اردو افسانہ نگاروں کی وہ نسل جو جوگیندر پال، رام لال، سریندر پرکاش، اقبال متین، رتن سنگھ، اقبال مجید ، جیلانی بانو وغیرہ پر مشتمل ہے۔ان میں اقبال متین کی شناخت قدرے مختلف ہے۔
کیونکہ ان کے افسانے نہ تو محض داخلیت کی بھول بھلیوں میں گردش کرتے ہیں اور نہ ہی تجربات کی بھٹی میں جھلس کر قاری سے اس کی قابلیت کا امتحان لیتے ہیں۔البتہ ان کے افسانے نہاں خانہ دل کے تاروں کو چھیڑتے ہیں۔روح کی گہرائیوں سے سوال کرتے ہیں۔عصری آگہی کے ویرانوں میں اس پہاڑ کی مانند جل اٹھتے ہیں، جس کا دھواں تو نظر نہیں آتا لیکن روشنی کی ایک لکیر بن کر احساسات کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ان کے کرداروں سے مل کر اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔بلکہ وہ اپنے اطراف و اکناف میں سانس لیتے ہوے دکھائی دیتے ہیں۔ان میں متمول افراد بھی ہیں، درمیانی طبقہ بھی ہے، لٹے پٹے نواب ، جاگیردار اور زمیندار بھی ہیں اور وہ افراد بھی ہیں جو بظاہر ہماری زندگیوں میں شامل ہوتے ہوئے بھی ہماری فکر کا حصہ نہیں بنتے ، موضوعاتی سطح پر اگر ان کے افسانوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان کے افسانوں کا محور بلکہ بنیادی محور "محبت” ٹھہرتا ہے۔
محبت کے اس سفر میں ان کے ساتھ ایک کارواں ہے، جس میں رشتے اپنے تقدس کے ساتھ ، مسائل تمام تر حشر سامانیوں سے لدے اور حالات اپنی پیچیدگیوں کے ساتھ موجود ہیں۔
اقبال متین سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا۔ان دنوں مجھے ادب کے مطالعے کا چسکہ لگ چکا تھا، گو فہم نے ابھی بال و پر نہیں نکالے تھے لیکن میں سمجھتا تھا کہ میں اپنے ہم عمروں میں بہت زیادہ ذی فہم ہوں، میری یہ پہلی ملاقات راست نہیں بلکہ میرے ہاتھ رسالہ ” شاہکار ” لگ گیا تھا اور میں نے ان کا ناول "چراغ تہہ داماں ” پڑھ لیا تھا۔یقینا اس وقت وہ ناول میرے سر پر سے گزر گیا تھا، لیکن کوشلیا کا کردار مجھے زندگی سے قریب کر گیا۔میں اپنے آپ کو گھر کا ایک ذمہ دار فرد تصور کرنے لگا تھا اور خاندان کی وہ نظریں جو میری لا ابالی فطرت کے سبب مجھ سے سوالات کرتی تھیں ان نظروں سے سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت پیدا ہو گئی۔اب سب میرے تھے۔میری زندگی کو ایک مقصد مل گیا اور دل میں یہ خواہش انگڑائی لینے لگی کہ کبھی میں بھی اقبال متین کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔لیکن ہنوز دلی دور است تھی، وہ حیدرآباد اور نظام آباد کے درمیان گردش کر رہے تھے اور میں اورنگ آباد میں ان کی تخلیقات تلاش کر رہا تھا۔مطالعے نے میرے ہاتھوں میں بھی قلم تھما دیا تھا۔افسانے ، میں بھی لکھنے لگا تھا۔موضوعاتی سطح پر گو میں نے ان کی تقلید نہیں کی۔ویسے بھی ان کی تقلید کرنا آسان نہیں بہت مشکل ہے۔وہ مٹی سے سوندھا پن کشید کرنا چاہتے ہیں اور میں ا بھی تک مٹی کے اسرار کی بصارت سے نا آشنا ، وہ پھولوں کی طرح کردار سے خوشبو ، بدلتی قدروں سے عصری آگہی کے تقاضے اور نا مساعد حالات میں بھی جینے کے حوصلوں کی باتیں کرتے ہیں۔اور میں ماضی کے دھندلکوں میں حال کی چادر اوڑھے مستقبل کو بھی تشکیک بھری نظروں سے دیکھتا ہوں۔اور وہ۔؟ اللہ کی پناہ۔ مثبت رویوں کا اتنا بڑا قلمکار بار بار پیدا نہیں ہوتا۔
