(استنبول میں لکھی گئی غزل مسلسل)
طلسمی گیت جیسا، ریشمی مہکار جیسا
یہ منظر چار جانب دُودھیا دیوار جیسا
جھجکتا اور لب کرتا معطر بوسئہ تر
یہ موسم اپنی نو خیزی میں پہلے پیار جیسا
نکھرتا آ رہا ہے نقرئی بلّور کوئی
اترتا جا رہا ہے روح سے زنگار جیسا
زباں پر ذائقے انجیر اور زیتون جیسے
ہوا میں رس کسی مشروبِ میوہ دار جیسا
یہ نیلے ’مرمرا‘ کے تھال میں خود رَو زمرد
جزیروں پر بسا اک شہر کوئے یار جیسا
سنہرے خواب کے ماضی سے آتی ’باسفورس‘
گزرتا وقت بھی گزرے ہوئے ادوار جیسا
کسی ترشے ہوئے ہیرے کی صورت قصر ابیض
ہلالِ ’شاخ زریں‘ خنجرِ خم دار جیسا
پہاڑی پر بنے مسکن ،کُلاہ سرخ پہنے
یہ قصبہ لاجوردی ، نقرئی اشجار جیسا
طلائی فرغلوں میں صبح کرتا شہر خوباں
منقش آئنے جیسا ، مرصع ہار جیسا
وصال و ہجر کے ملتے ہوئے دو بر اعظم
مہک اس پار جیسی، فاصلہ اُس پار جیسا
جمال یار تیری مدح کب ممکن ہوئی ہے
سو میں بھی کر رہا ہوں بن پڑے اظہار جیسا
اور اب میں اس نتیجے پر پہنچتا جا رہا ہوں
بہت آسان ہونا ہے بہت دشوار جیسا
یہ گھر عثمانیوں کا یہ نگر عثمانیوں کا
سعود ان کا بھی دلبر ہے مرے دلدار جیسا
٭٭٭