غزل ۔۔۔ دیوی ناگرانی

یوں اس کی بیوفائی کا مجھ کو گلا نہ تھا

اک میں ہی تو نہیں جسے سب کچھ ملا نہ تھا

 

لپٹے ہوئے تھے جھوٹ سے، سچا نہ تھا کوئی

کھوٹے تمام سکے تھے، اک بھی کھرا نہ تھا

 

اٹھتا چلا گیا میری سوچوں کا کارواں

آکاش کی طرف کبھی، وہ یوں اڑا نہ تھا

 

ماحول تھا وہی سدا، فطرت بھی تھی وہی

مجبور عادتوں سے تھا، آدم برا نہ تھا

 

جس درد کو چھپا رکھا مسکان کے تلے

برسوں میں ایک بار بھی کم تو ہوا نہ تھا

 

دھوتے رہے ہیں بوجھ سدا تیرا زندگی

جینے میں لطف کیوں کوئی باقی بچا نہ تھا

 

کتنے نقاب اوڑھ کے دیوی دئیے فریب

جو بے نقاب کر سکے وہ آئینہ نہ تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے