود تو اپنی اڑان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
فاتح الدین بشیر
فاتح الدین بشیرؔ
منافقت کا سوال امتحان میں بھی نہ تھا
ریا کا تیر تو میری کمان میں بھی نہ تھا
وگرنہ اک نگہِ مست وار ہی دیتا
علاجِ غم مرے عیسیٰ کے دھیان میں بھی نہ تھا
سوادِ شب سے حَذَر اور برائے شب زدگاں
وفورِ طعنہ کوئی ان کی شان میں بھی نہ تھا
گرہ گرہ تھا کھُلا مجھ پہ تیرا عقدِ بدن
مگر یہ بندِ خودی تو گمان میں بھی نہ تھا
سمیٹ لے جو مِرا منتشر وْجود بہَم
اثر وہ دل کے پریشاں دخان میں بھی نہ تھا
تھی طبعِ نور فِگن طبع زادِ نور فقط
"چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا”
کھلا یہ آ ج کہ مانگا جواب اجل نے بشیر
سوالِ زیست مرے تو گمان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
فاروق رحمان
فاروق رحمان
اکیلے پن کا تصور تو دھیان میں بھی نہ تھا
تو چھوڑ جائے گا میرے گمان میں بھی نہ تھا
بلک رہے تھے مرے گھر میں بھوک سے بچے
"چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا”
جسے سفر کے لئے اپنا رہنما کرتے
ستارہ ایسا کوئی آسمان میں بھی نہ تھا
کہ اپنے ہاتھ سے اپنی لحد کے گل چنتا
یہ حوصلہ تو کسی باغبان میں بھی نہ تھا
نہ تیرا نام تھا میری کسی کہانی میں
کہ میرا ذکر تری داستان میں بھی نہ تھا
جو اک مٹھاس ہے اردو زبان میں فاروق
وہ ذائقہ تو کسی کی زبان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
قیصر محمود قیصر
قیصر محمود قیصر
ہوا جو ساتھ میرے وہ گمان میں بھی نہ تھا
وہی تو تیر چلا جو کمان میں بھی نہ تھا
اسی تو آس پہ زندہ رہا میں اے لوگو
"چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا”
بس اک ہی سوچ پہ مجبور کر دیا اْس نے
قصیدہ یار کا میری تو شان میں بھی نہ تھا
اسی کے طرز تکلم کا ہے اثر شاید
کہ ایسا ذائقہ میری زبان میں بھی نہ تھا
حسین آنکھیں تھیں قیصر جو کر گئیں جادو
اثرمٹھاس کا ورنہ بیان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
گلناز کوثر
گلناز کوثر
رکے ہیں پاؤں جہاں پر،گمان میں بھی نہ تھا
کہ ایسا زور ہماری اڑان میں بھی نہ تھا
یہ کیا کہ پھر بھی کڑی ہو گئی ہے راہ حیات
وہ مجھ سے دور کسی امتحان میں بھی نہ تھا
اب ایسا رنج بھی کیا ٹوٹ کر بکھرنے کا
ہمارا گھر تو خدا کی امان میں بھی نہ تھا
جو پھول ٹانکتا پھرتا ہے خشک ٹہنی پر
وہ پیڑ اب کے بہاروں کے دھیان میں بھی نہ تھا
اسے بھی جانے کی جلدی تھی اپنی دنیا میں
کچھ ایسا لطف ہمارے بیان میں بھی نہ تھا
کڑا تھا کچھ تو شکاری کا وار بھی اب کے
پھر ایسا حوصلہ ننھی سی جان میں بھی نہ تھا
مرے لہو میں جو رقصاں ہے ایسا لمحۂ وجد
مرے گماں میں نہ تھا میرے گیان میں بھی نہ تھا
زمیں بھی کاسنی پھولوں کی راہ تکتی تھی