اقبال متین کی شخصیت یقیناً صرف اہل حیدرآباد کے لیے نہیں بلکہ اردو دنیا کے لیے باعث افتخار ہے۔
بقول عابد سہیل۔۔۔
"اقبال متین اپنی کہانی کا مواد براہ راست زندگی سے حاصل کرتے ہیں۔ اسی سبب ان کے یہاں موضوع اور کرداروں میں بلا کا تنوع ملتا ہے اور ان کے کسی افسانے پر اپنے کسی دوسرے افسانے کی پرچھائیں نظر نہیں آتی، ان کے کردار زندہ ، متحرک ہوتے ہیں اور ان میں وہ یک رنگی نہیں پائی جاتی جو ہیئت اور کسی ادبی یا سیاسی نظریہ پر فن کو قربان کر دینے سے پیدا ہو جاتی ہے۔ان کے کرداروں میں وہ سارا تضاد پایا جاتا ہے جو زندگی سے عبارت ہے۔ان میں نہ کوئی مکمل شیطان ہے نہ کوئی مکمل فرشتہ ، سب انسان ہیں۔فرشتہ صفت کردار ہمیں اچھے لگتے ہیں لیکن شیطان صفت کرداروں سے ہمیں نفرت نہیں ہوتی اور وہ حالات جنھوں نے ان کو ایسا بنا دیا ہے۔ہمارے درمیان آ کھڑے ہو جاتے ہیں۔”
(عابد سہیل۔گرد پوش۔ نچا ہوا البم)
اقبال متین کے افسانوں میں اکثر مقامات پر خود اقبال متین سے ملاقات ہو جاتی ہے ، اور ان کا پرتو قاری پر چھلک چھلک اٹھتا ہے دوریاں نزدیکیاں بن جاتی ہیں ،ان دیکھا مصنف قاری کی زبان بن جاتا ہے اور افسانہ دل کی دھڑکن بن کر خود سانسیں لینے لگتا ہے۔ ان کا افسانہ” مسدود راستے” ہوں یا”خالی پٹاریوں کا مداری”یا "دریدہ” ان افسانوں کے سامنے ایک باپ کی ایسی تصویریں ابھرتی ہیں جہاں اس کاحساس دل زندگی کی حقیقتوں کا سامنا بھی کر رہا ہے، حالات سے سمجھوتے پر بھی مجبور ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے آشنا بھی وہ کہیں بھی راہ فرار اختیار نہیں کرتا لیکن اپنی سینے میں اترنے والی ہر برچھی پر کبھی اپنے آپ پر کچھ راستے بند کرتا ہے کبھی قبرستان میں کوئی کچی قبر تلاش کرتا ہے اور کبھی ایک لمحہ رک کر اس بچے کو حسرت سے تکتا ہے جس میں وہ خود قید ہو کر رہ گیا۔
افسانہ "مسدود راستے” کا مرکزی کردار شرافت کا پتلا، خلوص کا پیکر اور زند گی سے جوجھنے والا کردار ہے لیکن انسان کی ساری خوبیاں اور ساری اچھائیاں اس کے معاشی حالات سے بندھی ہوتی ہیں۔غالبؔ کا خیال تھا۔
قرض کی پیتے تھے مئے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لا ویگی ہماری فاقہ مستی ایک دن
لیکن اقبال متین کے کرداروں کو فاقہ مستی کے رنگ لانے کی توقع بھی نہیں ہے اور انتظار بھی نہیں ہے۔ وہ خود اپنے آپ پر خلوص کے راستے بند کرتے جاتے ہیں ، لیکن کیا محبت اور خلوص کے سارے راستے بند کرنے پر انسان قادر ہے۔۔۔؟ محبت تو کبھی ایسا قرض بھی بن جاتی ہے جس کا حساب چکتا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو اور کہانی کے کلائمکس کو میں یہاں پر جان بوجھ کر تشنہ چھوڑ رہا ہوں تاکہ قاری خود اس افسانے کو پڑھے اور افسانے کے اچھوتے موضوع پر اقبال متین کو جی بھر کر داد دے سکے،
افسانہ ‘ دریدہ ‘ کا مرکزی کردار صرف دانشوری کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ اس میں ایک فرض شناس چوکنّا انسان بھی سانسیں لے رہا ہے وہ قلندروں کی طرح مطمئن بھی ہے وہ سب کی خدمت میں کھڑا ہے۔ اس کی باتوں میں ایک کشش ہے جو بھی اس سے ایک بار ملتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اس افسانے میں اس کی ذہانت ، حاضر جوابی ، دوراندیشی کی بہت ساری مثالیں بھی موجود ہیں وہیں اس کی طبعیت کا ایک انوکھا روپ بھی نظر آتا ہے۔ رات رات بھر ٹیپ ریکارڈر سننا ، اپنی باتوں سے سب کو جگائے رکھنا ، اس کی عادت ہے۔ اسی افسانے کا دوسرا اہم کردار ‘ نندو ‘ ہے۔ اس کا بے حد چہیتا ساتھی ، دونوں ہوسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں ، لیکن ‘ نندو ‘ ،’ سید ‘ کی عادتوں سے بیزار ہے۔ سید سب کی زندگیوں میں دخیل ہے لیکن خود اس کے باطن میں کیا ہے کوئی نہیں جانتا ، نندو چاہتا ہے کہ ہوسٹل کا کمرہ بدل لے ، تاکہ اس سے نجات مل جائے۔ لیکن دوستی اور مروت آڑے آتی ہے۔ اسی بیچ نندو اپنے گاؤں چلا جاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد واپس آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سید نے خود ہی کمرہ بدل لیا ہے۔ کمرے کی ہر چیز قرینے سے رکھی ہوئی ہے وہیں نندو کو ایک پرچی ملتی ہے۔ تب پتہ چلتا ہے کہ سب کے دکھوں کا مداوا کرنے والا سید خود بھی کس قدر دکھی ہے۔
” وہ جو ٹیپ ریکارڈر پر دھری فریم میں جڑی ہوئی تصویر تم دیکھتے رہے ہو، سچ پوچھو تو وہ میرا بچپن نہیں ہے۔ وہ کھلنڈرا ہنس مکھ لڑکا میرا بیٹا تھا جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ کچھ پیسوں کی سبیل کے امکانات نکل آئے سو اس کی قبر بنانے جا رہا ہوں۔ اس کی تصویر فریم میں سجا رکھی ہے لیکن اس کی قبر کے نشانات تک مٹ چکے ہیں۔ اب اسی کو کھوجنا ہے ، وہاں سوائے زمین کے اب کچھ نیںص ہے۔ مٹّی کا تودا بھی نہیں۔ ”
شمس الرحمن فاروقی نے اقبال متین کے افسانوں کا نفسیاتی تجزیہ کر تے ہوئے بالکل درست لکھا ہے۔
” اقبال متین کی نفسیاتی گرفت اس قدر سچّی اور مضبوط ہے کہ ان کے افسانوں کے کرداروں کی داخلی زندگی آئینہ ہو کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ ”
( شمس الرحمن فاروقی۔ شب خون۔ شمارہ 276 )
اقبال متین کو افسانہ لکھنے کے لیے کبھی بہت بڑے موضوع کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ، زندگی کے سچ ے یا کردار کی داخلیت سے وہ ایک ایسا موضوع تراشنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، جو ان کے ہاتھ لگ کر کندن بن جاتا ہے۔ چاہت انسا ن سے کیا کچھ کام نہیں کرواتی ، اگر اظہار کی جرأت نہ ہو تو خواہش منہ دیکھتے رہ جاتی ہے اور ناکامی کس طرح مقّدر ٹھہرتی ہے۔ اس کی مثال ‘ شرمیلا ‘ کے ‘ جواد ‘ کے روپ میں دیکھی جا سکتی ہے ، یا پھر افسانہ ‘ کھنڈر ‘ عشق کی ناکامی کا نوحہ بن جاتا ہے۔ یہی محبت جب ہوس کے راستے جسموں میں داخل ہوتی ہے تو گھر تباہ ہو جاتے ہیں ، لیکن جب جنون کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ہوش کے ناخون بڑھنے لگتے ہیں تو کردار کا ایک ایسا روپ بھی سامنے آتا ہے جہاں ہوس اور احساسات میں تصادم شروع ہو جاتا ہے۔ افسانہ ‘ ڈورتھی ‘ پانچ کرداروں پر مشتمل ہے۔ شوہر ‘ بروج ‘ بیوی ‘ ڈورتھی ‘ عاشق ‘ نقوی ‘ اور ڈورتھی کے دو بچّے گڈّو اور گڈّی۔
ڈورتھی دو بچّو ں کی ماں ہونے کے باوجود نقوی سے نہ صرف جسمانی تعلقات قائم کر لیتی ہے بلکہ اس کے ساتھ بقیہ زندگی بھی گزارنا چاہتی ہے۔ نقوی بھی اْسے اپنانے کے لیے تیار ہے۔ بروج اس سارے منظر نامے کا خاموش تماشائی ہے۔ وہ جسمانی طور پر کمزور نہیں ہے بلکہ نقوی سے زیادہ طاقتور ، قوی ہیکل ہے۔ محبت کے اس تکون میں بروج کبھی نقوی پر نفرت کا شکنجہ نہیں کستا۔ خود نقوی کے دل میں بروج کے لیے بے حد احترام ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب ڈورتھی اپنا گھر چھوڑ کر نقوی کے گھر چلی آتی ہے اور وہ دونوں ساتھ رہنے لگتے ہیں۔ یہاں سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ بروج اور نقوی میں رقابت کے جذبات بھڑکنے کے بجائے ایک ایسی آگ روشن ہو جاتی ہے جو بچّوں کی خاطر ہر سمجھوتے کو ممکن بنانے کے لیے راضی ہو جاتی ہے۔
افسانے کا کلائمکس قاری کو ایک ایسے چونکا دینے والے مقام پر پہنچا دیتا ہے جس کا وہ تصّور بھی نہیں کر سکتا اور اقبال متین کا فلسفہِ محبت اْسے چاروں طرف سے جکڑ لیتا ہے۔
اقبال متین کا فلسفہِ محبت محدود نہیں ہے اور نا ہی مخصوص دلوں کے لیے مختص ہے۔ وہ افراد بھی جن کا تعلق شرفاء کے قبیلے سے نہیں ہوتا لیکن ان کے پاس بھی محبت و مروت اور ہمدردی کا احساس ہے اور رشتوس کی پاسداری بھی۔ افسانہ ‘ درد کا رشتہ ‘ کی کال گرل جہاں اپنے گاہکوں کی ہر طرح دلجوئی کرتی ہے وہیں اپنے شناسا کے لیے جس سے کوئی رشتہ نہیں ہے پھر بھی اس کی ضرورتوں کو محسوس کرتی ہے اور اپنے بھائی کے لیے وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے جس وطیرہ پر صرف شرفاء اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس افسانے کا منظر نامہ ‘ گھوڑ ریس ‘ پر پھیلا ہوا ہے۔ اقبال متین اپنے قاری کو ریس (RACE ) کی بنیادی باتوں سے بھی روشناس کرواتے ہیں جنھیں وہ بالکل نہیں جانتا ، اس افسانے کی زیریں پرتوں سے معصومیت کا ایک ایک ایسا چہرہ بھی سامنے آتا ہے جو سعادت حسن منٹو کی ‘ سوگندھی ‘ اور غلام عباس کے افسانے ‘ اْس کی بو ی ‘ سے مختلف نہیں۔
