بھولا کے اسٹال پر اس دن معمول سے زیادہ بھیڑ تھی۔ اسے بھولا کے اسٹال پر بھیڑ دیکھ کر الجھن سی ہوئی اس نے اپنے کلائی میں بندھی قیمتی گھڑی دیکھی اور ذہن میں حساب لگانے لگا کہ بھولاسے پاؤ بھاجی لے کر کھانے میں اسے کتنا وقت لگے گا اور اس کے پاس اتنا وقت ہے بھی یا نہیں؟ اگر وہ اتنا وقت یہاں صرف کرے گا تو اسے کسی میٹنگ کے لیے کتنی تاخیر ہو گی اوراس کا کون سا اہم کام چھوٹ جائے گا؟
اس calculation کے بعد تو اس کے ذہن میں ایک ہی جواب ابھرتا تھا۔ وہ بھولا کی پاؤ بھاجی کھانے کا خیال ذہن سے نکال دے اور واپس اپنی کار میں جا کر بیٹھ جائے اور جس کام کے لیے وہ نکلا ہے وہ کام کرنے کے لیے روانہ ہو جائے۔
لیکن دل نہیں مان رہا تھا….
بھولا کی پاؤ بھاجی کھائے بہت دن ہو گئے تھے ….
زبان شدت سے اس پاؤ بھاجی کی لذت اور چٹخارے کی بھوک محسوس کر رہی تھی اور اسے محسوس ہو رہا تھا جس طرح زندگی گزارنے کے لیے کئی اہم کام کرنے ضروری ہیں، کئی کام جو زندگی کی ضرورت ہیں، جو جینے کے لیے لازمی ہیں، جو شاید Way of life کے ضروری جزو ہیں۔ ان میں سے بھولا کی پاؤ بھاجی کھانا بھی ایک ضروری کام ہے۔ جس طرح قیمتی شراب سے لطف اندوز ہونا، Luxury اشیا ء کا استعمال Life Style کے لیے ضروری ہے، شاید بھولا کی پاؤ بھاجی کھانا بھی اس کی Life Style کا ایک جزو ہے۔
وہ چپ لائن میں جا کر کھڑا ہو گیا۔
پاؤ بھاجی بناتے ہوئے بھولا کی نظر اس پر پڑی۔ اس کے بھدّے ہونٹوں پر ایک بھدّی سی شناسائی بھری مسکراہٹ ابھر آئی۔ وہ پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس کے لیے وہ بھی ایک عام گاہک تھا۔ اس کی نظر میں تمام گاہکوں کی اہمیت یکساں تھی۔ کوئی برتر یا اعلیٰ نہیں تھا۔ سب اس کے گاہک تھے۔ اس نے قطار میں کھڑے لوگوں کا جائزہ لیا۔
قطار میں ہر طرح کے لوگ تھے۔ اس کی طرح کچھ پاش کپڑوں والے گاہک بھی تھے تو گندے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے کچھ معمولی لوگ بھی تھے۔ کچھ سلیقے سے لباس تن زیب کیے نوجوان بھی تھے۔ ان نوجوانوں میں وہ اپنا ماضی تلاش کرنے لگا۔ اسے ہر نوجوان میں اپنا ماضی دکھائی دے رہا تھا۔
یہ سارے نوجوان شاید بے روز گار ہیں۔ روزگار کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک کر کم پیسوں میں اپنی بھوک مٹانے کے لیے بھولا کی گاڑی پر آئے ہیں۔ جس طرح کبھی وہ بھی روزی کی تلاش میں در بدر بھٹکنے کے بعد بھوک مٹانے کے لیے بھولا کی گاڑی پر آتا تھا۔
ان میں سے کچھ نوجوان ممکن ہے چھوٹے موٹے جاب کرتے ہوں گے۔ ان کی آمدنی اتنی نہیں ہو گی کہ وہ کھانا کسی متوسط درجے کے ہوٹل میں کھا کر اپنی بھوک مٹائیں۔ پیشے بچانے کے لیے اور بھوک مٹانے کے لیے وہ بھولا کی گاڑی پر آتے ہوں گے۔ اسی طرح جس طرح وہ چھوٹے موٹے کام کرنے کے بعد بھولا کی گاڑی پر آتا تھا۔
پاش دکھائی دینے والے گاہک شاید اس کے زمرے کے تھے۔ یہ لوگ اونچے عہدوں پر ہیں یا ان کا اپنا اچھا کاروبار ہے۔ یہ اپنی بھوک فائیو اسٹار ہوٹلوں کے بجائے کانٹنینٹل کھانوں سے بھی مٹانے کی استطاعت رکھتے ہیں لیکن بھولا کی پاؤ بھاجی کی لذت انھیں بھولا کی گاڑی تک کھینچ لاتی ہے۔ جس طرح اس کو کھینچ لاتی ہے۔
وہ اس وقت چار پانچ چھوٹی بڑی کمپنیوں کا مالک تھا۔ اس کے پاس کتنی دولت ہے خوداسے اندازہ نہیں تھا۔ اس کی کمپنیوں میں کام کرنے والے ہزاروں نوکر ہوں گے۔ روزانہ اس کے ذہن میں ایک نئے بزنس کا خیال آتا تھا اور پھر وہ اور اس کا عملہ اس خیال کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں مصروف ہو جاتا تھا۔
اس کا ایک ایک لمحہ اس کے لیے قیمتی ہیرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر لمحہ اس کے لیے دولت کا ایک ریلہ لے کر آتا تھا۔ اس کا بزنس بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ کاروبار کی دنیا میں اس کی ساکھ تو کبھی کی بن چکی تھی، اس کا نام اور اس کے برانڈ کو احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔
روزانہ شیئر مارکیٹ میں اس کی قائم کردہ کمپنیوں کے نرخوں میں ہونے والے تبدیلیاں اس کی دولت میں بے انتہا اضافہ کر دیتی تھی یا پھر معمولی سی کمی کر دیتی تھی۔ اس نے اپنے اس مرتبہ کو پانے کا خواب ضرور دیکھا تھا لیکن اسے اس کے سارے خوابوں کی تعبیر مل جائے گی اس نے اس بات کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ خواب تو دنیا کا ہر فرد دیکھتا ہے۔
پندرہ سال قبل وہ اس شہر میں روزگار کی تلاش میں آیا تھا۔
اسے اس شہر میں ابتدا میں وہی ملا تھا جو ایک بے روزگار تعلیم یافتہ اور قابل نوجوان کو ملتا ہے۔ دھکّے، مایوسیاں، بے بسی اور لاچاری، بھوک، نا امیدی سب کچھ اس کے جھولی میں آگرے تھے۔ جن کا بوجھ اٹھانے کی اس میں سکت نہیں بچی تھی۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اسے یقین تھا کہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر وہ اس شہر میں ایک اچھی زندگی گزارنے کے قابل وسائل تو مہیا کرہی لے گا۔
اس وقت بھولا کی گاڑی اس کا بہت بڑا سہارا تھی۔
بھولا اس وقت بھی پاؤ بھاجی بیچتا تھا اور آج بھی۔ اس کی گاڑی اور اس کی گاڑی کے محل وقوع میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوا ہے کہ پہلے وہ جگہ کافی حد تک ویران تھی، اب اس جگہ کے اطراف میں Sky lark ٹائپ کی بلڈنگیں کھڑی ہو گئی ہیں اور وہ پورا علاقہ ایک بڑا بزنس زون بن گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بھولا کے دھندے میں بھی بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔
پہلے بھولا کم مقدار میں پاؤ بھاجی بناتا تھا۔ جس کو کھانے کے لیے چنندہ لوگ آتے تھے۔ وہ انھیں بڑے خلوص سے پاؤ بھاجی پروستا تھا اور گھنٹوں ان سے گپ شپ کر کے اپنی زندگی کے حالات سناتا تھا اور ان کی زندگی کے حالات بھی سنتا تھا۔
اس کے سارے گاہکوں میں سے ایک فیملی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ ضرورت مندوں کو مہینوں تک ادھار یا مفت میں پاؤ بھاجی کھلانا بھی اس کے اچھے کاموں میں سے ایک کام تھا۔ اپنے جد و جہد کے زمانے میں کئی بار اسے بھولا نے مفت میں پاؤ بھاجی کھلائی تھی اور ادھار تو چلتا رہتا تھا۔ وہ جب بھی کوئی ترقی حاصل کرتا، سب سے پہلے اس کی خوش خبری بھولا کو ضرورسناتا تھا۔
’’پرکاش بابو! میں نے اس شہر میں سے لوگوں کو زمین سے اٹھ کر آسمان میں پہنچتے دیکھا ہے۔ جو لوگ محنت پر یقین رکھتے ہیں اور قابل ہوتے ہیں انھیں آسمان تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ تم بھی ایک دن ضرورآسمان کی بلندی کو چھوؤ گے، میرا دل کہتا ہے۔ جو لوگ بڑے بن جاتے ہیں وہ بھولا کی گاڑی کو بھول جاتے ہیں۔ تم بھی شاید بڑے بن کر بھولا اور بھولا کی ہاؤ بھاجی کو بھول جاؤ۔‘‘
’’نہیں بھولا ….! ….ایسی بات نہیں ہے۔ میں تمھارے پاؤ بھاجی کی لذت شاید ہی بھول پاؤں۔ یہ لذت مجھے کھینچ کر تمھارے پاس لاتی رہے گی، چاہے میں دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچ جاؤں۔‘‘
اور سچ مچ وہ بھی اس لذت کا اسیر بن کر رہ گیا تھا۔
اسے کسی دوسرے شہر جانے کی ضرورت تو پیش نہیں آ سکی۔ اسی شہر میں وہ ترقی کے زینے طے کرتا رہا۔ اسی شہر میں رہنے کے بعد بھولا سے اس کا رشتہ ٹوٹ نہیں سکا تھا۔ وہ بار بار بھولا کی گاڑی پر آتا تھا۔ فرق اتنا تھا کہ اب وہ گھنٹوں بھولا کے ساتھ نہیں گزار پاتا تھا… نا زیادہ باتیں کر پاتا تھا۔ وہ بھولا کے پاؤ بھاجی کی لذت میں بھولا کے پاس آتا اور پاؤ بھاجی کھا کر چل دیتا۔
اب بھولا کے پاس بھی اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ گاہکوں سے ان کا حال و احوال پوچھ سکے۔ اس کا بھی دھندہ بڑھتا گیا تھا۔ اس کی جسمانی ساخت اور لباس، طور طریقوں میں تو کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ اب بھی ۱۰۔ ۱۵؍سال پرانا بھولا ہی دکھائی دیتا تھا لیکن سنا تھا اس نے وطن میں اچھی خاصی جائداد بنائی ہے۔ وہ کئی کھیتوں کا مالک ہے اور گاؤں میں اس کا بنگلہ نما گھر ہے۔
قطار دھیرے دھیرے سرک رہی تھی۔ وہ اپنے نمبر کے آنے کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔
وہ جہاں بھی جاتا تھا اس کا V.I.P. سے بڑھ کر خیال رکھا جاتا تھا۔ کسی بھی بڑی سے بڑی تقریب اس کے آنے سے پہلے شروع نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ ملک کے وزیر اعظم یا صدر جمہوریہ سے ملاقات کرنے کے لیے بھی نہ تو اسے قطار میں جانا پڑتا تھا اور نہ اپائنمنٹ لینا پڑتا تھا۔
لیکن بھولا کی گاڑی پر اسے قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا تھا اور وہ اسے یہ گوارہ تھا۔ وہ یہاں پر بھولا سے اپنے لیے کوئی V.I.P. Treatment نہیں چاہتا تھا۔ اسے اس گاڑی پر پاؤ بھاجی خریدنے کے لیے قطار لگانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی تھی…..ہاں کبھی کبھی وہ سوچتا تھا کہ بھولا کی پاؤ بھاجی وہ آفس میں منگوا کر کھائے ….یا پھر کار میں بیٹھے بیٹھے ڈرائیور سے پاؤ بھاجی منگوا کر کھائے ……لیکن پھر وہ سوچتا جب لوگوں کو پتہ چلے گا اس کے جیسا کروڑ پتی آدمی ایک گندی پاؤ بھاجی کی گاڑی سے پاؤ بھاجی منگوا کر کھاتا ہے تو اس کے آفس میں کام کرنے والے یا اس کا ڈرائیور اس کے بارے میں کیا سوچے گا؟
وہ اپنا Status ان کی نظروں میں خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے اس علاقے میں پہنچ کر ڈرائیور کو کسی مقام پر کار کھڑی کرنے کے لیے کہہ دیتا تھا اور پیدل چل کر بھولا کی گاڑی تک آتا تھا۔ ڈرائیور کو یہ پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ وہ کہاں گیا ہے؟ کس کام کے لیے گیا ہے؟
اپنی تشنگی مٹا کر وہ واپس کار میں آ کر بیٹھ جاتا اور اپنے کام کے لیے چل دیتا۔ کبھی کبھی اپنی مصروفیات کی وجہ سے وہ مہینوں تک بھولا کی گاڑی تک نہیں جا پاتا تھا۔ اس وقت اس کی حالت کسی عادی نشہ باز کی طرح ہوتی تھی۔ جیسے اس کا نشہ اگر کافی وقت تک نہ ملے تو اس کی جو حالت ہوتی ہے، کچھ اسی طرح کی اس کی حالت ہوتی تھی۔
لیکن اتنا بڑا آدمی بن جانے کے بعد وہ ان باتوں کو برداشت کرنا سیکھ گیا تھا۔ لیکن اس کے لیے لذت کا نشہ اس کی زندگی کا ایک جزو تھا۔
اس کے آگے کوئی مزدور کھڑا تھا۔ اس کے جسم سے اٹھنے والی پسینے کی بدبو سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا لیکن وہ اسے برداشت کیے جا رہا تھا۔ ایک بار تو وہ بدبو اتنی ناقابلِ برداشت ہو گئی کہ دل میں آیا وہ قطار سے نکل جائے اور اس لذت کو بھول جائے۔
لیکن اتنا وقت گزارنے کے بعد وہ خود کو یہ فیصلہ لینے کے قابل نہیں پارہا تھا….
آخر اس کا نمبر آ گیا….
بھولا نے مسکرا کر پاؤ بھاجی کی پلیٹ اس کی طرف بڑھا دی اور اس نے بھولا کی طرف پیسے۔
اس سے زیادہ دونوں کے درمیان کچھ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
وہ پلیٹ اٹھا کر ایک طرف کھڑا ہو کر کھانے لگا۔ زبان اس آشنا سی لذت سے آشنا ہونے لگی اور اسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کی روح میں ایک تازگی سی بھرتی جا رہی ہے۔
’’ارے پرکاش جی آپ….! …آپ یہاں اس گندی سی گاڑی پر کھڑے ہو کر پاؤ بھاجی کھا رہے ہیں ….؟‘‘……ایک آواز سن کر وہ چونکا۔
سامنے داور کھڑا تھا۔ داور بھی اس کی طرح ایک بہت بڑا بزنس مین تھا۔
’’اگر زیادہ ہی بھوک لگی تھی تو قریب ایک فائیو اسٹار ہوٹل بھی تھا۔ وہاں جا کر کھانا کھا لیتے۔‘‘
