نیا سال مبارک قارئین! دعا ہے کہ یہ سال با برکت ثابت ہو، اردو دنیا کے لئے بھی اور انسانیت کے لیے بھی۔ آمین۔
یہ شمارہ قدرے تاخیر سے شائع ہو رہا ہے۔ وجہ میری ذاتی مصروفیات رہیں۔ امید ہے کہ قارئین اسے در گذر کر دیں گے۔
زیر نظر شمارہ افسانہ نمبر ہے۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ بیدی، منتو اور قرۃ العین حیدر کے بعد افسانہ زوال پذیر ہے۔ اس کے بعد کوئی اس معیار کا افسانہ نگار نظر نہیں آتا۔ لیکن کیا یہ بات واقعی درست ہے؟ یہ تو حقیقت ہے کہ کسی کی بھی وفات کے بعد اس کی خالی کی ہوئی جگہ کوئی اور پُر نہیں کر سکتا۔ لیکن اپنے لیے نئی جگہ تو ضرور بنا سکتا ہے۔ میری نوجوان تنقید نگاروں سے درخواست ہے کہ وہ جدید افسانہ نگاروں پر انفرادی طور پر ہی نہیں، مجموعی طور پر اردو افسانے کا جائزہ لیتے ہوئے دنیا کو بتائیں کہ اُس معیار کے افسانہ نگار اب کون کون ہیں۔ منتو اور بیدی کے دور کے بعد کے انتظار حسین، غیاث احمد گدی، اقبال متین، منشا یاد، نیرمسعود، بلراج مینرا ہی نہیں، سید محمد اشرف، بیگ احساس، پیغام آفاقی، مرزا حامد بیگم نعیم بیگ، ناصر بغدادی، طارق چھتاری، صغیر افراہیم، غضنفر، مشرف عالم ذوقی، ترنم ریاض، شائستہ فاخری ، محمد حمید شاہد اور نہ جانے کتنے نام اپنے آپ کو منوانے کے لیے منتظر ہیں۔ اور اس کے بعد آج کی نسل؟؟؟ لیکن ہمارا المیہ شاید یہ بھی ہے کہ اب ، شاید ڈاکٹر محمد حسن کے بعد ،فاروقی اور نارنگ کے معیار کے نقادوں کا بھی فقدان ہے۔ بہر حال اس افسانہ نمبر میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ قدیم کلاسیکی افسانوں سے لے کر ترقی پسند اور نو کلاسیک افسانوں تک کے نمونے دیے جائیں اور افسامے کی تاریخ کا لحاظ رکھا جائے۔اب یہ تو قارئین ہی بتا سکیں گے کہ میں اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں۔اور ان کے بعد آج کی نسل کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات بھی شائع کی جا رہی ہیں۔ کچھ اہم افسانہ تنقید کے مضامین بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ امید ہے یہ گلدستہ قارئین کو پسند آئے گا۔
پچھلا سال جاتے جاتے بھی اردو دنیا کو سوگوار تو کر گیا تھا۔ مشکور حسین یاد اور مسعود احمد برکاتی کا پاکستان میں اور ہندوستان میں اردو دوست ہندی شاعر کنور نارائن نے ’موت کی گھنٹی سن لی (دیکھیے اسی شمارے میں ان کی ’موت نے کہا‘ عنوان کی نظم)۔ اس شمارے میں یادؔ اور برکاتی صاحبان کو غلام شبیر رانا نے یاد کیا ہے۔
اور ان کا غم تازہ ہی تھا کہ نئے سال نے بھی دو زخم دے دیے۔ پاکستان میں اہم شاعر رسا چغتائی، اور ہندوستان میں معروف مشاعروں کے ناظم اور شاعر انور جلال پوری۔ جو اپنے گیتا اور گیتانجلی کے اردو ترجموں کے لیے بھی معروف ہیں، چل بسے۔ یہ دونوں وفیات اسی ماہ میں وقوع پذیر ہوئیں، لیکن ان کو اگلے شمارے تک نہ مؤخر کرتے ہوئے اسی شمارے میں یاد کیا جا رہا ہے۔ (شمارے میں ہوئی تاخیر کا نتیجہ!) رسا چغتائی پر ایک اور مرحوم دوست احسن سلیم کا مضمون (جریدہ اجرا، کراچی سے لیا گیا)، اور ان کی کچھ منتخب غزلیں اس شمارے میں شامل ہیں۔ اور انور جلال پوری کی شاعری بھی۔
اپنی آرا اور تخلیقات سے نوازتے رہیں۔ یاد رکھیں ’سمت‘ آپ کا اپنا جریدہ ہے۔
ا ۔ع
٭٭٭
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
استادِ گرامی!
ہم آپ کے نہایت شکرگذار ہیں کہ آپ اپنی مصروفیات کے باوجود اردو اور اردو کے چاہنے والوں کے لئے اِتنا کچھ کر رہے ہیں۔ اللہ آپ کو ڈھیروں خوشیاں اور آسانیاں عطا فرمائے۔ اچھی صحت دے۔ چلتے ہاتھ پاؤں رکھے اور کبھی کسی کا محتاج نہ کرے۔ آمین!