اقبال متین ایک نہایت متنوّع افسانہ نگار ہیں۔ ان کا طویل افسانہ ‘ آنگن کی سہاگن ‘ ممبئی کی جھگی جھونپڑیوں میں بسنے والے ایک مسلم خاندان کی عکاسی کرتا ہے تو افسانہ ‘ پو پھٹنے تک ‘ حیدر آباد کے مضافات میں آباد ایک تلنگی خاندان کا نقشہ بھی پیش کرتا ہے۔ جھونپڑ پٹیوں میں زندگی بسر کرنے والے افراد معاشی تنگدستی کے باعث زندگی کی کتنی ہی نعمتوں سے محروم ہی نہیں رہ جاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی ان جھونپڑیوں میں رشتوں کا وہ تقدس بھی کھو بیٹھتے ہیں جو ان کی زندگیوں کا مآ حاصل ہوتا ہے۔ ان انسانوں کی زبان و بیان اور رہائش طور طریقوں پر اس قدر کامیابی کے ساتھ گرفت کی گئی ہے کہ عقل اقبال متین کے مشاہدے پر دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کا ایک اور افسانہ ‘ شیبا ‘ بھی موضوع کے لحاظ سے نہایت اچّھوتا افسانہ ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب میں اس قسم کے افسانے نہیں کے برابر ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا یہ افسانہ انسانوں کی حیوانی جبلت اور حیوانوں کی انسانی صفات کا ایک ایسا مرقع بن گیا جہاں انسان بھی اپنے استحصالی عمل خود شرمندہ شرمندہ نظر آتا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار "شیبا” ہے۔لیکن یہ شیبا آخر ہے کون؟ا فسانے کا اقتباس خود تعارف کرواتا ہے۔
"شیبا جس نے زندگی کی صعوبتوں میں میرا ساتھ دیا، میری شیبا جو ہر صبح سے شام تک سنگاپورکی قیدسے میری رہائی کی منتظر رہی، میری شیبا کی اس کمینے میجر نے بے حرمتی کی تھی’بڑی تذلیل کی تھی اس کی’ اتنی کہ خود اس کی قوم کے سپاہیوں نے اس حرکت پر نا پسندیدگی کا اظہار کاے تھا۔۔۔”
"کون تھی یہ شیبا۔نام بڑا خوبصورت ہے۔”میں نے پوچھا شیبا۔۔شی۔۔۔با۔۔شی۔۔۔با۔۔ مسعود نے دو ایک بار اسطرح اس کا نام لیا۔کہنے لگا۔ میری کتیا۔وفادار جانور ‘میری ڈارلنگ۔” اقبال متین نے ایسی نہ جانے کتنی عظیم اور لا جواب کہانیاں اردو ادب کو دی ہیں’لیکن ناقدین کے طبقے نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔اگر آج بھی ان کے کہانیوں کا محاسبہ کیا جائے تو ان کا قد ان کے معاصرین میں نکلتا ہوا ہی محسوس ہو گا۔لیکن اقبال متین کو نہ کسی سے گلا ہے نہ شکوہ’وہ تو اس مور کے مانند ہے جو اپنے ہی رقص میں آپ بے خود ہے۔
اقبال متین نے آصف جاہی سلطنت کے کروفر کو بھی دیکھا’جاگیر دارانہ ٹھاٹھ باٹ کو بھی حیا ‘اور پھر جب وقت بدلا تو انھوں نے شاہی کو عوامی اقتدار میں منتقل ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔جاگیرداروں کو لٹتے ہوئے بھی دیکھا۔امارت کے سرنگوں ہونے کے گوا ہ بھی بنے’قدیم اور جدید تہذیبوں کے تصادم کو بھی بھوگا ‘قدروں کو پائمال ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور قدروں کے پاسبانوں کو اپنی آبرو کی مٹتی سسکتی آن بان کی پرورش کرتے ہوئے بھی دیکھا۔اس لیے ان کا قلم ایک مخصوص روایت کا امین ہے۔جدید سفر کا آشنا بھی ان کے کردار اعلیٰ اقدار کے پروردہ بھی ہیں اور بدلتے زمانے سے اس طرح آنکھیں بھی چار کرتے ہیں کہ عزت سادات کو بہر حال کسی صورت محفوظ بھی رکھنا ہے۔