تو ماہتاب مرے آسمان میں بھی نہ تھا
یہ جس نے پھول کھلائے ہیں میرے پہلو میں
یہ ایسا تیر تو تیری کمان میں بھی نہ تھا؟
٭٭٭
نادر درانی
نادر درانی
لگے گا تیر یوں آ کر گمان میں بھی نہ تھا
ابھی شکاری تو اپنی مچان میں بھی نہ تھا
کرے کوئی یہاں اب کس سے تیرگی کا گلہ
’’چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا‘‘
اْسی کی تْند ہواؤں نے آزمائش کی
جو حوصلہ ابھی میری اْڑان میں بھی نہ تھا
جو تا حیات گلِ جاں کو شبنمی رکھتا
اب اتنا ظرف کسی آسمان میں بھی نہ تھا
میں حسنِ یار کی مدحت کا حق ادا کرتا
پر ایسا لفظ تو میری زبان میں بھی نہ تھا
کچھ اب کے تھی بڑی ظالم بھنور کی گہرائی
کچھ ایسا زور مرے بادبان میں بھی نہ تھا
وہ گیت کیسے کسی روح کی غذا بنتا
سروں میں بھی نہ تھا اپنی جو تان میں بھی نہ تھا
غموں کی دھوپ میں جو ماں کی گود سے پایا
وہ ایسا سایہ کسی سائبان میں بھی نہ تھا
اتار لیتا میں زلفِ سیاہ کاغذ پر
وہ رنگ نوکِ قلم کے گمان میں بھی نہ تھا
یہ کیسے جل گیا اک دم سے گھر کا گھر نادر
لپکتا شعلہ تو کوئی دْخان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
نسیمِ سحرؔ
نسیم سحرؔ
جو پیش آیا ، وہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا
کہ میرا اپنا کوئی خاندان میں بھی نہ تھا
مری تلاش، مری جستجو تھی جس کے لئے
زمین پر بھی نہ تھا،آسمان پربھی نہ تھا
ہوا نہ یوں بھی مِرے گھر کی تیرگی کا علاج
’’چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا‘‘
زمانہ مجھ کو بھلائے تو کیا گلہ ہو مُجھے؟
کہ میرا نام تِری داستان میں بھی نہ تھا!
وُہ آفتاب جو دن بھر جلا رہا تھا ہمیں
جو شب ہوئی تو کسی راکھ دان میں بھی نہ تھا
مَیں ساری عُمر رہا ایک آزمائش میں
بظاہر ایسے کسی امتحان میں بھی نہ تھا
جھُکے ہوئے تھے سبھی آسماں زمیں کی طرف
جو خاکدان میں تھا، آسمان میں بھی نہ تھا
اُسی پہ مُجھ کوسُنائی سزاعدالت نے
وُہ ایک لفظ جو میرے بیان میں بھی نہ تھا
کماندار جو غافل ہوا ، تو پھر لشکر
کسی کے قابو،کسی کی کمان میں بھی نہ تھا
تراشتے ہوئے زخمی تو میرے ہاتھ ہوئے
مجسّمہ تو مگر اُس چٹان میں بھی نہ تھا
اُسے شِکار یکایک کِیا شکاری نے
جو اِک پرندہ ابھی تو اُڑان میں بھی نہ تھا
مَیں بے قصور تھا، لیکن گواہی دیتا کون؟
یہ حوصلہ تو کسی مہربان میں بھی نہ تھا
بڑی عجیب مسافت مِرا مقدّر تھی
مَیں دھوپ میں بھی نہ تھا،سائبان میں بھی نہ تھا
وُہ شہریار مِرا یارِ غار تھا،لیکن
قصیدہ مَیں نے لکھا اُس کی شان میں بھی نہ تھا
تِرے جہان سے کچھ واسطہ مَیں کیا رکھتا؟
جنوں میں مَیں تو خود اپنے جہان میں بھی نہ تھا
گِرا دئیے ہیں نسیمِ سحرؔ زمین پہ تِیر
جو دیکھا، تِیر عدو کی کمان میں بھی نہ تھا
٭٭٭