مَیں ترے شہر میں آتا ہوں،سنور جاتا ہوں
ٹوٹتا بھی نہیں مَیں اور بکھر جاتا ہوں
شہر چھوڑے ہوئے بھی اس کو زمانہ گزرا
جانے کیا سوچ کے پھر بھی مَیں اُدھر جاتا ہوں
لوگ انجان ہیں، رستے تو ہیں واقف اپنے
انہی رستوں سے ملاقات مَیں کر جاتا ہوں
بدلا بدلا سا سہی پھر بھی وہی شہر تو ہے
کل کو یہ بھی نہ ملے ،سوچ کے ڈر جاتا ہوں
یہ تماشا تو کبھی ختم نہ ہو گا شاید
ہو گئی دیر بہت لوٹ کے گھر جاتا ہوں
٭٭٭
بہت خوب!
مطلع کے دونوں مصرعوں میں کچھ تضاد سا محسوس ہوتا ہے(مجھے) بیک وقت سنور بھی جاتے ہیں اور بکھر بھی جاتے ہیں۔