جن ادیبوں نے محض سُنی سنائی کہانیوں پر خیالی گھوڑے دوڑاتے ہوئے جاگیرداروں کے ظلم’ان کے بے راہ روی اور ان کی عیاشوں کو گرفت کیا ہے انھیں اقبال متین کے ان افسانوں کو بھی ایک بار ضرور پڑھ لینا چاہیے’ جو حقیقت کا آئینہ بھی ہیں اور ماضی کی معاشرتی تاریخ بھی۔ان افسانوں میں”ملبہ ، گرتی دیواروں، پانی کے چراغ، آدمی اور آدمی ، کتاب سے کتبے تک اور اندھیروں کی لاج”وغیرہ شامل ہیں۔جن کے کردار مٹتی تہذیب و تمدن کے نمائندے بھی ہیں جن میں انسانیت کی شمع بھی روشن ہے اور ان کے غم میں ماضی کی شاندار رواییںی بھی ہیں ان کی آنکھوں میں جلال و جمال بھی ہے اور حال کی بے بسی بھی۔
یہی وجہہ ہے کہ علاقے دکن میں ان کے ابھرنے والے اکثر ادیبوں نے ان سے روشنی حاصل کی۔چناچہ ان کے فوری بعد اُبھرنے والی نسل میں رفعت نواز نے خاندان کی اہمیت ، مٹتی ہوئی قدریں اور گرتی ہوئی تہذیب کی دیواروں میں آباد ان افراد کی کہانیوں لکھی ہیں جو رشتوں کی پاسداری اور محبت کے چراغ روشن رکھنے کا ہنر جانتے ہیں جن کی گھٹی گھٹی سانسوں میں بھی خلوص ٹپکتا ہے۔
ہم دکن والوں نے زندگی کے عروج و زوال کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔اگر اقبال متین ‘جاگیردارانہ نظام کے چشم دید گواہ ہیں تو ان کے بہت بعد اٹھنے والے میری طرح کے قلمکار اس کے نوحہ گر اور ماتم دار ہیں۔
اقبال متین مجھ سے اپنے افسانے پڑھواتے رہے اور میں ان سے ملاقات کے لیے تڑپتا رہا۔حالانکہ اورنگ آباد سے حیدرآباد کا سفر زمین سے مریخ کا سفر بھی نہیں اور ایسا بھی نہیں کہ میں حیدرآباد تک نہیں پہنچا۔لیکن ملاقات نہیں ہو سکی او ر خواہش ہاتھ ملتے رہ گئی۔
افسانوں کے اس جادوگر سے میری پہلی روبرو ملاقات اس وقت ہوئی جب حیدرآباد مںی عالمی اُردو کانفرنس کا اہتمام ہوا۔ اور مجھے اُس میں شرکت کا موقع ملا۔ پہلی نظر ہی میں محسوس ہوا ، ارے یہ تو وہی "مسدود راستوں "کا مسافر ہے۔ ذہن نے کہا نہیں یہ "دریدہ ” کا سید ہے، "خالی پٹاروں” سے کوئی سر باہر نکل آیا مجھے پہچانوں میں ہی "اقبال متین”ہوں ، کبھی وہ ڈور تھی کا بروج لگا، کبھی نقوی کا حساس دل اس کے سینے میں دھڑکتا ہوا محسوس ہوا اور پھر جب میں نے ان سے ہاتھ ملایا تو محسوس ہوا ، اس ایک ہاتھ میں جانے ان کے افسانوں کے کتنے ہی کردار مجھ سے مصافحہ کر رہے ہیں۔میں نے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے کی وجاہت نے اعلان کیا تم مجھے افسانوں میں ڈھونڈ رہے ہو ارے میں تو سلطنت حیدرآباد کے عروج و زوال کا وقت ہوں۔۔۔
مجھے پہچانو، میں”اقبال متین ” ہوں۔
اقبال متین اردو کے معروف افسانہ نگار ہیں ان کے افسانوں کا اردو ادب میں ایک منفرد مقام ہے۔ افسانہ نگار ناقد نورالحسنین نے اس مضمون میں ان کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے۔
٭٭
ماخذ:
http://www.taemeernews.com/2015/05/Iqbal-Mateen-renowned-Urdu-writer.html
٭٭٭