جِس کی پرواز کو گگن درکار
اُس پرندے کو کیا وطن درکار
درد احساس کی غذا ہے میاں
خار درکار ہے چُبھن درکار
جوۓ شیر آج بھی نکل جائے
اُس طرح کا ہے کوہ کن درکار
بس بہُت ہو گیا ہے اے صحرا
سرو درکار ہے سمن درکار
ہیرے کیا کیا پڑے ہیں کوئلے میں
فقط اک اعلیٰ کان کن درکار
کوئی دنیا تو چھوڑ بھی جائے
لاش کو ہے مگر کفن درکار
یوں ہی سب کُچھ نہیں رواں خود سے
چال درکار ہے چلن درکار
جِسم بھی کُچھ عبث نہیں بیتاب
روح کو بھی ہے پیرہن درکار
٭٭٭
ایک ایک لفظ مُجھ کو فضیلت مآب دے
ہر باب ہو نیا کوئی ایسی کتاب دے
میری اذیتوں کا بھی تھوڑا خیال کر
اپنے عتاب کا بھی کبھی کُچھ حساب دے
یخ بستگی محیط ہے فکر و شعور پر
ان برف موسموں کو کوئی آفتاب دے
کر موج موج زیر و زبر مُجھ کو ایک بار
غافل ہوں تہہ بہ تہہ مُجھے کُچھ اضطراب دے
کرتا ہے کر مچھیرے کو تُو جال بھی عطا
مچھلی کو بھی شعور مگر زیرِ آب دے
بیتاب میری دستکیں بے سود ہیں تمام
سُنتا ہے تُو اگر تو مجھے فتح باب دے
٭٭٭