’’نہیں …داور صاحب…..ایسی بات نہیں ..‘‘ وہ جھینپے ہوئے انداز میں بولا…. ’’اصل میں اس گاڑی کی پاؤ بھاجی بہت لذیذ ہوتی ہے۔ میں عرصے سے یہ کھاتا ہوں اور اسی لذت کو حاصل کرنے کے لیے اس گاڑی پر یہ پاؤ بھاجی کھانے آتا ہوں ….‘‘
’’ٹھیک ہے پرکاش صاحب! اگر آپ کو اس گاڑی کی پاؤ بھاجی اتنی پسند ہے تو اچھی بات ہے لیکن کم سے کم اپنی Status کات و خیال رکھیے۔ آپ چاہیں تو اس گاڑی والے کو اپنے گھر بلا کر اس کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی پاؤ بھاجی کھا کر اس لذت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ کا یہاں اس طرح کھانا کچھ Cheap لگتا ہے۔‘‘
اسے محسوس ہوا داور نے جیسے اس کے کانوں میں پگھلا ہواسیسہ انڈیل دیا ہے۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کے گرد ہزاروں آنکھوں نے گھیرا ڈال دیا ہے۔ یہ ساری آنکھیں ان کی شناسالوگوں کی آنکھیں ہیں۔ سب جیسے کہہ رہے ہیں … ’’یہ سب کتنا Cheapہے؟‘‘
’’آپ اس گاڑی والے کو اپے گھر بلا کر اس سے پاؤ بھاجی بنا کر بھی کھاسکتے ہیں ….‘‘
’’آپ کے پاس اتنا پیسہ ہے …..کس کام کا..؟‘‘
پاؤ بھاجی کے نوالے اس کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہے تھے …
اس نے آدھی پلیٹ ہی کھائی۔ باقی بچا ہوا کھانا جھوٹے برتنوں میں ڈال دیا اور وہاں سے تیزی سے اپنی کار کی طرف چل دیا۔
بھلے ہی وہ ٹھیک سے بھولا کی پاؤ بھاجی نہیں کھا سکا تھا۔ لیکن اسے ایک نئی راہ مل گئی تھی۔ ایک ایسا راستہ جس کے بارے میں اس نے ابھی تک نہیں سوچا تھا۔ وہ بھولا کو اپنے بنگلے پر بلا کر اس کے ہاتھوں سے پاؤ بھاجی بنا کر بھی کھاسکتا ہے۔ اب اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
وہ مطمئن سا تھا….
اس نے دو دن بعد ہی بھولا سے اپنے گھر میں پاؤ بھاجی بنا کر کھانے کا منصوبہ بنا دیا….
اس نے اپنے سیکریٹری کو سب سمجھا دیا کہ بھولا کون ہے؟ اس کی گاڑی کہاں لگتی ہے؟ اسے اس بات کے لیے تیار کرنا ہے کہ اسے میرے گھر آ کر پاؤ بھاجی بنانی ہے۔ اس کے لیے وہ اس کام کی جو بھی قیمت مانگے، دے دینا۔
سیکریٹری نے شام میں ہی جا کر ساری باتیں طے کر لی۔ ایک بڑی رقم کے عوض بھولا اس کے گھر آ کر پاؤ بھاجی بنانے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔
اس نے سوچا، بھولا کی پاؤ بھاجی کی لذت سے اپنے چنندہ احباب کو بھی متعارف کرایا جائے۔ اس لیے اس نے انھیں بھی دوپہر میں پاؤ بھاجی کھانے کی دعوت دے دی۔
بھولا دوسرے دن سویرے ہی اس کے بنگلے پر پہنچ گیا تھا۔
’’ارے پرکاش بابو! ایں آپ کا بنگلہ ہے۔ ہم آپ کے لیے پاؤ بھاجی بنانے آئے ہیں۔ ہماری تو کچھ سمجھ میں نہیں کہ کون پرکاش مہنتانی ہے اس لیے یہاں آ کر کام کرنے کی قیمت بتا دی۔ اب ہم پیسہ نہیں لیں گے۔ آپ سے پیسہ لیں ..رام..رام..رام! ارے ایں تو ہمارا سمّان ہے۔ ہم اتنے بڑے آدمی کو اپنے ہاتھوں سے پاؤ بھاجی بنا کر کھلا رہے ہیں۔ ہم نے تو سپنے میں بھی کلپنا نہیں کی تھی کہ تم ایک دن اتنے بڑے آدمی بن جاؤ گے۔‘‘
بھولا سے سیکریٹری نے ضروری سامان کی فہرست مانگی اور پھر اس کی فہرست کے مطابق اعلیٰ درجہ کا سامان منگوا کر بھولا کے حوالے کر دیا گیا اور بھولا اپنی تیاری میں لگ گیا۔
وہ دوپہر تک آفس میں کام کرتا رہا لیکن اس کا دل پاؤ بھاجی میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ اس درمیان اس نے اپنے کئی شناسا ؤں کو جن کی اس نے پاؤ بھاجی کھانے کی دعوت دی تھی، پاؤ بھاجی کی لذت کے قصے سنائے تھے اور وقت پر پہنچنے کے لیے کہا تھا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ تمام مہمان وقت پر پہنچ گئے۔ اس کے بنگلے سے بڑے سے ڈرائنگ روم کے بڑے سے ڈائننگ ٹیبل پر سب بیٹھ گئے۔ کمرے میں ایئرکنڈیشن چل رہا تھا۔ اس کے نوکروں نے بڑی نفاست سے قیمتی برتنوں میں مہمانوں کے سامنے بھولا کی بنائی ہوئی پاؤ بھاجی پروسی۔
مہمانوں کے ساتھ اس نے بھی پاؤ بھاجی کھانی شروع کی۔ جو بھی کھاتا، پہلے لقمے کے ساتھ ہی اس کے منہ سے تعریفوں کے پل بندھنے لگتے۔ ہر کوئی پاؤ بھاجی اور اس دعوت کی تعریف کر رہا تھا۔ یہ سن کر اس کا دل خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔
……لیکن پھر بھی اس کے دل میں ایک چور تھا۔ اسے اس پاؤ بھاجی سے وہ لذت حاصل نہیں ہو رہی تھی جس کا وہ اسیر تھا اور جس کی دیوانگی اسے بار بار اپنے رتبہ کی پرواہ کیے بنا بھولا کی گاڑی تک لے جاتی تھی۔
ہر لقمہ میں وہ اس لذت اور ذائقے کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا لیکن اسے بھولا کی گاڑی کی پاؤ بھاجی کی لذت نہیں مل پارہی تھی جس سے اس کی تشنگی بجھ جائے۔ اس کی تشنگی بجھ نہیں سکی بلکہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی۔
سارے مہمان اس کی پاؤ بھاجی کی تعریف کر کے دعوت کے لیے اس کا شکریہ ادا کر کے واپس چلے گئے۔
’’کہو پرکاش بابو! کیسی لگی ہماری پاؤ بھاجی….؟‘‘ بھولا نے اس سے پوچھا۔
’’بھولا! مہمانوں کو تو تمھاری پاؤ بھاجی بہت پسند آئی۔ سب تمھاری پاؤ بھاجی کی تعریف کر رہے تھے مگر…….‘‘
’’مگر کا بابو…؟‘‘
’’بھولا! مجھے اس پاؤ بھاجی میں وہ لذت نہیں ملی جو تمھاری گاڑی کی پاؤ بھاجی میں ہوتی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
اس کی یہ بات سن کر بھولا ہنس پڑا۔
’’بابو! یہاں پر گاڑی کی لذت آ بھی نہیں سکتی۔‘‘
’’مگر کیوں ….؟ گاڑی کی پاؤ بھاجی بھی تم بناتے تھے اور یہاں بھی تم نے بنائی ہے۔‘‘
’’بابو جی! یہ پاؤ بھاجی ایئرکنڈیشن کچن میں بنائی گئی ہے اور ایئرکنڈیشن ڈائننگ ہال میں کھائی گئی ہے۔ بھلا یہاں پر کھلی ہوا میں سورج کی گرمی میں پسینے کی بو کے درمیان بنائی اور کھائی جانے والی پاؤ بھاجی کی لذت کہاں سے مل سکتی ہے …..‘‘
***